احمدرضاخاں صاحب اورفرقہءبریلوت: برصغیر کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اہل تشیع مغلیہ سلطنت کے دورِعروج میں سرزمین ہندپراپنے افکارونظریات کے فروغ اورعقائد کی تشہیرکے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ذریعہ تمام اسلامی اقداروروایات اورمعتقدات ومسلمات کو مسخ کرنے کا تہیہ کرلیاتھا ۔
مغل حکمراں جہانگیرکی چہیتی شیعہ بیوی ”نورجہاں“جوپس پردہ ہندوستان پرحکمرانی کررہی تھی،اس نے اپنے وطن ایران سے شیعہ مذہب کے سب سے بڑے مجتہد ”نوراللہ شوستری“کو ہندوستان آنے کی دعوت دی اورجہانگیرسے شفارش کرکے آگرہ میں ہندوستان کا قاضی القضاة یعنی چیف جسٹس بنادیا ۔
نوراللہ شوستری نے تقیہ کالبادہ اوڑھ کر چودہ سال تک سنی قاضی کی حیثیت سے فقہ حنفی کے مطابق مقدمات فیصل کرتارہا ؛چوں کہ جہانگیرسنی العقیدہ اورفقہ حنفی کا متبع تھا ،نوراللہ شوستری کوکھل کر شیعہ کے عقائد ونظریا ت کی تبلیغ کا موقع نہیں ملا،اس لئے زیرزمین منصوبہ بناکر ہندوستان کے طول وعرض میں اہل تشیع کو مشائخ تصوف کا لبادہ پہناکر جگہ جگہ بٹھایاگیا اوران لوگوں نے خود کو سنی العقیدہ حنفی وشافعی کا دھوکہ دے کرجاہل عوام میں پیری ومریدی کا دہندا شروع کردیا ۔(بریلویت کاذہنی سفر:۳۰۴)
اولیائے تصوف کی عظمت اورنوراللہ شوستری کی مکاری
بدقسمتی سے ہندوستان کے مسلمانوں کی بڑی تعدادجاہل اوردین بیزارتھی ؛چونکہ شیخ معین الدین چشتیؒ ،فریدالدین گنج شکرؒ،خواجہ بختیارکاکیؒاورنظام الدین اولیاءؒ وغیرہ اکابراولیائے تصوف کے ہاتھوں بے شمارخلقِ خدانے اسلام قبول کیاتھا، اس لئے فطری طورپرعام لوگوں کے دلوں میں اولیائے تصوف کی عظمت پیوست تھی،ان سے محبت وعقیدت وجان نثاری کا جذبہ موج زن تھا، اس وجہ سے اس دورمیں جہاں کہیں مشائخ ِتصوف اورخانقاہیں نظرآتیں، لوگ آنکھ بندکر کے ان خانقاہوں سے وابستہ ہوجاتے اورمشائخ کے ملفوظات وارشادا ت پرپوری مستعدی سے عمل کرتے ۔
حضرت مجددالف ثانی ؒ سے لے کرحضرت شاہ ولی اللہ محدث دھلوی ؒتک کازمانہ تصوف کے عروج کا دورتھا اوراولیائے تصوف اوران کی تعلیمات سے گہری وابستگی کا جذبہ عوام سے لے کر خواص تک اور چھوپڑیوں سے شاہی محل تک ذہنوں پرچھایاہواتھا،باشاہ ِوقت بھی اولیائے کرام اوران کی خانقاہوں میں عقیدت ومحبت سے حاضری کو سعادت سمجھتے تھے ،ان حالات کی بناپر لوگ خانقاہی مشائخ کے ارشادات پر اندھی عقیدت کے ساتھ عمل کرنے کے عادی ہوگئے تھے۔
تصوف کے آغوش میں شیعیت کی تبلیغ
ان حالات میں نوراللہ شوستری نے ہندوستان کی سرزمین پرقدم رکھا، اس کو شیعی معتقدات ونظریات کے فروغ کے لئے تصوف کے آغوش سے بہترکوئی پناہ گاہ اورخانقاہی نظام سے زیادہ مفید وکارآمد ذریعہءتبلیغ نظرنہیں آیا ۔
چنانچہ اس نے ایک جامع پروگرام بناکر دہلی ،دکن کے طول وعرض ،لکھنوسے کابل وقندھارتک جہاں جہاں اولیائے تصوف کی معروف خانقاہیں اوران کا دائرئہ عمل تھا، ان سب جگہوں پرتقیہ بردارشیعی مجتہدوں کو اپنی اپنی خانقاہ بنانے ،جاہل عوام میں مشائخِ تصوف کے بھیس میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے اورحلقہءعقیدت پیداکرنے میں لگادیا ۔
اہل تشیع کی قائم کردہ ان جعلی خانقاہوں کے اولین سربراہ وشیوخ بلاشبہ تقیہ کے لبادہ میں مستور خالص شیعہ ہی تھے؛ مگران سے وابستہ ہونے والے سادہ لوح مسلم عوام اوران میں سے منتخب خلقاءاوراکثرجانشین اگرچہ سنی تھے؛ لیکن ان جعلی پیروں کے خالص شیعی عقائد ونظریات واعمال پر دل وجان سے فداتھے ،زبان سے اہل تشیع سے نفرت وکراہیت کا اظہار بھی کرتے تھے ؛لیکن صدیوں سے سنی تھے، اس وجہ سے اپنے کو سنی کہتے تھے؛ حالانکہ وہ پس پردہ مکمل طور پر شیعی مذہب کے پیروکارا ورداعی بن چکے تھے ۔(ملخص بریلویت کا ذہنی سفر: ۳۰۴تا۳۰۷)
بہرکیف اہل تشیع کی قائم کردہ ایسی بے شمارخانقاہوں کا جال ہندوستان کے چبہ چپہ پرپھیلاہواتھا ،ان خانقاہوں کو قائم کرنے والے اولین مشائخ اگرچہ تقیہ بردارشیعہ ہی تھے جنہوں نے سادہ لوح سنی عوام کو لبھانے کے لئے خودکو اہل السنہ والجماعة اورحنفی مشہورکررکھاتھا ،وہ نمازیں اوردیگرمراسم عبودیت بھی اہل سنت کی طرح انجام دیتے تھے اور عبادات سے متعلق مسائل اورفقہی نکات بھی عمومًا فقہ حنفی کے مطابق ہی بتاتے تھے تاکہ عوام الناس میں نام نہاد ”سنیت“ کا بھرم قائم رہے ۔
نئی نسل نےجوماحول دیکھا،وہ بظاہر سنی العقیدہ ماحول تھا
ان شیعہ مشائخ کے فوت ہونے کے بعد ان کی نسل کو جب سجادہ نشینی حاصل ہوئی، تو اس نئی نسل نے بچپن ہی سے شعوری طورسے آنکھیں کھول کر اپنے اردگردکاجوماحول دیکھا ، وہ تقیہ کے نتیجہ میں بظاہر سنی العقیدہ ماحول ہی تھا ۔
چنانچہ ان کی پرورش اس ظاہرفریب سنی ماحول میں ہوئی تھی، اس لئے ان کے ذہن میں تقیہ کا کوئی شائبہ بھی نہیں تھا اوروہ خود بھی اپنے آپ کو اہل السنہ والجماعة اور سنی حنفی ہی سمجھتے تھے اوراہل السنہ والجماعة کے طریقہ پر عبادت کرتے؛ مگرماوجدعلیہ آبانا کے مطابق ورثہ میں ملے ہوئے درپردہ شیعی افکار ومعتقدات کو عشق رسول او رعقیدتِ اولیاءکا دبیز وخوش نما غلاف پڑاہونے کی وجہ سے ان کو ”سنیت کی پہچان “اور جزء ایمان سمجھتے ،ان سے دامن چھڑانا ان کے لئے اوران کی اولاد کے لئے کسی طرح ممکن نہ تھا ۔
اس طرح شیعی نظریات نسل درنسل ان میں اوران کے ذریعہ ان کے مریدین ومنتسبین میں متواترچلے آرہے ہیں جو امتدادِزمانہ کے ساتھ ایک مسلمہ حقیقت اورقطعی عقیدہ کی شکل اختیارکرلی ہے اوران کا شعور کسی بھی صورت سے اس بے شعوری کی گرہ کھولنے پرآمادہ نہیں تھے ۔(ملخص بریلویت کا ذہنی سفر: ۳۱۲)
جناب احمدرضاخاں صاحب کا تعارف
نام : احمدرضاخاں،باپ کا نام نقی علی خاں،داداکا نام رضاعلی خاں،پرداداکا نام کاظم علی رضاخاں۔
خاںصاحب کی ولادت قصبہءبریلی کے محلہ جسولی میں بروزہفتہ ماہ شوال ۱۲۷۲ھ مطابق ۱۴/جون ۱۸۵۶ءکوہوئی ،آپ کے دولڑکے اورچندلڑکیاں تھیں، لڑکوں میں حامدرضاخاں،مصطفی رضاخاں ہیں ۔
خلفاء: حامدرضاخاں، محمدمصطفی رضاخاں، نعیم الدین مرادابادی ،امجد علی اعظمی۔
احمدرضاخاں صاحب کی وفات بروزجمعہ ۲۵/صفر۱۳۴۰ھ مطابق ۱۹۲۱ءہوئی ۔(حیات رضا)
خاندانی پس منظر
جناب احمدرضا خاں صاحب بریلوی کا خاندان اپنے افکاراورنسبی شناخت کے اعتبارسے شیعیت کا نمائندہ خاندان تھا جواپنے سبائی عقیدے کے مطابق ”تقیہ“ کے لباس میں خودکو چھپاکراہل سنت والجماعت کے درمیان عرصہءدراز سے انگریزوں کی عطاکردہ جاگیراورزمین داری کے مزے لوٹنے میں مصروف تھا۔
بریلی کے سنی حکمراں حافظ رحمت خاں صاحب جب انگریز سے برسرپیکارتھے، تو احمدرضاخاں کے پرداداکاظم علی خاں نے انگریز کا ساتھ دیاتھا، نیز لکھنوکے شیعہ نواب کی مشترکہ لشکرکشی کے موقع پرکھلے عام انگریز کا ساتھ دیا ،جس کے نتیجہ میں حافظ رحمت خاں شہید ہوئے اورسنیوں کی قدیم ریاست”روہیل کھنڈ “ جو بریلی ،شاجہاںپوراورپیلی بھیت پرمشتمل تھی ختم ہوگئی ،انگریز نے جناب کاظم علی رضاکو حسب وعدہ بریلی کے قریب ایک بڑے علاقہ کا جاگیرداربنادیا ۔
ہندوستان کی۱۸۵۷ھ کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد علمائے حق سے انتقام لینے کا سلسلہ جاری تھا ،احمدرضاخاں کے دادا رضاعلی خاں،پرداداکاظم علی خاں اوربرصغیرکے شیعہ خوش اورمطمئن تھے ،ان حضرات کے نزدیک گویا شیعیت کی ترویج کے لئے میدان صاف ہوگیا تھا ۔
شیعی افکارکی ترویج کے لئے خصوصی تربیت
رضاعلی خاں نے جاہل اورکم علم لوگوں کو شیعیت کے جال میں پھسانے کے لئے ایک منصوبہ تیا رکیا اوراس کی تکمیل کے لئے ان کی نظراپنے ہونہارپوتے احمدرضاخاں پرپڑی اور بچپن ہی سے شیعی افکارکی ترویج کے لئے خصوصی تربیت دینی شروع کی تاہم داداکی عمرنے وفانہیں کی ،وہ اپنے امیدوں کا مرکزذھین وفطین پوتے احمدرضاخاں کوادھوری تربیت پرچھوڑکردنیاسے رخصت ہوگئے ۔
اٹھارسوستاون۱۸۵۷ءعیسوی کی ناکام جنگ آزادی کے بعدعلمائے حق نے ہندوستان میں دین کی بقاءاوراستحکام کے لئے مدارس اسلامیہ کی بنیادرکھی جس کا اولین مظہر دارالعلوم دیوبند، مظاہرالعلوم ،مدرسہ شاہی مرادآبادکا قیام اوران کے ماتحت دس ہزارمکاتب کا قیام ہے ،خودقصبہءبریلی میں دومدرسے ”مصباح التہذہیب“اور”اشاعت العلوم“ وجودمیں آچکے تھے ۔
جناب نقی علی خاں نے اپنے فرزنداحمدرضاخاں کو ان مدرسوں میں داخل نہیں کیا، اس لئے کہ یہ مدرسے ان علماءکے قائم کردہ تھے جو شیعیت کے جانی دشمن ہیں،چنانچہ انھوں نے اپنے لڑکے احمدرضاخاں کو ابتدائی اسباق خودپڑھائے، اس کے بعد جناب احمدرضاخاں کا تعلیمی پس منظراوجھل ہے ۔
جناب احمدرضاخاں صاحب کے متعلقین ومریدین کا کہناہے کہ وہ مختلف علوم وفنون ،حدیث ،فقہ ،منطق ،فلسفہ ،ریاضی ،علم نجوم ،جفروغیرہ کے عالم ہیں ،جناب احمدرضاخاں صاحب نے اتنے علوم وفنون بغیراستاذ کے کیسے سیکھ لئے ؟ممکن ہے کہ کہ علم جفرکسی شیعی عالم سے سیکھاہوگا،اس لئے کہ علم جفرشیعہ کا مخصوص فن ہے اورجناب نے تقیہ کرلیاہو۔(ملخص : بریلوت کا ذہنی سفر۱۹تا۲۴)
برصغیرمیں شیعی افکارکی عام ترویج میں ناکامی
انسانی فطرت کے اس تناظرمیں جب ہم بانی بریلویت جناب احمدرضاخاں صاحب کی ذہنی پیش رفت پرغورکرتے ہیں ،تویہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ خان صاحب نسبی اعتبار سے ایک مشتعل مزاج پٹھان تھے؛ بلکہ نسل درنسل خاندانی سبائی معتقدات اورتقیہ وتبراءکے گھریلوماحول میں پرورش پانے کے بعد اہل تشیع پرسنی حکمرانوں اورعلماءوعوام کے مبینہ ظلم کی مفروضہ داستانوں کوسن سن کر ان کی آتشِ غضب بھڑک اٹھی تھی؛ مگراپنے گرد دینی ماحول کے مضبوط گرفت اور ہر طرف سے عقائد ِاہل سنت کی پذیرائی کودیکھ کرخاں صاحب خون کے گھونٹ پینے اورتقیہ کا مضبوط لبادہ اوڑھنے پرمجبورہوئے ۔
نوراللہ شوستری کا قتل
تاہم ہندوستان کی سرزمین پرمغل حکمراں جہانگیرکی شیعہ بیوی نورجہاں کی انتہائی کوشش اورشیعہ مجتہدین کے ایڑی چوٹی کا زورلگادینے کے باوجودبرصغیرمیں شیعی فکرکی نارسائی اوربے وقعتی پران کا دل روتاتھا ،انھیں معلوم تھاکہ نوراللہ شوستری جیسا صف اول کا شیعہ مجتہد جوملکہ نورجہاں کی سفارش اورکوششوں سے ایران سے بلواکر ہندوستان کا قاضی القضاة بنادیاگیا تھا اوروہ چودہ سال کے طویل عرصہ تک تقیہ کے لبادہ میں پوشیدہ رہ کر فقہ حنفی کے مطابق ہزاروں مقدمات فیصل کرتارہا ،بالآخرخفیہ شیعہ سرگرمیوں کے باعث ایک دن پکڑاگیا اورجہانگیرکے حکم سے پھانسی پرلٹکادیاگیا ،شیعہ حضرات آج بھی شہیدثالث کے نام سے آگرہ میں ہرسال اس کا عر س مناتے ہیں ۔
نوراللہ شوستری کے قتل سے ہندوستان میں شیعہ مذہب کے فروغ کا دروازہ تقریبًا بندہوگیا تھا،رہی سہی کسربارھویں صدی میں حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دھلوی ؒ کی معرکة الآراءکتاب ”تحفہءاثناعشریہ“سے پوری ہوگئی تھی ۔
شیعیت کی یہ ساری مظلومانہ داستان احمدرضاخاں صاحب بریلوی کو اچھی طرح معلوم اورازبرتھی ؛بلکہ وہ تمام نامعلوم شیعہ مجتہدین جنھوں نے پس ِپردہ احمدرضاخاں صاحب کی ذہنی تربیت کی تھی اورعلمی لیاقت پیداکرنے میں مرکزی کرداراداکیاتھا، اثنا عشریہ عقائد کے تحفظ اوراہل السنہ والجماعة کاکاشیرازہ منتشرکرنے کا شدیدہ جذبہ خاں صاحب کے دل ودماغ میں پیداکرنے میں پوری طرح کامیاب رہے تھے ۔(بریلویت کا ذہنی سفر: ۹،۱۰)
بریلویت /رضاخانیت
”بریلی“ ہندوستان کے صوبہ پوپی کا ایک شہرہے ،جہاں احمدرضاخاں صاحب پیداہوئے، انہوں نے ایک گمراہ فرقہ کی بنیادرکھی اوراپنے ماننے والوں کو اس پرچلنے کی وصیت کی،اسی نسبت سے اس جماعت کے ماننے والوں کوبریلوی کہتے ہیں ،خاں صاحب کے خاندانی لقب کی طرف نسبت کرتے ہوئے رضاخانی کہتے ہیں۔
رضاخانیت وبریلویت کا صحیح تعارف: وہ عقائد ونظریات ،افکاراوربدعات وخرافات ہیں جوجناب خاں سے ایک مذہب کی صورت میں رائج ہوئے اوران کے متبعین ان کا التزام کرتے ہیں ،موجودہ دورمیں بریلوت بھی درحقیقت اسی طرح کی ظاہرفریب شیعی خانقاہ سے وابستہ گم کردئہ راہ مسلمانوں کا ایک گروہ ہے، جس کے بانی احمدرضاخاں صاحب بریلوی ہیں۔(مطالعہءبریلویت ۱۹/۱)
رضاخانیت وبریلویت ایک مستقل مکتب فکرکانام ہے ،جس کی بنیاد دوباتوں پرہے ،ایک انبیاءواولیاءکی عقیدت ومحبت میں حدسے زیادہ غلو کرنا،دوسرے رسوم ،بدعات وخرافات کو ضعیف اوکمزورحتی کہ موضوع احادیث کا سہارا لے جائز ومستحسن قراردینا ۔(رضاخانیت تعارف وتعاقب: ۴۶)
بریلویت کے سرمایہءفکر کے وارث
اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ انھوں نے زندگی بھر شیعہ کا ز کے لئے انتھک محنت وکوشش کی تھی ؛مگربدقسمتی سے ان کا سلسلہ ان کے بیٹوں سے آگے بڑھ نہ سکا اوربریلویت کے سارے سرمایہءفکر کے وارث ومالک خاں صاحب کے چھوٹے بیٹے مصطفی رضاخاں کے نواسے ریحان رضاخاں اختررضاخاں وغیرہ ہوئے۔
مصطفی رضاخاں کے داماد ”جیلانی میاں“ہی اس سسرالی ورثہ کے امین ومالک اور مختارقرارپائے ،جب انھوں نے خانقاہ رضویہ کی وراثت کی باگ ڈورسنبھالی، تو بریلوت کا پودہ نشونماپاکر ایک تناآوردرخت بن چکا تھا اورکثرت سے پھل پھول دینے لگا تھا ۔
عرس رضاخاں کے موقع پر خاں صاحب کے مریدوں کی بے پناہ داد ودہش اور چڑھاوے کامنظردیکھ کر انھوں نے آمدنی کے مزیدذرائع میں اضافہ کرنے کے لئے اورمریدان باصفاکی عقیدت میں اضافہ کرنے کے لئے خاں صاحب کی شخصیت کو بڑھاچڑھاکر پیش کرنا شروع کیا ،خاں صاحب کو ”ولی کامل“ مجددمآة حاضرة ،وارث مصطفی ،بتایا،خاں صاحب کی نعتیہ کلام کے سہارے انہیں عاشق رسول بتایاگیا ۔
دوسری طرف اپنے مخالفین دیوبندیوں اورغیرمقلدین کے خلاف محاذ آرائی تیز سے تیز کردی اورخاں صاحب کے تقش قدم پرچلتے ہوئے ان کے خودساختہ الزامات کو جاہل عوام میں علمائے دیوبند کے خلاف پروپیگنڈہ کیاجانے لگا ۔
تیسری طرف علمائے دیوبند کے پیرکاروں سے قطع تعلق : سلام ،دعاء،شادی بیاہ سے پرہیز اوران سے نفرت وعداو ت کا اظہار اورسماجی بائکا ٹ شروع کیا گیا تاکہ ان کی آمدنی کا اہم ذریعہ عوام الناس علمائے حق سے کٹ کران ہی سے متعلق رہیں ،کہیں ایسانہ ہوکہ سیدہی راہ کی طرف چلے جائیں اور ان کی آمدنی کا دروازہ بندہوجائے ۔(بریلویت کا ذہنی سفر : ۳۱۱تا۳۱۳)
جہاں بھی بدعات پیداہوئیں ،ان میں شیعی جراثیم کی آمیزش ضرور پائی گئی
اسلامی حکومت کے زمانہ میں شیعہ نے ہندوستان کو شیعہ مملکت بنانے کے لئے خوب محنت کی ؛لیکن اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکے ، یہی وجہ کہ ہندوستان میں جب بھی جہاں بھی بدعات وخرافات پیداہوئے ،ان میں شیعی جراثیم کی آمیزش ضرورت پائی گئی ۔
غرض یہ کہ خاں صاحب نے جن مسائل وعقائد پر اپنے مسلک کی بنیادرکھی ہے، ان پر شیعیت کی چھاپ صاف طورپرمحسوس ہوتی ہے۔
ہندوستان پرانگریزکا تسلط اور چندزرخریدغلام
جب ہندوستان پرانگریزکا تسلط ہوا ،توکچھ لوگ دنیوی مقاصد کے لئے انگریز کے مفادات کے لئے کام کرنے لگے،جن میں سرفہرست ”مرزاغلام احمدقادیانی“ اور جناب احمدرضاخاں صاحب بریلوی ہیں ۔
جناب احمدرضاخاں صاحب نے ان تمام لوگوں کو کافرقراردینے لگے جنہوں نے انگریزکے خلاف جنگ کا اعلان کیاتھا، سرپستی کی تھی، یا کسی بھی طرح شریک ہوئے تھے تاکہ ہندوستانی عوام ان بزرگوں سے بدظن ہوجائے ،ہندوستانی مسلمانوں کا جذبہءجہاد سرد پڑجائے اورانگریزی حکومت کوکوئی خطرہ لاحق نہ ہو ۔
ہندوستان میں سب سے پہلے انگریز کے خلاف حضرت مولانا اسماعیل شہید اور شاہ سیداحمدشہید نے جہادکیا ،بعدازاں حاجی امداداللہ مہاجرمکی کی امارت میں حضرت مولانا محمدقاسم نانوتوی ،حضرت مولانا رشیداحمد گنگوہی وغیرہ نے جہادکیا ،خاں صاحب نے ان حضرات کی عبارات کی قطع برید کرکے ،منکرختم نبوت اورگستاخ رسول بناکر سب کو کافرقراردیا۔العیاذباللہ۔
حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ اورحضرت مولانا خلیل احمد سہانپوری ؒکے خلاف طوفان بدتمیزی قائم کیا ،ان کی تضلیل وتکفیرمیں کوئی کسرباقی نہیں رکھی اور آج بھی بریلوی علماءکا طریقہ کا ریہی ہے کہ علماءحق کو کافرقراردیاجائے تاکہ امت ان اکابر اورعلماءحق کی اصلاحات اورتعلیمات سے بدظن ہوکر ان سے لاتعلق رہے ۔
خاں صاحب نے سب سے پہلے اکابرعلماءندوہ کے خلاف دس سال تکفیری مہم میں مشغول رہے ، پھراپنی نظرعنایت علمائے دیوبند کی طرف پھیردی۔
خاں صاحب کی تکفیری مہم کا آغاز
۱۳۲۰ ھ میں ان کی کتاب عربی زبان میں ”المعتمد المستند “کے نام سے شائع ہوئی، جس میں پہلی مرتبہ اکابرعلمائے دیوبند ؛حضرت مولانا نانوتویؒ،حضرت گنگوہی ؒوغیرہ کی قطعی تکفیرکی اورلکھا کہ” ایسے کافراکفرہیں کہ جوکوئی ان کے کفر میں شک وشبہ کرے،وہ بھی قطعی کافراورجہنمی ہے ۔(رضاخانیت کا تعارف : ۲۹ مفتی امین صاحب مدظلہ)
کافی مدت تک اکابرِدیوبند کو خاں صاحب کی اس کتاب اوراس میں کئے گئے تکفیری حملے کی اطلاع نہیں ہوئی،سب سے پہلے مولانا محمدمرتضی حسن چاندپوری ؒ کو اطلاع ہوئی ، آپ نے اس کتاب کاجواب اوراس کی تردید کی اجازت طلب کی ؛لیکن اکابرنے جواب دینے کی اجازت نہیں دی ،اس لئے کہ اس طرح کے الزام تراش اور افتراءپرداز سے الجھناعقل مندی نہیں ہے ،نیز مذکورہ کتاب عربی میں ہونے کی وجہ سے اس کا کوئی خاص اثرنہیں ہوا ۔(مستفا د: رضاخانیت :تعارف: ۲۹)
خاں صاحب کا حرمین شریفین کا سفرکیا اورعلمائے عرب کو دھوکہ دہی
مذکوہ کتاب کا خاص اثرنہ ہونے کی بناپر خاں صاحب نے۱۳۳۲ھ میں حرمین شریفین کا سفرکیا ،اکابرِعلماءدیوبند کی تکفیرکا ایک فتوی مرتب کرکے ،وہاں کے علمائے کرام اورمفتیان عظام کی خدمت میں پیش کیا اورفریادکی ہندوستان میں ارتداد کی آندھیاں چل رہی ہیں،کچھ لوگ جن کو عوام: علماءومشائخ سمجھتے ہیں ،وہ کفریہ عقائدمیں مبتلا وداعی ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخ اورختم نبوت کے منکر ہیں ،اللہ تعالیٰ کو جھوٹاقراردیتے ہیں ،یہ فتنہ (اکابردیوبندکی حقانیت اوران کی مقبولیت ) عام ہوچکاہے ، آپ حضرات کے تعاون کے بغیراس فتنہ کی سرکوبی میں ہم کامیاب نہیں ہوسکتے ،اگرآپ حضرات علمائے حرمین اس کفریہ فتوی کی تصدیق فرمادیں ،تو ہمارے ملک کے مسلمان اس فتنہ سے محفوظ ہوسکتے ہیں ۔
الغرض: مولوی احمدرضاخاں صاحب نے علمائے حرمین کے سامنے جو اصل حالات سے بے خبر اور اردو زبان سے نہ واقف ہونے کی وجہ سے،نہ اکابردیوبند کی کتابوں سے واقف ہوسکتے تھے، نہ ہی ان کی کتابوں سے مستفید ہوسکتے تھے ۔
اکابردیوبند کے خلاف پرفریب ومن گھڑت الزامات
مولوی احمدرضاخاں صاحب نے اکابردیوبند کے خلاف پرفریب ومن گھڑت الزامات :انکارختمِ نبوت ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین وغیرہ کو اپنے فتوی میں پیش کیا ، علمائے حرمین نے ان بے جاالزمات کوحقیقت سمجھا اوراس تکفیری فتوی پر اپنی تصدیقیں لکھ دیں،پھریہ فتوی ہندوستان میں ”حسام الحرمین“ کے نام سے شائع کیا ۔
پھراس تکفیری مصدقہ فتوی کاپوری طاقت سے ہندوستان میں پروپیگنڈہ کیا گیااورکہاگیاہے مکہ ومدینہ کے علماءنے بھی ان کے کفرکا فتوی صادرکیاہے ،یہ سب ایسے کافراورمرتد ہیں کہ جو ان کے کافراورجہنمی ہونے میں شک کرے ،وہ بھی کافراورجہنمی ہے اوران میں ایک ایک کے قتل میں ہزارکافروں کے مارنے سے زیادہ ثواب ہے ۔لاحول ولاقوة الاباللہ۔(مستفاد : رضاخانیت :تعارف وتعاقب : ۳۱)
مولوی احمدرضاخاں صاحب کی سازش سے ہندوستانی مسلمانوں میں اضطرا ب
یہ واقعہ ۱۳۲۵ھ کا ہے ،مولوی احمدرضاخاں صاحب کی اس سازش اوراس مکارانہ چال سے ہندوستانی مسلمانوں میں اضطرا ب پیداہوگیا ،اب خاموشی اورصرف نظر کی گنجائش نہیں تھی ۔
مذکورہ تکفیری فتوے میں جن چاراکابرپر کفرکا فتوی لگایاگیاہے ،ان میں سے حضرت نانوتویؒ اورحضرت گنگوہی ؒکاوصال ہوگیا تھا ،حضرت تھانوی ؒاورحضرت مولاناخلیل احمدسہانپوریؒ باحیات تھے ،ان حضرات نے اپنے اپنے بیانات جاری کئے کہ مولوی احمدرضا خاں صاحب نے ”حسام الحرمین“ میں ہماری طرف جن عقائد ومضامین کی نسبت کی ہے ،وہ محض افتراءوبہتان ہے ،اس طرح کے عقیدے رکھنے والوں کو ہم خوداسلام سے خارج سمجھتے ہیں ۔
حسن اتفاق کہ جب خاں صاحب حرمین شریفین سے واپس ہوئے ،تو جن علمائے کرام نے اس فتوی پرتصدیق کی تھی ،ان کو خیال ہوا کہ ہم جس تکفیری فتوی پرتصدیق کی ہے ،ہم نے صرف ایک فریق کی بات سن کر تصدیق کردی ہے ،دوسرے فریق سے بھی استفسارکرلینا چاہئے ۔
علمائے عرب کے سوالات کے جوابات
چنانچہ ان حضرات نے اس تکفیری فتوی میں مذکورعقائداورجوباتیں ان حضرات نے بریلوی خاں صاحب سے زبانی سنی تھیں ،ان سب سے متعلق سوالات علمائے دیوبند کی خدمت میں ارسال کیا ،حضرت مولاناخلیل احمدصاحب ؒنے ان سوالات کے جوابات کو تحریرفرمایا،جوابات پرعلمائے حرمین نے اطمینان کا اظہار کیا اورلکھاکہ اہل سنت والجماعت کے عقائد یہی ہیں اوراپنی تصدیقات سے رجوع فرمالیا۔
سوالات وجوابات اورحرمین شریفین کے علمائے کرام کی تصدیقات کے ساتھ اسی زمانہ میں اردوترجمہ کے ساتھ کتابی صورت میں ”المھند علی المفند “ معروف بہ التصدیقات لدفع التلبیسات “کے نام سے شائع ہوئے۔
”حسام الحرمین“ کی وجہ سے ہندوستان میں جوفتنہ اوراکابردیوبند سے متعلق جوغلط فہماں پھیلائی گئیں تھیں ۔الحمدللہ۔ کافی حدتک فتنہ دب گیا اورغلط فہمیوں کا ازالہ ہوا ۔
نیز شیخ الاسلام حضرت مولاناحسین احمدمدنی ؒاورحضرت مولانامرتضی حسن ؒچاندپوری نے” حسام الحرمین “کا جواب لکھا اورثابت کیاکہ اس کتاب میں جن عقائد کو اکابردیوبند کی طرف منسوب کیاگیاہے ،وہ محض افتراء،بہتان ،جھوٹ اور فریب ہے ،اکابردیوبند کاان عقائد سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔(مستفاد :رضاخانیت : تعارف :۳۱)
بریلویت کے مشہورمسائل :علم غیب
علم غیب،حاضروناظر ،نوروبشر،مختارکل
مسئلہ علم غیب
مغیبات کوجاننے کی چارقسمیں اوران کے احکاممغیبات کے جاننے کی بنیادی دوقسمیں ہیں الف: ذاتی ب:عطائیپھرعطائی کی دوقسمیں ہیںالف :محیط ب :غیرمحیطپھرمحیط کی دوقسمیں الف:عام ب: خاص
تمام قسموں کی تعریفات اور مختصروضاحت
علم ذاتی : وہ علم ہے جوکسی کا عطاکیاہوانہ ہو ۔جیسے خالق کا علم علم ذاتی کے سلسلہ میں سب کا اتفاق ہے کہ کسی مخلوق کو کسی بھی طرح کا علم حاصل ہے ،تووہ اس کاذاتی نہیں؛بلکہ خداکی طرف سے عطاکردہ ہے ،علم ذاتی اللہ کے ساتھ خاص ہے ۔جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یا کسی بشرکو ذرہ برابربھی علم ذاتی حاصل ہے، تووہ بالاتفاق مشرک ہے۔علم عطائی: وہ علم ہے جوکسی کی طرف سے عطاکیاگیاہو۔جیسے مخلو ق کا علم
علم محیط عام : ازل سے ابدتک تمام چیزوں سے متعلق علم کلی حاصل ہو۔
تمام اسلامی فرقوں کا اتفاق ہے کہ تمام مغیبات کا علم محیط اللہ نے کسی فرشتے یانبی وولی کو عطانہیں فرمایا ۔
لہذا جوشخص یہ عقیدہ رکھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یاکسی بشرکو تمام مغیبات کا علم حاصل تھا ،جیسے اللہ تعالیٰ سے عالمِ غیب کی کوئی چیز مخفی نہیں ہے ،اسی طرح رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی مخفی نہیں ہے ، بس فرق علم ذاتی اورعطائی کاہے ،توایساشخص بھی بلاشبہ مشرک وکافرہے ۔
علم محیط خاص: ابتدائے آفرینش سے جنت وجہنم میں داخل ہونے تک تمام چیزوں سے متعلق کلی علم حاصل ہو۔
اہل سنت والجماعت کے نزدیک کسی بھی نبی یاولی کو اس قسم کا علم نہیں دیاگیاہے۔
علم محیط خاص یہی مختلف فیہ صورت
رضاخانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ثابت کرتے ہیں ،یہی صورت مختلف فیہ ہے ۔
چنانچہ مولوی احمدرضاخاں صاحب لکھتے ہیں
حضورعلیہ الصلوة والسلام کو تمام ماکان ومایکون الی یوم القیامة کاعلم حاصل تھا ،ابتدائے آفرینش ِعالم سے لے کر جنت وجہنم میں داخل ہونے تک کوئی ذرہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے علم سے باہرنہیں۔(انباءالمصطفی :۴)
علم عطائی غیرمحیط : بعض ان مغیبات کا علم جو اللہ تعالیٰ اپنے مخصوص بندوں کو وحی والہام کے ذریعہ مطلع فرمائیں۔
اس قسم کا علم غیرخداکے لئے حاصل ہے ،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرات انبیائے کرام کو وحی کے ذریعہ غیب کی کچھ باتوں سے آگاہ فرمایا ہے ؛مگرکائنات کے ذرہ ذرہ کا علم کسی کو عطانہیں فرمایاہے ۔
لہذا یہ عقیدہ رکھناچاہئے کہ اللہ تعالیٰ حضرات انبیاءکو وحی والہام کے ذریعہ غیب کی جن باتوں سے آگاہ فرمایاہے ، وہ حضرات صرف انہیں باتوں کو جانتے ہیں،کائنات کے ذرہ ذرہ کا علم اللہ تعالیٰ نے کسی کو عطانہیں فرمایاہے ، یہ عقیدہ قرآن وسنت سے ثابت ہے اور اہل سنت والجماعت کا یہی عقیدہ ہے ۔(ملخص :رضاخانیت:تعاروف وتعاقب ۹۳تا ۹۶مصنف حضرت اقد س مفتی محمدامین صاحب پالن پوری استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند )
حاضروناظر
حاضراورناظر دونوں عربی لفظ ہیں ،حاضرکا معنی موجوداورناظرکامعنی دیکھنے والا ۔جب ان دونوں الفاظ کو ملاکر استعمال کیاجاتاہے ،تو اس کا مفہوم ہوتاہے :ایسی ہستی جوپوری کائنات کو کفِ دست (اپنی ہتھیلی) کی طرح دیکھ رہی ہے، کائنات کا کوئی ذرہ اس کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں ہے ۔
اہل سنت والجماعة کا عقیدہ
تمام اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ کہ ”حاضروناظر“ کا مذکورہ بالامفہوم صرف اللہ جل شانہ کی ذات پاک پرصادق آتاہے اورحاضروناظرہونا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے ،اس صفت کوکسی غیرکے لئے ثابت کرناغلط ہے ،یہاں تک کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی یہ عقیدہ رکھنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوری کائنات کو کفِ دست کی طرح دیکھ رہے ہیں اورکائنات کا کوئی ذرہ آپ کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں ہے ،نہ شرعًا درست ہے ،نہ عقلا صحیح ہے ۔
رضاخانی عقیدہ
رضاخانیوں کاعقیدہ یہ ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم ؛بلکہ بزرگان دین بھی تمام کائنات کو کفِ دست کی طرح دیکھتے ہیں ،دوراورنزدیک کی آوزیں سنتے ہیں ،ایک آن میں تمام عالم کی سیرکرتے ہیں اور صدہا کوس پرحاجت مندوں کی حاجت روائی کرتے ہیں ۔
احمدیا رخاں نعیمی لکھتے ہیں
عالم میں حاضروناظرکے شرعی معنی یہ ہیں کہ قوت قدسیہ والاایک ہی جگہ رہ کر تمام عالم کو اپنے کف دست کی طرح دیکھے ،دوروقریب کی آوازیں سنے ،یا ایک آن میں تمام عالم کی سیرکرے ا ورصدہا کوس پرحاجت مندوں کی حاجت روائی کرے ،یہ رفتارخواہ صرف روحانی ہو، یاجسم مثالی کے ساتھ ہو ،یا اسی جسم سے جو قبرمیں مدفون یاکسی جگہ موجود ہے ،ان سب معنی کاثبوت بزگان دین کے لئے قرآن ،حدیث اوراقوال علماءسے ہے ۔(جاءالحق :۱۳۱،رضاخانیت:تعارف ۱۱۶)
نوروبشر
تمام اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نوع کے اعتبار سے بشرہیں؛لیکن اوصاف وکمالات میں آپ کا کوئی ثانی ومثل نہیں ہے ۔
حضرت مولانامحمد یوسف صاحب لدھیانوی ؒ تحریرفرماتے ہیں
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں میراعقیدہ یہ ہے کہ آپ اپنی ذات کے اعتبارسے نہ صرف نوعِ بشر میں داخل ہیں ؛بلکہ افضل البشر ہیں ،نہ صرف انسان ہیں ؛ بلکہ نوع انسانی کے سردارہیں ،نہ صرف آدم علیہ السلام کی نسل سے ہیں ؛ بلکہ آدم اوراولاد آدم کے لئے سرمایہءافتخارہیں۔
ارشادنبوی ہے: انا سیدولدآدم یوم القیامة ۔(مشکوة : ۵۱۱)
میں اولاد آدم کا سردارہوں گا قیامت کے دن ۔
اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بشر ،انسان اورآدمی ہونا ،نہ صرف آپ کے لئے طرئہ افتخارہے ؛بلکہ آپ کے بشرہونے سے انسانیت وبشریت رشک ملائکہ ہے ۔
جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نوع کے اعتبارسے بشرہیں ،اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفت ہدایت کے لحاظ سے ساری انسانیت کے لئے مینارہ نورہیں ،یہی نورہے جس کی روشنی میں انسانیت کو خداکا راستہ مل سکتاہے اورجس کی روشنی ابدتک درخشند ہ وتابندہ رہے گی ۔
لہذ امیرے عقیدہ میں آپ بہ یک وقت نوربھی ہیں اوربشر بھی اورمیرے نزدیک نوروبشر کو دوخانوں میں بانٹ کرایک کی نفی اوردوسرے کا اثبات غلط ہے ۔(اختلاف امت اورصراط مستقیم : ۳۷)
رضاخانیوں کا بھی یہی عقیدہ ہے
مفتی احمدیارخاں رضاخانی لکھتے ہیں
ہرمسلمان کا عقیدہ ہے کہ انبیائے کرام اللہ کے بندے اوراس کے محبوب ،ان کی جلوہ گری انسانوں میں ہوئی؛مگران کو بشر یابھائی ،یاباو،ایاانسان یا آدمی کہہ کر پکارنا حرام ہے اوراگربہ نیت توہین کہا،تو کہنے والا کافرہے ۔(شان حبیب الرحمن : ۱۰۳)
رضاخانی شیخ الاسلام سیدمحمد مدنی کچھوچھوی فضیلت رسول پر تقریرکرتے ہوئے اسی بات کی وضاحت کی ہے ،تفصیل کے لئے دیکھئے خطبات برطانیہ : ۱۴۳
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہواکہ اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
سورة المائدہ میں
قدجاءکم من اللہ نوروکتاب مبین الخ(المائدة : ۱۶)
نورسے مرادقرآن ہے ، عطف تفسیری ہے۔
جیسے اناانزلنا التوراة فیھا ھدی ونور ۔(المائدة : ۴۴)
وآتیناہ الانجیل فیہ ھدی ونور۔(المائدة : ۴۶)
مذکورہ دونوں آیتوں میں توراة وانجیل کو نورکہاگیاہے ،اسی طرح سورةالمائدةکی آیت میں قرآن کو نورکہاگیاہے ۔
سورة الاعراف کی آیت
وااتبعوا نورالذی انزل معہ ۔(:۱۵۷)
سورة التغابن میں
فامنوا باللہ ورسولہ والنورالذی الذی انزلنا ۔(:۸)
ان آیات میں بھی نورسے مراد قرآن کریم ہے۔
بعض مفسرین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مراد لی ہے ،جودلائل اورسیاق وسباق کے اعتبار مرجوع وغلط ہے ۔
رضاخانی نے ان آیات میں ”نور“ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مرادلیتے ہیں اور اس کو پوری قوت سے بیان کرتے ہیں کہ عوام وجاہل یہ سمجھتے ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف نورہی ہیں ،بشرنہیں ہیں ؛حالانکہ رضاخانی علماءکا بھی یہ عقیدہ نہیں ہے ۔(رضاخانیت : تعارف وتعاقب: ۱۲۵)
مختارکل
مختاراختیارمصدرسے اسم فاعل کاصیغہ بھی ہوسکتاہے اوراسم مفعول کاصیغہ بھی ہوسکتاہے ۔اسم فاعل : مختار اختیاررکھنے والا۔مختار اسم مفعول : اختیاردیاہو ا، برگزیدہ اورمنتخب کیا ہوا۔
اگرکوئی شخص لفظ ”مختارکل“ سے ( اختیارکھنے والا یا اختیاردیاہوا آدمی) اسم فاعل یا اسم مفعول بمعنی اول مرادلیتاہے اور عقیدہ رکھتاہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو کائنات میں تصرف کرنے کے کلی اختیاردیاگیاہے ،ایساشخص مشرکین عرب سے بھی زیادہ بدترمشرک ہے کہ مشرکین عرب اپنے معبودان کے لئے جزئی اختیارات ثابت کرتے تھے اوراس مشرک نے کلی اختیارغیراللہ کے لئے ثابت کردیا۔
اگرلفظ مختارسے اسم مفعول بمعنی ثانی ( برگزیدہ اورمنتخب شدہ ) مرادلیتاہے ،یہ بھی درست نہیں ہے کہ ، مختارکل کا معنی ہے سب چیزوں کا اختیاردیاگیا شخص ،لہذایہ معنی بھی مرادلینا صحیح نہیں ہے ؛البتہ صرف لفظ”مختار“ کہے اور اس لفظ سے مرادلے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام مخلوق میں برگزیدہ اورمنتخب شدہ ہیں ،تودرست ہے ۔
رضاخانی عقیدہ
رضاخانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ”مختارکل “کہتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کائنات میں تصرف کرنے کا کلی اختیاردیاگیاہے ۔
مولوی احمدرضاخاں لکھتے ہیں
شیخ عبدالقادرجیلانی کی شان میں کہتے ہیں
ذی تصرف بھی ہے ،ماذون بھی ، مختاربھی ہے
کارِعالم کا مدبربھی ہے ، عبدالقادر (حدائق بخشش : ۱۹)
اہل سنت والجماعت کا عقیدہ
تمام اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ پوری کائنات کا نظام صرف اللہ جل شانہ کے قبضہءقدرت میں ہے ،اس میں اس کا کوئی شریک وسہیم نہیں ہے ،موت وحیات ،صحت ومرض ،عطاوبخشش اورنفع ونقصان کے مالک ومختار صرف اللہ تعالیٰ ہیں، اللہ تعالیٰ نے کسی نبی یاولی کو کائنات میں تصرف کرنے کا کلی یاجزئی اختیارعطانہیں فرمایا ہے ۔
ارشادخداوندی ہے
قل لااملک لنفسی نفعا ولاضرا الاماشاءاللہ ۔(الاعراف : ۱۸۸)
آپ فرمادیئجے کہ میں نہ اپنی جان کے بھلے کا مالک ہوں، نہ برے کا ؛مگر جو اللہ تعالیٰ چاہیں۔(رضاخانیت : تعارف وتعاقب : ۱۳۸)
”مختارکل “ کا مسئلہ نہایت بنیادی واصولی مسئلہ ہے ، اسی مسئلہ سے بے شمار جزئی مسائل نکلتے ہیں اوریہ مسائل ایسے ہیں جن سے ہمارے بہت سارے عوام وجاہل ؛بلکہ علمائے کرام بھی ناواقفیت کی بنارپر نرم گوشہ اختیارکرتے ہیں ۔
مندرجہ بالااصولی مسئلہ سے نکلنے والے چند فروعی مسائل
غیراللہ سے مدد طلب کرنا(توسل کی جائزو ناجائز صورتیں آئیں گی) ،غیراللہ کو پکارنا (بعض قسمیں شرکیہ الفاظ پرمشتمل ہوتی ہیں)غیراللہ کے نام کا ورد کرنا (جیسے بعض لوگ وطن کی محبت میں وردکرنے کی بات کہتے ہیں ،یہ صرف اشارہ ہے)قبروں کا طواف اورسجدہ کرنا،مزارات پر نذرانے چڑھانا۔
بعض عملی بدعات
میلاد مروجہ، ایصال ثواب کے لئے مخصوص چیزوں اور اوقات اورجگہوں کی تعیین، دسواں ،چہلم ، تیجا ، گیاروھویں،کھانوں پر فاتحہ اورفاتحہ کی مختلف اقسام وانواع ،رجب کی فاتحہ اور بے شمار بدعات اسی کلیہ سے نکلتی ہیں ۔
بعض بدعات میں بعض دیوبندی حضرات بھی دانستہ یانادانستہ مبتلا ہوتے ہیں ، بعض علماءان مسائل سے ناواقف ہونے کی وجہ سے اجازت دیتے ہوئے کہتے ہیں :اس میں کیا حرج ہے ؟ سب سے بڑا حرج یہی ہے کہ وہ اصول پر نظرکئے بغیر فروع کی اجازت دیتے ہیں ۔
پختہ مزارات اوران پر گنبدوں کی تعمیر،یہ بدعت بھی بے شمار بدعات کا ذریعہ بنتی ہے ، چرغاں کرنا ، چادراورپھول چڑھانا ، صندل چھڑکنا وغیرہ ۔
اللہ کی عجیب شان
اللہ تعالیٰ کا عجیب تکوینی نظام ہے کہ اس نے سوائے خاتم النبیین کے روضہ کے کسی بھی نبی کے مزارکی کوئی یقینی وقابل اعتبار دلیل قائم نہیں کی ،اگربالیقین کسی نبی کی مزارکی اطلاع ہوتی، تو معلوم نہیں، کیا قیامت برپاہوتی ، جو پیغمبر توحیدکی دعوت کے لئے آئے ،ان کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعدا ن کی قبریں شرک کا مرکز بن جاتیں ۔سبحان ما اعظم شانہ ۔
خاتم النبیین سید المرسلین ہمارے آقاحضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ دلیل متواتر سے روضہ رسول ہونا ثابت ہے ، اللہ نے آپ کے روضہ کو شرک وبدعت کے اعما ل سے حفاظت فرمائی ، کئی صدیوں سے روضہ کو مقفل کیا گیاہے ، وہاں تک کسی کی رسائی ممکن نہیں، جن کی رسائی ہوسکتی ہے ، ( ارباب اقتدار، کلیدبردار وغیرہ ) ان میں ہمت وجرأ ت نہیں ۔ فسبحان من لاتنقضی عجائبہ ولاتحصی غرائبہ ۔
عبارات اکابر
اس روئے زمین پر جب بھی حق کی آوازبلندہوئی ہے یاہوتی ہے ،تو حق پرست اورحق کی آواز بلندکرنے والے پیغمبر،ان کے نائبین اورمخلصین کو کامیابی ملتی ہے اورخلق خداان کی طرف متوجہ ہوتی ہے ، باطل پرست ،باطل کے داعی اور با طل کا پروپیگنڈا کرنے والے حق پرستوں پر حسدکرتے ہوئے اپناآخری حربہ استعمال کرتے ہوئے ، حقائق کی پردہ پوشی ، اہل حق اورمخلصین کے کلام کی تحریف ،تصحیف اور ان کے کلام کی غلط بیانی ،عیب جوئی ،بہتان تراشی،سب وشتم اورالزامات کا بازارگرم کرتے ہیں اوریہ باطل کی پہچان بھی ہے،حقائق ودلائل نہ ہونے کی وجہ سے بوکھلاہٹ بھی ہے ۔
آپ حضرات نوح علیہ السلام کے زمانہ سے آج تک ہرباطل مذہبی فرقہ ،سیاسی جماعتوں ، حریف اور دشمنوں کا جائزہ لیں، سوفی صد مذکوہ بات کی تصدیق کریں گے ،
قصہ ءمختصر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں مدینہ کے یہود نے یہی کیا ، امام ابوحنیفہ ؓ کے مخالفین نے بھی یہی کیا ۔
ہمارے کرم فرما مولوی احمدرضاخاں صاحب بریلوی نے بھی ہمارے اکابر حضرت مولانا اسماعیل شہید ، حجة الاسلام قاسم نانوتوی ،فقیہ وقت حضرت رشیداحمد گنگوہی ،حکیم الامت اشرف علی تھانوی اورشارح ابوداؤد مولاناخلیل احمد سہانپوری رحمھم اللہ کے ساتھ یہی کیا ۔
حسدامن انفسھم من بعد ماتبین لھم الحق ، فاعفوا وصفحوا حتی یاتی اللہ بامرہ ،ان اللہ علی کل شیءقدیر۔(البقرةء۱۰۹)
اکابرکی عبارات میں دجل ،تلبیس،غلط معانی کا بیان اور جھوٹی باتوں کی نسبت خاں صاحب اوران کے متعبین کی فطرت
حضرات اکابرکی عبارات میں دجل ،تلبیس اورمکر وفریب سے غلط معانی بیان کرنا اور غلط اورجھوٹی باتوں کی نسبت ان اکابرکی طرف کرنا یہ مولوی احمدرضاخاں صاحب اوران کے متعبین کی فطرت ہے تاکہ امت میں ان اکابرسے متعلق غلط فہمیاں پیداکی جائیں اوران کی سرداری ،مکاری ،نذرانوں کی پیشی ،دنیا طلبی میں کمی واقع نہ ہو ۔
چنانچہ مولوی احمدرضاخاں صاحب نے مولانا اسماعیل کو گستاخ انبیا،حضرت نانوتویؒ کومنکرِنبوت ،حضرت گنگوہی اور حضرت سہانپوری پر گستاخ رسول ہونے کے الزامات لگائے ۔
ردرضاخانیت سے متعلق چنداہم کتب کا تذکرہ
براہین قاطعہ : حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہانپوری ؒ کی تصنیف ہے ، جو انوارساطعہ کے رد میں لکھی گئی ہے ۔
المھند علی المفند : یہ بھی حضرت مولانامحمدخلیل احمد سہانپوری ؒ کی تصنیف ہے ،اس کتاب میں علمائے حرمین شریفین کے چھبیس سوالوں کے جوابات ہیں۔
الشھاب الثاقب : حضرت مولانا سیدحسین احمد مدنیؒ کی تالیف ہے ،مولوی احمدرضاخاں صاحب نے ”حسام الحرمین“میں علمائے اکابردیوبندکی طرف جن کفریہ عقائدکی نسبت کی تھی ،ان کی تردید کی گئی ہے اوراکابر کی ان عبارتوں کا مطلب بیان کیاگیاہے ،جن عبارتوں سے خاں صاحب نے دھوکا دینے کی ناکام کوشش کی ہے۔
السحاب المدرار: یہ کتاب مولانامرتضی حسن صاحب چاندپوری کا رسالہ ہے ،اس میں ”حفظ الایمان “براہین قاطعہ اورتحذیرالناس کی ان عبارتوں کی تشریح وتوضیح کی گئی جن کوکاٹ چھانٹ کرخاں صاحب نے اکابرعلمائے دیوبند پرکفرکا فتوی لگایا تھا۔
الجنة لاھل السنة : یہ کتاب مفتی عبدالغنی صاحب صدرمدرس مدرسہ امینیہ دھلی کی تصنیف ہے اوررضاخانیت کے رد میں بہت مفصل اورعمدہ کتاب ہے ۔
بوارق الغیب : یہ مولانا محمدمنظورنعمانی ؒ کی تصنیف ہے اورعلم غیب کے مسئلہ پرلاجواب کتاب ہے ۔
ازالة الریب: مولانامحمدسرفراز خاں صاحب صفدرؒ کی تصنیف ہے اورعلم غیب کے مسئلہ پربہت مفصل کتاب ہے ۔
راہ سنت : یہ بھی مولانامحمدسرفراز خاں صفدرؒ کی تصنیف ہے ، اس میں تمام بدعات کی تردید کی گئی ہے ۔
اختلاف امت اورصراط مستقیم : کا وہ حصہ جو دیوبندی اوربریلوی اختلاف کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مولانامحمدیوسف لدھیانوی ؒ نے تحریرفرمایاہے ۔( رضاخانیت: تعارف وتعاقب: ۵۳)
رضاخانیت: تعارف وتعاقب
رضاخانیت: تعارف وتعاقب: استاذمحترم حضرت اقدس مولانامفتی محمدامین صاحب پالن پوری مدظلہ استاذحدیث دارالعلوم دیوبند ومرتب فتاوی دارالعلوم ، کے محاضرات کا مجموعہ ہے ، جن محاضرات کو دارالعلوم دیوبندکے تخصصات کے طلبہ کے مابین پیش فرمایاہے ۔
حضرت مفتی صاحب نے اس کتاب میں بالاختصار بریلوی مکتب فکرکا خلاصہ پیش فرمادیاہے ،نیز مفتی صاحب نے اپنی کتاب میں ردرضاخانیت کے رد میں جن کتب کا تعارف کرایاہے ،ان کاعطر نچوڑکررکھ دیاہے،مختصر مگرجامع ،خلط مبحث سے پاک ،حشو وزوائد سے خالی اور دریا درکوزہ کامصداق ہے ۔
مفتی صاحب نے اپنی کتاب میں رضاخانیت کا تعارف ،ابتداء، نشوونما ، خاں صاحب کی ناپاک وناکام کوششیں ، رسوم وبدعات کی تعریف اوران کے ترویج کے اسباب ،بدعات وخرافات کی اصلاح اوراحیائے سنت کے سلسلہ میں اکابردیوبند کی قابل قدرمساعی جمیلہ ،بنیادی مختلف فیہ مباحث ،علم غیب ، حاضروناظر ،نوروبشراورمختارکل اورمختارکل کی بحث کے ضمن میں شرک کی اقسام اورتوسل کی انواع اوران کے شرعی احکام اورعملی اورفروعی بدعات کا بیان اورآخرکتاب میں ”عبارات اکابر“ کی بحث میںرضاخانی ہمارے اکابر کی جن عبارتوں کو قطع وبریدکے ساتھ پیش کرتے ہیں اورامت کو دھوکہ دے کر ان کی طرف کفریہ عقائد وگستاخانہ کلمات کی نسبت کرتے ہیں ، ان کے حقائق اور اکابرکی اصل عبارات اور ان کے صحیح مفاہیم کوبیان فرمایاہے ۔
طلبہ اور علماءرضاخانیت کو سمجھناچاہتے ہیں ،ان سے اپنا ناقص مشورہ یہ ہے کہ مبسوط کتابوں سے پہلے ”رضاخانیت :تعارف وتعا قب“ کامطالعہ فرمائیں ۔
جوطلبہ اور علماءرضاخانیت وبریلویت کے موضوع کو سمجھناچاہتے ہیں ،ان سے اپنا ناقص مشورہ اپنے ناقص وناتمام تجربہ کی روشنی میں یہ ہے کہ مبسوط اورمطول کتابوں سے پہلے ”رضاخانیت :تعارف وتعا قب“ کا ایک مرتبہ دومرتبہ بالااستیعاب ضرورمطالعہ فرمائیں ۔
بعدازاں رضاخانیت کے موضوع پر کسی بھی کتاب کا مطالعہ کریں ،تو آپ کو فائدہ ہوگا ،ورنہ عام طورسے جوکتابیں اس موضوع پرلکھی گئی ہیں، موضوع پر جامع نہیں ، اگرجامع ہیں ،تو ہرطرح کی بحث اورمناظرانہ رنگ لئے ہوئی ہیں ،جس کی وجہ سے اصل موضوع ذہن نشین نہیں ہوتا ہے؛بلکہ موضوع خشک محسوس ہوتاہے، نیز کسی بحث کے سلسلہ میں اطمیان بخش بحث نہ ہونے کی وجہ سے مایوسی بھی ہوتی ہے ۔
(دراصل یہ ردرضاخانیت پر ایک علمی محاضرہ ہے ،جس کو ایک تربیتی نشست میں پیش کیا گیاہے ۔) طالب دعا: عبداللطیف قاسمی جامعہ غیث الہدی بنگلور۱۶/شعبان ۱۴۴۱ھ م ۱۱اپریل ۲۰۲۰ء عقیدہ ختم نبوت اورہماری ذمہ داری کے لئے اس عنوان پرکلک کیجئے