اذان جمعہ سے متعلقہ مسائل

اذان جمعہ سے متعلقہ مسائل مسئلہ (۱)اذان ثانی حاضرین کے اعلان کے لئے ہے تا کہ حاضرینِ مسجدسنن ،نوافل ،تلاوت اورتسبیح وغیرہ سے فارغ ہوجائیں اور خطبہ سننےکی طرف متوجہ ہوجائیں،اس اذان میں بقدرضرورت آواز بلند ہونی چاہئے ،زیادہ بلند ہونا اور کسی اونچی جگہ پر ہونا مستحب نہیں ہے ۔ علامہ عبدالحی لکھنوی ؒ تحریرفرماتے ہیں

لغز:ای الاذان لایستحب رفع الصوت فیہ ؟قل ھو الاذان الثانی یوم الجمعة الذی یکون بین یدی الخطیب ،لانہ کالاقامة لاعلام الحاضرین، صرح بہ جماعة من الفقہاء۔ (السعایة ،باب الاذان ۳۸/۲)

مسئلہ(۲)اذان ثانی کا جواب زبان سے نہ دے؛ بلکہ دل دل میں جواب دے ۔ وینبغی ان لایجیب بلسانہ اتفاقافی الاذان بین یدی الخطیب ۔(الدرالمختار مع ردالمحتارباب الاذان۷۰/۲) مسئلہ (۳)اذان ثانی خطیب کے سامنے مسجد کے اندر دی جانی چاہئے ،دائیں بائیں تھوڑا ہٹ کر کھڑاہو سکتاہے، یہ بھی خطیب کے سامنے ہی شمار کیاجائے گا۔

فکونہ بین یدی الخطیب عام شامل لماکان فی محاذاتہ اوشیئا منحرفا الی الیمین اوالشمال اویکون علی الارض اوالجدار۔(بذل المجہود باب النداءیوم الجمعة۸۵/۶)

مسئلہ(۴)واذا نودی للصلوة من یوم الجمعة،فاسعواالی ذکراللہ وذروالبیع (جب جمعہ کے دن اذان دی جائے ،تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڈواور خرید وفروخت چھوڑ و)اس سے بالاتفاق اذان ثانی مرادہے جو خطیب کے سامنے دی جاتی ہے، جب اذان اول حضرت عثمان ؓ کے دور خلافت میں شروع ہوئی، تویہ ممانعت اس اذان سے ہوئی یانہیں؟اس میں علماءکااختلاف ہے ،جمہور علماءکے نزدیک یہ حکم اذان اول سے بھی متعلق ہے ،اس لئے کہ اگراذانِ ثانی کے بعد جمعہ کے لئے مسجد کی طرف سعی کرے، تو جمعہ کی سنتیں چھوٹ جائیں گی اوربسااوقات جمعہ کے فوت ہونے کا بھی خطرہ رہتاہے۔ (تبیین الحقائق، شرائظ وجوبہاالجمعة۲۲۳/۱)

ایک قابل اصلاح عمل

لہذا جب اذان اول (اپنے محلہ کی )شروع ہوجائے ،تو خرید وفروخت،نکاح تمام معاملات،صنعت وحرفت کے تمام اموریہاں تک سونا ،لکھنا ،پڑھنا، کھانا، پینااور کوئی دینی کام بھی کرناجوسعی الی الجمعہ میں مخل ہو،نماز جمعہ سے فارغ ہونے تک جن لوگوں پرنماز جمعہ فرض ہے ان کے لئے مکروہ تحریمی ہوجاتے ہیں۔ (الموسوعة الفقھیةکویت ۲۴۴/۱۰)

جیساکہ ذکرکیا گیا کہ اذا نودی للصلوة سے مراد جمہورعلماءکے نزدیک اذان اول ہے ،جب اذان ہوجائے ،تو تمام مصروفیات کو چھوڑ کر نماز کی تیاری میں لگ جانا چاہئے ،اگر کوئی اذان کے بعد بھی دیگر چیزوں میں مصروف رہا ،نماز کی تیاری میں نہیں لگا ،تو وہ از روئے شریعت گناہ گار ہوگا-

علماءکرام اورذمہ داران مساجد کی ذمہ داری

موجودہ زمانہ میں جو نظام مساجدمیں جاری ہے، خاص طور سے جنوب ہندوستان میں جہاں بعض مساجد میں ۱۲:۳۰بجے اذان اور ۳:۰۰بجے نماز جمعہ ہوتی ہے ، نماز جمعہ سے تقریبًا ایک گھنٹہ، ڈیڑھ گھنٹہ پہلے اذان جمعہ دی جاتی ہے ،اگر کوئی شخص اتنی دیر پہلے سے نماز کی تیاری کرکے نماز کے لئے سعی نہیں کرتا ہے ،گویا وہ گنا ہ گارہے ،اتنے طویل وقت سے پہلے کسی آدمی کو اس کی مصروفیات ومشغولیات سے فارغ ہونے پرخواہ مخواہ مجبور کرنا،نیز شرعًا گناہ گار بننے کی ترتیب قائم کرنا ،کہا ں تک درست ہے ؟اس کی ذمہ داری کس پر ہے ؟

لہذا اس سلسلہ میں علماءکرام وذمہ داران مساجدکو غورکرکے اپنی اپنی مساجد میں نماز جمعہ کی ایسی ترتیب بنانی چاہئے جس سے دینی باتیں سننے وسنانے کا موقع بھی باقی رہے اور لوگوں پردینی ودنیوی اعتبارسے بار بھی نہ پڑے۔

مفتی رشید احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں: آج کل نماز جمعہ سے قبل تقریر کا دستور ہوگیاہے جس کی وجہ سے اذان اول اور خطبہ کے درمیان بہت وقفہ رکھاجاتاہے، اس کی وجہ سے جولوگ اذان اول سن کر فورًاجمعہ کی تیاری میں مشغول نہیں ہوتے ،ان کے اس گناہ کا سبب مسجد کی منتظمہ ہے، اس لئے منتظمہ بھی سخت گنا گارہوگی ،منتظمہ پرلاز م ہے کہ اذان اول وخطبہ کے درمیان زیادہ فصل نہ رکھیں۔(احسن الفتاوی ۱۲۴/۴/اذان ومؤذنین رسول اللہ :۴۳)http://dg4.7b7.mywebsitetransfer.com