اذان کا آغاز اورا س کی تاریخ

اذان کا آغاز اورا س کی تاریخ: رسول ا للہ ﷺ اور صحابہ کرام ؓاجمعین مکہ معظمہ سے ہجرت فرماکر مدینہ طیبہ تشریف لائے ،نمازباجماعت اداکرنے ک ے لئے مسجد بنائی گئی ، رسول اللہ ﷺ اورحضرات صحابہؓ نے دیکھا کہ نماز باجماعت اداکرنا مطلوب وموکدہے ،ایک وقت اور ایک جگہ میں بغیر اعلان وتنبیہ کے تمام لوگوں کا جمع ہونا آسان نہیں ہے۔

لہذاضرورت محسوس ہوئی کہ نماز کا وقت شروع ہونے ،جماعت کاوقت قریب ہونے اور جماعت میں شرکت کے لئے عام اطلاع کا کوئی طریقہ تجویز کیا جائے تاکہ سب لوگ جماعت کی نماز میں شریک ہوسکیں اور کوئی آدمی جماعت کی نماز سے محروم نہ رہے۔

چنانچہ سن ایک ہجری میں رسول اللہﷺ نے حضرات صحابہ کرام ؓ کو جمع فرماکر اس سلسلہ میں مشورہ فرمایا ،تو کسی نے عرض کیا، جب نماز کا وقت قریب آجائے، تو بطور علامت کوئی مخصوص جھنڈا بلند کیاجائے ،کسی نے رائے دی کہ کسی بلند جگہ پر آگ روشن کی جائے ،کسی نے مشورہ دیا کہ جس طرح یہودیوں کے عبادت خانوں میں نر سنگھا بجایا جاتاہے۔

اسی طرح ہم بھی نماز کے اعلان وبلاوے کے لئے نرسنگھا بجایاکریں ،کسی نے کہا کہ عیسائیوں کی طرح نقارہ بجایاجائے ؛لیکن رسول اللہ ﷺ کو مندرجہ بالا آراءمیں سے کوئی رائے پسند نہیں آئی ،آپ ﷺ نے یہ کہہ کر ردفرمادیاکہ یہ مجوسی،عیسائی اوریہودیوں کاطریقہ ہے ،آخر میں حضرت عمرؓ نے یہ تجویز پیش کی کہ نماز کے وقت گلی ،کوچوں میں کسی آدمی کو بھیجاجائے جو یہ اعلان کرے ”اَلصَّلوةُ جَامِعَة“ نماز تیار ہے ،آپ ﷺ کو یہ رائے پسند آئی اور حضرت بلال ؓ کو اس کام کی ذمہ داری سپرد فرمائی(مسلم ،باب بدا الاذان۱۶۴/۱)

حضرت عبد اللہ ؓ کاخواب

کسی وجہ سے اس تجویز پر فوری عمل شروع نہیں ہوسکا ؛لیکن آپ ﷺ اس سلسلہ میں بے حد متفکر رہے ،آپ ﷺ کی اس فکر مندی نے بعض صحابہ کرام ؓ کو متفکر بنادیا، ان ہی میں سے ایک انصاری صحابی حضرت عبد اللہ بن زید بن عبد ربہ اسی فکر میں سوگئے ،پھر نیم خواب ونیم بیداری کی حالت میں خواب دیکھا ۔

حضرت عبد اللہ ؓ فرماتے ہیں :خواب میں میرے سامنے ایک شخص ناقوس اٹھائے ہوئے آیا ،میں نے اس سے پوچھا،اے اللہ کے بند ے !یہ ناقوس تم فروخت کروگے؟ اس نے کہا ،تم اس کا کیا کروگے ؟میں نے کہا، ہم اس کے ذریعہ اعلان کرکے لوگوں کو نماز کے لئے بلائیں گے ، اس نے کہا ،کیا میں نقارہ سے بہتر چیز اس کام کے لئے نہ بتاﺅں ؟میں نے کہا ضرور بتائے ،چنانچہ اس نے کہا:

اللہ اکبر اللہ اکبر

اللہ اکبر اللہ اکبر،اللہ اکبر اللہ اکبر،اشْھَدُ اَنْ لَّالٰہَ اِلَّا اللہ، اَشْھَدُ اَنْ لَّالٰہَ الَّا اللہ ،اَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًارَسُوْلُ اللہ، اَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًارَسُوْلُ اللہ، حَیَّ عَلَی الصَّلٰوة،حَیَّ عَلَی الصَّلٰوة حَیَّ عَلَی الفَلَاحْ حَیَّ عَلَی الفَلَاح،للہ اکبر اللہ اکبراکبَرْلَالٰہَ اِ لَّا اللہ

حضرت عبد اللہؓ فرماتے ہیں: یہ پوری اذان بتانے کے بعد وہ شخص مجھ سے تھوڑی دور ہٹا اور تھوڑے وقفہ کے بعد کہا ،جب نماز قائم کرو، تو اقامت اس طرح کہو

اللّٰہُ اکبَراللّٰہُ اکبَرالخ حَیَّ عَلی الفَلَاح ،حَیَّ عَلی الفَلَاح کے بعد قَد قَامَتِ الصَّلوة قَدقَامَتِ الصَّلوة کا اضافہ کیا،

کلماتِ اذان بلال کو بتاﺅ

حضرت عبد اللہ ؓ فرماتے ہیں: جیسے ہی صبح ہوئی،میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوااور جوکچھ میں نے دیکھا اس کو عرض کیا،آپ ﷺ نے فرمایا: یہ من جانب اللہ سچا خواب ہے،ان شاءاللہ ۔اللہ کے نبی ﷺ نے حضرت عبد اللہ ؓسے فرمایا : تم بلال ؓ کے ساتھ کھڑے ہوکر کلماتِ اذان انھیں بتاﺅ تاکہ وہ بلند وخوبصورت آواز سے ان کلمات کو پکاریں۔ (سنن ابی داﺅد،باب بداالاذان۷۱/۱)

چونکہ اس وقت حضرت عبد اللہؓ بیمار تھے، اس لئے اللہ کے نبی ﷺنے حضرت بلال ؓ کو اذان کا حکم دیا، اگروہ بیمار نہ ہوتے ،تو یقینا اللہ کے نبی ﷺ سب سے پہلی اذان کہنے کے لئے حضرت عبداللہ ؓہی کو حکم فرماتے تاکہ یہ فضیلت بھی ان ہی کو حاصل ہوجائے ۔(قالہ ابو بشر احد رواة ابی داﺅد )

حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں : علماءنے لکھا ہے کہ حضرت بلال ؓ کو اس سعادت کے حاصل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جب حضرت بلال ؓ کو ایمان کی وجہ سے کفار مکہ اذیتیں وتکلیفیں دیتے تھے، تو حضرت بلالؓ” احد احد “کہتے تھے، اس کے بدلہ سب سے پہلی اذان دینے کی سعادت اللہ تعالی نے حضرت بلال ؓ ہی کو نصیب فرمائی ۔ (فتح الباری ،باب بدا الاذان۱۰۴/۲ )

حضرت بلال ؓ نے اذان دینی شروع کی

حضرت عبد اللہ ؓ فرماتے ہیں :جب حضرت بلال ؓ نے اذان دینی شروع کی اور مدینہ طیبہ کی فضاﺅں میں ،صبح کے سناٹے میں ،لوگوں کے کانوں میں تکبیر کے پر کیف ودل سوز نغمات پڑے ،تو حضرت عمر ؓ جوتقریبًا بیس دن قبل اسی جیسا خواب دیکھ چکے تھے اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے دربار نبوی ﷺ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا ،یا رسول اللہ! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو دینِ حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ،میں نے بھی اسی طرح کاخواب دیکھا تھا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔الحمد للہ۔(سنن ابی داﺅدباب کیف الاذان ۷۲/۱)مگر تم نے جب خواب دیکھا تھا، تو اسے کیوں بیان نہیں کیا؟حضرت عمر ؓ نے عرض کیا ،یارسول اللہ! جب عبد اللہ نے اس فضیلت کو حاصل کرنے میں سبقت کی، تومجھے تذکرہ کرتے ہوئے شرم محسوس ہوئی۔(سنن ابی داﺅد باب بدا الاذن،۷۱ اذان کا آغاز /۱ )

(اللہ تعالیٰ حضرت عبد اللہؓ کو اس فضیلت وسعات سے نواز ناچاہتے تھے، اس لئے حضرت عمر ؓ کو یہ کلمات بھلادے گئے ،جب کلمات اذان کا ن میں پڑے ،تو حضرت عمر ؓ کواپنا خواب یاد آیا) اسی دن سے اذان کا آغاز ہوااوریہ نظام قائم ہواجوتاقیام قیامت اللہ کی عظمت،وحدانیت اور کبریائی کااظہارکرے گااوراس کے اقرارکے پرکیف نغمے خشکی وسمندر اورزمینی وآسمانی فضاﺅں میں گونجتے رہیں گے ۔( اذان ومؤذنین رسول اللہ ﷺصف۱۸تا ۲۱ مؤلفہ عبداللطیف قاسمی)