اذان کا شرعی حکم اورمسائل اذان

اذان کا شرعی حکم اورمسائل اذان : اذان نماز باجماعت کااعلان وبلاوا ہے، ایمان کی دعوت وپکارہے اورشعارِاسلام میں سے ہے-

اسی وجہ سے شریعت اسلامیہ نے اس کو پنج وقتہ نمازوں اور جمعہ کے لئے سنتِ مؤکدہ (قریب من الواجب) قراردیاہے۔

بعض علماءنے حضرت امام محمدؒکے قول:لواجتمع اھل بلدعلی ترکہ(الاذان)قاتلناھم علیہ (اگر کسی بستی والے اذان کے ترک کرنے پر متفق ہوجائیں، تو ہم ان سے قتال کریں گے استخفاف فی الدین کی وجہ سے) اور قاضی امام ابویوسفؒ کے قول:یحبسون،ویضربون(اگر کسی بستی والے اذان ترک کردیں، تو ان کو ماراپیٹا جائے گا اورقید کردیاجائے گا۔)( البحرالرائق ۲۴۴/۱فتح الملھم۱۴۵/۳) کی وجہ سے واجب قرار دیاہے ؛لیکن عام علماء(صاحب ہدایہ وتحفہ وغیرہ)نے اذان کو سنت مؤکدہ فرمایاہے ۔

امام شافعی ؒکا مذہب بھی یہی ہے ،علامہ نووی شافعیؒ تحریر فرماتے ہیں : وھو قول جمھور العلماء(عمدة القاری۱۴۷/۱)

ملک العلماءعلامہ کاسانیؒ فرماتے ہیں: ان دونوں اقوال میں کوئی تضاد وتعارض نہیں ہے ،اس لئے کہ سنت مؤکدہ اورو اجب عمل کے اعتبار سے دونوں برابر ہوتے ہیں، خاص طور سے وہ سنت جو شعارِ اسلام میں سے ہو اس کو کسی حال میں ترک کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔(بدائع الصنائع ،واجب الصلوات ۳۶۴/۱)

مسائل اذان

مسئلہ(۱) اگر کسی بستی والے اذان کے ترک کرنے پر اتفاق کرلیں، تو امام محمدؒ کے نزےک امام المسلمین خلیفہ وقت اس بستی والوں سے قتال کرے گا (اگر اس بستی پر مسلمانوں کا قابو نہ چلتا ہو)استخفاف فی الدین کی جہ سے؛ کیونکہ وہ شعار اسلام میں سے ہے ۔

مسئلہ(۲)اگر کوئی شہر زیادہ وسیع ہو ،جیسے مرکزی اور بڑے بڑے شہر اگر ایک محلہ والے اذان دیں، تو جہاں تک آواز پہنچے گی ،وہاں تک کے لوگوں کے ساتھ قتال نہیں کیاجائے گا۔(اور گناہ بھی نہیں ہوگا)

مسئلہ(۳) اگر کسی محلہ میں مسلمانوں کی آبادی ہو، دوسرے محلہ کی اذان کی آواز وہاں تک نہ پہنچتی ہو، تو وہ محلہ والے گناہ گار ہوں گے ترک اذان کی وجہ سے اور نیزخلیفہ وقت ان کی سرزنش کرے گا۔

قال فی النھر: ولم ارحکم البلدة الواحدة ،ذا اتسعت اطرافھا کمصر، والظاھران کل اھل محلة ان سمعوالاذان، ولو من اھل محلة اخری یسقط عنھم، لا،ان لم یسمعوا۔(فتح الملھم ۱۴۵/۳۔کذا فی رد المختار)

مسئلہ(۴)اگر کوئی آدمی یا جماعت سفر میں ہو، تو ان کے لئے اذان و اقامت دونوں مستحب ہیں ، اذان و اقامت دونوں کو ترک کرنا مکروہ ہے، اگر صرف اقامت کہہ کرنماز پڑھ لیں تو کراہت باقی نہیں رہے گی۔

والمسافریؤذن،ویقیم فان ترکھماجمیعاکرہ۔(ھدایہ۲۹/۱، فتح القدیر۲۶۱/۱) اذان کا شرعی حکم )قال رسول اللہ :اذا حضرت الصلوة ،فاذنا واقیما، ثم لیؤمتکما۔(رواہ البخاری عن مالک بن الحویرث باب من قال لیوذن فی السفر)فےہ، الامرباذان الجماعة وھوعام للمسافر، وغےرہ،وکافة العلماءعلی استحباب الاذان للمسافر۔ (عمدة القاری ۲۰۱/۴)

اگر کوئی مقیم منفرد مسجد کی جماعت میں شامل نہیں

مسئلہ(۵)اگر کوئی مقیم منفرد مسجد کی جماعت میں شامل نہیں ہو سکا عذرکی وجہ سے ےا بلا عذر ،محلہ کی مسجد میں اذان ہوگئی ہے، تو اس کے لئے اذان و اقامت کہہ کر نماز پڑھنا مستحب ہے اور بلا اذان و اقامت منفرد کا نماز پڑھنا بھی درست ہے۔

مسئلہ(۶) اگر تارک ِجماعت کیا ایک جماعت ہو، تو ان کے لئے بھی اذان و اقامت مستحب ہے، بشرطےکہ محلہ و بستی کی اذان ہوئی ہو، دونوں کا ترک کرنا مکروہ ہے،صرف اقامت پر اکتفاءکرنا بلا کراہت درست ہے۔

قال محمدؒ: اخبرنا ابو حنیفۃ ؒعن حماد عن ابراھیم عن ابن مسعودؓ انہ ام اصحابہؓ فی بیتہ بغیر اذان ولااقامة ،وقال اقامة الامام تجزی، قال محمد :وبھذا ناخذ، اذا صلی الرجل وحدہ، فاذاصلوا فی جماعة، فاحب الینا یؤذن، ویقیم، فاذااقام ،وترک الاذان، فلا باس بہ۔(اعلاءالسنن ۱۲۶/۱،فتح القدیر۲۶۱/۱ اذان کا شرعی حکم )

مسئلہ(۷) اگر کوئی منفرد سفر میں بھی نہ ہو اور شہر و بستی میں بھی نہ ہو، آبادی سے باہر رہتا ہو، تو اس کے لئے اذان و اقامت کے ساتھ نماز ادا کرنا مستحب ہے،اگر اذان نہ دے ،توکوئی حرج نہیں ۔

عن عقبةؓ بن عامر قال، قال رسول اللہﷺ : یعجبک ربک عن راعی غنم فی راس شظیۃ للجبل یؤذن بالصلوة، ویصلی ، فیقول اللہ عزوجل :انظرو الی عبدی ھذا یؤذن ،ویقیم،یخاف منی، قد غفرت لعبدی،وادخلتہ الجنة۔ (ابو داؤد،مشکوة :۱۱۸)

مسئلہ (۸)اذان واقامت نماز کی سنت ہے نہ کہ وقت کی ،لہذا جب فوت شدہ نماز کی قضاءکرے ،تو اس نماز کے لئے بھی اذان واقامت مستحب ہے ،بلا اذان واقامت قضاءکرنا مکروہ ہے ،خواہ قضاءکرنے والامنفرد ہو یاجماعت ۔

منفرد کے اداءوقضاءمیں فرق

نوٹ: منفرد کے اداءوقضاءمیں فرق ہے ،وقتیہ نماز کو منفرد کے لئے بلا اذان واقامت ادا کرنا بغیر کراہت کے درست ہے ،فائتہ کی قضاءبلا اذان واقامت مکروہ ہے ۔

فوت شدہ نمازوں کے لئے منفرد ہویاجماعت مسجدِ جماعت میں اذان نہ دیں ،(فقہاءنے فائتہ نمازوں کی قضاءبھی مسجد میں کرنے سے منع کرتے ہیں ، اس لئے کہ اس سے نمازکو بے وقت پڑھنے کا ثبوت اور دینی امور میں سستی وکاہلی کااظہارہے ،لہذا قضاءنمازیں چپکے سے ادا کریں)؛بلکہ ادائیگی کی جگہ میں اذان قدرے بلند آواز سے دے، اگر جماعت ہو ،یا منفر صحراءمیں ہو ،اگر منفرد ہو، آبادی میں ہو تو پست آواز سے اذان کہے۔

فی حدیث طویل عن ابی قتادة ؓثم اذن بلالؓ بالصلوة ، فصلی رسول اللہ ﷺ رکعتین ،ثم صلی الغداة ،فصنع،کما یصنع کل یوم، وفی روایة لابی داود انہ ﷺ امر بلالاؓ بالاذان والاقامة حین ناموا عن الصبح ،وصلوھا بعد ارتفاع الشمس۔(رواہ عن ابی ھریرة )(فتح القدیر۲۵۶/۱،اعلاءا لسنن۱۲۶/۲، باب الاذان والاقامة للفائتة )

قال فی البحر : ذکر الشارح :ان الضابط عندنا ان کل فرض اداءا ،کا ن اوقضاء ا یؤذن لہ ،ویقام ،سواءادی منفردًا اوبجماعة الا الظھر یوم الجمعة فی المصر لان القضاءمخالف للاداءفی الاذان لانہ یکرہ ترکھما فی القضاء۔ ولا یکرہ فی الاداء،وکلاھما فی البیت ،لا فی المسجد ،وھل یرفع صوتہ باذا ن الفائتة ،فینبغی ا نہ ان کا ن القضاء بالجماعةیرفع ،وان کان منفردًا،فان کان فی البیت لایرفع ۔(البحر الرائق۴۵۵/۱ ،کتاب الاذان)

فوت شدہ نمازوں کی ایک ہی مجلس میں قضاءکرے

مسئلہ (۹) اگر فوت شدہ نمازوں کی ایک ہی مجلس میں قضاءکرے ،توان میں سے پہلی نماز کے لئے اذان واقامت دونوں بقیہ کے لئے صرف اقامت کہے ۔ نوٹ: اگر مجلس بدلتی رہے اور قضاءکی جانے والی نمازیں ایک سے زائد ہو ں ،تو ان کا بھی یہی طریقہ ہے ۔

عن عبیدة بن عبد اللہ ؓبن مسعود عن ابیہ ان المشرکین شغلوا النبی ﷺ یوم الخندق عن اربع صلوات حتی ذھب من اللیل ماشاءاللہ ،فامر بلالاؓ فاذن ،ثم اقام ،فصلی الظھر ،ثم اقام ،فصلی العصر،ثم اقام ،فصلی المغرب ،ثم اقام، فصلی العشاء۔(رواہ احمد والنسائی ،والترمذی ،وقال لیس باسنادہ باس ،الا ان ابا عبیدة لم یسمع من عبد اللہ ۔ (اعلاءالسنن باب الاذان ،والاقامة للفائتة وکفایة الاذان الواحد للفوائت،۱۲۷/۲)(اذان اورمؤذنین رسول اللہ ﷺ : ۳۹ مسائل اذان )

درس حدیث ،درس قرآن ، فقہ وفتاوی اوراصلاحی وتحقیقی مضامین کے لئے فیضان قاسمی ویب سائٹ کا مطالعہ فرمائیں دوست واحباب کو اطلاع دے علم دین کی نشرواشاعت میں حصہ داربنیں ۔http://dg4.7b7.mywebsitetransfer.com