ازدواجی الجھنوں کا حل:خدانخواستہ نکاح کے بعدمیاں بیوی کے درمیان کچھ اختلاف پیدا ہوجائے،تو قرآن مجید نے اس کا بھی حل بتایا ہے کہ پہلے سمجھایا جائے،نصیحت سے کام لیا جائے،اس کے باوجودبیوی سیدہی راہ اختیارنہ کرے، تو چند دن بستر الگ کرلیا جائے،اسی کو قرآن مجیدنے” واھجروہن فی المضاجع“ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
بستر الگ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ بیوی کو گھر سے باہر کیا جائے،یا اس کے میکہ چھوڑ کراس کے والدین پر بوجھ بنا دیا جائے،یا اس کو کمرہ سے باہر نکال کر اس کی تذلیل و تحقیر کی جائے؛بلکہ بستر ایک ہی ہو؛ لیکن چند دن بے رخی کااظہارکیا جائے تاکہ اس کو اپنی کوتاہی کا احساس ہو،اگر اس سے بھی کام نہ چلے اور عورت میں اصلاح کے آثار نمایاں نہ ہوں، تو معمولی سرزنش کی بھی اجازت دی گئی ہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے
والتی تخافون نشوزھن، فعظوھن، واھجروھن فی المضاجع، واضربو ھن ،فان اطعنکم، فلا تبغو اعلیھن سبیلا،ان اللہ کان علیا کبیرا۔(النساء:۳۴)
وہ عورتیں جن کی نافرمانی کا تم کو ڈر ہو، تم پہلے انہیں نصیحت کرو اور سمجھاؤ(اور نہ مانیں)تو ان سے بستر جدا کرلو(پھر بھی نہ مانیں) تو معمولی مارپیٹ کرو،اگروہ تمہاری بات مان لیں ،توپھر (مار پیٹ ،رسوائی اوربے عزت کرنے کے لئے) بہانے تلاش مت کرو، بے شک اللہ سب سے برتراور بڑا ہے۔( ازدواجی الجھنوں کا حل مسلم پرسنل لاءکامسئلہ:۲۴)
اختلافات دور کرنے میں سماج کی ذمہ داری
اگر ان تمام مراحل سے گزرنے کے باوجودتعلقات بہتر نہ ہوسکیں اور بیوی نافرمانی پر مصر ہو،توایسے نازک موڑپرقرآن مجید نے شوہرکوجلدبازی اورناعاقبت اندیشی سے کام نہ لینے کی تلقین کرتے ہوئے میاں بیوی کے درمیان صلح صفائی کی ذمہ داری کوسماج(افرادِخاندان ) پر رکھا ہے کہ اب سماج کے بزرگ اور سمجھ دار لوگ جواختلافات کودورکرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اورمخلص ہوں،ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ بیچ میں پڑ کر باہمی اختلاف کو رفع کرنے اور صلح کرانے کی کوشش کریں۔
بد قسمتی کی بات ہے کہ ہمارے سماج میں کوئی اختلاف رونما ہوتا ہے اور کوئی نزاع پیدا ہوجائے ،خواہ میاں بیوی کے درمیان ہو،والدین اور اولاد کے درمیان ہو،یا کسی بھی دو مسلمان یادو خاندانوں کے درمیان ہو ،تو نہ صرف عام مسلمان؛ بلکہ علماءاور سماج کے با اثر اور ذمہ دار لوگ بھی کنارہ کشی اختیا ر کرلیتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ جس کا معاملہ ہے، وہ سمجھے،ہم اس معاملہ میں کیوں پڑیں؛لیکن یہ سوچ درست اور سنجیدہ نہیں ہے،مسلمانوں کا کام دلوں کو جوڑنا اور فاصلوں کو سمیٹنا ہے۔
دوخاندانوں میں صلح کی مشغولی سے نماعصرکی جماعت فوت
آپ کو معلوم ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ کو نمازکی جماعت کا اتنا اہتمام تھا،کہ مرض الوفات میں بھی جب تک بالکل معذور نہ ہوگئے، جماعت فوت نہیں ہوئی؛لیکن بنو عوف کے دو مسلمان خاندانوں میں صلح کرانے میں آپ کو اتنی تاخیر ہوگئی کہ نماز ِعصر میں آپ دیر سے تشریف لائے جب کہ حضرت بلال ؓ حضرت ابو بکر ؓ کو امامت کے لئے آگے بڑھا چکے تھے ۔
اس واقعہ سے مسلمانوں کے درمیان صلح کرانے ،ان کے اختلافات کو دور کرنے اور ان کی صفوں میں وحدت کو باقی رکھنے کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
بالخصوص میاں بیوی کے اختلاف کو دور کرنا اور ان کے رشتے کو استوار رکھنا تو اور بھی زیادہ اہم ہے؛ کیونکہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ شیطان سب سے زیادہ اس بات سے خوش ہوتا ہے کہ کسی شوہر اور بیوی کے درمیان تفریق پیدا کرادے۔ان یفرق بین المرأوزوجہ۔
اس لئے علماءاور مسلم سماج کے ذمہ دار حضرات خواہ مرد ہوں ےا خواتین،ان کا شرعی فریضہ ہے کہ وہ ایسے مواقع پر معاملات کو سلجھانے اور اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کریں اور اسے اپنی دینی ذمہ داری سمجھیں۔
اختلاف کوخود سلجھانہ سکیں توکیاکریں
ہاں اگرزوجین کے درمیان اختلاف اس حد تک بڑھ جائے کہ وہ خود اس کو سلجھانے سے قاصر ہوں۔تو قرآن مجید کا ارشاد ہے
وان خفتم شقاق بینھما، فابعثواحکما من اھلہ،وحکما من اھلھا، ان یریدا اصلاحا یوفق اللہ بینھما،ان اللہ کا علیما خبیرا۔(النساء:۳۵)
اے مسلمانو!اگرتم کواندیشہ ہوکہ میاں بیوی میں اختلاف اورضدہے اورآپسی الجھن کوخودسلجھانہیں سکتے،توتم کوچاہئے کہ میاں بیوی کے رشتہ داروں میں سے ایک ایک منصف کو مقررکرکے بھیجو،اگردونوں منصف اصلاح کی کوشش(صدقِ دل سے)کریں،تو اللہ تعالیٰ میاں بیوی میں موافقت پیدافرمادیں گے ،بے شک اللہ تعالیٰ جاننے والااورخبررکھنے والاہے۔ (مسلم پرسنل لاءکا مسئلہ :۲۷)
حضرت تھانویؒ مذکورہ آیت کی تفسیرمیں تحریرفرماتے ہیں
اگرقرائن سے تم اوپروالوں وان دونوں میاں بیوی میں ایسی کشاکش کااندیشہ ہوکہ اس کووہ باہم سلجھانہ سکیں گے،توتم لوگ ایک آدمی جوتصفیہ کی لیا قت رکھتاہو مردکے خاندان سے اورایک آدمی جوایسے ہی تصفیہ کی لیاقت رکھتاہوعورت کے خاندان سے تجویز کرکے اس کشاکش کورفع کرنے کے لئے ان کے پاس بھیجوکہ وہ جاکرتحقیق ِحال کریں اورجوبے راہی پرہو،یادونوں کاکچھ قصورہوسمجھادیں۔
اگران دونوں آدمیوں کوسچے دل سے اصلاح ِمعاملہ کی منظوری ہوگی ،تواللہ تعالیٰ ان میاں بیوی میں بشرطیکہ وہ ان دونوں کی رائے پرعمل کریں،اتفاق فرمائیں گے،بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑے علم والے اور خبررکھنے والے ہیں ،جس طریقہ سے ان میں باہم مصالحت ہوسکتی ہے اس کو جانتے ہیں ،جب حکمین کی نیت ٹھیک دیکھیں گے، تووہ طریقہ ان کے قلب میں القاءفرمادیں گے ۔(بیان القرآن،سورة النساء: ۱۱۵/۱)ازدواجی الجھنوں کا حل
دینی ،اصلاحی اورعلمی وتحقیقی مضامین کے فیضان قاسمی ویب سائٹ رجوع فرمائیں۔http://dg4.7b7.mywebsitetransfer.com