امانت کی حفاطت اوراہمیت

امانت کی حفاطت اوراہمیت: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن اخلاق حسنہ کی تاکید فرمائی ہے اورشریعت نےجن صفات کو لازمہ ایمان قراردیاہے ،ان میں امانت بھی شامل ہے ۔
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بھی کوئی خطبہ پیش فرمایا ،اس میں ضرورامانت کی اہمیت کواجاگرکرتے ہوئے فرمایا۔

لَا إِيمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَةَ لَهُ، وَلَا دِينَ لِمَنْ لَا عَهْدَ لَهُ۔ (رواہ احمدعن انس:۱۲۵۶۸)

جس شخص میں امانت داری نہیں ،اس میں ایمان نہیں اور جس میں معاہدہ کی پابندی نہیں ،اس میں دین نہیں ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: قیامت کے دن پل صراط کی ایک جانب امانت کھڑی ہوجائے گی ،دوسری جانب صلہ رحمی کھڑی ہوگی اورلوگ پل صراط پرسےگزریں گے الخ (رواہ مسلم عن حذیفۃ ؓفی حدیث طویل کتاب الایمان باب ادنی اھل الجنۃ منزلۃ : ۱۹۵ )

امانت کی حفاظت اوراس کی ادائیگی کی اہمیت مذکورہ روایت سے بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ اگرکوئی امانت کی حفاظت نہیں کرتا،حقوق کی ادائیگی نہیں کرتااورصلہ رحمی نہیں کرتا،توامانت اورصلہ رحمی اللہ کے نزدیک شکایت کرتےہوئے پل صراط پرہی اسے جہنم میں گرادیں گے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفاق کی علامتوں کو بیان فرماتے ہوئےارشادفرمایا : منافق کی پاس امانت رکھی جائے ،تو اس میں خیانت کرتاہے ۔(رواہ البخاری عن ابی ھریرۃ ،کتاب الایمان ،باب علامات المنافق:۳۳ )

معلوم ہوا کہ امانت میں خیانت مومن کی صفت ہرگزہونہیں سکتی،مومن کی شان امانت کی حفاظت اور سامنے والے کے اعتما دواعتبار کو ختم کرنے کے بجائے اس کے اعتماد واعتبار کو تقویت پہنچاناہےاللہ تعالیٰ ایمان والوں کی ممتاز صفات کوبیان کرتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں۔

والَّذِيْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رٰعُوْنَ ۔(المؤمنون:۸،المعارج:۳۲)

ایمان(کامل) والےلوگ وہ ہیں جو اپنی امانتوں اور عہد وپیمان کی حفاظت اورنگہبانی کرتے ہیں۔

النبی الصادق الامین

قبل ازنبوت عرب کے کفر وشرک ،ظلم وزیادتی ،سفاکیت اورلوٹ مار کے بدترین دوراوربدترین معاشرہ میں بھی کفارعرب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ‘‘الصادق الامین’’ کے لقب سے پکاراکرتے تھے،آپ کی امانت داری کی وجہ سے لوگ آپ کے پاس امانتیں رکھواتے تھے ،لوگوں کو بھروسہ تھاکہ آپ امانت کی مکمل حفاظت فرماتے ہیں اور آپ کے پاس امانت ضائع نہیں ہوتی ۔

سفرہجرت کے موقع پر لوگ آپ کے قتل وخون کے درپے تھے ،ان نازک لمحات میں بھی آپ کے پاس دشمنوں کی امانتیں ہیں اور ان امانتوں کو ان کے مالکوں تک پہنچانے کے لئے حضرت علی ؓ کو اپنانائب بناکر سفرہجرت پرتشریف لے گئے ،یہ ہے ہمارے نبی علیہ الصلوۃ والسلام کی امانت داری ۔(رواہ البیھقی عن عائشۃفی السنن الکبری للبیھقی باب ماجاءفی ترغیب الامانات:۱۲۶۹۶)

دشمن بھی آپ کی امانت داری کے معترف ومداح

ابوسفیانؓ اسلام قبول کرنے سے پہلے شاہ روم ہرقل کے دربار میں رسول اللہ صلی اللہ وسلم کی صفات کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) نماز ،صدقِ حدیث ،پاکدامنی ، ایفاء عہد اور امانت کا پاس ولحاظ کرنے کا حکم دیتے ہیں۔(رواہ البخاری عن ابن عباس فی حدیث طویل ،کتاب الجہادوالسیر ،باب دعاء النبی الناس:۲۹۴۱)آپ کے دشمن بھی آپ کی امانت داری کے معترف ومداح تھے۔

حضرت جعفربن ابی طالب نے شاہ حبشہ کے دربارمیں اسلام کی حقانیت ،اسلام کی پاکیزہ تعلیمات وہدایات اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پیش کرتے ہوئے آپ کی صلہ رحمی ،مخلوق کے ساتھ ہمددردی وخیرخواہی ایفاء عہد وحفظ امانت کو بیان فرمایاتھا۔ (رواہ احمد عن ام سلمۃ ؓفی حدیث طویل: ۱۷۴۰)

حکیم لقمان سے لوگوں نے پوچھاکہ آپ اس مقام پر(فضل وکمال ،حکمت کی باتوں کی توفیق وغیرہ)کیسے پہنچے ، فرمایا:سچی بات چیت، امانت کی ادائیگی اورغیرضروری امور سے احتراز کی برکت سے اللہ نے مجھے یہ مقام عطافرمایاہے ۔

مالِكٌ؛ أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّهُ قِيلَ لِلُقْمَانَ: مَا بَلَغَ بِكَ مَا نَرَى؟ يُرِيدُونَ الْفَضْلَ. فَقَالَ لُقْمَانُ: صِدْقُ الْحَدِيثِ وَأَدَاءُ الْأَمَانَةِ وَتَرْكُ مَالاَ يَعْنِينِي.(موطامالک:۳۶۲۸)

سری سقطی ؒ سے منقول ہے کہ جس شخص کو چارصفات :صدق حدیث ،حفظ امانت، حلال روزی اورحسن اخلاق کی دولت حاصل ہوگئیں ، اس کو دنیا وآخرت کی بھلائی حاصل ہوگئی۔(شعب الایمان :۴۵۵۹)

امانت داری ہمارے معاشرہ کی خرابی

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں

إِنَّ أَوَّلَ مَا تَفْقِدُونَ مِنْ دِينِكُمُ الْأَمَانَةَ، وَإِنَّ آخِرَ مَا يَبْقَى مِنْ دِينِكُمُ الصَّلَاةُ، وَلَيُصَلِّيَنَّ الْقَوْمُ الَّذِينَ لَا دِينَ لَهُمْ۔(مصنف عبدالرزاق:،کتاب العیدین ،باب تعاہد القرآن: ۵۹۸۱)

سب سے پہلی صفت جس کو تم دنیا سے غائب پاؤگے ،وہ امانت ہے اوردینی امور میں آخری زمانہ تک نماز کو پاؤگے ،لوگ نماز یں پڑھیں گے ؛لیکن دیانت و امانت کا پاس ولحاظ نہیں کرتے ہوں گے ۔

حضرت حذیفہؓ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سےدوحدیثیں فرمائی ہیں ،ایک حدیث کا مصداق میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیاہے ، دوسری حدیث کے مصداق کاانتظارکررہاہوں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: امانت ( اپنے وسیع مفہوم کے اعتبار سے) لوگوں کے دلوں میں اترجائے گی ،لوگ قرآن اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو جانیں گے ،پھر ان پر عمل پیراہوں گے (صحابہ کرام کی زندگی میں اس حدیث کے مصداق کو پالیاہے)۔

امانت کی حقیقت ختم ،ظاہری آثار باقی

دوسری بات آپ نے(رفع امانت کے بارے میں) ارشادفرمائی کہ ایک وقت آئے گا کہ امانت دنیاسے اٹھالی جائے گی ،امانت کا اثرباقی رہ جائے گا ،جیسے آگ کی وجہ سے کوئی زخم جسم پرآئے اور مندمل ہوجانے کے بعد جسم کے اس حصہ پر داغ کا اثرپڑجاتاہے ،( کھال کا اصلی رنگ زائل ہوجاتاہے ، اور دھبہ بہت دنوں تک باقی رہتاہے،اسی طرح امانت کی حقیقت ختم ہوجائے گی ،ظاہری آثار باقی رہ جائیں گے )

يُصْبِحُ النَّاسُ يَتَبَايَعُونَ، فَلاَ يَكَادُ أَحَدٌ يُؤَدِّي الأَمَانَةَ، فَيُقَالُ: إِنَّ فِي بَنِي فُلاَنٍ رَجُلًا أَمِينًا، وَيُقَالُ لِلرَّجُلِ: مَا أَعْقَلَهُ وَمَا أَظْرَفَهُ وَمَا أَجْلَدَهُ، وَمَا فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةِ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ

لوگ کاروبارکریں گے ،کوئی امانت دارنہیں ہوگا ،لوگ کہاکریں گے کہ فلاں ملک میں فلاں شہر میں فلاں بستی میں ایک امانت دارشخص رہتاہے ،(یعنی سب لوگ خائن ہوجائیں گے ،خال خال ہی امانت دارپائے جائیں گے )لوگ کسی کی تعریف کرتے ہوئے کہیں گے: فلاں شخص کس قدرعقل منداورچالاک اورباہمت ہے ؛ حالانکہ اس کے دل میں ذرہ برابرایمان نہیں ہوگا۔(رواہ البخاری عن حذیفۃ ،کتاب الرقاق ،باب رفع الامانۃ : ۶۴۹۷)

خیانت کرنے پراعتمادواعتبارکیاجائے گا

حضرت ابوہریرۃ ؓسے روایت ہے

عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا وَلَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا، يَظْهَرُ النِّفَاقُ، وَتُرْفَعُ الْأَمَانَةُ، وَتُقْبَضُ الرَّحْمَةُ، وَيُتَّهَمُ الْأَمِينُ، وَيُؤْتَمَنُ غَيْرُ الْأَمِينِ، أَنَاخَ بِكُمُ السَّرَفُ وَالْحُوبُ، قَالُوا: وَمَا السَّرَفُ وَالْحُوبُ يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ: الْفِتَنُ كَأَمْثَالِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخْرِجَاهُ بِهَذِهِ السِّيَاقَةِ [التعليق من تلخيص الذهبي۸۷۲۵صحیح،واخرجہ ابن حبان فی صحیحہ:۶۷۰۷]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:اگرتم ان امور کو جانتے جن کو میں جانتاہوں،تو کم ہنستے اورزیادہ روتے ، پھرارشادفرمایا:(عنقریب ایسازمانہ آئے گا کہ)نفاق ظاہرہوجائے گا ، (منافقین کھل کرسامنے آئیں گے ،جیسے بعض نام نہاد مسلمان یہود کے ایجنٹ کھل کر اسلام کے خلاف بولتے ہیں ،اسلامی اقدارکو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں اوراپنی اسلام دشمنی کو ترقی اورروشن مستقبل کا لبادہ پہناتے ہیں )امانت کو اٹھالیاجائے گا (موجودہ زمانہ میں نہ حکمرانوں میں امانت نہ رعایامیں )، رحمت کو دلو ں سےنکال لیاجائے گا،(لوگوں میں ہمدردی نہیں ہے ہرایک کو کمانے کی فکرہے ،تاجر،طبیب ہرایک کو اپنی دنیا کی فکر لوگوں کے بے بسی بے کسی اور محتارجگی سے ان کو کوئی لین دین نہیں )۔

امانت دارکو سازشوں سے برطرف کیاجائے گا

امانت دارپرالزام لگایاجائے گا ،(سازشوں سے اس کو برطر ف کیاجاتاہے ،اس لئے کہ اگرامانت دارشخص اپنے عہد ہ پر رہے گا ،توہمیں خیانت کے موقع نہیں دےگا )خیانت کرنے پراعتمادواعتبارکیاجائے گا،(خائن اپنے جھوٹے وعدوں ،رشوتوں اورسازشوں سےاپنے کو امین باورکرائے گا)پھر ارشادفرمایا :سرف اورحوب نہایت قریب ہوچکے ہیں ،صحابہ نے عرض کیا ،سرف اورحوب سے کیامراد ہے ؟(اس لئے کہ سرف (فضل خرچی)اورحوب (گناہ) بظاہر مرادنہیں ہیں ،اسی وجہ سے صحابہ نے عرض کیا )آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :فتنے اورآزمائشیں جو تاریک رات کی طر ح ہوں گے (جس میں رسی اورسانپ کی پہچان مشکل ہوتی ہے ،فتنوں اورآزمائشی دورمیں بھی حق وباطل کی پہچان دشوارہوتی ہے)

مذکورہ احادیث کو سامنے رکھ کرغورکریں ،احادیث کا ایک ایک لفظ ہمارے بگڑے ہوئے معاشرہ پر صادق آتاہے ، سماج ومعاشرہ میں امانت کا پاس ولحاظ تقریبًا ختم ہوچکاہے ، اپنی نجی زندگی ،معاشرتی اورمعاملاتی زندگی ،مالی امانتیں اورذمہ داریوں کی تقسیم اورذمہ داریوں کی ادائیگی، غرض زندگی کے ہرشعبہ میں خیانت ،دھوکہ دہی اوردغابازی بہت عام ہوچکی ہے ، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓکے قول کے مطابق نماز ،روزہ اورکچھ ظاہری دیندادری نظرآتی ہے ؛پر امانت داری کا پاس ولحاظ ان ظاہری دینداروں کے پاس بھی نہیں ،چہ جائے کہ بے دین لوگوں سے اس کی شکایت کی جائے ۔

ہمارے معاشرہ میں ’’امانت دار‘‘لوگوں کی نگاہوں میں معتوب ہوتاہے ، خائن محبوب ہوتاہے ، امانت دار پر شک کیاجاتاہے ، بھگوڑوں پر بھروسہ کیاجاتاہے ،دھوکہ باز کو چالاک سمجھاجاتاہے ،امانت دارکو بھولا بھالااورنادان کہاجاتاہے ،دنیا کے متاع قلیل کے لئے ہرطرح کی امانت میں خیانت کرگزرتے ہیں ،حضرت حذیفہ ،حضرت ابوہریرۃ کی مذکورہ حدیثیں اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا اثرباربارپڑھیں ،صبحِ روشن کی طرح رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں ہم پر صادق اورمنطبق ہوتی ہوئی نظرآ ئیں گی ۔

امانت کا وسیع مفہوم

لفظ امانت کے لغوی معنی ہر اس چیز کو شامل ہے جس کی ذمہ داری کسی شخص نے اٹھائی ہو اور اس پر اعتماد و بھروسہ کیا گیا ہو۔

لفظ ‘‘ام انت’’ امن سےمشتق ہے ، جس کا معنی ہے مطمئن اورمامون کرنا ،امانت کو امانت اس لئے کہاجاتاہے کہ امانت والا شخص ایذارسانی ،حق تلفی وکوتاہی اورحقوق کی ادائیگی اور شی مامون کے ضائع ہونے سے متعلق امانت رکھنے والے کو مطمئن ومامون کردیتاہے،اس وجہ سے امانت کو امانت کہاجاتاہے ۔

صاحب لسان العرب ابن منظورؒ فرماتے ہیں:لفظ اما نت کا استعمال اطاعت وعبادت(تکالیف شرعیہ)،اعتماد واعتبار اور حفاظت کے معنی ہوتاہے اور احادیث میں لفظ امانت کو مذکوہ معانی میں استعمال کیا گیاہے ۔(لسان العرب ،حرف النون ،فصل الالف ۲۲؍۱۳)

حضرت مولانامفتی تقی عثمانی مدظلہ العالی تحریرفرماتے ہیں:عربی زبان میں امانت کا معنی یہ ہے کہ کسی شخص پر کسی معاملہ میں بھروسہ کرنا،لہذا ہروہ چیز جو دوسروے کو اس طرح سپردکی گئی ہو کہ سپردکرنے والے نے اس پر بھروسہ کیاہوکہ یہ اس کا حق اداکرے گا ،امانت کی حقیقت ہے ،امانت کی اس حقیقت کو سامنے رکھیں گے، تو امانت کے مفہوم میں بے شمار چیزیں داخل ہوں گی ۔(اسلام اورہماری زندگی ۸؍۳۵)

امانت کی بے شمارقسمیں

حضرت مولانامفتی شفیع عثمانی صاحب ؒ تحریرفرماتے ہیں

ان اللہَ يَامُرُكُمۡ اَن تُؤَدُّوا الۡاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَهۡلِهَا ۙ وَاِذَا حَكَمۡتُمۡ بَيۡنَ النَّاسِ اَنۡ تَحۡكُمُوۡا بِالۡعَدۡلِ‌ ؕ اِنَّ اللہَ نِعِمَّا يَعِظُكُمۡ بِهٖ‌ ؕ اِنَّ ن اللہَ كَانَ سَمِيۡعًۢا بَصِيۡرًا‏ ۞ (النساء:۵۸)

ترجمہ:بے شک اللہ تم کو فرماتا ہے کہ پہنچا دو امانتیں امانت والوں کو اور جب فیصلہ کرنے لگو لوگوں میں ،تو فیصلہ کرو انصاف سے، اللہ اچھی نصیحت کرتا ہے تم کو بے شک اللہ ہے سننے والا دیکھنے والا۔

لفظ امانت بصیغہ جمع کیوں استعمال کیا گیا

حضر ت مفتی شفیع عثمانیؒ آیت کی تفسیر کے اختتام میں بطورخلاصہ تحریرماتے ہیں:اس جگہ یہ بات غور طلب ہے کہ قرآن حکیم نے لفظ امانت بصیغہ جمع استعمال فرمایا جس میں اشارہ ہے کہ امانت صرف یہی نہیں کہ کسی کا کوئی مال کسی کے پاس رکھا ہو جس کو عام طور پر امانت کہا اور سمجھا جاتا ہے؛ بلکہ امانت کی کچھ اور قسمیں بھی ہیں جو واقعہ آیت کے نزول کا ابھی ذکر کیا گیا خود اس میں بھی کوئی مالی امانت نہیں، بیت اللہ کی کنجی کوئی خاص مال نہ تھا؛ بلکہ یہ کنجی خدمت بیت اللہ کے ایک عہدہ کی نشانی تھی۔(معارف القرآن ۲؍ ۴۴۶)

امانت کی بے شمارقسمیں ہیں، اسی لئے لفظ امانت کو مصدرہونےکے باوجود(قرآن پاک میں کئی مقامات پر) جمع کےصیغہ کے ساتھ لایا گیا ہے تاکہ امانت کی سب قسموں کو شامل ہوجائے خواہ وہ حقوق اللہ سے متعلق ہوں یا حقوق العباد سے، حقوق اللہ سے متعلق امانات تمام شرعی فرائض و واجبات کا ادا کرنا اور تمام محرمات و مکروہات سے پرہیز کرنا ہے ۔

حقوق العباد سے متعلق امانات میں مالی امانت کا داخل ہونا، تو معروف و مشہور ہے کہ کسی شخص نے کسی کے پاس اپنا کوئی مال امانت کے طور پر رکھ دیا یہ اس کی امانت ہے، اس کی حفاظت اس کے واپس کرنے تک اس کی ذمہ داری ہے۔(معارف القرآن ،المؤمنون آیت:۸، ۶/۲۹۸)

امانت بمعنی امتثال اوامر واجتناب مناہی

اللہ تعالیٰ نے ‘‘یوم الست ’’میں انسانوں سے اپنی ربوبیت ،اطاعت وفرمان برداری کا اقرارلیا گیا ،اس عہد کو اللہ تعالیٰ نے ‘‘امانت ’’ سے تعبیرفرمایاہے

إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ،فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا ۔(الاحزاب:۷۲)

ہم نے آسمان ،زمین اورپہاڑوں پر امانت پیش کی ،انہوں نے اس امانت کو اٹھانے سے انکار کردیا اوراس امانت (کے بوجھ) سے ڈرگئے ،انسان نے اس امانت کو اٹھالیا ،یہ انسان بڑا ظالم وجاہل ہے ۔

حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی مذکورہ آیت کی تفسیر کا خلاصہ قرطبی اورابن کثیرسے نقل کرتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں

امانت پیش کرنےسے مراد دین کے احکام کو پیش کرنا ہے ، ( تفسیر قرطبی : ۱۴/۲۵۳ ) یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان اورپہاڑوں پر دین کے احکام پیش کئے ، ان سے کہا کہ اگر تم اس امانت کو اُٹھالو، تو اللہ کی فرمانبرداری کرنے کی صورت میں تم کو بہترین اجر دیا جائے گا اور نافرمانی کرنے کی صورت میں زبردست سزا دی جائے گی ۔

اس امانت میں اللہ کی توحید اور اس کی عبادت یقینی طورپر شامل رہی ہوگی، رہ گئے دوسرے احکام ، تو وہ ہر مخلوق کو اس کی ساخت اور صلاحیت کے اعتبار سے دیئے جاتے ہیں ، ضروری نہیں ہے کہ ان کے لئے وہی شرعی احکام ہوتے جو انسانوں کے لئے ہیں ، بہرحال ان مخلوقات نے اپنے عجز کا اظہار کیا اور اللہ تعالیٰ نے ان پر اس امانت کو اُٹھانے کی ذمہ داری نہیں رکھی ۔

آسمان و زمین نے امانت سے عاجز ہونے کا اظہار کردیا

پھر حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کی تخلیق کے بعد ان سے کہا : میں نے یہ امانت آسمان و زمین پر پیش کی ،تو انھوں نے اس سے عاجز ہونے کا اظہار کردیا ، تو کیا تم اس کو اُٹھاسکتے ہو ؟ اگر تم اس کو اُٹھانے کا حق ادا کروگے ،تو تمہیں اس کا بہترین اجر عطا کیا جائے گا اور اگر تم نے اس امانت کا حق ادا نہیں کیا ، ضائع کردیا تو تم کو عذاب ہوگا ، حضرت آدم نے اس کو قبول فرمالیا ۔( تفسیر ابن کثیر : ۳؍۵۰۱) اس طرح دین و شریعت کے احکام انسان کے کاندھوں پر رکھے گئے ۔

انسان کے بڑے ظالم ہونے کا مطلب

انسان کے بڑے ظالم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس امانت کو قبول کرکے اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے ؛ کیوں کہ اگر اس کا حق ادا نہ کرسکا ،تو دوزخ میں جائے گا اور جاہل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے جس ذمہ داری کو قبول کیا ہے ، وہ اس کی مشکلات سے کما حقہ واقف نہیں ہے ، حضرت عبد اللہ بن عباس ،سعید بن جبیر اور قتادہ نے ظالم اور جاہل ہونے کا یہی مطلب مراد لیا ہے ۔( تفسیر قرطبی : ۱۴؍ ۲۵۷ )

اگرچہ کہ اس فقرہ میں بظاہر انسان کی مذمت ہے ؛ لیکن غور کیا جائے ،تو اس کے پس پردہ انسان کی تعریف بھی کی گئی ہے ، ظالم اسی کو کہا جاتا ہے ، جس میں عدل وانصاف کرنے کی صلاحیت ہو ، گائے بکری اور اور در و دیوار کو ظالم نہیں کہا جاتا، جاہل اسی کو کہا جاتا ہے ، جس میں اپنی اصل کے اعتبار سے علم کی صلاحیت ہو ، سمندر اور پہاڑ کو جاہل نہیں کہا جاتا ، اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کے لئے اس بات کا اعلان ہے کہ اس کو علم و عدل کی صلاحیت عطا کی گئی ہے اور یہی صلاحیت ہے جس کے ذریعہ انسان امانت الٰہی کا بوجھ اُٹھاسکتا ہے ۔(آسان تفسیر۲؍۳۴۸)

زندگی امانت

علامہ فخرالدین رازی ؒ تحریرفرماتے ہیں:امانت کی بے شمارقسمیں ہیں،حقوق اللہ میں امانت کی رعایت یہ ہے کہ تمام اوامرکو بجالائے اور محرمات اورمعاصی سے احتراز کرے ،یہ باب بہت وسیع ہے ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں:ہرچیز میں امانت کی رعایت لاز م ہے ،حتی کہ وضو،غسل، نماز ،روزہ اورزکوۃ ہرچیز کو اس کے شرائط ،واجبات اورآداب کے ساتھ اداکرنا یہ امانت کی رعایت ،مذکورہ امورکی رعایت نہ کرنا یہ خیانت ہے ۔

زبان کی امانت

انسانی اعضا ء انسان کے پاس امانت ہیں، زبان کی امانت یہ ہے کہ جھوٹ،غیبت، چغل غوری،بدگوئی ،شرکیہ ،کفریہ کلمات سے زبان کی حفاظت کرے،آنکھ کی حفاظت یہ کہ اس کو محرمات کی طرف دیکھنے سے بچائے ،)حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام کی بیٹی نے حضرت موسی علیہ السلام کی نگاہوں کی حفاظت ہی کی بناپر ان کے امین ہونے کی گواہی دی ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آنکھوں کی خیانت سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کی ہے ،چپکے سے محرمات کی طرف دیکھنا ،بلااجازت کسی کے گھر وغیرہ میں جھانکنا ،کسی کے ذاتی قسم کے خطوط وغیرہ بلااجازت پڑھنے )کان کی امانت یہ کہ لہوولعب ، گانا،موسیقی وغیرہ کے سننے سے بچائے ،اسی طرح تمام انسانی اعضاء کا حکم ہے۔(التفسیرالکبیر سورۃ النساء:آیت۵۸: ۱۱۰؍۱۰)

زندگی ہمارے پاس اللہ کی امانت ہے ،اس امانت کا تقاضایہ ہے کہ ہم اس کو اللہ کے حکم اورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کے مطابق گزاریں ،انسان کی زندگی ،اس کا وجود ،اس کے اعضا ء وجوارح ،اس کے اوقات ،اس کے اموال اور اس کی صلاحتیں اورتوانائیں سب اللہ کی امانت ہیں، زندگی ،اعضاء ،اموال ،اوقات اور توانائیں اورصلاحیتوں کو اسی کام میں استعمال کرنا ضروری ہے ،جس کام کے لئے یہ نعمتیں دی گئی ہیں،دیگرکاموں میں استعمال کرنا امانت کی خیانت ہے ۔(ملخص: اسلام اورہماری زندگی ۸؍۷۳)

انسان کی جان امانت ہے ،اسی لئے شریعت میں خودکشی کرنا حرام ہے ،اگریہ جان وجسم اپنا ہوتا،تو خود کشی حرام کیوں ہوتی؟ معلوم ہواکہ یہ جان وجسم اپنا نہیں؛ بلکہ امانت ہے ۔

مالی امانتیں

مالی امانت کو فقہ کی اصلطلاح ودیعت کہتےہیں ، ودیعت کہتے کہ کوئی شخص بالقصدکسی کے پاس امانت رکھے ، اورامانت عام ہے ،بالقصد رکھے یا کسی اورطریقہ سےکسی بھی شخص کاکوئی بھی مال ہمارے پاس آجائے ،خواہ مالک خود ہمارے پہنچائے کہ یہ چیز اپنی حفاظت اور ذمہ داری میں رکھو یا کسی اورطریقہ پرہمارے پاس پہنچ گئی ہو ،مثلا کوئی چیز ہوامیں اڑکرآگئی ،یا کسی سے چھوٹ گئی ،آپ کی نظراس چیز پڑی ،اب وہ چیز آپ کے پاس امانت ہے،اس کی حفاظت کرنا اور مالک تک پہنچانا آپ کا اخلاقی فریضہ ہے ،اس کی حفاظت نہ کرنا ،یاذمہ داری میں ہونے کی صورت میں اس کی اجازت کے بغیراستعمال کرنا یہ خیانت ہے ۔(مستفادقاموس الفقہ: ۲۲۴؍۲)

شہادت سے ہرگناہ معاف،امانت معاف نہیں

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتےہیں : الْقَتْلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُكَفِّرُ الذُّنُوبَ كُلَّهَا أَوْ قَالَ: يُكَفِّرُ كُلَّ شَيْءٍ إِلَّا الْأَمَانَةَ

اللہ کے راستہ کی شہادت سے ہرگناہ معاف کریاجاتاہے ؛البتہ امانت معاف نہیں کی جاتی ،قیامت کے دن صاحب امانت کو لایاجائے گا اور کہاجائے گا کہ اس کی امانت کو اداکرو،وہ شخص کہے گا ،اے اللہ دنیا کا نظام ختم ہوچکاہے ، امانت کہاں سے لاؤں،اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ اس کو ‘‘ہاویہ’’ جو جہنم کا ایک طبقہ ہے ،اسے وہاں لے جاکر ڈالدو۔

جب اس کو ہاویہ میں پہنچایاجائے گا،تو اس کو وہ امانت بعینہ ہاویہ میں نظرآئے گی ، وہ شخص اس امانت کو لے کر جہنم کے نیچے حصہ سے اوپر تک آئے گا اورسمجھ رہاہوگاکہ وہ توباہرنکل ہی جائے گا ،اچانک وہ امانت گہرائی میں گرجائے گی، اس کے پیچھے یہ شخص بھی گرجائے گا ،یہی سلسلہ ہمیشہ چلتارہے گا ،(ایمان والاہوگا،تو ان شاء اللہ کسی وقت نکلے گا)پھرحضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے بطوردلیل سورۃ النساء کی آیت پڑھی۔ (السنن الکبری للبیہقی ،کتب الودائع باب ماجاء فی ترغیب اداء الامانات:۱۲۶۹۲، حلیۃ الاولیاء ،مکارم الاخلاق للخرائطی)

نوٹ :مسلم ترمذی وغیرہ حدیث کی کتابوں میں قرض کے سلسلہ میں یہ بات آئی ہے کہ شہادت سے ہرقسم کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں ؛البتہ قرض معاف نہیں ہوگا ،اس روایت کے راوی حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ہیں اوریہ روایت مختصرہے ۔

دوسری بات یہ ہے کہ ‘‘امانت‘‘ سے متعلق روایت حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی ہے ،بعض نے مرفوعاروایت کی ہے ، بعض حضرات موقوفا،چونکہ روایت عذاب سے متعلق ہے ،اس وجہ سے موقوف روایت بھی مرفوع ہی کے درجہ میں ہوگی ،نیز امانت میں خیانت کی جائے، توامانت امین کے ذمہ قرض ہوگئی ،لہذاان دونوں روایتوں میں کوئی تعارض اورسند کے اعتبار سے کوئی کلام نہیں ہوگا ۔

امانت کاحکم

امانت کاحکم یہ ہے کہ اگرامانت کی چیز امین کے قبضہ میں رہتےہوئے اس کی زیادتی اورقصدوارادہ کے بغیر ضائع ہوجائے،توامین اس چیز کا ضامن نہ ہوگا ،امین سے امانت کے ضائع ہوجانے کی وجہ سے اس کاتاوان اورجرمانہ وصول نہیں کیاجائے گا،اگرامین کی طرف سے زیادتی ہو ،بدنیتی ،غفلت یاخاطرخواہ حفاظت کا انتظام نہ کرے، تو وہ اس کا ضامن اورذمہ دارقرارپائے گا۔ (قاموس الفقہ ۲۲۴/۲)

عاریت امانت

امانت کے کچھ خاص شعبے بھی ہیں،بعض اوقات ہم ان کو امانت نہیں سمجھتے اورامانت جیسی حفاظت نہیں کرتے ،مثلًا عاریت ، عاریت کہتے ہیں ،کسی آدمی سے کسی چیز کو عارضی طورسے بلاعوض استعمال کرنے کے لئے لی جائے ،(قرآن ،سنت اوراجماع سے کسی چیز کو عاریت پرلینے کی گنجائش ہے اوربسااوقات اس کی ضرور ت معاشرہ میں پیش آہی جاتی ہے ،)

جوشخص کسی دوسرے سے کتاب ،برتن ،سواری یا کوئی اورچیز استعمال کے لئے لے ،تو عاریت کی چیز لینے والے کے نزدیک امانت ہے ، عاریت پرلی ہوئی چیز کا استعمال مالک کی مرضی اوراس کی اجازت کے حدود ہی میں کرسکتاہے اوروقت مقررہ پر واپس کردینا یہ امانت داری ہے ،مالک کی مرضی کے خلاف استعمال کرنا،طے شدہ وقت پر واپس نہ کرنا ، خیانت ہے ۔(مستفاد:اسلام اورہماری زندگی ۸/۴۰)

عاریت کی چیز فورًا شکریہ کے ساتھ واپس کی جائے

عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي الخُطْبَةِ عَامَ حَجَّةِ الوَدَاعِ: «العَارِيَةُ مُؤَدَّاةٌ، وَالزَّعِيمُ غَارِمٌ، وَالدَّيْنُ مَقْضِيٌّ-(رواہ الترمذی کتاب البیوع ،العاریۃ مؤداۃ :۱۲۶۵)

حضرت ابوامامہؓ فرماتے ہیں: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حجۃ الوداع کے سال تقریرمیں یہ باتیں فرماتے ہوئے سنا کہ عاریت اداکی جائے گی ، ضامن ادائیگی کا ذمہ دارہے اورقرض اداکیاجائے گا ۔

حضرت اقدس مفتی سعیداحمد صاحب پالن پوری رحمہ اللہ تحریرفرماتے ہیں:اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرے میں پائی جانے والی تین خرابیوں کی اصلاح فرمائی ہے ۔

عاریت اداکی ہوئی ہے ،(یعنی عاریت کی دائیگی لاز م ہے )معاشرہ میں یہ خرابی پائی جاتی ہے کہ پڑوس سے کوئی چیز مانگ لاتے ہیں ،پھر واپس نہیں کرتے ،اگرمالک بھول گیا ،تو اس کی چیزگئی ،ورنہ جب مانگنے آئے گا ،منہ بناکر دیں گے ،یہ طریقہ غلط ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں فرمایاکہ جب ضرورت پوری ہوجائے ،توفورًا وہ چیز شکریہ کے ساتھ واپس کردو۔(تحفۃ الالمعی ۴/۱۹۲)

منصب اورعہدے اللہ کی امانت

حکومت کے عہدے اور منصب جتنے ہیں، وہ سب اللہ کی امانتیں ہیں جس کے امین وہ حکام اور افسر ہیں جن کے ہاتھ میں عزل و نصب کے اختیارات ہیں، ان کے لئے جائز نہیں کہ کوئی عہدہ کسی ایسے شخص کے سپرد کردیں جو اپنی عملی یا علمی قابلیت کے اعتبار سے اس کا اہل نہیں ہے؛ بلکہ ان پر لازم ہے کہ ہر کام اور ہر عہدہ کے لئے اپنے دائرہ حکومت میں اس کے مستحق کو تلاش کریں۔(معارف القرآن ،النساء ۲/۶۴۴)

حضرت ابوذر نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ مجھے کسی جگہ کا حاکم مقرر فرما لیں تو آپ نے میرے مونڈھے پر ہاتھ رکھا اور ارشاد فرمایا

يَا أَبَا ذَرٍّ، إِنَّكَ ضَعِيفٌ، وَإِنَّهَا أَمَانَةُ، وَإِنَّهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ خِزْيٌ وَنَدَامَةٌ، إِلَّا مَنْ أَخَذَهَا بِحَقِّهَا، وَأَدَّى الَّذِي عَلَيْهِ فِيهَا(رواہ مسلم عن ابی ذر کتاب الامارۃباب کراھیۃ الامارۃ :۱۸۲۵)

اے ابوذر آپ ضعیف آدمی ہیں اور منصب ایک امانت ہے جس کی وجہ سے قیامت کے دن انتہائی ذلت اور رسوائی ہوگی، سوائے اس شخص کے جس نے امانت کا حق پورا کردیا ہو یعنی وہ ذلت سے بچ جائے گا۔

منصب پرنااہل کو بٹھانے والاملعون

پوری اہلیت والا سب شرائط کا جامع کوئی نہ ملے، تو موجودہ لوگوں میں قابلیت اور امانت داری کے اعتبار سے جو سب سے زیادہ فائق ہو اس کو ترجیح دی جائے۔

ایک حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس شخص کو عام مسلمانوں کی کوئی ذمہ داری سپرد کی گئی ہو، پھر اس نے کوئی عہدہ کسی شخص کو محض دوستی وتعلق کی مد میں بغیر اہلیت معلوم کئے ہوئے دے دیا ،اس پر اللہ کی لعنت ہے ،نہ اس کا فرض مقبول ہے نہ نفل، یہاں تک کہ وہ جہنم میں داخل ہوجائے (جمع الفوائد: ۵۲۳)

بعض روایات میں ہے کہ جس شخص نے کوئی عہدہ کسی شخص کے سپرد کیا ؛حالانکہ اس کے علم میں تھا کہ دوسرا آدمی اس عہدہ کے لئے اس سے زیادہ قابل اور اہل ہے، تو اس نے اللہ کی خیانت کی اور رسول کی اور سب مسلمانوں کی، آج جہاں نظام حکومت کی ابتری نظر آتی ہے ،وہ سب اس قرآنی تعلیم کو نظر انداز کردینے کا نتیجہ ہے کہ تعلقات اور سفارشوں اور رشوتوں سے عہدے تقسیم کئے جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نااہل اور ناقابل لوگ عہدوں پر قابض ہو کر خلق خدا کو پریشان کرتے ہیں اور سارا نظام حکومت برباد ہوجاتا ہے۔

نااہل کو ذمہ داربنانا قیامت کی علامت

اسی لئے آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا

إِذَا ضُيِّعَتِ الأَمَانَةُ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ، قَالَ: كَيْفَ إِضَاعَتُهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: إِذَا أُسْنِدَ الأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ۔ (رواہ البخاری عن ابی ھریرۃ ،کتاب الرقاق ،باب رفع الامانۃ :۶۴۹۶)

یعنی جب دیکھو کہ کاموں کی ذمہ داری ایسے لوگوں کے سپرد کردی گئی جو اس کام کے اہل اور قابل نہیں تو (اب اس فساد کا کوئی علاج نہیں) قیامت کا انتظار کرو۔

خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے لفظ امانات بصیغہ جمع لا کر اس کی طرف اشارہ کردیا کہ امانت صرف اسی کا نام نہیں کہ ایک شخص کا مال کسی دوسرے شخص کے پاس بطور امانت رکھا ہو؛ بلکہ امانت کی بہت سی قسمیں ہیں جن میں حکومت کے عہدے بھی داخل ہیں۔۔(معارف القرآن،النساء:۲/۴۴۷)

عہدے مناسب امانت دار کو سپردکرنا چاہئے

اس آیت میں یہ بات خاص طور پر یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اس میں حق جل شانہ نے حکومت کے عہدوں کو بھی امانت قرار دے کر اول تو یہ واضح فرما دیا کہ جس طرح امانت صرف اسی کو ادا کرنا چاہئے جو اس کا مالک ہو، کسی فقیر، مسکین پر رحم کھا کر کسی کی امانت اس کو دینا جائز نہیں یا کسی رشتہ دار یا دوست کا حق ادا کرنے کے لئے کسی شخص کی امانت اس کو دے دینا درست نہیں۔

اسی طرح حکومت کے عہدے جن کے ساتھ عام خلق اللہ تعالیٰ کا کام متعلق ہوتا ہے یہ بھی امانتیں ہیں اور ان امانتوں کے مستحق صرف وہ لوگ ہیں جو اپنی صلاحیت کار اور قابلیت و استعداد کے اعتبار سے بھی اس عہدے کے لئے مناسب اور موجودہ لوگوں میں سب سے بہتر ہوں اور دیانت اور امانت کے اعتبار سے بھی سب میں بہتر ہوں، ان کے سوا کسی دوسرے کو یہ عہدہ سپرد کردیا تو یہ امانت ادا نہ ہوئی۔(معارف القرآن ۲/۴۴۹)

جس طرح حکومت کے مناصب امانت ہیں ،اسی طرح تمام غیرسرکاری ادارے ،تنظیمیں اوراوقافی املاک مدارس اورمساجد کی ذمہ دایوں کا بھی یہی حکم ہے ۔ابوفیضان

ملازمت کے اوقات امانت

مزدور، ملازم کو جو کام سپرد کیا گیا اس کے لئے جتنا وقت خرچ کرنا باہم طے ہوگیا، اس میں اس کام کو پورا کرنے کا حق ادا کرنا اور مزدوری ملازمت کے لئے جتنا وقت مقرر ہے ،اس کو اسی کام میں لگانا بھی امانت ہے ،کام کی چوری یا وقت کی چوری خیانت ہے۔ (معارف القرآن ،المؤمنون آیت:۸، ۶/۲۹۸)

ایک شخص نے کسی ادارہ میں ملازمت اختیارکرلی،معاہدہ میں آٹھ گھنٹے طے ہوئے ،ادارہ کی جانب سے طے شدہ وقت ادارہ کی امانت ہے ،ان آٹھ گھنٹوں کوادارہ ہی کے کام میں استعمال کرنا چاہئے ،اگرادارہ کے کام میں استعمال نہ کرے ،توخیانت ہے ۔(اسلام اورہماری زندگی ۸/۴۱)

مجلسیں امانتداری کے ساتھ ہونی چاہئیں

مجلس میں جو بات کہی جائے ،وہ اس مجلس کی امانت ہے، اہل مجلس کی اجازت کے بغیر مجلس کی باتوں کو دوسروں سے نقل کرنا اور پھیلانا جائز نہیں،رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا حَدَّثَ الرَّجُلُ الحَدِيثَ ثُمَّ التَفَتَ فَهِيَ أَمَانَةٌ۔(الترمذی ،ابواب البروالصلۃ:۱۹۵۹)

جب کوئی شخص کسی سے کوئی بات کہے ،پھروہ چلاجائے ،تووہ بات سننے والے کے نزدیک امانت ہے کہ وہ اس کی حفاظت کرے،کسی کے سامنے اس کی اجازت اورمرضی کے بغیر بیان نہ کرے،اگربیان کردے ،تو خیانت ہوگی ۔

راز کی بات امانت

مجلسیں امانت ہیں ،یعنی راز کی بات امانت ہے ، اس کا اظہارخیانت ہے ، مجلس میں کسی نے کوئی ضروری بات کہی ،قرائن یہ بتاتے ہیں ،بعض مرتبہ کہنے والابذات خود صراحت کرتاہے کہ ان باتوں کو کسی سے بیان نہ کرو ،کہنے والے نے حاضرین پر اعتماد کیا بھروسہ کیا کہ یہ اہل مجلس میرے قابل اعتبارلوگ ہیں، میرے رازدارہیں اوران باتوں کو ظاہرکرنے میں اس کا نقصان ہے ۔

اگراہل مجلس میں سے کسی نے ظاہرکردیا ،توممکن ہے اس کی باتوں کو ظاہرکرنے سے نقصان برداشت کرناپڑے ،نیز اس نے اہل مجلس کوقابل اعتبارگرداناتھا ،بھروسہ کیا ، اس کے دل میں آپ کا اعتبار اوربھروسہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے گا ،لہدا کسی نے کوئی راز کی بات کسی سے کہی ،وہ بھی اس کی امانت ہے، بغیر اذن شرعی کسی کا راز ظاہر کرنا امانت میں خیانت ہے۔

نیز زوجین کاتنہائی کی باتوں کو اپنےدوست یا سہلیوں کے سامنے ذکرکرنا ،اللہ کے نزدیک نہایت ناپسندیدہ ہے ،بعض حضرات دل لگی اورخوش طبعی کے نام پر زوجین کی تنہائی کی باتوں کا تذکرہ کرتے ہیں ،یہ عمل اللہ کے نزدیک نہایت ناپسندیدہ ہے ،اس سے اپنے آپ کو بچانا چاہئے کہ امانت داری کابھی تقاضا ہے اورحیا کا بھی ۔

قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مِنْ أَعْظَمِ الْأَمَانَةِ عِنْدَ اللهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، الرَّجُلَ يُفْضِي إِلَى امْرَأَتِهِ، وَتُفْضِي إِلَيْهِ، ثُمَّ يَنْشُرُ سِرَّهَا- (رواہ مسلم عن ابی سعید الخدری،کتاب النکاح ،باب تحریم افشاء سرالمرأۃ :۱۴۳۷)

شرعی اعذارکی بناپر مجلس کی باتیں ظاہرکی جاسکتی ہیں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

الْمَجَالِسُ بِالْأَمَانَةِ إِلَّا ثَلَاثَةَ مَجَالِسَ: سَفْكُ دَمٍ حَرَامٍ، أَوْ فَرْجٌ حَرَامٌ، أَوْ اقْتِطَاعُ مَالٍ بِغَيْرِ حَقٍّ ۔(رواہ ابوداؤد عن جابر،کتاب الآداب: ۴۸۶۹)

البتہ کسی نے ناحق خون کرنے ،بدکاری یا کسی کامال لوٹنے اورچوری کرنےکی بات کہی ہے ، تو جس کو نقصان پہنچانے کا ارداہ کیاگیا ،اس کو مطلع کردے ،تاکہ اس کی جان ،مال اورعصمت کی حفاظت ہوسکے ،اوراس کو نقصان سے بچایاجاسکے ،شرعی اعذارکی بناپر مجلس کی باتیں ظاہرکی جاسکتی ہیں ۔

صاحب مشورہ امین ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
الْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمَنٌ۔(رواہ داؤدعن ابی ھریرۃ،کتاب الآداب:۵۱۲۸)

یعنی جس شخص سے کوئی مشورہ لیا جائے ،وہ امین ہے، اس پر لازم ہے کہ وہی مشورہ دے جو اس کے نزدیک مشورہ لینے والے کے حق میں مفید اور بہتر ہو، اگر جانتے ہوئے اس کی مصلحت کے خلاف مشورہ دیا،تو امانت میں خیانت کا مرتکب ہوگیا۔

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ أَشَارَ عَلَى أَخِيهِ، وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّ غَيْرَهُ أَرْشَدُ، فَقَدْ خَانَهُ۔(مکارم الاخلاق للخرائطی:۷۸۲)

خلاصہ کلام

ان اللّٰهَ يَامُرُكُمۡ اَن تُؤَدُّوا الۡاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَهۡلِهَا ۙ وَاِذَا حَكَمۡتُمۡ بَيۡنَ النَّاسِ اَنۡ تَحۡكُمُوۡا بِالۡعَدۡلِ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمۡ بِهٖ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِيۡعًۢا بَصِيۡرًا‏ ۞ (النساء:۵۸) ،
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ ( الانفال:۲۷)
والَّذِيْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رٰعُوْنَ (المؤمنون:۸،المعارج:۳۲)

حضر ت مفتی شفیع عثمانی تحریرماتے ہیں:امانت کی بے شمارقسمیں ہیں، اسی لئے لفظ امانت کو مصدرہونےکے باوجود(قرآن پاک میں کئی مقامات پر) جمع کےصیغہ کے ساتھ لایا گیا ہے تاکہ امانت کی سب قسموں کو شامل ہوجائے خواہ وہ حقوق اللہ سے متعلق ہوں یا حقوق العباد سے، حقوق اللہ ۔(معارف القرآن ،المؤمنون آیت: ۶/۲۹۸)

زندگی کا کوئی گوشہ ایسانہیں جس میں امانت کا حکم نہ ہو

قرآن حکیم نے لفظ امانت بصیغہ جمع استعمال فرمایا جس میں اشارہ ہے کہ اما نت صرف یہی نہیں کہ کسی کا کوئی مال کسی کے پاس رکھا ہو جس کو عام طور پر امانت کہا اور سمجھا جاتا ہے؛ بلکہ امانت کی کچھ اور قسمیں بھی ہیں جو واقعہ آیت کے نزول کا ابھی ذکر کیا گیا خود اس میں بھی کوئی مالی امانت نہیں، بیت اللہ کی کنجی کوئی خاص مال نہ تھا؛ بلکہ یہ کنجی خدمت بیت اللہ کے ایک عہدہ کی نشانی تھی۔(معارف القرآن ۲/۴۴۶)

حضرت مولانا مفتی تقی عثمانیؒ لکھتے ہیں :غرض یہ ہے کہ امانت میں خیانت کے مصداق اتنے ہیں کہ شاید زندگی کا کوئی گوشہ ایسانہیں ہے جس میں ہمیں ا مانت کا حکم نہ ہواورخیانت سے ہمیں روکا نہ گیا ۔ (اسلام اورہماری زندگی ۸؍ ۵۰)معلوم ہواکہ امانت کا مفہوم نہایت وسیع اور زندگی کے تمام شعبوں وگوشوں کو محیط ہے ۔

قابل احترام بزرگو بندہ ناچیزنے امانت سے متعلق چند مذکورہ اسلامی تعلیمات وہدایات ،تاکیدا ت اورخیانت پر سخت قسم کی وعیدیں جمع کی ہیں ،ان کو اپنانے میں ہماری دنیا وآخرت کی بھلائی اورنجات ہے ،دعافرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اولاً ان سطورکو جمع کرنے والے کو اورثانیًاتمام امت مسلمہ کو زندگی کے ہرشعبہ میں امانت کا پاس ولحاظ کرنے کی توفیق نصیب فرمائے ،خیانت سے حفاظت فرمائے ۔ آمین یارب العالمین ۔محتاج دعا: عبداللطیف قاسمی ،جامعہ غیث الہدی بنگلور یکم ذی الحجہ ۱۴۴۱؁ مطابق ۲۳/جولائی ۲۰۲۰؁ء

قابل قدرقارئین کرام فیضان قاسمی خالص اصلاحی ،علمی اورتحقیقی ویب سائٹ ہے ،اس کا مطالعہ کریں دوست واحباب کو شیئرکریں اور اشاعت دین میں حصہ داربنیں ۔http://dg4.7b7.mywebsitetransfer.com