باجماعت نمازکے لئے عورتوں کا مسجد جانا

حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عورتیں مسجد نبوی میں نما ز کے لیے جاتی تھیں،واضح رہے کہ وہ زمانہ خیرالقرون کاتھا ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ ولم بنفس نفیس موجود تھے ،وحی کا نزول ہوتاتھا ،اسلامی احکام نازل ہورہے تھے اورعورتوں کے لیے علم دین اور شریعت کے احکام کوسیکھنا ضروری تھا،اس وقت بھی انہیں یہی حکم تھا کہ عمد ہ لباس ،زیوارت اورخوشبو لگاکرنہ آئیں ،چادرخوب لپیٹ کرآئیں ،نماز سے فراغت کے بعد فورًا واپس بھی ہوجائیں، ان پابندیوں کے ساتھ عورتوں کو مسجدآنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع نہیں فرمایا؛لیکن پسند بھی نہیں فرمایاہے ،جس کی دلیل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو ترغیب دی کہ عورتوں کا گھر میں ،گھرمیں بھی اندرونی کمرے میں نماز پڑھنا مسجد نبوی میں نماز پڑھنے سے افضل ہے ۔

حضر ت ام سلمة فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

یرمساجد النساءقعربیتوھن۔(رواہ احمد :۲۶۵۴۲وابن خزیمة ،والحاکم والبیھقی فی سننہ)

عورتوں کے لیے بہترین مسجد ان کے گھروں کا اندرونی حصہ ہے ۔

حضرت عبداللہ بن مسعودفرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

صلوة المرأة فی بیتھاافضل من صلاتھا فی حجرتھا ،وصلاتھا فی مخدعھا افصل من صلاتھا فی بیتھا۔(ابوداؤد،کتاب الصلوة باب ماجاءفی خروج النساءالی المسجد:۵۷۰)

ام حمیدؓ کی روایت

اندرونی ہال میں عورت کا نمازپڑھنا گھرکے صحن میں نماز پڑھنے سے افضل ہے ،اندرونی کمرے میں عورت کانماز پڑھنا گھرکے ہال میں نماز پڑھنے سے افضل ہے ۔

حضرت ام حمید فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشادفرمایا: میں جانتاہوں کہ تم میرے ساتھ نمازپڑھناپسند کرتی ہو؛مگر تمہاری وہ نمازجوگھر کی اندورنی کمرے میں ہو ،وہ بیرونی کمرے کی نماز سے بہترہے ،بیرونی کمرے کی نمازگھرکے صحن کے نماز سے بہترہے ،گھرکے صحن کی نمازمحلہ کی مسجد کی نماز سے بہترہے اورمحلہ کی مسجد کی نماز میری مسجد کی نماز سے بہترہے ،چنانچہ ام حمید نے اپنے گھروالوں سے کہا: ا ن کے لیے گھرکے ایک اندرونی کمرے میں جونہایت تاریک ہو نماز کی جگہ بنائی جائے ،چنانچہ ان کی خواہش کی موافق نماز کی جگہ تیارکی گئی اسی تاریک اوراندرونی کمرے میں نماز پڑھتی رہیں؛ یہاں تک وہ اللہ سے جاملیں۔(مسنداحمد:۲۷۰۹۰،وابن خزیمة وابن حبان)

ان تمام روایات سے معلوم ہوتاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عورتوں کا جماعت کی نماز کے لیے حاضرہونا محض اباحت ،رخصت اوراجازت کی بناپرتھا،تاکید ،فضیلت ،سنت یااستحباب کی وجہ سے نہیں تھا،اس رخصت اوراباحت سے عورتوں کو فائدہ اٹھانے کا پوراحق تھا ،اس وجہ سے جوخاوند اپنی عورتوں کو مسجد جانے سے روکتے تھے،آپ انہیں منع فرماتے ؛تاکہ ان کاحق زائل نہ ہو ، اس رخصت ،اباحت اورخاوند پرنکیر کے باجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو اپنے گھروں میں نماز پڑھنے کی ترغیب دیتے اورفضیلت بیان فرماتے تھے۔

کس قدرافسوس اورحیرت ہے ان لوگوں کے حال پرجوعورتوں کو مسجد میں بلاتے اورجماعت کی نماز میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں،غضب یہ ہے کہ عورتوں کے مسجدجانے کو سنت بتاتے ہیں اوراپنے فعل کو احیائے سنت سمجھتے ہیں۔

خوف فتنہ اورفسادزمانہ کی بناپر عورتوں کا مسجد جانا مکروہ

رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے وصال، اسلامی احکام کی تکمیل اورتعلیم کا مقصد پوراہوگیا،فتنوں کا دورشروع ہوا، حضرت عائشہ ؓنے فرمایا

لوادرک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مااحدث النساءلمنعھن المسجد کمامنعت نساءبنی اسرائیل ۔(بخاری:۸۶۹مسلم )

اگرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ حالت دیکھتے جوعورتوں نے پیداکردی ہے ،توعورتوں کو مسجد میں آنے سے منع فرمادیتے ۔
ان وجوہات کی بناپر فقہائے کرام نے فتوی دیاکہ عورتوں کو پنچ وقتہ نمازوں کے لیے مسجد جانامکروہ ہے ۔

حرمین شریفین میں عورتوں کی حاضری

عورتوں کا جمعہ ،عیدین اورپنج وقتہ نمازوں کے لیے مسجدجانا فی نفسہ جائز ہے ،حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عورتیں مسجدنبوی میں عیدین اورپنج وقتہ نماز وں کے لیے حاضرہوتی تھیں ،مدینہ منورہ میں مسجدنبوی کے علاوہ نومسجدیں اوربھی تھیں؛مگرعورتیں صرف مسجد نبوی میں آتی تھیں،دیگرمساجد میں شاذ ونادرہی جاتی تھیں۔

ماصلت امرآة خیرلھامن قعربیتھاالاان یکون المسجدالحرام اومسجدالنبی صلی اللہ علیہ وسلم الاامرآة تخرج فی منقلیھا یعنی خفیھا۔(رواہ الطبرانی فی الکبیر مجمع الزوائد:۲۱۱۳،اعلاءالسنن ۲۴۴/۴)

کسی عورت کے لیے اپنے گھرکے اندورنی کمرے سے بہتر جگہ نمازکے لیے نہیں ہے ،الاکہ مسجدحرام ہو یا مسجدرسول اللہ ہو، الاکہ کوئی نہایت بوڑھی عورت ہو ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عورتیں تین مقاصد کے لیے مسجد آتی تھیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ،مسجد نبوی کی برکت اوردین وشریعت کے حاصل کرنے کے لیے حاضرہوتی تھی ،مسجد حرام میں طواف اور مسجد اورجگہ کی برکت حاصل کرنے کے لیے حاضرہوتی تھیں۔

دین کامل ومکمل ہوچکاہے ،اب دین وشریعت کا علم حاصل کرنے کے لیے مسجد کے علاوہ بھی دیگرذرائع موجود ہیں ، حرمین میں عورتوں کی حاضری کے بقیہ مقاصد اب بھی موجود ہیں،لہذا حرمین شریفین عورتوں جاسکتی ہیں ؛بلکہ جاناچاہئے کہ اس طرح کے قیمتی اوقات بہت کم نصیب ہوتے ہیں،لہذاحرمین شریفین کا حکم عام مساجد کے حکم سے مختلف ہوگا ۔(مستفاداز تحفة الالمعی۴۱۶/۲)

ایک ضروری وضاحت اورضرورت

عورتوں کا فی نفسہ مسجد جاناجائزہے ؛بلکہ فرض نماز کی ادائیگی کی ضرورت ہو اور کوئی مناسب جگہ میسرنہ ہو،تو مسجد جاکر کسی کونے میں نماز اداکرنی چاہئے ،عورتیں حالت سفر یا کسی ضرورت کے پیش نظر عوامی مقامات ایرپورٹ،ریلو ے اسٹیشن،بس اسٹیشن اورکاروباری علاقوں میں ہوںاور نماز کا وقت ہوجائے ،مرد حضرات مساجدمیں یا مصلوں میںوقت پرنماز اداکرلیتے ہیں ؛لیکن عورتیں نماز قضاکردیتی ہیں ،محض اس وجہ سے کہ مسجدیامصلووں عورتیں کے لیے جانا جائز نہیں ہے ؛حالانکہ بلاضرورت شدیدہ عمدًا نماز کی قضا ءکرنے کے شریعت میں کی بالکل گنجائش نہیں ہے ۔

لہذا عوامی مقامات ایرپورٹ،ریلو ے اسٹیشن،بس اسٹیشن اورکاروباری علاقوں میں مصلی النساءیامساجد میں عورتوں کے لیے مخصوص دروازہ ،وضوخانہ اورالگ کمرے کا انتظام نہ ہو،تو ان کی نمازیں قضاہوجائیں گی ،لہذاعوامی مقامات اورمسجد طریق میں عورتوں کے لیے نما ز کا انتظام ہونا چاہئے ،اگرمستقل مصلی النساءنہ ہو،تو عورتیں مسجد ہی میں کسی کنارے اپنی نماز اداکرلیں ،قضاہرگز نہ کریں ۔