ایک سے زیادہ بیویاں ہوں،توان سب کے درمیان عدل وانصاف اورمساوات وبرابری کا برتاؤ کرنا ضروری ہے ۔
اسلام سے پہلے بھی ایک مردکے لئے متعددبیبیاں رکھنادنیاکے تمام مذاہب میں جائزسمجھاجاتاتھا ،عرب ،ہندوستان ،ایران مصروغیرہ ممالک کی ہرقوم میں تعددازواج کارواج بغیرکسی تحدیدکے رائج تھا، کسی بھی مذہب میں تعددِازواج میں تحدیدنہیں تھی ،قرآن نے عام معاشرے کے اس ظلم عظیم پرروک لگاکرصرف چارتک کی اجازت دی اورایک سے زائدبیویاں نکاح میں ہونے کی صورت میں عدل ومساوات کا تاکیدی حکم دیا اوراس کی خلاف ورزی کی صورت میں وعیدشدیدسنائی ہے۔
اسلام نے ایک سے زایدنکاح کی اجازت دی ہے، ترغیب نہیں
خلاصہءکلام یہ ہے کہ اسلام نے بھی بعض حالات مثلا بیوی بانجھ یا دائم المرض ہے ،یابیوہ عورتوں کی کفالت ودست گیری مقصودہو یاکسی اور وجہ سے شوہرایک سے زایدنکاح کرنا چاہے، تو اس کے لئے اجازت ہے؛ البتہ مندرجہ ذیل باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے
الف:اسلام نے ایک سے زایدنکاح کی اجازت دی ہے، ترغیب نہیں ،جائز قراردیاہے نہ کہ مستحب ،اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانےمیں غزوات کی وجہ سے بیواؤ ں اوریتیمو ں کی کثرت کی بناپرصحابہ کی بڑی تعدادایک سے زیادہ بیویاں رکھتی تھی ؛لیکن فقہاءاسلام نے اس بات کو بہترقراردیاہے کہ ایک ہی بیوی پراکتفاءکیاجائے ۔
چنانچہ علامہ برہان الدین مرغینانی ؒ فرماتے ہیں
کسی شخص کی ایک بیوی ہواورشوہراس کی موجودگی میں دوسرانکاح کرناچاہے ،اگراس کواندیشہ ہوکہ دونوں کے درمیان عدل نہیں کرسکے گا، تو اس کے لئے نکاح کرنا جائزنہیں اوراگریقین ہوکہ وہ ان کے درمیان عدل کرسکے گا ،تو اس کے لئے دوسرانکاح کرنے کی گنجائش ہے ؛البتہ اس صورت میں بھی نکاح نہ کرے، تووہ اجرکا مستحق ہوگا، اس لئے کہ وہ اپنی بیوی کو رنج وغم اورذہنی پریشانی پہنچانے سے با زرہا ۔
نیزکوئی عورت کسی ایسے مرد سے نکاح کرنا چاہتی ہو جس کے نکاح میں پہلے سے کوئی عورت ہے ،تواس عورت کا اس مرد سے نکاح کرنا جائز ہے ،اگروہ عورت اس مرد کی پہلی بیوی کا لحاظ کرتے ہوئے اس مرد سے نکاح نہ کرے، تو وہ اجرکی مستحق ہوگی۔(مسلم پرسنل لااوربعض غلط فہمیاں:۳۰بحوالہ مختارات النوازل )
ب:ایک سے زایدنکاح کی اجازت عدل کی شرط پردی گئی ہے ،یعنی جوشخص ایک سے زیادہ بیویوں کے درمیان حقوق کی ادائیگی اورسلوک وبرتاؤ میں برابری کرنے کی صلاحیت رکھتاہو،اسی کے لئے اجازت ہے ۔
عدل قائم کرنادشوارہو تو ایک ہی عورت سے نکاح
اللہ تعالیٰ کا ارشادہے
فان خفتم الاتعدلوافواحدة ۔(النساء:۳)
/اگراندیشہ ہوکہ عدل نہیں کرسکوگے ،توپھرایک ہی بیوی پراکتفاءکرو۔
جوشخص بیویوں کے درمیان عدل نہ کرے، اس کے لئے بڑی وعیدآئی ہے،لہذاابیویوں کے درمیان عدل وانصاف،کرناچاہئے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
اذاکانت عندالرجل امرأتان ،فلم یعدل بینھما جاءیوم القیامة، وشقہ ساقط۔(رواہ الحاکم فی المستدرک عن ابی ھریرة کتاب النکاح۲۰۳/۲ ،۲۷۵۹)
اگرکسی آدمی کے پاس دوبیویاں ہوں اوران کے درمیان عدل نہ کرے، تووہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ ایک پہلو جھکاہوا(مفلوج )ہوگا ۔
ایک وقت میں چارسے زیادہ بیویوں سے نکاح کی گنجائش نہیں ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشادہے
فانکحواماطاب لکم من النساءمثنی، وثلاث، ورباع (النساء: ۳)
جوعورتیں تمہیں پسندہوں،ان میں سے دودو،تین تین،چارچارسے نکاح کرسکتے ہو،اگراندیشہ ہوکہ عدل نہیں کرسکوگے، توپھرایک ہی پراکتفاءکرو۔ابوفیضان عبداللطیف قاسمی