مسئلہ(۱) بلا عذر بیٹھ کرنماز نفل رکوع وسجدے کے ساتھ پڑھنا بلاکراہت درست ہے ؛البتہ کھڑے ہوکر پڑھنے سے جتناثواب ملتاہے ،اس کا آدھا ثواب ملے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
مَنْ صَلَّى قَاعِدًا، فَلَهُ نِصْفُ أَجْرِ القَائِمِ ۔ (رواہ البخاری، باب صلوة القاعد۱۵۰/۱،۱۱۱۵)
جوآدمی بیٹھ کرنماز پڑھے ،اس کو کھڑے ہوکر پڑھنے والے کی بنسبت آدھااجرملے گا ۔
فتاوی ہندیہ میں ہے
یجوز ان یتنفل القادر علی القیام قاعدا بلاکرھة فی الاصح ۔(الہندیہ ،الباب الرابع فی النوافل۱۱۴/۱)
قیام پر قدرت رکھنے والا بیٹھ کر بلاکراہت نفل نمازپڑھ سکتاہے ۔
مسئلہ(۲) فرض اورواجب کے لیے قیام فر ض اوررکن ہے ،معمولی اعذا ر کی وجہ سے ساقط نہیں ہوتا ۔
وقومواللّٰہ قانتین ای مطیعین، والمراد بہ القیام فی الصلوة باجماع المفسرین فی الفرض،وماھو ملحق بہ، واتفقوا علی رکنیتہ۔( البحرالرائق ،صفة الصلوة۵۰۹/۱)
اللہ کے لیے کھڑے ہوجاؤ یعنی اطاعت کرتے ہوئے،تمام مفسرین کرام کا اجماع ہے کہ اس سے فرض اورفرض سے ملحق نمازوں میں قیام مرادہے ۔
بیٹھ کر نماز پڑھنے سے متعلق مسائل
علامہ حصکفی ؒتحریر فرماتے ہیں
من تعذر علیہ القیام ای کلہ لمرض حقیقی وحدہ ،او ان یلحقہ بالقیام ضرر، بہ یفتی ،قبلھا او فیھا اوحکمی بان خاف زیادتہ ،او بطابرأہ بقیامہ ،او دوران رأسہ ،ا¿ووجد لقیامہ الما شدیدا ،او لو کان لو صلی قائما سلس بولہ ،او تعذر علیہ الصوم،صلی قاعدا ۔(الدر المختار مع رد المحتار ۵۶۴/۲)
قال ابن عابدین : قولہ لمر ض حقیقی قال فی البحر : اراد بالتعذ رالحقیقی بحیث لو قام سقط ۔۔۔خاف ای غلب علی ظنہ بتجربة سابقة ،اواخبار طبیب حاذق ۔۔۔قولہ اووجدلقیامہ الماشدیدا،وھذاداخل فی افراد الضرر المذکور۔(ردالمحتار ۵۶۴/۲)
الف:جو شخص شدیدمرض کی وجہ سے تھوڑی دیر بھی کھڑے ہونے کی طاقت نہیں رکھتا ،اگر چہ سہارے کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو ۔
ب:تکلیف ومشقت کے ساتھ کھڑا ہوسکتاہے ؛لیکن مرض میں زیادتی ہوگی۔
ج: تکلیف ومشقت کے ساتھ کھڑا ہوسکتاہے؛ لیکن مرض کا علاج جلد ممکن نہ ہوگا ۔
د:تھوڑی بہت دیر کھڑا ہوسکتاہے ؛لیکن دورانِ سر (چکر) پیش آسکتاہے ،یا عموماً آتاہے ۔
ہ:جس شخص کو کسی مسلم ماہر تجربہ کا رڈاکٹر نے کھڑ ے ہوکر نمازپڑھنے سے منع کردیاہو ۔
ح: کھڑے نماز پڑھنے روزہ کو مکمل کرنادشوارہوجاتاہو۔
و: دیوار یا کسی بھی چیزکے سہارے سے بھی کھڑے ہونے میں بہت سخت دشواری محسوس کرتاہو۔
ز:کھڑ ے ہوکر نماز پڑھنے سے پیشاب کے قطرات گرتے ہوں۔
بیٹھ کرنماز پڑھنے والوں کوچاہئے کہ آسانی وسہولت ہو،تو تشہدہی کی حالت میں بیٹھیں
مسئلہ(۳) بیٹھ کرنماز پڑھنے والوں کوچاہئے کہ اگرآسانی وسہولت ہو،تو تشہدہی کی حالت میں بیٹھیں ،بلاوجہ اس حالت کو ترک نہیں کرنا چاہئے ،اگرتشہد کی حالت میں بیٹھنے میں تکلیف ہوتی ہو،تو جس طریقے اورجس حالت میں سہولت وآسانی ہو، اس طریقے سے زمین پربیٹھ کر نماز پڑھیں ،مثلًا چار زانو ،بایاں پیر نکال کر داہنا پیر کھڑاکرنا ،یا اس کا بر عکس۔
علامہ ظفر احمدتھانوی فرماتے ہیں: اس طرح کے لوگوں سے قیام ساقط ہوجاتاہے جو اس طرح معذور نہ ہو ں،اگر وہ بیٹھ کرنماز فرض پڑھیں گے ،تو قیام جورکن اورفرض ہے اس کو ترک کرنے کی وجہ سے ان کی نماز نہیں ہوگی ۔
علامہ ظفر احمدتھانوی فرماتے ہیں
اذاعلمت ذالک فالراجع عندنا ظاھرالروایة عن الامام ان المتطوع جالسایجلس کاالمتشھد مفترشا لکونہ سنة الصلاة ،فلاتترک بلاعذر،المریض یجلس کیف شاء،ای کیفما تیسر لہ ،وان تعذ رعلی الجلوس کا لمتشھد ،فھواولی ،والامر واسع ۔(اعلاءالسنن ۲۰۳/۷، البدائع۲۸۶/۱ ،البحرالرائق ۱۹۹/۲)
تنہانماز پڑھتاہے، تو قیام کرسکتاہے ، جماعت کے ساتھ پڑھے، تو قیام نہیں کرسکتا
مسئلہ(۴) کوئی شخص تنہا بلاجماعت نماز پڑھتاہے، تو قیام کرسکتاہے ،اگر جماعت کے ساتھ پڑھے، تو قیام نہیں کرسکتا، ایسے شخص کے بارے میں فقہاءکا اختلاف ہے ،مفتی بہ قول یہ ہے کہ تنہا نماز پڑھ لے ،اس لیے کہ قیام فرض ہے ،جماعت سنت ہے ،فرض کو سنت کی وجہ سے ترک کرنا درست نہیں ،نیز جماعت کی نما ز میں قیام کا دشوار ہونا، اس مریض کے لیے ترکِ جماعت کے لیے عذ ر ہوگا ۔
علا مہ ابن نجیم مصری لکھتے ہیں
لو کان بحال لو صلی منفرد ا یقدرعلی القیام، ولو صلی مع الاما م لایقدر،فانہ یخرج الی الجماعة ،ویصلی قاعد ا ،وھو الاصح ،کما فی المجتبی ،لانہ عاجز عن القیام حالة الاداءالمعتبرة ،وصحح فی الخلاصة انہ یصلی فی بیتہ قائما ،قال وبہ یفتی ۔۔۔والاشبہ ماصححہ فی الخلاصة لان القیام فرض ،فلایجوز ترکہ لاجل الجماعة التی ھی سنة بل یعد عذ را فی ترکھا۔ (البحر الرائق ۵۰۹/۱، ا لفتاوی الرحیمیة ۵۶/۳)
مسئلہ(۵)اگر کوئی شخص زیادہ دیر قیام نہیں کرسکتا ؛البتہ تھوڑی دیر قیام کرسکتاہے ،ایسے شخص کے لیے ضرو ری ہے کہ نماز کھڑے ہوکر شروع کرے ،جب مشقت وتکلیف محسوس ہو ،تو زمین پربیٹھ جائے ،اگر شروع ہی سے بیٹھ گیا ،تو فرض وواجب نماز صحیح نہیں ہوگی ۔
علامہ ابن عابدین شامیؒ تحریر فرماتے ہیں
ان قدر علی بعض القیام ،ولو کان متکاعلی عصا،اوحائط ،قام، لزوما بقدر مایقدر،ولو قد رآیة او تکبیرةعلی المذ ھب لان البعض معتبر بالکل ،فی ردالمحتار :فی شرح ا لحلوانی نقلًا عن الھندوانی :لو قدر علی بعض القیام دون تمامہ ،او کان یقدر علی القیام لبعض القراءةدون تمامھا ،یومر بان یکبر قائما ،ویقراماقدر،ثم یقعد ان عجز ،وھو المذھب الصحیح لا یروی خلافہ عن اصحابنا ،ولو ترک ھذا، خفت ان لا تجوز صلوتہ ۔(ردالمحتار۵۶۷/۲،الہندیہ ۱۳۶/۱)
جو شخص قیام پر قادرہواور رکو ع وسجدے پر قادرنہ ہو
مسئلہ(۶) جو شخص قیام پر قادرہواور رکو ع وسجدے پر قادرنہ ہو؛البتہ زمین پر بیٹھنے پر قادرہو، ایسے شخص کے لیے کھڑے ہوکررکوع وسجدے کے اشارے سے نماز پڑھنا بھی جائز ہے اور زمین پربیٹھ کر رکوع وسجدے کے اشارہ سے نماز پڑھنا بھی جائز ہے ؛لیکن دوسری صورت افضل ہے ۔
علامہ کاسانی ؒ فرماتے ہیں
ان کان قادرا علی القیام دون الرکوع، والسجود ،یصلی قاعدا بالایماء،وان صلی قائما بالایماءاجزأہ ،ولایستحب۔ (بدائع الصنائع ۲۸۶/۱)
جوشخص سادہ فرش پر بیٹھ نہیں سکتا
مسئلہ(۷) اگر کوئی شخص سادہ فرش پر بیٹھ نہیں سکتا؛البتہ گدا ،تکیہ وغیرہ کے سہارے سے بیٹھ سکتاہے ،یا جانب ِقبلہ پیر پھیلاکرکے بیٹھ سکتاہے، تو سہارا لے کر جانب ِقبلہ پیر پھیلاکر بیٹھنا لا زم ہے ، اس کی طاقت ہوتے ہوئے لیٹ کر، یاکرسی پر سے فرض نماز پڑھنا جائز نہیں ۔
عن مجزة بن زاھر عن اھبان بن اوس من اصحاب الشجرة ،وکان اشتکی رکبتیہ ،فکان اذا سجد جعل تحت رکبتیہ وسادة ۔(اخرجہ البخاری، کتاب المغازی ،غزوة الحدیبیة ۶۰/۲)
قلت (ظفر احمد التھانوی )فیہ دلالة علی مثل مادل علیہ الحدیث السابق انہ اذا لم یقدر علی السجودلا بجعل الوسادة ،او القطن تحت رکبتیہ ،ونحوہ لزمہ ذالک تجشم ذالک ۔(اعلاءالسنن ۲۰۵/۷)فی شرح القاضی :فان عجز عن القیا م مستویا ،قالوا یقوم متکا ،لا یجزیہ لا ذالک ،وکذا لو عجزعن القعود مستویا قالوا :یقعد متکا لایجزیہ الا ذالک۔(ردالمحتار ۵۶۷/۲،ہندیہ ۱۳۶/۱)
نیز دار قطنی کی روایت میں اشارے کی اجازت بیٹھنے پرقدرت نہ ہونے کی شرط کے ساتھ مقید ہے ۔
فان لم یستطع،صلی قاعدا، فان لم یستطع ان یسجد اوما۔(رواہ الدارقطنی باب صلوة المریض من رعف فی صلوتہ۳۱/۲)
کوئی شخص بیٹھنے پرقادرہو؛ البتہ زمین پر سجدہ کرنہیں سکتا
مسئلہ(۸) اگرکوئی شخص بیٹھنے پرقادرہو؛ البتہ زمین پر سجدہ کرنہیں سکتا، اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے سامنے کوئی سخت چیز پتھر، تختہ وغیرہ دواینٹ(ایک فٹ) کے بقدر کسی چیز کو زمین پررکھے ،اس پر سجدہ کرے ،اس طرح کسی چیز پرسجدہ کرسکتاہو،تو بھی سجدہ کے اشارے سے نفل نماز جائز نہیں ہے ،چہ جائے کہ فرض میں جائز ہو۔
علامہ ابن عابدین شامی فرماتے ہیں
انما لزمہ الاستقبال لانھا (السفینة )کالبیت حتی لایتطوع فیھا مومیا مع القدرة علی الرکوع والسجود بخلاف راکب الدبة (ردالمحتار ۵۷۳/۲) ان کان الموضوع ممایصح السجودعلیہ کحجرمثلًا،ولم یزد ارتفاعہ علی قدرلبنة اولبنتین ،فھو سجود حقیقی۔۔۔بل یظھر لی انہ لو کان قادرا علی وضع شیءعلی الارض مما یصح السجود علیہ انہ یلزمہ ذالک لانہ قادر علی الرکوع والسجود حقیقة ،ولا یصح الایماءبھما مع القدرة علیھما بل شرطہ تعذرھما۔ (ردالمحتار۵۶۹/۲)
وقال فی منحة االخالق علی البحر الرائق:ثم رأیت القھستانی قال:بعد قولہ ولایرفع الی وجھہ شیءیسجد علیہ ،فیہ اشارة الی انہ لوسجد علی شیءمرفوع موضوع علی الارض لم یکرہ ۔( منحة االخالق علی البحر الرائق۲۰۰/۲)لورفع المریض شیئا یسجد علیہ ولم یقدرعلی الارض لم یجز الاان یخفض برأسہ لسجودہ اکثرمن رکوعہ ،ثم یلزق بجبینہ ،فیجوز لانہ لماعجز عن السجود وجب علیہ الایماء،والسجود علی الشیءالمرفوع لیس بالایماءالاحرک رأسہ ،فیجوز لوجودالایماءلالوجود السجود علی ذالک الشیء۔(البحرالرائق ۲۰۰/۲)
نیز اپنے ہاتھ میں کوئی چیز اٹھاکراس پر سجدہ کرنا درست نہیں ہے۔
مندرجہ بالامضمون کی پہلی قسط:نمازبیمارلوگوں کی یعنی شریعت میں بیمارلوگوں کی سہولیات کا بیان مطالعہ کرنے کے لیے مذکورہ عنوان پر کلک کریں ۔