تکبیر کی عظمت اوراہمیت

تکبیر کی عظمت اوراہمیت-افادات : فضیلۃ الشیخ : عبدالمحسن القاسم ادم اللہ فیوضہ امام وخطیب مسجد ِ نبوی علی صاحبھا الصلوۃ والتسلیم ،ترجمہ: عبداللطیف قاسمی ،جامعہ غیث الہدی ،بنگلور

قارئین کرام ! بروز جمعہ ۱۲؍ ربیع الثانی ۱۴۴۵؁ھ مطابق ۲۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳؁ء کو مسجد نبوی شریف کے فاضل امام وخطیب شیخ عبدالمحسن القاسم مدظلہ نے تکبیر ’’اللہ اکبر‘‘کی عظمت واہمیت پر جمعہ کا خطبہ دیا ،موضوع نہایت انوکھا ،چشم کشااورمعلومات افزاءتھا ، احقرکو بہت پسندآیا کہ امام موصوف نے بہت خوب صورت اسلوب میں تکبیر ’’اللہ اکبر‘‘کی اہمیت ،عظمت اورتکبیر کے مقامات کو خوب تلاش وجستجو کے ساتھ جمع کردیا ہے ۔

احقرکو خیال ہوا کہ مذکورہ خطبہء جمعہ کو اردوزبان میں منتقل کیاجائے ؛تاکہ تکبیر ’’اللہ اکبر‘‘کا خوب اہتمام کیاجاسکے ، مسلم معاشرے میں اس کی اہمیت وعظمت کو اجاگرکیاجائے اوراس کو خوب کاعام کیا جائے ،اس لیے احقر نے جلی اورذیلی عناوین قائم کئے ،امام موصوف نے اجمالی حوالجات کو پیش کیا تھا ،احقر نے تفصیلی حوالحات کا اضافہ کیا اورخطبہء جمعہ کے لازمی ودعائیہ کلمات کو حذف کرنے کے بعد اردوزبان میں اس کاترجمہ کیا ،اللہ تعالیٰ اولًا مترجم کوثانیًا پوری امت مسلمہ کو تکبیر کا اہتمام کرنے اوراس کور خوب رائج کر نےکی توفیق نصیب فرمائے،اس پاک کلمہ کی برکات سے مالامال فرمائے ۔آمین یارب العلمین

إنَّ الحمدَ لله، نحمده ونستعينه ونستغفره، ونعوذُ بالله من شرورِ أنفسِنا ومن سيئاتِ أعمالِنا، مَنْ يهدِه اللهُ فلا مضلَّ له، ومَنْ يُضلِلْ فلا هاديَ له، وأشهدُ ألَّا إلهَ إلَّا اللهُ وحدَه لا شريكَ له، وأشهدُ أنَّ محمدًا عبدُه ورسولُه، صلى الله عليه وعلى آله وأصحابه وسلَّم تسليمًا كثيرًا.أما بعدُ:

اللہ کے اسماء وصفات کے علم سے عبدیت پیداہوتی ہے

انتہائی عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کرنے سے بندگی کی حقیقت پیدا ہوتی ہے ، اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کا علم سب سے اعلیٰ وافضل علم ہے،یہ وہ علم ہے جس پر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی عبادت کا دارومدار ہے اور روحوں کی سب سے بڑی ضرورت اپنے خالق اور مالک کی معرفت حاصل کرناہے۔

جس قدر بندہ خدائے بزرگ و برتر کے اسماء و صفات کو جانتا ہے، اسی کے بقدر اللہ سے انس ، محبت، اس کی تعظیم و تکریم میں اس کا حصہ ہوتاہے ، اللہ کے اسماء وصفات کےعلم میں جوں جوں اضافہ ہوتارہتاہے ،اسی کے بقدراس کے ایمان ویقین میں اضافہ ہوتارہتاہے ، جب بندے کے دل میں خدا کے ناموں اور صفات کا علم بڑھتاہے،تو اس کا ایمان بھی بڑھتا ہے اور اس کا یقین پختہ ہوتارہتاہے۔

اللہ تعالیٰ کے تمام اسماء اچھے ہیں

اللہ تعالیٰ کے تمام اسماء اچھے ہیں،اس لیے کہ وہ کمال وجمال پر دلالت کرتے ہیں،اللہ کے اسمائے حسنی ٰمیں ایک نام ’’الکبیر‘‘ہے ،یعنی بڑا ،عظمت والا ،اللہ تعالیٰ اپنی ذات ،صفات اورافعال میں عظمت والے ہیں،جس شخص کو اس بات کا یقین حاصل ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر برترہیں اورعظمت والے ہیں ،تووہ شخص صرف اسی کی عبادت کرے گا ،(اس لیے کہ اس کو یقین ہوگیاہے کہ اس کے سواکوئی عظمت اورعبادت کے لائق نہیں ہے۔

ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ، وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ الْبَاطِلُ ،وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ۔(لقمان: ۳۰)

یہ امور (تدبیروتسخیرکائنات) اللہ تعالیٰ اس لیے انجام دیتے ہیں؛کیوں کہ وہی برحق معبود ہے ،اس کے علاوہ جن چیزوں کی عبادت کی جاتی ہے ،وہ باطل (معبود) ہیں ،ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے،اللہ تعالیٰ ہی بلند وبرتر اورعظمت والے ہیں ۔بے شمارمخلوقات ہیں جن کا کوئی حساب نہیں،ظاہر آنے والی مخلوقات اور نظروں سے مخفی مخلوقات کا علم اوران کی تفصیلات وہی عظمت والا جانتاہے۔اللہ تعالیٰ ارشادفرماتے ہیں:

عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْكَبِيرُ الْمُتَعَالِ۔(الرعد:۹)

اللہ تعالیٰ (مخلوق کی نظر سے )مخفی اور(مخلوق کو) نظرآنے والی چیزوں کو جاننے والا اوربلند وبرترپروردگارہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں اس کی بڑائی ،عظمت اورہرقسم کے عیب سے اس کی پاکی بیان کرنے کا حکم دیاہے ۔ ارشادخداوندی ہے: 

وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ وَلِيٌّ مِنَ الذُّلِّ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيرًا۔(الاسراء:۱۱۱)

آپ فرمادیجئے:تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں،جس نے نہ کسی کو اولادبنایاہے ،نہ اس کی سلطنت وحکومت میں اس کاکوئی شریک ہے ،نہ وہ کمزورہے کہ اس کو مددگارکی ضرورت ہو ، اللہ کی خوب خوب بڑائی بیان کیجئے ۔

تکبیر مومن کی زندگی کا لازمی حصہ

آسمانوں اور زمین والوں کی تمام عبادات سے مقصوداللہ کی بڑائی ،عظمت اوراس کی بزرگی ہے ، اسی لیے تکبیر ’’لفظ اللہ اکبر‘‘کہنا تمام بڑی عبادات کا شعار ہے، نماز میں تکبیر اللہ کے حضورمیں عاجزی وانکساری کامظہرہوتی ہے ،ایک دن میں پنج وقتہ نمازوں(مع سنن راتبہ ) کی تکبیرات اذان(واقامت کی تکبیر سے لے کر نماز سے فراغت کے بعدکے اذکارتک (چونتیس مرتبہ کے بشمول) تقریباًتین سو پچھتر(۳۷۵)ہے۔
(احناف کے نزدیک چارسوتیرہ (۴۱۳)تکبیرات ہوتی ہیں ،اس لیے کہ احناف کے نزدیک اقامت میں چھ تکبیرات ہیں، سنت مؤکدہ بارہ رکعت ہیں اور بعدنماز عشا وترکی تین رکعت ہیں)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
لفظ ’’ اللہ اکبر‘‘ میں اللہ تعالیٰ کی عظمت کو ثابت کرنا ہے ،کبریائی کے مفہوم میں عظمت شامل ہوتی ہے ؛البتہ کبریائی معنی ومفہوم کے اعتبارسے اکمل ہے ۔
حج دین اسلام کے شعائرمیں ایک عظیم شعارہے ،اس کاشعار ’’صفاومروہ‘‘پر رمی جمارکے موقع پراللہ تعالیٰ کی وحدانیت اوراس کی کبرائی کا اثبات ہوتاہے ،یعنی صفاومروہ پر سبحان اللہ، والحمدللہ ،ولاالہ الا اللہ، اللہ اکبر ،رمی جمار کے موقع پر’’ اللہ اکبر‘‘ کے نعرے بلندکئے جاتے ہیں ۔

عشرہ ذی الحجہ کا پسندید ہ عمل تکبیر

اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ عظمت والے دن ذی الحجہ کے دس دن ہیں ، ان ایام میں سب محبوب عمل تکبیر کہناہے ۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

ما من أيام أعظم عند الله، ولا أحب إليه من العمل فيهن من هذه الأيام العشر،

اللہ کے نزیک سب سے عظمت والے اورعمل کئے جانے کے اعتبارسے سب سے زیادہ محبوب ایام عشرئہ ذی الحجہ ہیں،لہذا ان ایام میں کثر ت سے ’’لاالہ الاللہ ،اللہ اکبر اورالحمدللہ کہو۔

خوش خبری اور قدرتی نشانیوں کے دیکھنے پر تکبیر

خوشی اورمسرت کے موقع پر جیسے عیدین اورخوش خبریوں کے موقع پر تکبیر’’اللہ اکبر‘‘کہنا مسنون ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طویل روایت کے ضمن میں ارشادفرمایا

أترضون أن تكونوا ربع أهل الجنة۔(رواہ البخاری عن عبداللہ بن مسعود،کتاب الرقاق،کیف الحشر:۶۵۲۸)

مجھے امیدہے کہ اہل جنت میں تمہاری تعدادنصف ہوگی ،حضرت ابوسعید خدری ؓ فرماتے ہیں: ہم نے (خوشی اورخوش خبری کی بنا پر ) تکبیر’’اللہ اکبر‘‘کہی ۔

قدرتی نشانیوں کے دیکھنے اورحیران انگیز مواقع میں تکبیر’’اللہ اکبر‘‘کہنا چاہئے ۔

چندجدید الاسلام صحابہ نے رسول اللہ اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ جس طرح کفارکے لیے ایک درخت ’’ذات انواط‘‘ ہے ،اسی طرح ہمارے لیے بھی کوئی درخت متعین کیاجائے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بطورتعجب وحیرت ) تکبیر’’اللہ اکبر‘‘کہی اورفرمایا: یہ درخواست ایسی ہے جیسے بنی اسرائیل نے (بچھڑے کی عبادت دیکھ کر)حضرت موسی علیہ السلام سے عرض کیا : ہمارے لیے بھی ایک معبودمقررکردیجئے جیسے ان کفارکے لیے معبود ہے ۔(رواہ الترمذی عن ابی واقداللیثی ،کتاب الفتن : ۲۱۸۰)

سفرکے موقع پر تکبیر

حالتِ سفرمیں غم ورنج ،خوف اوراندیشے درپیش ہوتے ہیں ،ایسے مواقع میں اللہ کی بڑائی اورعظمت بیان کرنےسے اطمینان وسکون میسرہوتاہے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سواری پر سوارہوکر باہرتشریف لے جاتے ،تو تکبیرکہتے ۔
جب مخلوقات میں اللہ کی عظمت کا مشاہدہ کریں ،تو تکبیرکہنا مسنون ہے ،جیسے کسی بلندی چڑہیں ،تکبیرکہنا مسنون ہے ۔
حضرت جابرؓ فرماتے ہیں: 

كنا إذا صعدنا كبرنا، وإذا تصوبنا سبحنا-(رواہ البخاری عن جابر،کتاب الجہاد والسیر ،با ب التکبیراذاعلاشرفا: ۲۹۹۴)

سونے کے وقت تکبیر

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بسترپرتشریف لے آتے ، تو تینتیس مرتبہ’’ سبحان اللہ ‘‘تینتیس مرتبہ ’’الحمدللہ ‘‘اور چونتیس مرتبہ ’’اللہ اکبر‘‘فرماتے۔(رواہ النسائی عن عبداللہ بن عمر،کتاب السہو،باب عدالتسبیح بعدالتسلیم: ۱۳۴۸)

طاعات کی توفیق پر تکبیر

اہم اورعظیم مواقع میں تکبیر کومشروع کیاگیاہے، ہدایت ایک عظیم نعمت ہے ،دینی شعائر کی طرف رہبری اور طاعات کی توفیق پر تکبیر کہنا نعمتِ توفیق وہدایت پر شکرگذاری ہے ۔اللہ تعالیٰ ارشادفرماتے ہیں:

لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا، وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ ،كَذَلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ۔(الحج:۳۷)

اللہ تعالیٰ کے پاس ان قربانیوں کانہ گوشت پہنچتاہے ،نہ ان کا خون ،اللہ کے نزدیک تمہارے دلوں کا تقوی پہنچتاہے ،اس طرح چوپایوں کوتمہارے قابومیں کردیا ؛تاکہ اللہ نے تم کو ( ادائے قربانی وغیرہ طاعات کی)جوتوفیق عطافرمائی ہے ،اس پرتم اس کی بڑائی بیان کرو(اللہ اکبرکہو)
نیز دینی استقامت ، ثابت قدمی اوراعمال کی توفیق پر اللہ کی بڑائی بیان کرنا (اللہ اکبر کہنا) اس استقامت اورتوفیقِ طاعات پر شکرگذاری ہے ۔
اللہ تعالیٰ ارشادفرماتے ہیں: 

وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ۔(البقرۃ: ۱۸۵)

(روزہ کی مقررہ )تعدادپوری کرلو،نیز اللہ نے تمہیںہدایت ( روزوں کی توفیق )عطافرمائی ،اس پر اس کی بڑائی بیان کرو اور اس کا شکرکرو۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؓ فرماتے ہیں: 

عمال کی توفیق ،رزق اورمددنصرت پر اللہ کی بڑائی بیان کرنا (اللہ اکبرکہنا) ایک امرشرعی ودینی ہے ، اس لیے کہ یہ تین امور انسان کے بنیادی امورمیںسے ہیں ،لفظ ’’اللہ اکبر‘‘ ایک عظیم کلمہ ہے ،جس کہنے کا اللہ نے حکم دیاہے ؛تاکہ بندوں کے دلوں متں اللہ کی بڑائی اورعظمت پیوست ہوجائے ۔
اللہ تعالیٰ ارشادفرماتے ہیں: 

وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ۔(مدثر:۳)

اپنے رب کی بڑائی بیان کیجئے ۔

تکبیرایک جامع و بلیغ اور اللہ کے نزدیک محبوب لفظ

علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے فرمایا :
عربوں کے نزیک بڑائی ،عظمت اورکبرائی کو بیان کرنے کے لیے سب بلیغ اورجامع لفظ ’’اللہ اکبر‘‘ ہے ۔
لفظ’’اللہ اکبر‘‘ انسان کا فطری لفظ ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو ’’اللہ اکبر ،اللہ اکبر‘‘کہتے ہوئے سنا ،تو ارشافرمایا: فظری الفاظ اداکرہاہے ۔ (رواہ مسلم عن انس بن مالک ،کتاب الصلوۃ ،باب الامساک عن الاغارۃ :۳۸۲)
لفظ ’’اللہ اکبر‘‘ان الفاظ میں سے ایک ہے جو اللہ کو پسند ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کلمات چار ہیں: ’’سبحان اللہ‘‘ ’’ الحمد للہ‘‘ ’’’لاالہ الااللہ‘‘‘ اور’’ اللہ اکبر‘‘۔(رواہ مسلم عن سمر ۃ بن جندب ،کتاب الاآداب ،باب کراہیۃ التسمیۃ بالاسماء القبیحۃ : ۲۱۳۷)

لفظ ’’اللہ اکبر‘‘ کہنا،انسان کی ذات کے لیے صدقہ وخیرات کا سبب ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

ہرتکبیر صدقہ ہے ،یعنی اللہ اکبر کہنے سے صدقے کا ثواب ملتاہے۔(رواہ مسلم عن ابی ذر،کتاب المسافرین ،باب استحباب صلوۃ الضحی:۷۲۰)
ملائکہ ذکرکی مجلس کو گھیرلیتے ہیں ؛جب تک اس مجلس میں سبحان اللہ اوراللہ اکبرکہاجاتارہے گا ۔(رواہ البخاری عن ابی ھریرۃ ،کتاب الدعوات ،باب فضل ذکراللہ :۶۴۰۸)

تین کلما ت آسمان کے دروازے کھول دیتے ہیں

اللہ اکبر،الحمدللہ اورسبحان اللہ یہ کلما ت آسمان کے دروازے کھول دیتے ہیں ،
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک آدمی نے کہا:

اللهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيرًا، وَسُبْحَانَ اللهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا۔کہا

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: اس طرح اس طرح کے کلمات کس نے کہے: ایک آدمی نے عرض کیا : یارسول اللہ !میں نے کہاتھا ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے وہ کلمات پسند آئے ،ان کلمات کے لیے آسمان کے دروازے کھول دئے گئے ،حضر عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں : جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کلمات کو سنا ،اس وقت سے کبھی ان کلمات کو ترک نہیں کیا۔(رواہ مسلم ،کتاب المساجد ،باب مایقال بین تکبیرۃ الاحرام: ۶۰۱)

تکبیر میزان عمل میں سب سےزیادہ وزنی عمل

لفظ ’’اللہ اکبر‘‘ قیامت کے دن میزان اعما ل میں سب سے زیادہ وزنی ہوگا ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

پانچ باتیں کیاہی بہترین ہیں !میزان عمل میں کس قدروزنی ہوں گے ،(۱) لاالہ الاللہ ،(۲)اللہ اکبر ،ا(۳)سبحان اللہ ،(۴)الحمدللہ ،(۵)نیک اولا کا انتقال ہوجائے،تو اس کی والدین کا صبر واحتساب کرنا ۔(رواہ احمدعن مولی لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ۱۵۶۶۲)

خلاصہء کلا م

خلاصہء کلا م یہ ہے کہ اللہ بڑے ہیں ،اللہ سے بڑا کوئی نہیں ہے،آسمانوں وزمینوں میں اسی کی بڑائی ہے ،اس کی عظمت اوربڑائی کی حقیقت کا ادراک ،اس کا خیال وتصور عقل کو حیران وششدرکرتاہے ،بندوں کے خیال وتصورمیں جوبڑائی آسکتی ہے ،اللہ اس سے بہت بڑے ہیں ۔

ساتوں آسمان اس کی دوانگلیوں کے درمیان ہیں،ساتوں زمینیں اس کی دوانگلیوں کے درمیان ہیں ،درخت ایک انگلی پر ہے ،پانی ایک انگلی پرہے ،تحت الثری ایک انگلی پر ہے اورتمام مخلوق ایک انگلی پر ہے ۔(رواہ البخاری فی حدیث طویل عن عبداللہ ،کتاب التفسیر باب وماقدراللہ حق قدرہ : ۴۸۱۱)

لہذامومن کو چاہئے کہ وہ اللہ کی عظمت وبڑائی سے پناہ حاصل کرے ،اسی پر توکل رکھے،اپنے تمام امورکو اسی کے سپرد کرے ،صرف اسی کو پکارے اور اسی کی طرف دوڑے ۔
اللہ تعالیٰ ارشادفرماتے ہیں: 

وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ -سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى- عَمَّا يُشْرِكُونَ۔(الزمر:۶۷)

اللہ کی جیسے قدرکرنی چاہئے ،بندےویسی قدرنہیں کرتے ؛حالاں کہ ساری زمین قیامت کے دن اسی کے قبضہء قدرت میں ہوگی ،آسمان اس کی قدرت سے لپیٹ دئے جائیں گے ،اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے ،ان نقائص اورعیوب سے جن کے ساتھ یہ بے ایمان اللہ کی ذات کومتصف کرتے ہیں۔
اللہ کی معرفت کے بغیرکوئی نعمت ،سعادت اورکامیابی بندے کو حاصل نہیں ہوسکتی ،لہذا بندے کے لیے اللہ کی معرفت نہایت عزیزاور انتہائی مطلوب چیزہونی چاہئے۔

کبریائی اللہ کی خاص صفت

بڑائی اورعظمت اللہ ہی کے لیے سزاوارہے ،اس کی خاص صفت ہے، جوشخص بڑا ئی کا دعوی کرتاہے ،اللہ نے اس کو سخت وعیدیں سنائی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں

العز إزاره، والكبرياء رداؤه، فمن ينازعني عذبتہ(رواہ مسلم عن ابی سعید وابی ھریرۃ ،کتاب البر والصلۃ ،باب تحریم الکبر : ۲۶۲۰)

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” قال الله عز وجل: العز إزاري، والكبرياء ردائي، فمن نازعني منهما شيئا عذبته۔(شعب الایمان ،فصل فی التواضع: ۷۸۰۸)

عزت اللہ کا ا تہ بند ہے،بڑائی اس کی چادرہے ،(اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں )جوشخص مجھ سے ان کو چھیننا چاہتاہے ،تومیں اس کو عذاب دوں گا ۔
حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں

انسان کو چاہئے کہ وہ خیال کرے اس سے کوئی بڑا ہے

کبرائی ایک عظیم اوروسیع صفت ہے ،تو اس کو رداء (چادر)کہے جانے کے لائق ہے ،لہذا بندے کو چاہئے کہ وہ زمین میں نہ اترائے ،لوگوں کے سامنے بڑا بننے کی کوشش نہ کرے،نہ ان پرظلم کرے ،جس شخص کو کچھ قوت ،طاقت،منصب اورحکومت ملتی ہے ،تو وہ کمزوروںاورماتحتوں پر ظلم کرنے لگتاہے
ان سے اپنے آپ کو بڑاسمجھنےلگتاہے ،اس کو چاہئے کہ وہ اس بات کا خیال وتصور کرے، اللہ اس سے بڑاہے ،قدرت اورقہر والا ہے ۔

فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ،إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا۔(النساء: ۳۴)

جس آدمی کو اللہ کی بڑائی اورکبریائی کا یقین اوراستحضار ہوگا ،اللہ کی عظمت، خشیت اورخوف اس پر غالب ہوگا ، وہ اللہ تعالیٰ کی تعظیم کرے گا ،اس سے محبت کرے گا ، خالص عبادت کرے گا ،اس کے دل ودماغ سے کبر ،عجب اورریائی کاری نکل جائے گی ،اللہ تعالیٰ جنت ان لوگوں کے لیے بنائی ہے جو ایمان رکھتے ہیں اور متواضع ہوتے ہیں ۔
چنانچہ ارشادخداوندی ہے :

تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ۔(الْقَصَصِ:۸۳)

آخرت کا گھریعنی جنت ہم ان کے لیے تیار کررکھاہے جو دنیا میں بڑائی نہیں کرتے ہیں، نہ فسادمچاتے ہیں ،اچھا انجام متقی لوگوں کے لیے ہے ۔