جنازے کے آداب واحکام

جنازے کے آگے چلنا چاہئے یا پیچھے؟ جناز ے کے آگے پیچھے ،دائیں بائیں ہرطرف چلنا بالاتفاق جائزہے ؛البتہ افضلیت میں اختلاف ہے،امام شافعی ؒکے نزیک جنازے کے آگے چلنا افضل ہے اوراحناف کے نزدیک جنازے کے پیچھے چلنا افضل ہے۔

جوحضرات جنازے کے سامنے چلنے کو افضل کہتے ہیں : ا ن کی دلیل حضرت عبداللہ بن عمر ؓکی حدیث ہے ،وہ فرماتے ہیں

رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ يَمْشُونَ أَمَامَ الجَنَازَةِ۔ (رواہ الترمذی،کتاب الجنائز،باب ماجاء فی المشی امام الجنازۃ : ۱۰۰۷)

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورحضرات شیخین کو جنازے کے سامنے سامنے چلتے ہوئے دیکھاہے ۔امام شافعی ؒفرماتے ہیں : جنازے کے ساتھ چلنے والے سفارشی ہوتے ہیں،سفارش کرنے والا عموماً آگے چلتاہے۔

حنفیہ کی دلیل: حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

الجَنَازَةُ مَتْبُوعَةٌ وَلَا تَتْبَعُ، وَلَيْسَ مِنْهَا مَنْ تَقَدَّمَهَا۔(رواہ الترمذی،کتاب الجنائز،باب ماجاء فی المشی خلف الجنازۃ : ۱۰۱۱)

جنازے کے پیچھے چلاجاتاہے ،جنازہ کسی کے پیچھےنہیں چلتا،وہ شخص جنازے کے ساتھ گویاشامل نہیں ہے جو اس کے آگے چلے۔

احناف کی عقلی دلیل یہ ہے کہ جنازے کے ساتھ چلنے والے جنازے کو رخصت کرنے والے ہیں ،رخصت کرنے والے جنازے کے پیچھے چلتے ہیں۔

نیزجنازے کے پیچھے چلنے میں عبرت پذیری اور امورِ آخرت کے سلسلے میں غورفکرزیادہ ہوتاہے ،جنازے سے متعلق کوئی ضرورت پیش آئے ،تو مدد کی جاسکتی ہے،لہذاان تمام وجوہات کی بناپر جنازے کے پیچھے چلناافضل ہے ۔(مستفاد: لمعات التنقیح ،کتاب الجنائز ،باب المشی بالجنازۃ : ۱۶۶۸)

حضرت عبدالرحمن بن ابزی ؒکہتے ہیں : میں ایک جنا زے میں شریک تھا ،حضرا ت شیخین جنازے کے آگے آگے چل رہے تھے ،حضرت علیؓ پیچھے چل رہے تھے ،میں نے عرض کیا : آپ جنازے کے پیچھے چل رہے ہیں؟حضرات شیخین جنا زے کے آگے چل رہے ہیں؟حضرت علی ؓ فرمایا: وہ دونوں حضرات جانتے ہیں کہ جنا زے کے پیچھے چلنا افضل ہے ،جیسے انفرادی نماز سے جماعت کی نماز افضل ہے ؛لیکن وہ دونوں حضرات لوگوں کی سہولت کی غرض سے جنا زے کے آگے چل رہیں۔(مصنف ابن شیہ ،کتاب الجنائز،فی المشی امام الجنازۃ : ۱۱۲۳۹،وروی الطحاوی عن عمروبن حریث عن علی،کتاب الجنائز ،باب المشی فی الجنازۃ : ۲۷۶۱)

مذکورہ روایت سے معلوم ہواکہ حضرات شیخین کا جنا زے کے آگے چلنا ایک مصلحت کی بناپر تھا ؛کیوں کہ یہ حضرات مقتدٰی اورامیرالمؤمنین تھے ،اگرمجمع کے ساتھ جناز ے کے پیچھے چلیں گے ،توعوام کو تکلف ہوگا ،اگرجنازے کے آگے چلیں گے ،توعوام بلاتکلف چلیں گے ۔

حضرت ثوبانؓ فرماتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جنا زے میں نکلے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چندلوگوں کو دیکھاکہ وہ سواری پر ہیں ،آپ نے فرمایا

أَلَا تَسْتَحْيُونَ! إِنَّ مَلَائِكَةَ اللَّهِ عَلَى أَقْدَامِهِمْ وَأَنْتُمْ عَلَى ظُهُورِ الدَّوَابِّ۔

کیاتمہیں شرم نہیں آتی؟اللہ کے فرشتے پیدل چل رہے ہیں اور تم جانوروں کی پیٹھ پر سوارہو؟۔(ترمذی ،کتاب الجنائز ،باب ماجاء فی کراہیۃ الرکوب: ۱۰۱۲)

سنن ابوداؤد میں حضرت ثوبا ن ؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنازے میں شریک تھے کہ آپ کے لیے سواری پیش کی گئی ،آپ نے سوارہونے سے انکارکردیا،جب واپس ہونے لگے ،تو پھر سواری پیش کی گئی ،تو آپ سوارہوگئے ،آپ سے پوچھاگیا(کہ جاتے ہوئے سواری کوقبول نہیں فرمایا،واپسی میں قبول فرمالیا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنازے کے ساتھ ملائکہ بھی پیدل چل رہے تھے، اس وجہ سے میں سوارنہیں ہوا(تدفین سے فراغت کے بعد) ملائکہ چلے گئے ،تو میں سوارہوگیا۔(سنن ابوداؤد،کتاب الجنائز ،باب الرکوب فی الجنائز: ۳۱۷۷)

حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

الرَّاكِبُ خَلْفَ الجَنَازَةِ۔

سوارشخص جنا زے کے پیچھے چلے گا ۔(ترمذی ،کتاب الجنائز ،باب ماجاء فی الصلاۃ علی الاطفال: ۱۰۳۱)اس روایت سے معلوم ہوا کہ جنا زے کے پیچھے سواری پر جانے کی عام اجازت ہے ۔

علمائے کرام نے مذکورہ روایات کو پیش نظررکھ کرفرمایا کہ جنازے کے ساتھ قبرستان جاتے ہوئے بلاعذرسواری پرجانامکروہ ہے ، اچھی بات نہیں ہے ،اگرجنازہ سواری پر رکھا ہواہو،یا قبرستان بہت دورہو،یا جنا زے میں شریک افراد پیدل چلنے سے معذور ہوں، تو سواری پرجنا زے کے پیچھے جانے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔(درس ترمذی ۳؍۲۹۸)

ابتدائے اسلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنازہ دیکھ کھڑے ہوجاتے تھے،جب جنازہ زمین پر رکھ دیاجاتا،یا آگے بڑھ جاتا،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ جاتے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو بھی اس کاحکم دیاتھا،پھریہ حکم منسوخ ہوگیا ،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاعمل بھی بدل گیا ،یہی ائمہ ثلاثہ کا مذہب یہی ہے ۔حضرت علیؓ فرماتے ہیں

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَنَا بِالْقِيَامِ فِي الْجَنَازَةِ ثُمَّ جَلَسَ بَعْدَ ذَلِكَ وَأَمَرَنَا بِالْجُلُوسِ. (مسند احمد:۶۲۳)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنازے کے لیے کھڑے ہونے کا حکم دیاکرتے تھے ،پھرآپ بیٹھ گئے اورہمیں بھی بیٹھنے کا حکم دیا۔یعنی جناز ہ دیکھ کر کھڑے ہونے کا حکم منسوخ ہوگیا۔

امام احمدبن حنبل،علامہ نووی اورابن عقیل حنبلی رحمہم اللہ فرماتے ہیں:جنازے کو دیکھ کر کھڑے ہونے کا حکم عبرت اورانسانی احترام کی غرض سے تھا،علت باقی ہے، لہذا حکم بھی استحبابی طور باقی رہے گا،ادنی درجے میں مباح ہوگا۔حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں : 

مُرَّ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجِنَازَةٍ، فَقَامَ وَقَالَ: قُومُوا؛ فَإِنَّ لِلْمَوْتِ فَزَعًا۔(رواہ ابن ماجہ،کتاب الجنائز ،باب ماجاء فی القیام للجنازۃ:۱۵۴۳)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک جنازہ گذرا،آپﷺ کھڑے ہوگئے اورفرمایا : موت خوف اورگھبراہٹ کی چیز ہے (لہذا عبرت حاصل کرنی چاہئے اور اپنی آخرت کی فکر کرنی چاہئے )ایک یہودی کاجنازہ گذارا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے ،آپ سے کہاگیا: یہ یہودی کا جنازہ ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ انسان کا جنازہ نہیں ہے ؟(بخاری ،کتاب الجنائز،باب من قام لجنازۃ یہودی : ۱۳۱۲)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوسعید خدری ؓ کا عمل جنازے دیکھ کر کھڑے ہونے کاتھا ۔(بخاری ،کتاب الجنائز،باب من قام لجنازۃ یہودی : ۱۳۰۹)

علامہ عینی ؒ نے بعض حضرات صحابہ وتابعین کایہی عمل نقل کیا ۔(عمدۃ القاری ،کتاب الجنائز،باب من قام لجنازۃ یہودی : ۷۰۳۱)جنازے کو دیکھ کر کھڑے ہونے کی وجہ عبرت پذیری اورانسانی جان کااحترام ہے ،یہ وجہ باقی ہے ،لہذا جنازے کو دیکھ کھڑاہونا مستحب ،یا مباح ہوگا،بیٹھے رہنالازم نہیں ہوگا۔

حضرت مولاناخالد سیف اللہ صاحب رحمانیؒ مدظلہ فرماتے ہیں : ایسامعلوم ہوتاہے کہ امام احمدؒ کا مسلک اقرب الی الحدیث ہے ،اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی حکمت انسانی احترام بیان فرمایاہے ،ظاہر ہے کہ یہ علت باقی ہے ،پھراس علت کے باقی رہنے کے باوجود نسخ کاحکم سمجھ میں نہیں آتا۔(قاموس الفقہ ۳؍۱۴۳)

محترم قارئین کرام !اس مضمون کی پہلی قسط ’’نمازجنازہ اورتدفین میں شرکت ؛آداب واحکام‘‘ کا مطالعہ کرنے کےلیے اسی مضمون پرکلک کیجئے۔