حجة الاسلام مولانامحمدقاسم نانوتویؒ:آپ کانام محمدقاسم ،تاریخی نام خورشید حسین اوروالدکا نام نام شیخ اسدعلی ہے ،چوالیس واسطوں سے آپ کانسب عالی فقیہ مدینہ حضرت قاسم بن محمد بن ابوبکر ؓ سے جاملتاہے ۔
ولادت ،تعلیم وتربیت
آپ کی ولادت باسعاد ت نانوتہ ضلع سہارنپورکے ایک معزز صدیقی خاندان میں ۱۲۴۸ھ مطابق۱۸۳۲ ہوئی ۔(تاریخ دارالعلوم۱۰۲/۱)
حضرت نانوتویؒ بچپن ہی سے ذہین ،بلندہمت ،وسیع حوصلہ ،جفاکش ،جری اورچست وچالاک تھے ،ابتدائی تعلیم کے زمانہ میں سب ساتھیوں سے آگے رہتے تھے،ناظرہ قرآن مجید بہت جلد ختم کرلیا ،مکتب کی تعلیم کے بعد دیوبند میں آپ کے ایک رشتہ دار کے گھر مدرسہ چلتاتھا،جس میں مولانامہتاب صاحب مدرس تھے،جس میں حضرت شیخ الہند کے والدمحترم مولاناذوالفقارعلی صاحب بھی بڑی کتابیں پڑھ رہے تھے ،آپ نے مولانا مہتاب علی صاحب سے میزان ومنشعب پڑھی، چنددن آپ کو آپ کے نانامولوی وجیہ الدین صاحب کے گھرسہارنپوربھیج دیاگیا ،جہاں آپ نے ہدایة النحوپڑھی اورفارسی نصاب کی تکمیل کی ۔
مولانامملوک علی ؒ کی خدمت میں
۱۲۵۹، ۱۸۳۴ءمیں حضرت مولانامملوک علی نے حضرت نانوتویؒ کو اپنے ہمراہ ”عربی کالج دھلی“لے گئے جہاں مولانامملوک علی صاحب سرکاری مدرس تھے ،حضرت نانوتوی ؒ کا داخلہ کروایا اور آپ کالج سے فارغ اوقات میں اپنے مکان پر دیررات تک طلبہ کو دینی علوم کی تعلیم دیتے تھے،چنانچہ آپ نے مولاناکے مکان پر کافیہ سے تعلیم کا آغاز کیا ،کالج میں حضرت نانوتویؒ کا داخلہ برائے نام تھا؛ لیکن تعلیمی اعتبارسے حضرت نانوتوی ؒ کانام نہایت روشن اورمشہورتھا ،سالنہ امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل ہونے کی امید بھی تھی؛ لیکن آپ نے امتحان میں شرکت نہیں کی ،اس لئے کہ کالج کی تعلیم آپ کی مقصود ومطلوب نہیں تھی جس پرکالج کے تمام اساتذہ کو افسوس ہوا۔
مولانا مملوک علی صاحب اپنے مکان پرمنطق وفلسفہ کی کتابیں پڑھاتے تھے، حضرت نانوتوی ؒ ان کتابوں کی عبارت پڑھتے تھے ،کہیں رکتے نہیں تھے ،نہ ترجمہ کرتے تھے ،جہاں مضمون پوراہوتاچندالفاظ کہہ کر آگے بڑھ جاتے ،دیگرطلبہ حیران وپریشان ہوتے، یہ صفحات کے صفحات سنادیتے ہیں اورہمیں کچھ سمجھ میں نہیں آتا،طلبہ نے مولانامملوک علی صاحب سے پوچھاکہ یہ سبق سمجھ کر پڑھتے ہیں یاایسے ہی ورق گردانی کرتے ہیں ؟مولانانے فرمایا: میرے سامنے طالب علم بغیر سمجھے چل نہیں سکتا ۔(ملخص : ازحیات وکارنامے : ۵۷)
اسی زمانہ میں حضرت رشیداحمدگنگوہی ؒ مولانامملوک علی ؒ کی خدمت میں حاضرہوئے اور حضرت نانوتویؒ کے ہم سبق ہوگئے ،ان دونوں بزرگوں کی یہ رفاقت ،ابتدائی تعلیم ،حدیث کی تعلیم اوربیعت وسلوک میں قائم رہی اور رسمی تعلیم سے فراغت کے بعدبھی دونوںہم مشرب ،ہم فکراور ہم خیال رہے اور دونوں حضرات عملی میدان اودینی اداروں کی سرپرستی وغیرہ میں ساتھ ساتھ رہے۔
حدیث شریف کی تعلیم
حضرت نانوتوی ؒ نے تمام علوم وفنون کی تقریبًا کتابیں مولانامملوک علی صاحب سے پڑھیں اور چند کتابیں دیگر اساتذہ بھی پڑھیں ہیں ،علوم وفنون کی تکمیل کے بعد صحاح ستہ کی تعلیم کے بعد حضرت نانوتوی ؒاورحضرت رشیداحمدگنگوہی دونوں حضرات حضرت شاہ عبدالغنی مجددی ؒ کی خدمت میں حاضرہوئے ،حضرت نانوتویؒ نے حضرت شاہ عبدالغنی مجددی ؒ سے بخاری ،مسلم ،ترمذی ،ابن ماجہ اور نسائی پڑھی؛ البتہ سنن ابوداؤدشاہ محمداسحاق ؒ محدث دھلوی ؒ کے شاگرد مولانااحمدعلی محدث سہارنپوریؒ سے پڑھی ۔(حیات وکارنامے : ۶۳۔۶۴)
غرض یہ کہ حضرت نانوتویؒ نے صحاح ستہ کی تعلیم سے سترہ سال کی عمرمیں ۱۲۶۵ھ م۱۸۴۹ءمیں سندفضیلت حاصل کی ۔(حیات وکارنامے : ۷۰)
بیعت وسلوک
سیدالطائقہ حضرت حاجی امدداللہ صاحب مہاجرمکی ؒ سے حضرت نانوتوی ؒ کی خاندانی قرابت ورشتہ دای تھی ،اس لئے حضرت حاجی صاحب ؒکی نانوتہ آمدورفت بکثرت ہواکرتی تھی ،نیز حضرت حاجی ؒ کبھی دہلی تشریف لے جاتے ،تو مولانامملوک علی صاحب ؒ کے یہاں قیام فرماتے اورحضر ت نانوتوی ؒ کے زمانہ ءطالب علمی میں بھی حاجی صاحب کی آمدورفت ہوتی رہی ،نیز حضرت نانوتوی ؒ جب دہلی سے نانوتہ آتے اولا تھانہ بھون حاجی صاحب کی خدمت میں حاضری ضروردیاکرتے تھے۔
غر ض یہ کہ حضرت نانوتویؒ کے لئے حضر ت حاجی صاحب کی زیارتیں،ملاقاتیں اورشناسائیاں کم عمری ہی سے جاری تھیں اور آپ کا دل حاجی صاحب کی عقیدت ،محبت اورعظمت سے معمورتھا ،آپ کے رفیق خاص حضرت رشید احمد گنگوہی سے حضرت حاجی صاحب کے فضائل ،مناقب اورکمالات بیان کرتے تھے،یہی وجہ ہے کہ حضرت گنگوہی نے حضرت نانوتوی ؒ سے پہلے ہی حاجی صاحب کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔(ملخص : ازحیات وکارنامے : ۶۶)
مطبع احمدی میں تصحیح کتب یعنی تحقیق ،تعلیق اورمراجعت
حضرت مولانا احمدعلی محدث سہارنپوری ؒ حضرت شاہ محمد اسحاق ؒ سے مکہ مکرمہ میں صحاح ستہ سبقًاسبقًا پڑھی تھی،ہندستان واپس آئے، توصحاح ستہ کی اشاعت کا ارادہ ہوا، اس لئے کہ ہندوستان میں صحاح ستہ نایاب تھیں،آپ نے دہلی میں اپنا ذاتی مطبع”مطبع احمدی“قائم فرمایا ،ا س مطبع میں ایک مصحح کی ضرورت تھی جس کوحدیث شریف سے مناسبت ہو (تصحیح کا مطلب: ایک کتاب کے کئی نسخے سامنے رکھ کر ایک قابل اعتبارنسخہ تیارکرناہے جس کو آج کی اصطلاح میں تحقیق ،تخریج ،تعلیق اورمراجعت وغیرہ کا نام دیاجاتاہے، محض لفظی اغلاط کی تصحیح مرادنہیں ہے )چنانچہ حضرت نانوتویؒ اس مطبع سے وابستہ ہوگئے۔
حاشیہء بخاری
چنانچہ حضرت نانوتویؒ نے کام شروع فرمایا اور بخاری کے آخری ابواب(کتاب الحیل،کتاب القدرکتاب الاحکام ،کتاب التوحید )حنفیہ کے لئے بطورخاص دقیق و مشکل ترین ابواب میں سے ہیں حضرت نانوتوی ؒنے نہایت عمدہ وتحقیقی حواشی تحریرفرمائے ،اسی عرصہ میں محدث سہانپوری ؒ سے بعض لوگوں نے کہا: حضرت آپ نے بخاری پرحواشی کا کام شروع کیا اور اب ایک نوعمر غیرتجربہ کارشخص کے حوالہ کردیا ہے ،آپ خود اس کوتکمیل تک پہنچادیں،مولانااحمد علی محدث سہارنپوریؒ نے فرمایا: میں ایسانادان نہیں ہوں کہ بدون سمجھے بوجھے ایساکروں اورحضرت نانوتویؒ کا حاشیہ انھیں دکھایا تو ان حضرات کو اطمینان ہوا ۔(حیات وکارنامے : ۷۴۔۷۵)
مطبع احمدی کے مالک اپنے عہد کے جلیل القدرمحدث اورشاہ محمد اسحاق ؒ کے شاگردرشیدبھی تھے ،اس لئے بخاری شریف کی اشاعت کے ساتھ بخاری پر حواشی وتعلیقات بھی کا التزام فرمایا ،مولانا احمد علی محدث سہارنپوریؒ نے تقریبًا پچیس پاروں پرحواشی تحریرفرمائے تھے کہ بعض مصروفیتوں کی وجہ سے حواشی وتعلیقات کا کام موقوف ہوگیا ؛چونکہ حضرت نانوتویؒ اس مطبع وابستہ تھے،مولانااحمدعلی محدث سہارنپوریؒ حضرت نانوتویؒ کی قابلیت واستعدادسے واقف تھے اور آپ پراعتماد بھی تھا، اس وجہ سے بقیہ اجزائے بخاری کے حواشی وتعلیقات کی ذمہ داری حضرت نانوتویؒ کے سپردفرمادی۔
بخاری شریف کا درس
۱۲۷۷ھ م۱۸۶۰ءمیں حضرت نانوتویؒ سفرحج سے واپس آئے اور نانوتہ قیام فرمایا ،اس عرصہ میں طلبہ نے آپ سے بخاری شریف پڑھنے کی درخواست کی، آپ نے منظورفرماکر بخاری شریف کا درس شروع فرمایا ،مولانامحمدیعقوب صاحب صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبندنے حضرت نانوتویؒ سے اسی زمانہ میں ۱۲۷۹ھ،م۱۸۶۲ءمیں نانوتہ میں بخاری شریف پڑھی ہے (حیات وکارنامے: ۹۹)نیز اسی عرصہ میں مولوی محی الدین خاں مرادبادی،مولانا عبدالعلی میرٹھی (مدرس دارالعلوم دیوبند) اورمولانارحیم اللہ بجنوری نے حضرت ؒ سے بخاری شریف پڑھی ہے ۔(۱۰۶)
اس زمانہ میں حضرت نانوتویؒ کے ایک مخلص دوست منشی ممتاز علی صاحب نے میرٹھ میں ایک مطبع قائم کیا اور آپ سے درخواست کی آپ مطبع سنھالیں اورکتابوں کی تصحیح کا بھی کام کریں ،چنانچہ آپ نے اس ذمہ داری کو قبول فرمایا اور میرٹھ تشریف لے گئے ۔
ابتدائے ملازمت ہی سے صحاح ستہ کی تعلیم کا سلسلہ جاری تھا، میرٹھ منتقل ہونے کے بعد صحاح ستہ کی تعلیم شروع ہوگئی ،مولانا یعقوب صاحب ؒ نے حضرت نانوتو یؒ سے مسلم شریف یہیں پڑھی ؛حالانکہ مولانا یعقوب صاحب اسی مطبع میں ملازمت کے فرائض انجام دے رہے تھے ،مولانا محمدعلی مونگیری بانی ندوة العلماءلکھنونے بھی اسی زمانہ میں آپ سے مسلم شریف پڑھی ،نیز شیخ مولانا محمودحسن دیوبندی ؒ نے اسی زمانہ اور سفروحضرمیں صحاح ستہ پڑھی ہے،ان کے علاوہ بہت سے علماءجنھوں نے علمی دنیا میں بڑی شہرت حاصل کی اسی قیام میرٹھ میں کے زمانہ میں آپ سے حدیث کی کتابیں پڑھی ہیں۔(ملخص : ازحیات وکارنامے : ۱۰۱)
درس کا انوکھاانداز
حضرت نانوتویؒ کا درس حدیث حضر ت شاہ عبدالغنی مجددی اور شاہ محمداسحاق محدث دہلی کے درس کے طرز پرہوتاتھا،احادیث سے معانی کا ستخراج ،مسائل کا استنباط ،ائمہ کے اختلافات اوردلائل کی تشریح وتوضیح اس انداز سے پیش فرماتے کہ طلبہ حیرت زدہ ہوجاتے ۔
مولانامحمدعلی مونگیری بانی ندوة العلماءلکھنوتحریرفرماتے ہیں
طالب علمی کے زمانہ میں مولانا محمدقاسم نانوتویؒ کے درس حدیث میں شریک ہونے کی سعادت مجھے بمقام میرٹھ میسرآئی تھی ،غالباً یہ وہی زمانہ تھا جب صحیح مسلم کا درس جاری تھا ،حدیث پڑھی گئی ،حنفیوں اورشافعیوں کے کسی اختلافی مسئلہ سے حدیث کا تعلق تھا ،میں نے دیکھا کہ مولانا ایک ایسی جامع اورمدلل تقریرکی جس سے کلیة ً شافعی نقطہءنظر کی تائیدہوتی تھی،طلبہ حیران ہوئے، کہنے لگے کہ آپ کی اس تقریرسے تومعلوم ہواکہ امام شافعی ؒ ہی کا مسلک صحیح ہے اورحنفیوں کا مذہب حدیث کے مطابق نہیں ہے۔
تب میں نے دیکھا کہ مولانا نانوتویؒ کا رنگ بدلااورفرمانے لگے کہ شوافع کی طرف سے اس مسئلہ کی تائیدمیں زیادہ سے زیادہ کہنے والے اگرکچھ کہہ سکتے ہیں ،تویہی کہہ سکتے ہیں ،جو تم سن چکے ہو،اب سنو، امام ابوحنیفہ ؒکے مسلک کی بنیاد یہ ہے، اس کے بعدمولانانانوتویؒ نے پھراس طرح تقریرکی کہ لوگ مبہوت بنے سنتے رہے، ابھی جس مسلک کے متعلق ان کایقین تھاکہ اس سے زیادہ حدیثوں کے مطابق کوئی دوسرا مسلک نہیں ہوسکتا،اچانک معلوم ہواکہ درحقیقت صحیح حدیثوں کا مفادوہی ہے جسے امام ابوحنیفہؒ نے منقح فرمایاہے “۔(حیات وکارنامے : ۱۰۳)
درس وتدریس کا سلسلہ ہمیشہ جاری رکھا پرمسنددرس کسی ایک جگہ قائم نہیں رہی
حضرشیخ الہند ؒ فرماتے ہیں
میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی تصنیفات دیکھ کرحضرت نانوتویؒ کے درس میں شریک ہوتاتھااوروہ با تیں پوچھتاتھاجوشاہ صاحب کی تصنیفات میں غایت مشکل ہیں،شاہ صاحب کے یہاں جوآخری جواب ہوتاتھا ،وہ حضرت نانوتویؒ اول ہی مرتبہ فرمادیتے تھے،میں نے بارہاا س کاتجربہ کیاہے “(تاریخ دارالعلوم ۱۱۳/۱)
غرض یہ کہ رسمی تعلیم سے فراغت کے بعد ذاتی طورپرآپ نے درس وتدریس کا سلسلہ ہمیشہ جاری رکھا اورہرعلم وفن کی کتابیں پڑھائیں،مسنددرس بھی کسی ایک جگہ قائم نہیں رہی؛ بلکہ آپ کا حلقہءدرس کبھی نانوتہ ،کبھی میرٹھ ،کبھی دیوبند کی چھتہ مسجدمیں، جہاں کچھ عرصہ قیا م ہوا طلبہ وہیں چلے آتے اورسبق شروع ہوجاتا،بایں وجہ آپ کے تلامذہ کی مکمل فہرست تیارکرنامشکل ہے ۔(حیات وکارنامے: ۱۰۸)
دارالعلوم دیوبند کاقیام اوراس کا مقصد
جب ہندوستان پر انگریزی حکومت کا تسلط قائم ہوا ،۱۸۵۷ءکے بعدمسلمانوں پر قیامت صغری ٰقائم ہوئی ،اسلام اورمسلمانوں کے وجودپرخطرات منڈلارہے تھے ،حاکم محکوم بن گئے تھے ،انگریز نے مسلمانوں کے مادی وجسمانی وجودکے ساتھ اسلام کو بھی نشانہ بنایاتھا ،غدرکے بعداسلامی مدارس کا وجودختم ہوگیا تھا ،انگریز سمجھتے تھے کہ ہندوستان میں اپنے اقتدارکے استحکام کے لئے اسلام کو مٹانا لازم ہے۔
جب تک ہندوستان میں اسلام زندہ ہے، ہمارا اقتدار کبھی پائیداراورمستحکم نہیں ہوسکتا،انہیں معلوم تھاکہ اسپین میں اسلام کو مٹادیاگیا، تو مسلمانوں کا وجودمٹ گیا، اس لئے انگریز انگریزی تعلیم کی سہولیات اور ملازمت کے جھانسوں کے ذریعے اور عیسائیت کی تبلیغ وترویج اوراس کی اشاعت اورعیسائیت کی قبولیت پر انعامات کی ترغیب کے ذریعے ایڑی چوٹی کا زورلگارہے تھے۔
ان حالات میں حضرت نانوتویؒ اور آپ کے رفقائے کارنے اسلام کے بقاء،تحفظ ،دفاع اورمسلمانوں کے ملی ودینی تشخص کی حفاظت ،مغربی تہذیب وتمدن کے امنڈتے سیلاب اور ہلاکت خیز طوفان کو روکنے کے لئے علماءوصلحاءاور دین وشریعت اورملک وملت کی حفاظت کرنے والی جماعت تیارکرنے کے لئے بروز جمعرات۱۵/محرم الحرام ۱۲۸۳ھ م ۰۳مئی ۱۸۶۶ءدیوبند ضلع سہارنپور یوپی میں چھتے کی قدیم مسجدکے کھلے صحن میں انارکے ایک چھوٹے درخت کے سائے میں نہایت سادگی کے ساتھ دارالعلوم کی بنیاد رکھی ۔(مستفاد: ازحیات وکارنامے: ۱۲۳۔۱۲۴)
دارالعلوم کے قیام سے حضرت نانوتوی ؒ کامقصد ایسے رجال کی تیاری تھی جوہرزمانہ میں اسلام کو درپیش مسائل کا مقابلہ کرنے والے ہوں ،اسلام کا بقاءوتحفظ کا جوش اورولولہ ان کے دلوں میں موجزن ہواوراس راہ میں ہرطرح کی قربانی کے لئے تیارہوں،صلاحیت واستعداد اتنی پختہ ہوکہ علمی مسائل میں پورے یقین واعتماد کے ساتھ حصہ لے سکیں اورسیاسی ہنگامہ آرائیوں میں قائدانہ کرداراداکرسکیں اوراسلام پرجس محاذ سے بھی حملہ کیاجائے اس کی مدافعت کی استعداد ان میں موجودہو ۔(حیات وکارنامے : ۱۳۸)
حضرت نانوتویؒ کا عظیم کارنامہ مردم سازی کےکارخانہ کی تحریک
حضرت نانوتویؒ کی خدمات جلیلہ کا عظیم الشان کارنامہ دارالعلوم دیوبند کا قیام ہے ،ہندوستان میں دارالعلوم سے پہلے اسلامی مدارس اور کالجس موجودتھے جوافراد سازی میں مصروف تھے، علم وفن میں درجہءکمال حاصل کیاتھا ،فارغین نے فن کی کتابیں تصنیف کیں،شرحیں لکھیں ،طلبہ کے لے لئے سہولتیں فراہم کیں؛لیکن کسی ادارہ کی وجہ سے مسلم معاشرہ اتنا متاثرنہیں ہوا،جتنا دارالعلوم دیوبندکی وجہ سے مسلم معاشرہ کی اصلاح ہوئی۔
دینی اعتبار سے حالات کا رخ بدلا اور اس کے دوررس نتائج ظاہرہوئے اورہورہے ہیں ،ہندوستانی مسلمانوں کی زندگی پردارالعلوم دیوبند کے فضلاءکی اصلاحی کوششوں کے نمایاںاثرات رونماہوئے ،عقائدکی درستگی ،تبلیغ دین ،فرق ِ ضالہ سے مناظرہ اوربدعات ورسومات کی اصلاح سے متعلق دارالعلوم کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
دارالعلوم نے رجال کارپیداکئے اورانہیں ذہنی وفکری انتشارسے محفوظ رکھا ،دارالعلوم نے بتایاکہ انفرادیت کوئی چیزنہیں ہے ،اسلام کے لئے رجال کارکی افادیت اجتماعیت میں ہے ،مذہبی مدارس کامقصد دین اسلام کی اجتماعی خدمت ہے ،ذہن وفکرکو اسلام کے تقاضوں کے سمجھنے میں مصروف رکھے ،مسلم معاشرہ کو کج روی اورکج راہی سے پچایاجائے۔
قیام دارالعلوم اوردیگراسلامی مدارس کے قیام کی سعی
حضرت نانوتویؒ نے قیام دارالعلوم اوردیگراسلامی مدارس کے قیام سے یہی کوشش فرمائی جو اب تک ہندوستان میں نہیں ہوتھی ،بے شمارمدارس کی بنیادرکھی ،ترغیب دی اور تحریک چلائی اور آپ نے اسلامی ودینی مدارس کے بقاءوتحفظ ،ترقی وتعمیرکے لئے رہ نما وزریںاصول ہشت گانہ وضع فرمائے،تاریخ گواہ ہے کہ جو مدارس ان اصول کے پابند ہیں،شرپسندیا سرکای محکموں کو ان کے خلاف انگلی اٹھانے کی بھی گنجائش نہیں ہے۔
دارالعلوم کے قیام کے بعد مظاہرالعلوم ،جامعہ قاسمیہ مرادآباد اور ندوة العلماءلکھنووغیر ہ قائم ہوئے، اپنے حالات کے اعتبار سے اپنا اپنا طریقہ ءتعلیم اختیارکیا ،یہ تمام مدارس اپنے امتیازات وانفرادی خصوصیات کے باوجود ایک ہی رشتہ میں منسلک تھے ،ان سب کا وہی مقصد تھا جس مقصد کے لئے دارالعلوم کا قیام وجودمیں آیاتھا ۔(مستفاد : حیات وکارنامے: ۳۰۳۔۳۰۴)
حضرت نانوتویؒ کے کارناموں پرایک طائرانہ نظر
حضرت نانوتویؒ کے کارناموں پرایک طائرانہ نظر:حضرت نانوتویؒ نے بذات خود ملک کو انگریز کے ظلم واستبدادکے چنگل سے نکالنے کے لئے اپنے اکابرورفقاءکے ساتھ۱۸۵۷ءمیں جہاد کیا، جب جہاد میں ناکامی ہوئی اور مسلمانوں کا عرصہءحیات تنگ ہونے لگا ،اسلام کا وجودخطرہ میں پڑگیا،توامام قاسم نانوتویؒ نے اسلام اورملک کے تحفظ وبقاءکے لئے دارالعلوم دیوبند کی بنیادرکھی تاکہ یہاں سے ایسے رجال ِکار پیداکئے جائیں جو اسلام اورمسلمانوں کے ایمان وعقائد کا تحفظ کریں اوراپنے وطن عزیز کی حفاظت کریں ۔
نیز۱۸۵۷ءکے بعد عیسائیت کی تبلیغ ،اشاعت اورترویج پوری قوت سے شروع کی گئی اور عیسائی پادریوں کے ذریعے منظم سازش کے تحت اسلام کو مٹانے کے لئے اوراسلام کی حقانیت میں شکوک وشبہات پیداکرنے کےلئے ہندوستان کے طول وعرض میں مناظروں کا بازارگرم کیاگیاتو عیسائی پادریوں کاڈٹ کر مقابلہ کیا اور شاجہاںپورمیں مشہورمیلہء”میلہ خداشناسی “ حکومت کے زیرنگرانی منعقد کیا گیا۔
حضرت نانوتویؒ نے اپنے تلامذہ حضرت شیخ الہند ،مولانا مرتضی حسن چاندپوری،مولانا عبدالعلی میرٹھی ،مولانا عبدالاحد وغیرہ کے ساتھ شرکت فرمائی اوراسلام کی حقانیت کو ثابت کیا، عیسائیوں اوردیگر مذاہب کے لوگوں کو ناکامی ہوئی اور حکومت اپنے مقصد میں ناکام ونامرادہوئی ۔(افادات قاسمیہ مطبوعہ دارالمؤلفین دیوبند میں میلہ خداشناسی کی تقریر بعینہ نقل کی گئی ہے )
آریہ سماج کے بانی دیانند سرسوتی اورحضرت نانوتویؒ
آریہ سماج کے بانی دیانند سرسوتی اپنے پنڈتوں کے ساتھ اسلام کے خلاف زہراگلنے لگا ،اپنے مذہب کے فضائل اور اسلام کی حقانیت اور دین کے مسلمہ اصول وشعائر پر جارحانہ طریقے پر بے ہودہ اعتراضات کرنے لگا، تو حضرت نانوتوی ؒنے حضرت شیخ الہند ،مولانا فخرالحسن گنگوہی اور حافظ عبدالعدل صاحب کو ”رڑکی“ روانہ کیا ،اپنے تلامذہ کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا اورآپ کے تلامذہ اس کے مستقر ”رڑکی“ روانہ ہوئے اورجگہ جگہ اجلا س کئے اور اسلام کی حقانیت پر تقریریں کیں اوراسلام کا دفاع کیا ۔
چند دن بعد طبیعت کی ناسازی کے باوجود بذات خود حضرت نانوتوی ؒدیانند سرسوتی سے مناظرہ کے لئے ”رڑکی“ پہنچے ؛لیکن وہ راہ فراراختیارکرگیا، آپ نے تین دن” رڑکی“ میں قیام فرماکر مسلسل وعظ فرماتے رہے ،مسلمان ،ہندوعیسائی ،انگریزافسراور فوجی وعظ کی مجلسوں میں شرکت کرتے رہے ،آپ اسلام کی حقانیت پرایسے عقلی،تجرباتی،مشاہداتی دلائل وبراہین بیان فرمائے کہ غیرمسلم بھی حیرت زدہ ہوجاتے ،دیانندسرسوتی کے تمام اعتراضات کے اطمینان بخش جوابات دئے او رآپ نے ان تقریروں میں تمام اہل مذاہب پر ظاہرکیا کہ قبول اسلام کے بغیر عذاب ِآخرت سے نجات ممکن نہیں ۔
جب دیانندسرسوتی ”رڑکی “سے فرارہوکر میرٹھ میں پناہ لی، تو حضرت نانوتوی ؒمیرٹھ چلے گئے ،کسی طرح اس کو پکڑلیا؛ لیکن وہاں سے بھی وہ کسی طرح فرارہوگیا ،اس کے بعد وہ کہیں نظرنہیں آیا ۔
نیزشیعیت کا رد اور مسلم معاشرہ میں درآنے والی شیعی خرافات ورسومات کا قلع قمع ،نیزبرادران وطن کے اختلاط سے درآنے والے بے شمارمشرکانہ توہمات و عقائد، رواج ورسومات کا ازالہ اورمعاشرہ کی اصلا ح کی بذات خود بھرپورکوشش فرمائی،غرض یہ کہ غدرکے بعدجوتعلیمی تحریک شروع فرمائی ،آپ اس کے سالارِقافلہ اور روح رواںتھے ،آپ نے تعلیمی ،تبلیغی ،تصنیفی ، سیاسی اورمعاشرتی امورمیں برصغیرکے مسلمانوں کے لئے عظیم الشان خدمات انجام دیں ۔
فکرقاسمی کے ثمرات واثرات
آپ کی مذکورہ خدمات جلیلہ وصفات عظیمہ(اعلاءکلمة اللہ واتباع سنت کا جذبہ، اسلام ومسلمانوں کا تحفظ، اسلا م کا دفاع،احقاق حق وابطال باطل اور ملک وملت کی حفاظت کے جذبات واحساسات،دینی حمیت اوراسلامی غیرت ،اشاعت دین کے لئے قربانی ، اصلاح معاشرہ کی فکر ومساعی جمیلہ ،علمی وسعت وگہرائی زہدوتقوی ،استغناءوتوکل وغیرہ) کے مطابق تلامذہ کی تربیت فرمائی۔
ان جذبات وصفات کے حامل افراد پیدا کرنے کے لئے آپ نے دارالعلوم دیوبند کی بنیادرکھی اور آپ کے تربیت یافتہ افراد مولانا یعقوب صاحب نانوتوی صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند ،حضرت شیخ الہند محمودحسن دیوبند ی مولانا عبدالعلی میرٹھی نے دارالعلوم میں تدریسی خدمات انجام دیں اور ان حضرات کی محنتوں سے حکیم الامت حضرت تھانوی ،محمدث العصر علامہ انورشاہ کشمیری ، شیخ الاسلام حضرت حسین احمد مدنی ،شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانی ،مفتی اعظم کفایت اللہ دھلوی ،مولانا عبیداللہ سندھی وغیرہ ۔ رحمھم اللہ۔ خادمین دین وملت تیار ہوئے ۔
بے شمارتلامذہ کو ملک کے طورل وعرض میں روانہ فرمایا جنہوں نے مختلف علاقوں میں دینی خدمات انجام دیںاور فکر قاسمی علی حسب توفیقِ الہی بلاواسطہ اور بالواسطہ تلامذہ میں منتقل ہوئی ،الحمدللہ آج تک یہ فکرقاسمی فرزندان دارالعلوم میں منتقل ہورہی ہے ،وہ دنیا کے مختلف حصوں میں پھیل کر دین کی روشنی پھیلارہے ہیں۔
اس وادی گل کا ہرغنچہ خورشیدجہاں کہلایا
دارالعلوم کا تعلیمی نظام ابتد اءہی سے نہایت عمدہ معیاری اورنتیجہ خیز رہاہے
دارالعلوم کا تعلیمی نظام ابتد اءہی سے نہایت عمدہ معیاری اورنتیجہ خیز رہاہے ،چنانچہ یہاں سے مفسرین قرآن ،محدثین کرام،فقہاءومفتیان عظام ،مصلحین امت،متکلمین ومبلغین اسلام، حامیان دین وشریعت پیداہوئے اور ہرمحاذسے دین واسلام او رملک وملت کی عظیم خدمات انجام دیں۔
حضر ت نانوتویؒ کی وفات کے بعد فرق باطلہ وضالہ: غیرمقلدیت ،قادیانیت ، رضاخانیت ، مودودیت،شکیلیت وغیرہ کا تعاقب کیا ،امت کو ان فتنوں سے آگاہ کیا ،ہزاروں ایمان والوں کے ایمان وعقائدکی حفاظت کی،بے راہ روی اورکج روی سے امت کو بچایا ہے۔
ہرزمانہ میں وجودمیں آنے والے نئے نئے فتنوں کوبہت پہلے ہی سے بھانپ لینا اور امت کوان پرمتنبہ کرنا،ہرشعبہءزندگی میں افراط وتفریط سے بچ کر اعتدال کی راہ اختیارکرنا ،اورجمہورامت ،اہل السنة والجماعت کے طریق پر قائم رہنا اوراسکی راہ دکھانا نا علمائے دیوبند کا امتیاز وشعارہے ،الحمدللہ دارالعلوم نے اپنے اس مذہبی فریضہ کی انجام دہی میں کبھی کوئی کسرنہیں چھوڑی ہے ۔
کہساریہاں دب جاتے ہیں ،طوفان یہاں رک جاتے ہیں
ہندوستان کی آزادی میں قائدانہ کرادار
حضر ت شیخ الہند ،شیخ الاسلام حضر ت مدنی مولانا عبیدا للہ سندھی وغیرہ نے ہندوستان کی آزادی میں قائدانہ کراداراداکیا ،قیدوبنداورجلاوطنی کی صعوبتیں برداشت کیں،ملک کی آزادی کے لئے منظم اور پرامن جدوجہدکے لئے جمعیة علماءہند کی بنیادرکھی گئی جس کے پہلے صدر حضر ت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب دہلوی اور ناظم عمومی سحبان الہند مولانا سعیداحمد صاحب مقررہوئے ، آزادی کے بعد ہندوستان کی تقسیم کے موقع پر خوف زدہ مسلمانوں کو دلاسا دیا،ہندوستان میں سکونت اختیار کرنے پر آمادہ کیا ۔
آزادی کے بعد ہندوستان کے دستورکو جمہوری بنائے جانے کی بھرپورکوشش کی ، آزادی کے بعد سے آج تک ملک کے دستور اور مسلمان اوراقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے قانونی اور پرامن کوشش کررہی ہے ،نیز مسلمان اور اقلیتوں کی تعمیروترقی میں نمایا ں خدمات انجام دے رہی ہے ،ملک کے تئیں مذکورہ خدمات علمائے دیوبندکا ایک روشن باب ہے ۔
اسلام کے اس مرکز سے ہوئی تقدیس عیاں آزادی کی ،اس بام ِحرم سے گونجی ہے سوباراذاں آزادی کی ،سوبارسنواراہے ہم نے اس ملک کے گیسوئے برہم کو، یہ اہل جنوں بتلائیں گے، کیا ہم نے دیا عالم کو
تحفظ شریعت کے لئے مسلم پرنسل لا کا قیام
ہندوستان کی آزادی کے بعد ملک کادستور سیکولربناجس میں تمام اہل مذاہب کے لئے مذہبی آزادی کی گنجائش رکھی گئی ؛لیکن روزاول ہی ہندوستان میں ایک ایساطبقہ سرگرم رہاہے جو یہ چاہتاہے کہ ملک میں مسلمانوں کا مذہبی تشخص ختم کیاجائے ،ا ن کی شریعت میں راست طورپر مداخلت کی جائے اور یکساں سول کوڈ نافذکیاجائے۔
یہ ناپاک منصوبہ جب پہلی مرتبہ منظرعام پر آیا ،مسلمان تحفظ شریعت کے تئیں پریشان ہوئے ،تو سب سے پہلے قاری محمدطیب صاحب ؒ سابق مہتمم دارالعلوم نے اولًا دارالعلوم میں نمائندہ اجلاس طلب کیا ،تحفظ شریعت کے لئے متعدد مشورے ہوئے اور آخرکار ممبی میں ۱۹۷۲ءمیں نمائندہ کنوشن منعقدہوا جس میں مسلمانوں کے تمام طبقات کا ایک متحدہ بورڈ ”مسلم پرسنل لابورڈ“تحفظ شریعت کے مقصدسے قائم کیا گیا اور اس کے سب سے پہلے صدرقاری محمدطیب صاحب ؒ منتخب ہوئے ۔
بورڈ ازروزاول تاحال ہندوستان میں تحفظ شریعت کے لئے کوشاں ہے اورہراس سازش کا مقابلہ کرتاآرہاہے جس کا مقصد شریعت میں تبدیلی ،تنسیخ اور مداخلت ہے ،بورڈ سیاسی سطح پر تحفظ شریعت کا سامان فراہم کرتاہے ،نیزتحفظ شریعت کے خلاف ہونے والی ہرسازش کا قانونی اور آئینی اعتبارسے دفاع کے فرائض انجام دےتاہے ،اس عظیم بورڈ کے قیام کا سہرابھی دارالعلوم کے سرجاتاہے ۔
مذکورہ بالامجمل خدمات فکرقاسمی ونسبت قاسمی کے اثرات ہی ہیں جن کو حضرت الامام قاسم نانوتوی ؒ کے روحانی فرزندوں نے انجام دیں ،اللہ تعالیٰ آج بھی آپ کے روحانی فرزندوں کو دین واسلام اور ملک وملت کے تحفظ کی عظیم خدما ت کی توفیق دی ہے۔
حضرت نانوتویؒ کے تلامذہ مثل شمس وقمر،جبل وبحر
حضرت نانوتویؒ کے بلاواسطہ تلامذہ اگرچہ تعدادمیں کم تھے؛لیکن جوتھے ،وہ سمندرکی وسعت ،موجوں کا تلاطم،پہاڑوں کی ثابت قدمی ،باران رحمت کی تیزی وفیاضی،شمس وقمر کی گردش اپنے اندرلئے ہوئے تھے۔
چنانچہ اس چھوٹی سے جماعت نے ان صفات کے حامل ہزروں تلامذہ کو تیارکیا ،رفتہ رفتہ ا س عظیم شخصیت کے روحانی فرزندوں نے علمی واسلامی دنیا میں عظیم خدمات انجام دیں اور ان کے لگائے ہوئے شجرِ طوبی کا فیض دنیا کے چپہ چپہ میں عام ہوا ،وہ جہاں رہتے ہیں مثل خورشیدجیتے ہیں اور ان ہی صفات ( اسلام کی اشاعت و حفاظت ،دفاع ،ملک کاتحفظ ،دینی حمیت واسلامی غیرت )کے تشخص کے ساتھ حسب توفیق ایزدی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔
یہ سب حضرت نانوتوی ؒ کے روحانی فرزندہیں،حضرت نانوتویؒ کا سلسلہ نسب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جاملتاہے ،حضرت صدیق اکبرمیں جودینی جذبہ کارفرماتھا ”اینقص الدین واناحی؟“ یہی جذبہ صدیق اکبر کے نسبی وروحانی فرزنداور ان کے توسط سے ان کی روحانی نسل میں موجزن ہے،یہ جذبہ اگرفضلاءدیوبند اوران کے متعلقین میں بیدارنہ ہو، تو نسبت قاسمی صحیح معنےمیں ان میں منتقل نہیں ہوئی ہے۔
یوںسینہءگیتی پرروشن ،اسلاف کا یہ کرداررہےآنکھوں میں رہیں انوارحرم،سینہ میں دل بیداررہے
وفات: ۴۹ سال کی عمر میں ۴جمادی الاولی ۱۲۹۷ھ م ۱۸۸۰ءہوئی ،قبرستان ِ قاسمی میں آسودہ خواب ہیں ۔(تاریخ دارالعلوم ۱۲۲/۱)
حضرت نانوتویؒ کے چندمشہورتلامذہ
مولانا محمدیعقوب صاحب نانوتوی اولین صدرالمدرسین
مولانامحمد یعقوب صاحب نانوتوی کی ولادت بمقام نانوتہ ۱۲۴۹ھ میں ہوئی ،ابتدائی تعلیم اور حفظِ قرآن کے بعد آپ اپنے والدمحترم مولانا مملوک علی صاحب کے ساتھ دہلی چلے گئے اوروالدمحترم سے تمام علوم متداولہ کی کتابیں پڑھیں،کتب حدیث حضر ت شاہ عبدالغنی مجددی سے پڑھیں ،آپ کو ہرعلم وفن میں کمال حاصل تھا ،آپ صاحب باطن، صاحب کرامات اورصاحب کشف بزرگ تھے ،دارالعلوم میں تقریبا ۱۹ سال تدریسی وصدرمدرسی کے فرائض انجام دئے۔
مولانا محمدیعقوب صاحب حضرت نانوتوی سے علوم متداولہ سے فراغت کے بعد صحیح بخاری نانوتہ میں اورصحیح مسلم میرٹھ میں پڑھی ؛جبکہ مولانا محمدیعقوب صاحب حضرت نانوتوی کے ساتھ تصحیح کتب کی ملازمت کررہے تھے ،نیز حضرت نانوتوتی کے استاذ زادے بھی تھے، اس کے باجود آپ کادل حضرت نانوتوی کی عظمت وعقیدت سے پر تھا ،آپ کے علمی کمال وجلال سے مرعوب ومتاثر بھی تھے ،جس کی گواہی آپ کی تحریرکردہ سوانح ”سوانح قاسمی “ ہے ،حضرت شیخ الہند ،حضرت تھانوی ،وغیرہ آپ کے تلامذہ ہیں (مستفاد : تاریخ دارالعلوم ۱۷۷/۲)
حضرت مولانافخرالحسن گنگوہیؒ
مولانافخرالحسن گنگوہی ۱۲۹۰ھ میں دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد خوجہ (بلندشہر) کے مدرسہ میں صدرمدرس ہوئے ، بعدازاں مدرسہ عبدالرب دھلی میں تدریسی ودرس حدیث کی خدمات انجام دیں ،بہت ذی علم، اچھے مقررومناظرتھے ،حضرت نانوتویؒ سے بہت سی کتابیں پڑھی ہیں، قیام میرٹھ کے زمانہ میں حضرت سے علم حاصل کیاہے۔
حضرت نانوتویؒ کے اسفارمیں رفیق ہواکرتے تھے ،میلہ خداشناسی،شاجہاںپور،مناظرہ رڑکی،وغیرہ میں حضرت نانوتویؒ کے ساتھ شریک ہوئے،”مباحثہ شاہ جہاںپور“مرتب کیا ہے،سنن ابوداؤدپر “التعلیق المحمود“کے نام حاشیہ تحریرفرمایاہے ، نیز سنن ابن ماجہ اور تلخیص المفتاح پر حواشی تحریرفرمائے ہیں،تقریبا ایک ہزارصفحات پرمشتمل اپنے استاذ محترم حضرت نانوتویؒ کی مفصل سوانح مرتب فرمائی تھی ،آپ کے گھرمیں آگ لگ گئی جس کی وجہ سے وہ مسودہ بھی نذرآتش ہوگیا ۔(مستفاد : تاریخ دارالعلوم۳۷/۲ )کانپورمیں ۱۳۱۵ھ م۱۸۹۷ءکو وفات پائی ۔(حیات وکارنامے: ۱۰۹)
مولاناسیداحمدحسن محدث امروہیؒ
مولاناسیداحمدحسن امروہی کی ولادت ۱۲۶۷ھ میں ہوئی، فارسی اورعربی کی ابتدائی تعلیم ”امروہہ “میں مولانا سیدرافت علی صاحب سے حاصل کی ،حضرت نانوتویؒ سے حدیث اوردیگرعلوم وفنون کی کتابیں پڑھیں ،حضر ت شاہ عبدالغنی مجددی اور مولانااحمدعلی محدث سہارنپوری ؒسے بھی اجازت حدیث حاصل ہے ،حاجی امداداللہ مہاجرمکی ؒسے بیعت وخلافت حاصل ہے ،حضرت شیخ الہند ؒکے رفیق درس ،جلیل القدرمحدث اورمناظراسلام تھے ۔
آپ نے قیام میرٹھ کے زمانہ میں حضرت نانوتویؒ سے علم حاصل کیاہے،مختلف مدارس میں خدمات انجام دیں اور جامعہ قاسمیہ مرادابادکے صدرالمدرسین ہوئے،پھرمدرسہ قاسمیہ شاہی سے مستعفی ہوکر اپنے وطن امروہہ چلے گئے،امروہہ میں ایک قدیم مدرسہ کو نشأة ثانیہ کے ذریعے ترقی دے کر جملہ علوم وفنون اورعلم حدیث کو جاری فرمایا ،الحمدللہ وہ مدرسہ تاحا ل اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ جاری وساری ہے ،مولانا کی درسی تقریرنہایت جامع ،شستہ اورپرمغز ہوتی تھی ،اپنی مخصوص صلاحیتوں کی وجہ سے علوم قاسمیہ کے امین سمجھے جاتے تھے، عمربھرعلوم قاسمی کی ترویج واشاعت میں مصروف رہے ۔
حضرت قاسم العلوم والخیرات کے دقیق اورغامض علوم کو ان ہی کے لب ولہجہ میں بیان فرماتے تھے
مولانا شبیراحمدعثمانیؒ فرماتے ہیں
ہرشخص جس کو کچھ بھی تجربہ ہویہ جانتاہے کہ دنیا میں بہت کم علماءایسے ہوئے ہیں جن کوعلمی شعبوں کی ہرشاخ میں پوری دست گاہ حاصل ہو ،مثلًا جن حضرات کو وعظ کہنے میں ملکہ ہوتاہے، وہ تدریس پرپورے قادرنہیں ہوتے اورجوتدریس کے کام میں مشغول ہوتے ہیں ،ان کو کسی مجمع میں وعظ یاتقریرکرنا مشکل ہوتاہے لیکن قدرت نے اپنی فیاضی سے ہمارے مولانامیں یہ سب اوصاف اعلی طورپرجمع کردئے تھے۔
مولانا کی تقریر،تحریر ،ذہانت، تبحر،اخلاق اورعلوم عقلیہ نقلیہ میں کامل دست گاہ ضرب المثل تھی اورسب سے زیاددہ قابل قدر اورممتاز کمال مولانا کایہ تھا کہ حضرت قاسم العلوم والخیرات کے دقیق اورغامض علوم کو ان ہی کے لب ولہجہ اورطرز ادامیں صفائی اورسلاست کے ساتھ بیان فرماتے تھے ۔
۲۹/ربیع الاول۱۳۳۰ھ م۱۹۱۲ءمیں ”امروہہ“ میں وفات پائی ،جامع مسجد”امروہہ“ میں تدفین عمل میں آئی ۔(تاریخ دارالعلوم ۴۱/۲)
مولاناعبدالعلی صاحب میرٹھیؒ
حضرت نانوتویؒ کے ممتاز تلامذہ میں آپ کا شمارہوتاہے ،مولانااحمدعلی محدث سہانپوریؒ اورمولانا نانوتویؒ سے حدیث کی کتابیں پڑھیں،دارالعلوم سے فراغت پائی او رعرصہ دراز دارالعلوم دیوبند میں استاذ رہے ، حکیم الامت حضرت تھانوی ،علامہ انورشاہ کشمیری اور شیخ الاسلام حسین احمد مدنی وغیرہم آپ کے تلامذہ ہیں، پھردارالعلوم سے مستعفی ہوکر مدرسہ عبدالرب دھلی چلے گئے اوردرس حدیث میں مشغول ہوگئے ،زہدوتقوی اورپرہیز گاری میں اپنی مثال آپ تھے ،آخری سانس تک صف اول ترک نہیں ہوئی ،آپ پرفالج کا حملہ ہونے کے باجودصف اول میں نماز کا اہتمام رہا ۔
حضرت مولانا شبیراحمدعثمانیؒ مولانا عبدالعلی میرٹھیؒ کا یہ مقولہ نقل فرمایاکرتے تھے ”قاسمی ہوجؤ ،بھوکے ننگے نہ رہوگے ،مجھ اپاہج کو دیکھو نہ اٹھ سکتاہوں نہ بیٹھ سکتاہوں؛مگررزق کی یہ بہتات ہے کہ میراحجرہ ہمہ قسم کی نعمتوں سے ہمہ وقت بھرپوررہتاہے “(مستفاد: ازتاریخ دارالعلوم ۴۳/۲)
۱۳۴۰ھ میں انتقال ہوا ،”مہدیان“ مقبرہ خاندان ولی اللہ میں مدفون ہوئے۔ (مولانا نانوتوی حیات :۱۱۲)
مولانا عبدالعدلؒ صاحب
حضرت نانوتویؒ کے قابل اعتماد شاگردوں میں سے ہیں ،ان کی علمی استعداد پرحضرت نانوتوی ؒ کو اعتماد تھا ،”رڑکی “میں دیانند سروسوتی کے مناظرہ کے لئے جن طلبہ کو روانہ فرمایاتھا ان میں مولانا بھی شامل تھے ۔(حیات وکارنامے:۱۱۰)
ؒمولاعبدالرحمن امروہی
حضرت نانوتویؒ کے آخری دورکے شاگردرشید ہیں ،مرض الوفات میں حضرت نانوتویؒ سے ترمذی شریف پڑہی ہے ،دارالعلوم دیوبند سے فراغت حاصل کی اورمختلف مدارس میں تدریسی خدمات پرمامورتھے ،جامعہ اسلامیہ ڈابھیل میں درس حدیث دیاہے آخرمیں جامعہ اسلامیہ امروہہ میں شیخ الحدیث رہے ،حضرت حاجی امداداللہ صاحب کے خلیفہ بھی ہیں،جمادی الاخری۱۳۶۷ھ م ۱۹۴۸ءمیں ”امروہہ “میں وفات پائی اوروہیں مدفون ہیں ۔(حیات وکارنامے: ۱۱۰)
خاک پائے فرزندان نانوتوی ؒعبداللطیف قاسمی جامعہ غیث الہدی بنگلور ،۲۹جمادی الثانیہ ۱۴۴۰ھ م ۷/ مارچ۲۰۱۹ءhttp://dg4.7b7.mywebsitetransfer.com