ابومحذورہ ؓمؤذن رسول اللہ ﷺ،مسجد حرام بلد امین کے مؤذ ن کے مختصر حالات نام ونسب:آپ کانام نامی اسم گرامی اورآپ کے نسب کے سلسلے میں مؤرخین کا اختلاف ہے ،اوس بن معِیر´رَبن وہب بن دعموس بن سعدبن جمح ۔ (مستدرک ۵۸۸/۳)
بعض حضرات نے آپ کا نام سمرة بن معیربن وہب بن دعموس بن سعد بن جمح ذکرکیاہے ۔ (مستدرک۵۸۸/۳،طبرانی کبیر) علامہ ذہبی ؒنے آپ کا نام ونسب اس طرح بیان کیاہے ،اوس بن معیربن لوذان بن ربیعہ بن سعدبن جمح ہے اورایک قول کے مطابق سمیر بن عمیر بن لوذان بن ربیعہ بن سعدبن جمح ہے۔ (سیر۲۵۵/۴)
ابن الاثیر جزری ؒاور علامہ ذہبیؒ فرماتے ہیں : پہلا قول مشہور اورصحیح ہے ،ابو عمرونے فرمایا کہ زبیر بن بکار اور ان کے چچا مصعب اور ابن اسحاق مسیبی ؒیہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت ابومحذورہ ؓکا نام اوس ہے ،یہ حضرات قریش کے نسب کو بہترطریقہ پر جاننے والے ہیں۔ (اسد الغابہ۹۱/۵،تاریخ اسلام ذہبی۵۲/۲) آپ ابومحذورہ ؓ کے نام سے مشہور ہیں،آپ کی والدہ کا تعلق قبیلہ ءبنو خزاعہ سے ہے ،(مستدرک ۵۸۸/۳،سیر۲۵۵/۴)
ابتدائی حالات
آپ کی پیدائش مکہ المکرمہ میں ہوئی ، مکہ المکرمة ہی میں وفات بھی ہوئی، آپ نے فتح مکہ کے سال۸ میں غزوہ حنین کے بعد مقام ”جعرانہ“ میں اسلام قبول کیا؛چونکہ فتح ِمکہ کے بعد ہجرت کی فرضیت منسوخ ہوگئی ،نیز رسول اللہ ﷺ نے حرم مکی میں آپ کو اذان کی ذمہ داری سپردفرمائی تھی، ان وجوہات کی بناءپر حضرت ابومحذورہ ؓمدینہ منورہ کی جانب ہجرت نہیں فرمائی،آپ بڑی عمدہ وخوش نما آواز کے مالک تھے، اللہ کے نبی علیہ السلام اور حضرت عمر ؓ نے آپ کی آواز کی تعریف فرمائی ہے۔
قبول اسلام اور حرم مکی میں مؤذن بننے کا دلچسپ واقعہ
حضرت ابومحذورہ ؓفرماتے ہیں:ہم دس ساتھی آپ ﷺ کو تلاش کرتے ہوئے نکلے ،ہم مقام ”جعرانہ“ میں تھے کہ آپ ﷺ”غزوہ حنین “سے واپس تشریف لارہے تھے،آپ ﷺ کے مؤذن نے اذان دی ،ہمیں آپ علیہ السلام سے سب سے زیادہ نفرت تھی، اس وجہ سے ہم مذاق کرتے ہوئے اذان کی نقل اتارنے لگے ،رسول اللہ ﷺنے ہماری آواز سن لی اور ہمیں اپنے پاس بلابھیجا ،ہم کوآپ علیہ السلام کے سامنے کھڑاکیاگیا ،آپ علیہ السلام نے فرمایا : عمدہ ،بہترین ا وربلند آواز سے تم میں سے کس نے اذان د ی؟ ساتھیوں نے میرے جانب اشارہ کردیا اورانھوں نے سچ کہا ،پھرمجھے آپ کے سامنے کھڑا کردیاگیا، میرے تمام ساتھیوں کوچھوڑ دیاگیا۔
آپ علیہ السلام نے بنفس نفیس مجھے اذان کی تلقین فرمائی اورفرمایا کہو
اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ،أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ،أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ،أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ.
شہادتین کو دوبارہ کہو، حضرت ابو محذورہ ؓ نے ان کلمات کو بلند آواز سے دوبارہ دہرایا ،پھرمکمل اذان کی تلقین فرمائی ۔
جب اذان مکمل ہوئی ،توآپ نے ایک تھیلی عطافرمائی جس میں چاندی تھی ،پھر اپنا دست مبارک میری پیشانی پر رکھ کر چہرہ اور سینہ کے اوپر سے گذارتے ہوئے ناف تک لے آئے، چنانچہ میرے سینہ میں آپ ﷺ سے جو نفرت ،کدوت اوربغض تھا،وہ سب دور ہوگیا اوردل آپ کی محبت سے لبریز و معمور ہوگیا اور آپ علیہ السلام نے تین مرتبہ دعادی: بارک اللّٰہ فیک ،وبارک علیک۔
مکہ کے مؤذن بنانے کی درخواست
پھرمیں نے آپ علیہ السلام سے درخواست کی مجھے مکہ مکرمہ کا مؤذن بنادیا جائے، بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ خود آپ علیہ السلام نے آپ کو مؤذن مقرر فرماتے فرمایا :جاؤ مکہ مکرمہ میں اذان دو ،حضرت ابو محذورہ ؓ فرماتے ہیں: میں عاملِ مکہ حضرت عتاب ؓبن اسید کی خدمت میں حاضر ہوا ،کار گذاری سنائی اور مکہ مکرمہ میں اذان دینے لگا۔(سنن نسائی ۷۴/۱،دارقطنی ۲۴۰/۱،طبرانی کبیررقم ۸۹۰ )
فضائل ومناقب
حضرت ابومحذورہ ؓکی سب سے بڑی فضیلت یہی ہے کہ آپ علیہ السلام نے آپ کی دل آویز وخوش نما آوازکو پسند فرماتے ہوئے مکہ مکرمہ کامؤذن مقرر فرمایا ،حضرت ابو محذورہ ؓ کے بیٹے اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابومحذورہ ؓنے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے بنو عبد المطلب کے لئے سقایة (حجاج کوپانی پلانے) کی ذمہ داری دی ، بنو عبدالدار کو حجابة(دربانی ) کی ذمہ داری عطافرمائی اور اذان کی ذمہ داری ہمارے لئے اور ہمارے موالی کے لئے طے فرمائی (مستدرک ۵۸۹/۳،طبرانی کبیر:۶۵۹۷)
چنانچہ مسجدحرام میں حضرت ابومحذورہ ؓکی اولادہی نسلًا بعد نسل اس ذمہ داری کو سنبھالتی رہی ،یہاں تک کہ لوذان بن سعد کی نسل خلیفہءھارون رشید کے زمانہ میں ختم ہوگئی ،تو یہ ذمہ داری بنو سلامان بن ربیعہ بن سعد بن جمح کے یہاں منتقل ہوگئی ،صاحب مہرة انساب العرب لکھتے ہیں کہ آج تک حرم مکی میں اذان کی ذمہ داری اسی خاندان میں چل رہی ہے (مہرة انساب العرب۷۴/۱،الاستذکار۳۲۵/۱)
بعض مؤرخین نے لکھا کہ حضرت ابو محذورہ ؓ نے کوئی اولاد اپنے بعد نہیں چھوڑی ،اس لئے اذان کی ذمہ داری اور یہ شرف وفضیلت ربیعہ بن سعد کے اولاد میں منتقل ہوگئی ،(اسد الغابة ۹۱/۵)؛لیکن یہ بات قابل اعتبار نہیں ہے، اس لئے کہ مصنف ابن شیبة ،مسند احمد ،ترمذی ،سنن ابو داؤد،دار قطنی وغیرہ میں حضرت ابومحذورہ ؓکی روایات محمد بن عبدالملک بن ابی محذورة عن ابیہ عن جد ہ کی سند سے آئی ہیں، کسی نے ان پر جرح بھی نہیں کی ہے۔
مکہ میں اذان کی ذمہ داری حضرت ابومحذورہ ؓ کی اولاد میں
علامہ نوویؒ نے تھذیب الاسماءمیں لکھاکہ امام شافعی ؒ کے زمانہ تک مکہ میں اذان کی ذمہ داری حضرت ابومحذورہ ؓکی اولاد ہی میں رہی ہے ۔(۱۶۱/۳) نیز مشہورمؤرخین محمدبن سعد اورواقدی نے بھی اپنی اپنی کتابوں میں اس کی گواہی دی ہے کہ آج تک حرم مکی میں اذان کی ذمہ داری ابو محذور ہ ؓ کی اولادہی میں جاری ہے (طبقات ۵۴۰/۵،سیر۲۵۶/۴)
حضرت مجاہد وعطا رحمھم اللہ فرماتے ہیں :ہم اہل مکہ دیگر لوگوں پر چارشخصوں پر ناز کرتے ہیں(۱)ہمارے فقیہ ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباس ،(۲)ہمارے قاری حضرت عبد اللہ ؒبن السائب (۳)ہمارے مؤذن حضرت ابومحذورہ ؓ (۴)اور ہمارے واعظ حضرت عبیدؒ بن عمیر ہیں (فضائل الصحابة لاحمد بن حنبل ۲۴۷/۱،اخبار مکةللفاکھی۲۸۲/۴)
حضرت ابومحذورہ ؓکے نام کا استعمال لوگ اپنی قسموں اور اپنی دعاؤں میں کیاکرتے تھے ،مصعب بن عبداللہ نے مندرجہ ذیل اشعار پڑھے ہیں اما ورب الکعبة المستورة ٭ وماتلاہ محمد من سورہ ، والنغمات من ابومحذورہ ؓ٭ لافعلن فعلة منکوورہ سنو غلاف والے کعبہ کے رب کی قسم اوراس سورت کی قسم جس کو محمد ﷺ نے تلاوت فرمائی ،حضرت ابو محذورہ کے نغمات کی قسم ،ضرور بالضرورمیں ایک عجیب وغریب کارنامہ انجام دوں گا۔(سیر ۲۵۶/۴)
ایک جنی کا واقعہ
ابن ضیاءمکی ؒ نے اپنی کتاب ”تاریخ مکة المشرفة والمسجد الحرام “میں اور ازرقی نے” اخبارمکة “میں ایک جنی کی حکایت نقل کی ہے، ابوالطفیل سے مروی ہے کہ زمانہ ءجاہلیت میں ایک جنی عورت مقام” ذی طوی“ میں رہاکرتی تھی اور اس کا ایک اکلوتا بیٹاتھا،جنی عورت کو اپنے بچے سے بہت زیادہ محبت تھی اور وہ بچہ اپنی قوم میں شریف وعزیز تھا،اس لڑکے کا نکاح ہوا،نکاح کے ساتویں دن اس نے اپنی ماں سے کہا،میں کعبة اللہ کا دن میں کا طواف کرنا چاہتاہوں،ماں نے کہا،مجھے تم پر قریش کے بے وقوف لوگوں کا خوف ہے،اس لڑکے نے کہا،مجھے صحیح سلامت واپس آنے کی امید ہے ،ماں نے اجازت دیدی ۔
،جب وہ جنی بچہ سانپ کی شکل اختیار کرکے جانے لگا ،توجنی ماںنے اس کی حفاظت کی دعاءکرتی ہوئی یوں کہا: اعیذہ بالکعبة المستورہ،ودعوات بن ابی محذورہ وماتلاہ محمد من سورہ،نی الی حیاتہ فقیرہ،وانی بعیشہ مسرورہ۔ میں اپنے لڑکے کو غلاف والے کعبہ رب کی پناہ میں دیتی ہوں، ابومحذورہ کی اولاد کے اذانوں کاوسیلہ اور اس سورت کے وسیلہ سے جس کو محمد ﷺ نے تلاوت فرمائی، اللہ کی پناہ میں دیتی ہوں،میں اس بچہ کی زندگی کی محتاج ہوں اور اس کی زندگی سے خوش ہوں۔(تاریخ مکة المشرفة۸۳/۱،اخبارمکة ۱۶۴/۴ )
رسول اللہ ﷺ سے حضرت ابومحذورہؓ کی محبت
حضرت ابومحذورہ ؓ کے مشرف باسلام ہونے کے وقت رسول اللہ ﷺ نے آپ کی پیشانی پرہاتھ پھیراتھا،حضرت ابو محذورہ ؓنے پیشانی کے ان بالوں کو زندگی بھر کاٹے بغیر اللہ کے نبی علیہ السلام کی نشانی وبرکت سمجھ کرباقی رکھا۔
صفیہ بنت مجزأ روایت کرتی ہیں کہ حضرت ابومحذورہؓ کے پیشانی میں بالوں کا ایک گچھا تھا،جب آپ بیٹھتے ،تو وہ بال زمین تک آجاتے ،لوگوںنے ان سے کہا،آپ ان بالوں کوصاف کیوں نہیں کروالیتے ؟توآپ جواب میں فرماتے رسول اللہ ﷺ نے ان بالوں پر اپنا دست مبارک پھیرا ہے ،لہذامیں ان بالوں کو موت تک نہیں کاٹو ں گا،چنانچہ آپ ان بالوں کو مرنے تک باقی رکھا صاف نہیں فرمایا ۔(مستدرک۵۸۹/۳،سیر۲۵۶/۴)
رسول اللہ ﷺ نے براہِ راست آپ کو کلماتِ اذان کی تلقین فرمائی تھی اور اس وقت شہادتین کو حضرت ابو محذورہ ؓ نے پست آواز سے اداکیا ،آپ نے فرمایا: دوبارہ ان کلمات کو بآواز بلند اداکرو،آپ نے اسی طرح دوبارہ اداکیا ،اس کو فقہ کی کتابوں میں ترجیع کہتے ہیں، یہ ترجیع آپ کے اسلام قبول کرنے اور آپ کے دل سے کفر وشرک اوررسول اللہ ﷺ کی نفرت وبغض دور ہونے اوراس کی جگہ آپ کی محبت وعظمت پیداہونے کا سبب تھی، اس لئے اس کو بھی آپ نے اپنی زندگی بھرکلمات اذان میں باقی رکھا۔
ایک مرتبہ حضرت امیر معاویةؓ کے مؤذن نے مسجد حرام میں اذان دیدی، تو حضرت ابومحذورہ ؓ نے اس کو لے جاکر زمزم کے کنویں میں ڈال دیا۔ ( مستدرک ۵۹۰/۳،سیر۲۵۶/۴)یعنی رسول اللہ نے جو ذمہ داری آپ کے سپردفرمائی ہے اس کوپوراکرنے کا اتنا شوق وجذبہ کے دوسروں کاعمل ودخل آپ کو بالکل برداشت نہیں۔
ابومحذورہؓ سے روایت کرنے والے حضرات
آپ سے آپ کے بیٹے عبدالملک ،آپ کی بیوی ،اسود بن یزید ،عبداللہ بن محیریز ،ابن ابی ملیکة ۔(سیر۲۵۵/۴)سائب مولی بن ابی محذورہ ،مؤذن ابوسلمان،عبدالعزیز بن رفیع ،صفیةبن مجزأاوراوس بن خالد (طبرانی کبیر)وغیرہ نے روایت کی ہے۔ امام بخاری ؒ کے علاوہ امام مسلم ،اصحاب سنن اور اکثر محدثین نے اپنی اپنی کتابوں میں آپ کی مرویات کو ذکر فرمایاہے۔ (الوافی بالوفیات۳۱۷/۳)
وفات
حضرت ابومحذورہؓ کی مکہ مکرمہ میں ۵۹ ھ میں وفات ہوئی ،آپ نے اذان کو اپنی اولاد اوراپنے خاندان کے لئے بطور وراثت چھوڑکر تشریف لے گئے ، حرم کے منادی نبی ﷺ کے مؤذن خاص اپنے مولی حقیقی سے جاملے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات کو بلند فرمائے آپ کی طرح ہمیں بھی اور ہماری اولا دکو بھی قبول فرمائے۔ آمین یارب العلمین ۔(اذان ومؤذنین رسول اللہ ﷺٍ:۱۰۷)