حضرت تھانویؒ کے کثرت ِتصانیف کے ظاہری اسباب: امام راغب اصفہانی نے مفردات القرآن میں لکھا ہے
التقبل قبول شیءعلی وجہ یقتضی ثوابا کالھدیة۔(مفردات القرآن:۴۳۸)
قبول کہتے ہیں :کسی چیز کااس طریقہ پر لینا کہ وہ بدلہ دئے جانی کی مستحق ہو ،جیسے ہدیہ ہوتا ہے
عام طور سے کسی بھی چیز کی قبولیت کی دو وجہیں ہوتی ہیں،خوب صورتی،خوب سیرتی؛لیکن جو بھی چیز اچھی ہو، اس کا مقبول ہونا لازم نہیں۔
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں شیطان ، بلعم بن باعورا وغیرہ کی ،رسول اللہ ﷺ نے احادیث مبارکہ میں ابولہب اور عبد اللہ بن جمیل وغیرہ کی مثالیں بیان کیں ہیں اور انسانی تاریخ میں یہ بات مسلم ہے۔
علامہ مناوی ؒ نے ”فیض القدرشرح الجامع الصغیر“میں ابن عطاءاسکندریؒ جو اس امت کے بہت بڑے حکیم گذرے ہیں،ان کامقولہ نقل کیا ہے
ربما افادک فی لیل القبض ما لم تستفدفی اشراق نھار البسط،وقال: ربما فتح لک باب الطاعة،وما فتح لک باب القبول،وقضی علیک بالذنب،وکان سبب للوصول۔(فیض القدیر ۳۳۵/۲)
بسا اوقات اللہ تعالیٰ رات کی تاریکی میں تم کو ایسا فائدہ پہنچاتے ہیں جو دن کی روشنی میں تم کو حاصل نہیں ہوتا ، بسا اوقات طاعت کا دروازہ تمہارے لئے کھول دیا جاتا ہے؛لیکن تمہارے لئے قبولیت کا دروازہ کھولا نہیں جاتا،بسا اوقات تمہارے خلاف گناہ کے صدور کا فیصلہ کیاجاتا ہے؛لیکن وہ تمہارے لئے بارگاہ الہی تک پہنچنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔
اعمال کے قبولیت کے اسباب
اللہ والوں نے بارگاہِ خداوندی میں اپنے اعمال کو مقبول بنانے کے لئے چند اسباب بیان کئے ہیں (۱)کسی عمل کو اللہ کے یہاں مقبول کرانے کے لئے اپنی ذات میں تقوی اور پرہیزگاری پیدا کرے۔ (۲)اپنے عمل میں مخلص ہو،عمل صرف اللہ کو راضی و خوش کرنے کے لئے کرے۔ (۳)عمل سے فارغ ہونے کے بعد اللہ کے حضور میں قبولیت کی دعاءکرے۔
نیز اللہ والوں نے قبولیت کی علامتیں بھی ذکر فرمائی ہیں: (۱)آدمی کا عمل سنتِ نبوی کے مطابق ہو۔(۲)اعمال میں ترقی ہو۔(۳)عمل پر مواظبت اور اہتمام ہو۔
امت میں بہت سارے ماہر مصنفین وتجربہ کار مؤلفین گزرے ہیں اور ڈھیر ساری کتابیں تصنیف کی ہیں؛لیکن اللہ تعالی نے ان کی تصنیفات کو باقی نہیں رکھا ؛بلکہ ان کتابوں کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہا،جن کو اللہ نے قبول نہیں فرمایا۔
کم من تالیف طوی ذکرہ،ولم یشتغل بہ
علامہ خرشی مالکی نے” مختصر خلیل“ کے مقدمہ میں ایک تاریخی جملہ رقم فرمایا ہے:”کم من تالیف طوی ذکرہ،ولم یشتغل بہ“ کتنی ایسی کتابیں ہیں جن کے نام بھی لوگ نہیں جانتے،اس کے بر خلاف کچھ مصنفین اور مولفین وہ ہیں جن کی تصانیف کو اللہ تعالیٰ نے قبولیت تامہ وافادیت عامہ عطا فرمایا ہے۔
امام مالک ؒ کے زمانے میں ابن ابی ذئب ؒ ایک بزرگ تھے، انہوں نے ایک موطا نامی کتاب لکھی جو امام مالکؒ کی موطا سے زیادہ ضخیم تھی،لوگوں نے امام مالک ؒ سے سوال کےا،”ما الفائدة فی تصنیفہ‘‘؟ اب آپ کی موطا کی تصنیف سے کیا فائدہ ہوگا؟ امام مالک ؒ نے جواب میں ارشاد فرمایا:”ما کان للہ بقی‘‘جواللہ کے لئے ہوگی، وہ باقی رہے گی ،واما ما ینفع الناس، فیمکث فی الارض۔
اللہ تعالی نے آپ کی تصنیف کو قبول فرمایا،آپ کی تصنیفات و تحریرات سے قرآن وحدیث کے نصوص اور منشاءشریعت کو سمجھنے میں مد دحاصل کی جاتی ہے اور آپ کے اقوال کو سند کا درجہ دیا جاتا ہے،وہ دنیا سے رخصت ہوگئے؛لیکن وہ اورآپ کی تصنیفات مرور ِایام کے باوجود زندہ اور تابندہ ہیں،امت آپ کی تصنیفات سے برابر مستفید ہورہی ہے،آپ کی تالیفات داخل ِنصاب،کتب خانوں کی زینت،مصنفین،مولفین،شارحین،مفتیان کرام،محدثین عظام،مدرسین اور طالبان علمِ دین کا مرجع اور آنکھوں کا سرمہ بنی ہوئی ہیں۔
کثیرالتصانیف علمائے کرام
امت کے وہ اکابر جو متعدد موضوعات پر مقبول اور بے شمار تالیفات اپنے پیچھے چھوڑ گئے ہیں،ان میں امام محمد بن حسن الشیبانیؒ(ظاہرالروایةوغیرہ کی کتب)،امام طحاوی(مولفات کثیرة)،امام سلیمان بن احمد الطبرانی(۴۶)امام علی بن عمرو دار قطنی(۸۰)امام حاکم ابو عبداللہ النیساپوری(۱۵۰۰،اجزاء)،
امام احمد بن حسن ابوبکر البیہقی الشافعی(۱۰۰۰)احمد بن علی بن ثابت المعروف بالخطیب البغدادی(۵۶)،محمد بن محمد بن محمد الغزالیؒ(مولفات کثیرة)ابو الفرج ابن الجوزی(۲۰۰۰)،ابو البکرنسفیؒ(مولفات کثیرة)،علامہ محمدبن محمد بن عثمان شمس الدےن الذھبی(تقرب من المآة)،تقی الدین السبکی(۱۵۰)،یحی بن شرف النووی الشافعیؒ(مولفات کثیرة)،حافظ ابن تیمیہ(مولفات کثیرة)،حافظ ابن حجر العسقلانی(مولفات کثیرة) ،حافظ بدر الدین العینیؒ(مولفات کثیرة)،علامہ محمد بن عبدالرحمن السخاوی(۲۰۰)، جلال الدین السیوطی(۷۵۲)،علامہ محمد عبد الرؤف بن تاج المناوی(۸۰)،ابن رجب الحنبلیؒ(مولفات کثیرة)
علامہ محمود بن عبداللہ الآلوسیؒ(مولفات کثیرة)رحمہم اللہ وغیرہ ہیں، اللہ تعالیٰ ان اکابر کو پوری امت کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے ۔آمین۔ ان ہی مبارک و مقبولانِ خدااکابر امت میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ(۵۰)اورحکیم الامت مجددالملت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ ہیں جن کا تذکرہ یہاں مقصود ہے۔
حضرت تھانویؒ کواللہ نے اعلی درجہ کا ملکہءتصنیف عطا فرمایا تھا
حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ کواللہ تعالیٰ نے شروع ہی سے اعلی درجہ کا ملکہءتصنیف عطا فرمایا تھا،تصوف، تفسیر،حدیث ،فقہ،علم کلام اور تجوید وغیرہ علوم میں آپ کی تصنیفات ہیں،بعض لوگوں نے آپ کی تصنیفات دو ہزار تک شمار کی ہیں،حضرت والا جب کسی موضوع پر قلم اٹھاتے ہ،تو اس کا کوئی بھی ضروری پہلو نظر انداز نہیں ہوتاتھا،نیز اس کو دلائل عقلیہ ، نقلیہ کے ذریعہ مدلل اور مبرھن فرماتے-
اللہ تعالی نے حضرت والا کوکثرت ِتصانیف کی نعمت کے ساتھ قبولیت عامہ اور نافعیت تامہ بھی عطا فرمایا ہے،حضرت کی کتابوں کی طرف علماءوعوام کا رجوع ہے اور امت ان سے برابر مستفید ہورہی ہے، حضرت کی تصنیفات میں شروع ہی سے من جانب اللہ برکت،خصوصی نصرت اورغیبی مدد شامل حال رہی ہے۔
چنانچہ طالب علمی کے زمانے میں جبکہ آپ کی عمر صرف اٹھارہ (۱۸)سال تھی،فارسی میں مثنوی”زیروبم“لکھی،نیز جس زمانہ میں آپ کے پیرومرشد حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکیؒ قدسرہ العزیز،کی خدمت میں قیام پذیر تھے،حاجی صاحب کے حکم سے ابن عطا اسکندریؒ کی کتاب”تنویر“ کا اردو ترجمہ”اکسیر فی اثبات التقدیر“ کیا،حاجی صاحب نے بہت کم وقت میں زیادہ کام ہوتا دیکھ کریہ بشارت سنائی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے وقت میں برکت رکھی ہے
چنانچہ آپ کے متعلقین اورمنتسبین کابیان ہے کہ آپ کے وقت میں کھلی برکت دیکھنے میں آئی،جتنے وقت میں جتنا کام حضرت تھانویؒ کرلیتے تھے،اکثر تجربہ کاروں کو یہ تسلیم کرنا پڑاہے کہ دوسرا نہیں کرسکتا ۔
کثرت ِتصانیف میں غیبی امدادکے چند ظاہری اسباب
قبولیت کے مذکورہ اسباب اور ان کی علامتیں حضرت تھانویؒ کی تصنیفات میں الحمد للہ بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں،مزید براں کثرتِ تصانیف کے ظاہری اسباب مندرجہ ذیل ہیں،جن کو آپ کے خلیفہ اور سوانح نگار حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوبؒ نے” اشرف السوانح“ میں بیان کیا ہے۔
پہلا سبب
حضرت تھانویؒ کے اندر کسی کام کو شروع کرکے اس سے اپنے قلب ودماغ کو فارغ کرنے کا تقاضہ اس شدت سے پیدا ہوتا تھاکہ جب تک اس سے مکمل فارغ نہیں ہوتے بے چین و بے قرار رہتے تھے،رات دن ،وقت بے وقت باستثناءامور ضروریہ کے اسی کی تکمیل کے دھن میں لگے رہتے تھے اور اس کوجلد سے جلد پورا فرماکر ہی سکون پاتے تھے۔
خواجہ عزیز الحسن مجذوبؒ تحریرہیں: احقر کو اچھی طرح یاد ہے کہ جب” کلید مثنوی“ کی شرح قریب الختم تھی، تو حضرت تھانوی کے اندر اس سے فراغت حاصل کرنے کا اس شدت کے ساتھ تقاضہ ہوا کہ آخر میں دن بھر اسی کو لکھتے رہے پھر تمام رات لکھتے رہے،ایک منٹ کے لئے بھی نہیں سوئے ، فجر سے پہلے اس کوختم کرکے ہی دم لےااور فرمایا :پوری رات جاگنے کا اس سے پہلے کبھی اتفاق نہیں ہوا تھا،جس کایہ اثر ہوا کہ بوجہ خلافِ عادت تعب برداشت کرنے کے بخار ہوگیا؛لیکن بخار میں بھی ایک اطمینانی کیفیت تھی؛کیوںکہ کام سے فارغ ہونے کے بعد بخار آیا تھا۔
دوسراسبب
غیبی امداد کا دوسرا سبب یہ ہے کہ حضرت تھانویؒ کو کسی مضمون کے تحریر فرمانے میں زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں پڑتی،اکثر بڑے بڑے غامض مضامین کو بھی قلم برداشتہ لکھتے دیکھا گیا،اگرچہ دوران ِتحریر اور تحریر کے بعد بھی اس میں اضافات و ترمیمات بکثرت فرماتے رہتے تھے،یعنی وسعت ِعلم واستحضارکی صفات سے متصف تھے۔
تیسراسبب
وقت میں برکت ، موانع سے حفاظت رہتی تھی،چنانچہ حضرت والا فرمایا کرتے تھے:”بیان القرآن“لکھنے کے زمانے میں جس کی مدت تقریبا ڈھائی سال تھی،میرا کبھی کان بھی گرم نہیں ہوا؛حالانکہ وہاں طاعون کی بہت کثرت رہی-
حضرت والا یہ بھی فرمایا کرتے ہیں کہ،جب تفسیر لکھنے کے زمانے میں قصبے کے اندرشدت کے ساتھ طاعون پھیلا،تو میں نے دعاءکی کہ اے اللہ!جب تک تفسیر پوری نہ ہو،اس وقت تو مجھے زندہ ہی رکھئے گا،چنانچہ بفضلہ تعالیٰ میرا کان بھی گرم نہیں ہوا،الحمد للہ تفسیر مع الخیر پوری ہوگئی۔
چوتھاسبب
کثرت تصانیف کا چوتھا سبب عدم غلوہے،چنانچہ حضرت مولانا حبیب الرحمن ؒصاحب سابق مہتمم دار العلوم دیوبند نے بھی ایک بار یہی رائے ظاہر فرمائی تھی،حضرت والا مولانا حبیب الرحمنؒ صاحب کی رائے نقل فرما کر فرمایا کرتے تھے ،واقعی بالکل صحیح فرمایا،زیادہ کاوش سے کچھ کام نہیں ہوتا-
میری نظر تو صرف ضرورت پر رہتی ہے،ضرورت سے زیادہ کاوش کرنے سے جی بہت الجھتا ہے،اسی وجہ سے میری عبارت بہت مختصر ہوتی ہے؛مگر اظہار مدعا کے لئے بالکل کافی و وافی ہوتی ہے اور واضح ہوتی ہے، بلا ضرورت میں ہرگزطویل نہیں کرتا؛مگر جہاں وضوح کے لئے تطویل ہی کی ضرورت ہو، وہاں تطویل سے گریز بھی نہیں کرتا۔
حضرت والا جس زمانے میں بکثرت کتابیں تصنیف فرماتے تھے، اکثر اپنے پاس پنسل ،کاغذ رکھتے تھے اور جس وقت اس کے متعلق کوئی مضمون ذہن میں آتا فورا اسکو لکھ لےتے؛بلکہ بعض اوقات رات کو سوتے وقت بھی تکیہ کے نیچے کاغذ اور پنسل رکھ لےتے،تاکہ اگر رات کو بھی کوئی مضمون ذہن میں آئے ،تو فورًا روشنی کا انتظام کرکے اس کے متعلق یاداشت لکھ لی جائے۔
پانچواں سبب
حضرت والا نہایت منضبط الاوقات تھے،چنانچہ حضرت والا فرمایا کرتے تھے :اگر میں انضباطِ وقت نہ کرتا،تو دین کی تھوڑی بہت خدمت جو مجھ سے ہوسکی ہے، ہرگز نہ ہوتی،حضرت والا انضباط ِاوقات کے سلسلہ میں یہاں تک پابند تھے ۔
ایک مرتبہ حضرت کے استاذمکرم شیخ الہند محمود حسنؒ تشریف لائے اور آپ کے مہمان ہوئے،آپ نے حضرت شیخ الہند ؒ کے راحت وآرام کے سارے انتظامات فرمادینے کے بعد جب تصنیف کا وقت آیا ،تو نہایت ادب کے ساتھ اجازت حاصل فرماکر تصنیف کے کام میں مشغول ہوگئے،پھر تصنیف میں دل نہیں لگا اور تھوڑی ہی دیر بعد حاضر خدمت ہوگئے؛ لیکن بالکل ناغہ اس روز بھی نہیں کیا۔
چھٹاسبب
اخلاص ہے،یہی وجہ ہے کہ حضرت والا نے اپنی تصنیفات کو معاش کا ذریعہ نہیں بنایا،چنانچہ آپ کی طرف سے عام اجازت ہے کہ جس تصنیف کو چاہے اور جتنی تعداد میں چاہے چھاپ سکتا ہے ،چنانچہ اہل مطابع لاکھوں روپئے حضرت کی تصنیفات کو شائع کرکے حاصل کرتے ہیں۔
ایک انگریز نے آپ سے پوچھا کہ آپ کو تفسیر لکھنے میں کتنے روپئے ملے؟حضرت تھانویؒ ے فرمایا:کچھ بھی نہیں، اس نے بہت تعجب کیا اور کہا کہ پھر اتنی بڑی کتاب لکھنے کی آپ نے محنت کیوں کی؟ حضرت نے فرمایا : ہم لوگوں کا عقیدہ ہے اس زندگی کے علاوہ بھی ایک زندگی ہے جس کو آخرت کہتے ہیں-
میں نے یہ محنت اس امید کے ساتھ کی ہے کہ ا ن شاءاللہ مجھے اس کا عوض اس دوسری زندگی میں ملے گا اور دنیا کا فائدہ یہ ہے کہ جب میں دیکھوں گا کہ میرے مسلمان بھائی پڑھ پڑھ کر اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں،تو مجھے خوشی ہوگی۔
علامہ انور شاہ کشمیری ؒنے فرمایا
سب سے بڑی احتیاط جو حضرت تھانوی ؒکی عظیم خصوصیت ہے وہ یہ کہ اپنی تصنیفات کے تسامحات ِاتفاقی کو جن کا علم خود یا کسی دوسرے کے ذریعہ ہوتا تھا ان سے رجوع فرماتے تھے اور اس رجوع کو شائع بھی فرماتے رہتے تھے اور اس سلسلہ کا ایک خاص لقب ”ترجیح الراجح“ تجویز کیا گیاتھا،جو مستقل طور پر جاری تھا،اس سلسلہ میں حضرت کو جہاں اپنے تسامحات پر شرح صدر ہوجاتا،وہاں رجوع فرمالیتے اور جہاں تردد رہتا ہے ،وہاں جواب لکھ کر یہ تحریر فرمادیتے کہ دیگر علماءسے بھی تحقیق کرلی جائے۔
اس سلسلہ کے متعلق حضرت علامہ انور شاہ کشمیری ؒنے فرمایا:”ترجیح الراجح“اس زمانہ کی ایک بالکل نرالی چیز ہے،یہ سلف صالحین کا معمول تھا ،حضرت تھانویؒ کی امتیازی شان اور کمالِ صدق و اخلاص کے ظاہر کرنے کے لئے بس یہی کافی ہے،حضرت نے بعض فضلاءسے اپنی تصنیفات”بہشتی زیور“ ”امداد الفتاوی“ ”تفسیر بیان القرآن“پر نظر ثانی بھی کرائی اور جن تسامحات پر شرح صدر ہوگیا ،ان کو اصل نسخہ میں درست فرماکر شائع بھی فرمایا۔
شوق،وجذبہ، وسعت مطالعہ
حضرت تھانویؒ کے کثرت تصانیف کے مذکورہ ظاہری اسباب اصول کی حیثیت رکھتے ہیں،اگر ہم کامیاب دین کے داعی، مدرس اورمصنف و مولف بننا چاہتے ہیں اوراپنی تصنیفات کو مقبول ونافع بنانا چاہتے ہیں ،اس چندروزہ زندگی سے فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں ،تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم مذکورہ اصول کو اختیار کریں ،اگر ہم ان اصول کومختصرالفاظ میں اداکرنا چاہیں تو ان کی یہ تعبیرہوسکتی ہے
(۱)شوق و جذبہ(۲)وسعتِ مطالعہ واستحضار(۳)لا یعنی امور سے احتراز(۴)تحریروں میں تصنع و تکلف سے اجتناب(۵) انضباط ِاوقات(۶) اخلاصِ نیت لہذا ہمیں چاہئے کہ ہم بھی ان زریں اصول پرعمل پیرا ہوکر دینی خدمات میں ہمہ تن مصروف ہوں۔
اللہ تعالی اس تحریر کو قبول فرمائے،قارئین کے لئے مفید اورمرتب کے لئے ذخیرہ آخرت بنائے۔ آمین۔ بروز پیر ،۲۲/شعبان المعظم ۱۴۳۲ھ ،مطابق ۲۵/ جولائی ۲۰۱۱ء۔عبداللطیف قاسمی جامعہ غیث الہدی بنگلور