ختم نبوت اورہماری ذمہ داری

ختم نبوت اورہماری ذمہ داری:اسلامی عقائدمیں ایک اہم اوربنیادی عقیدہ” عقیدہ ختم نبوت “ہے ،جس کا حاصل یہ ہے کہ جن وانس کی رشدوہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ نے انبیاءعلیہم السلام کاعظیم الشان سلسلہ جاری فرمایا، اس سلسلے کو سیدالمرسلین خاتم النبیین حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر مکمل فرمایا –

اب قیامت تک کسی کونبی بنایانہیں جائے گا ،اللہ تعالیٰ کی وحدانیت میں جس طرح شرکت ممکن نہیں ،اسی طرح حضر ت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم ِنبوت میں بھی شرکت ممکن نہیں ،جس طرح نبی صادق کو نہ ماننااوران کی تکذیب کرنا کفرہے ،اسی طرح جھوٹے مدعی نبوت کوماننااوراس کی تصدیق کرنا بھی کفرہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب کچھ ماننے کے باوجوداگرکوئی بدنصیب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختمِ نبوت کا یقین نہیں رکھتایاختمِ نبوت میں کسی بھی طرح کی تاویل کرے، تووہ کافرہے اور ایمان سے قطعاًمحروم ہے ۔

قصرِنبوت کی پہلی اینٹ

اللہ جل جلالہ نے جب ایک طرف عالم کی بنیادرکھی ،تو اسی کے ساتھ ساتھ دوسری طرف قصرِنبوت کی پہلی اینٹ بھی رکھ دی ،یعنی عالم میں جس کو اپنا خلیفہ بنایاتھا، اسی کوقصرنبوت کی خشتِ اول قرار دیا ،ادھر عالم بتدریج پھیلتارہا،ادھر قصرِنبوت کی تعمیرہوتی رہی ،آخرکار عالم کے لئے جس عروج پرپہنچنا مقدرتھا،پہنچ گیا ،ادھرقصرِنبوت بھی اپنے جملہ محاسن اورخوبیوں کے ساتھ مکمل ہوگی۔

اس لئے ضروری ہوا کہ جس طرح عالم کی ابتداءمیں رسولوں کی بعثت کی اطلاع دی تھی، اس کے انتہاءپررسولوں کے خاتمے کا بھی اعلان کردیاجائے ؛تاکہ قدیم سنت کے مطابق آئندہ اب کسی رسول کی آمدکا انتظارنہ رہے ۔

میں آخری رسول ہوں

یبنی آدم امایاتینکم رسل منکم یقصون علیکم اٰیتی۔ (الاعراف: ۳۵)

اے آدم کی اولاد! تمہارے پاس تم ہی میں سے رسول آئیں گے جومیری آیتیں تمہیں پڑھ کر سنائیں گے ۔

اس اعلان کے مطابق زمین پربہت سے رسول آئے؛ مگر کسی نے یہ دعوی نہیں کیا کہ وہ خاتم النبیین ہے ؛بلکہ ہررسول نے اپنے بعد آنے والے رسول کی بشارت سنائی اوران کی علامات کو ذکر فرمایاکرتے تھے ؛تاکہ آنے والے نبی کو پہچان لیں حتی کہ وہ زمانہ بھی آگیاجب کہ اسرائیلی سلسلے کے آخری رسول نے ایسے رسول کی بشارت دے دی جس کا اسم مبارک ”احمد“صلی اللہ علیہ و سلم ہے۔

(ومبشرابرسول یاتی من بعدی اسمہ احمد۔(الصف : ۶) عالم کے اس منتظر اورحضرت عیسی علیہ السلام کے اس مبشررسول نے دنیا میں آکر ایک نیااعلان کیا اورہ یہ تھا کہ میں آخری رسول ہوں،عالم کا زمانہ بھی آخرہے اورہاتھ کی دوانگلیوں کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: میں اورقیامت اس طرح قریب قریب ہیں ،عالم اپنے عروج کو پہنچ چکاہے ،قصرِنبوت میں ایک ہی اینٹ کی کسرباقی تھی، وہ میری آمدسے پوری ہوگئی ہے ،دونوں تعمیریں مکمل ہوگئیں ہیں۔

قرآن میں آپ کی ختم نبوت کا اعلان

قرآن کریم میں آپ کی ختم نبوت کا اعلان ان الفاظ میں کیاگیا۔

ماکان محمدابااحدمن رجالکم، ولکن رسول اللہ ،وخاتم النبیین، وکان اللہ بکل شیء علیما (الاحزاب :۴۰)

یعنی حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے نسبی باپ نہیں ہیں ؛بلکہ روحانی باپ ہیں ،دیگرانبیاءعلیہم السلام کی طرح آپ علیہ السلام کو کسی بالغ مرد کا باپ نہیں بنایاگیا جس سے یہ خیال پیداہوکہ آپ کی اولاد میں نبوت کا سلسلہ جاری رہ سکتاہے؛ کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے اجراءکے لئے نہیں ؛ بلکہ نبوت کے سلسلہ کو ختم کرنے کے لئے تشریف لے آئے ہیں۔

اب قیامت تک نہ کوئی رسول آئے گا نہ نبی،ختم نبوت کا عقیدہ تقریباً سو قرآنی آیات سے صراحتةًواشارةً ثابت ہے ،دوسوسے زاید احادیث اوراجماع امت سے ثابت ہے ۔

ختم نبوت کے اعلان میں ایک حکمت

علماءمحققین لکھتے ہیں کہ ختم نبوت کے اعلان میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ دنیامتنبہ ہوجائے کہ اب یہ پیغمبر آخری پیغمبر ہیں اوریہ دین آخری دین ہے ،اب نہ کوئی رسول آئے گا، نہ نبی،نہ تشریعی نہ غیرتشریعی ،نہ ظلی نہ بروزی ،اس لئے کہ اب منصب ِنبوت کوختم کردیاگیاہے ۔

یعنی اب تک جتنے رسول آئے، وہ صرف رسول اللہ تھے ،آپ رسول اللہ ہونے کے ساتھ خاتم النبیین بھی ہیں ،اس بناءپر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تصورکے لئے دوباتوں کشا تصورضروری ہے، پہلی بات آپ رسول اللہ ہیں دوسری بات خاتم النبیین بھی ہیں ۔

آپ سے متعلق صرف رسول اللہ کا تصور ادھورا اورناتمام تصور ہے ؛بلکہ ان دونوں تصوروں میں امتیازی تصور خاتم النبیین ہی ہے ،یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ختم ِِنبوت کا اعلان فرمایا۔

ختم نبوت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امتیازی شان

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا

ان مثلی ومثل الانبیاءمن قبلی کمثل رجل بنی بیتا، فاحسنہ، واجملہ الاموضع لبنة من زاویة ، فجعل الناس یطوفون بہ، ویتعجبون لہ ،ویقولون :ھلا وضعت ھذہ اللبنة؟ قال: فانا:اللبنة ، وانا خاتم النبیین۔(رواہ جماعة ورواہ البخاری عن ابی ھریر ة :۵۰۱/۱،۳۵۳۵)

میری اورمجھ سے پہلے انبیاءکی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نے بہت ہی حسین وجمیل محل بنایا؛ مگراس کے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی ،لوگ اس کے اردگردگھومنے اوراس پر عش عش کرنے لگے اوریہ کہنے لگے کہ ایک اینٹ بھی کیوں نہ لگادی گئی ؟(اگرلگادی جائے توکیاہی بہترہوتا )آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں وہی کونے کی آخری اینٹ ہوں اورمیں نبیوں کے آخرمیں آنے والا ہوں ۔

حضرت ابوہریرة ؓ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا

فضلت علی الانبیاءبست :اعطیت جوامع الکلم ،ونصرت بالرعب ،واحلت لی الغنائم،وجعلت لی الار ض طھوراومسجدا،وارسلت الی الخلق کافة ،وختم بی النبییون“ ۔(رواہ مسلم : ۱۹۹/۱،۵۲۳)

تمام انبیاءپرچھ باتوں میں فضیلت دی گئی

مجھے تمام انبیاءپرچھ باتوں میں فضیلت دی گئی ہے (۱)مجھے جوامع الکلم عطاکے گئے ہیں (۲) رعب وجلال ( ہیبت ودبدبہ) سے میری مددکی گئی ہے (۳)میرے لئے مال غنیمت حلال کردیاگیا ہے (سابقہ امتوں کے لئے مال غنیمت حلال نہ تھا)(۴) زمین کی مٹی کو میرے لئے (وضوکے لیے )طہارت کا ذریعہ بنایاگیاہے اورمیرے لئے تمام زمین کو نماز پڑھنے کی جگہ بنائی گئی ہے ۔

(۵)مجھے تمام مخلوق کی طرف نبی بناکربھیجاگیاہے( برخلاف انبیاءسابقین کے کہ وہ خاص خاص قوموں کی طرف کسی خاص علاقے میں ایک محدود زمانہ تک لئے مبعوث ہوتے تھے) (۶)مجھ پرانبیاءعلیہم السلام کے سلسلہ کوختم کردیاگیا (اب کسی کو نبی بنایانہیں جائے گا ) ۔

مذکوہ بالا حدیث سے معلوم ہواکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت تک کے تمام انسان وجنات کے لئے نبی بنایاجانا اور آپ علیہ السلام پر سلسلہ نبوت کو ختم کرنا یہ آپ کی امتیازی شان ہے ۔

ختم نبوت تکمیل ِانعام

الیوم اکملت لکم دینکم ،واتممت علیکم نعمتی ،ورضیت لکم الاسلام دینا (المائدة : ۳)

آج میں نے تمہارادین مکمل کردیا ،اپنی نعمت تم پرتمام کردی اورتمہارے لئے دین اسلام کو پسند کیا۔

عربی زبان میں کمال اورتمام دونوں لفظ نقصان (کمی ) کے مقابل میں استعما ل ہوتے ہیں ،ان میں فرق یہ ہے خارجی اوصاف کے نقصان(کمی بیشی) کی تکمیل کو کمال کہاجاتاہے اور اجزاءکے اعتبار سے نقصان اورکمی کوتاہی کی تکمیل کو تمام کہاجاتاہے ۔

اس آیت میں دونوں لفظ جمع کردئے گئے ہیں اوربتایاگیا کہ دین اسلام اب ہرپہلوسے کامل ومکمل ہوچکا ہے ،اللہ کی نعمت پور ی ہوچکی ہے ،دین اسلام نہ اجزاءکے اعتبارسے ناقص ہے نہ اوصاف کے اعتبارسے ناقص ہے ۔

یہ آیت کریمہ اس امت کی اس عظیم الشان خصوصی فضیلت کو بیا ن کررہی ہے جوباقراراہل کتاب اس امت سے پہلے کسی کونہیں ملی ،یعنی اللہ تعالی نے اپنا دینِ مقبول اس امت لئے ایساکامل فرمادیاکہ قیامت تک اس میں ترمیم کی ضرور ت نہیں رہی۔

ہمارے نبیﷺ امت کوا یک سیدہی اورروشن شاہ راہ پر چھوڑگئے

عقائد،عبادات ،معاملات ،معاشرت ،اخلاق ، سیاست وحکومت شخصی واجتماعی آداب، مستحبات ومکروہات ،واجبات وفرائض اورحلال وحرام کے جملہ قوانین اورقیامت تک لئے تمام معاش ومعاد کے ضروری وبنیادی اصول خواہ وہ زندگی کے کسی بھی شعبہ سے متعلق ہوں؛ امت کے لئے اس طرح واضح کردئے گئے ہیں کہ اب یہ امت تاقیام ِقیامت کسی نئے دین یانئے نبی کی شریعت کی محتاج نہیں رہی۔

اس خیرامت کے نبی اس دنیا سے رخصت ہوئے ،تو اپنی امت کے لئے یک ایسی صاف وسیدہی اورروشن شاہ راہ تیارفرماکرگئے کہ جس پر چلنے والے کو دن ورات میں کوئی خطرہ ”قدترکتکم علی البیضاءلیلھا کنھارھا’۔(ابن ماجة:۳۴ )

میں نے تمہیں ایک ایسے صاف روشن اورسیدھے راستے پرچھوڑ اہے کہ جس کی رات ودن برابر ہیں ،(حق وباطل واضح رہیں گے) لہذایہ امت کسی نئے دین اورنئے نبی کی محتاج نہیں ۔

ختم نبوت دین محمدی کا عظیم کمال

حافظ ابن کثیر ؒ اس آیت کی تفسیرکرتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں

ھذہ اکبر نعم اللہ عزوجل علی ھذ ہ الامة، حیث اکمل تعالیٰ لھم دینھم ،فلایحتاجون الی دین غیرہ ، ولاالی نبی غیرنبیھم ۔صلوات اللہ وسلامہ علیہ۔ولذا جعلہ اللہ تعالیٰ خاتم الانبیاء،وبعثہ الی الجن والانس الخ( تفسیرابن کثیر المائدة : ۳)

اللہ تعالیٰ کا اس امت پر یہ بہت بڑاانعام ہے کہ اس نے امت کا دین کامل کردیا ہے کہ اب اسے نہ کسی اوردین کی ضرورت رہی، نہ کسی اورنبی کی، اس کہ لئے آپ کو خاتم النبیین بنایا ہے اورانسان وجنات سب کے لئے رسول بناکر بھیجاہے،آپ آخری نبی اورآپ کی امت آخری امت ہے ۔

معلوم ہواکہ ختم نبوت دینی ارتقاءاوردین محمدی کا عظیم الشان کمال ہے کہ اس سے بڑااورکوئی کمال اورا س امت کے لئے اس سے بڑاانعام اورکوئی نہیں ہوسکتا۔

”قدترکتکم علی البیضاءلیلھا کنھارھا’۔(ابن ماجة:۴۳ ) میں نے تمہیں ایک ایسے صاف روشن اورسیدھے راستے پرچھوڑ اہے کہ جس کی رات ودن برابر ہے ،(حق وباطل واضح رہیں گے) لہذایہ امت کسی نئے دین اورنئے نبی کی محتاج نہیں ہے۔

میں آخری نبی ہوں اورتم آخری امت

ایک حدیث میں آپ نے فرمایا

اناآخرالانبیاءوانتم آخرالامم” (رواہ ابن ماجةعن نواس بن سمعان فی حدیث طویل، فتنة الدجال: ۴۰۷۷)

میں آخری نبی ہوںاورتم آخری امت ہو

امام فخرالدین رازی ؒمذکورہ آیت کی تفسیرمیں تحریرفرماتے ہیں

ان الدین ماکان ناقصاالبتة؛ بل کان ابداکاملا،یعنی کانت الشرائع النازلة من عنداللہ تعالیٰ کافیة فی ذالک الوقت الاانہ تعالیً کان عالما فی اول وقت االمبعث بان ماھوکامل فی ھذاالیوم لیس بکامل فی الغد،ولاصلاح فیہ، فلاجرم کان ینسخ بعدالثبوت ،وکان یزید بعدالعدم۔

وامافی آخرزمان المبعث، فانزل اللہ تعالی شریعة کاملة،وحکم ببقائھا الی یوم القیامة ،فالشرع ابدا،کان کاملاالاان الاول کمال الی وقت مخصوص ، والثانی کمال الی یوم القیامة، فلاجل ھذاالمعنی قال: الیوم اکملت لک دینکم“ ۔(التفسیرالکبیر ،المائدة : ۱۰۹/۳زکریا)

دین الہی کبھی ناقص نہیں رہا

دین الہی کبھی ناقص نہیں تھا ؛بلکہ ہمیشہ سے کامل تھا اورتمام شرائع الہیہ اپنے اپنے وقت کے لحاظ سے بالکل مکمل اورکافی تھیں ؛مگراللہ تعالیٰ پہلے ہی سے جانتاتھا کہ وہ شریعت جوآج کامل ہے، کل کے لئے کافی نہ ہوگی ،اس لئے اس کووقت مقررہ پر پہنچ کر منسوخ کردیاجاتاتھا ؛لیکن آخرزمانِ بعثت میں اللہ تعالیٰ نے ایسی شریعت کاملہ بھیجی جوہرزمانہ کے اعتبارسے کامل ہے اور اس شریعت کے تاقیامِ قیامت باقی رہنے کا فیصلہ فرمایا ۔

خلاصہ یہ کہ پہلی شریعتیں بھی کامل تھیں؛ مگر ایک مخصوص وقت تک کے لئے اوریہ شریعت قیامت تک کے لئے کافی اورکامل اوراسی معنی کے بنا پر الیوم اکملت لکم دینکم فرمایا ہے۔

غرض یہ کہ سابقہ انبیاءعلیہم ا لصلوة والسلام مخصو ص قوم کے لئے مبعوث ہوتے تھے اوران کی شریعتیں بھی مخصوص وقت کے لئے ہوتی تھیں ،ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک کے لئے تمام انس وجن کے لئے مبعوث ہوئے ،تو آپ کی شریعت بھی کامل ہے اورقیامت تک لئے کافی ہوگی ،یہ خاتم الانبیاءصلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی شرافت اورآخرالامم کی مخصو ص فضیلت ہے ۔(مستفاد : ختم نبوت : ۱۳۳تا ۱۳۸، ترجمان السنة )

جھوٹےمدعیانِ نبوت سے متعلق پیشین گوئی

اللہ تعالیٰ عالم الغیب والشہادہ ہیں ،اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ قیامت تک کیسے خوفناک فتنے امت میں پیش آئیں گے اوران فتنوں کے سربراہ کون لوگ ہوں گے ،اللہ تعالیٰ نے جس قدرمناسب وضروری سمجھا فتن وحوادث کی کچھ تفصیلات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائیں ان میں عقیدئہ ختم نبوت میں رخنہ پیداکرنے والے جھوٹے مدعیان نبوت سے متعلق اشارات یا ان کی تفصیلات بھی شامل ہیں ۔

حضرت ثوبان ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے ارشادفرمایا

انہ سیکون فی امتی کذابون ثلثون کلھم یزعم انہ نبی ،وانا خاتم النبیین ،لانبی بعدی“۔(ترمذی :۴۵/۲،۲۲۱۹ )

قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ بہت سے دجال اورجھوٹے مدعیان نبوت اٹھائے نہ جائیں جن میں سے ہرایک یہ کہے گا وہ نبی ہے ؛حالاں کہ میں خاتم النبیین ہوں،میرے بعد کسی کو نبی بنایانہیں جائے گا۔

اسود عنسی

حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری ایام ہی میں دوجھوٹے نبی پیداہوگئے ،جن میں ایک اسود عنسی ہے جس کا نام عبلہ بن کعب تھا ،عنسی لقب تھا،صنعاءیمن میں تقریبًا تین ماہ نبوت کا دعو ی کیا، اس علاقے کے چندلوگوں نے اس کی اتباع بھی کرلی ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے تین دن قبل حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ نے اس کوجہنم رسید کیا ،آپ علیہ السلام نے حضرات صحابہ کو اس کی خوش خبری سنائی، دوسرا شخص مسیلمہ بن ثمامہ بن حبیب ہے جوقبیلہ بنوحنیفہ کا آدمی تھا ، مسیلمہ کذاب کے نام سے مشہور ہوا۔

مسیلمہ کذاب

سنہ ۹ہجری میں بنوحنفیہ کے ساتھ مدینہ منورہ حاضرہوا،تقریباً تیرہ افراد کا قافلہ تھاجن میں یمن کے مشہور صحابی رسول طلق بن علی ؓ تھے ،رملہ بنت حارث کے مہان بنائے گئے ، صبح شام گوشت ،روٹی ،گوشت دودھ اورگوشت گھی سے ان کی میزبانی کی گئی ، دوسرے دن یہ حضرات مسجد نبوی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور اسلام قبول کرلیا؛ لیکن مسیلمہ کذاب خیمے میں ٹہرا رہا ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ اوقیہ چاندی ان حضرات کو بطورہدیہ عطایا فرمائی،مسیلمہ کا حصہ بھی دیا اورفرمایا: مسیلمہ تم سے کم درجہ کا آدمی نہیں ہے (چوں کہ وہ تمہارے سامان کی حفاظت کررہاہے اس لئے تمہارے برابروہ بھی ہدیہ کا مستحق ہے )یہ حضرات اپنے خیمے میں پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ وسلم کی بات اورہدیہ کا تذکرہ کیا ،تواس نے کہا انھوں نے یہ بات اس لئے کہی ہے کہ ان کے بعد مجھے منصب ملنے والا ہے۔

پھریمامہ جاکر نبوت کا دعوی کردیا ، مسیلمہ کذاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرنہیں ہوا، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ثابت بن قیس بن شماس کے ساتھ بنوحنیفہ کے وفد کی خاطرداری اور مسلیمہ کی اسلام کی امیدیا اتمام حجت کے لئے خود اس کے پاس تشریف لئے گئے۔

یہ شخص مجھ سے چھڑی مانگے، تووہ بھی اس کو نہیں دوں گا

اس نے کہا ،اگرمحمد امر(سلطنت وغیرہ)کا میرے لئے فیصلہ کردیں،تو میں ان کی اتباع کروں گا ،آپ کے ہاتھ میں کھجورکی ایک چھڑی تھی ،آپ اس کے پاس کھڑے ہوئے اورارشادفرمایا : اگریہ شخص مجھ سے یہ چھڑی مانگے، تو وہ بھی میں اس کو نہیں دوں گا اورفرمایا : تو اللہ کے امر (عذاب) سے بچ نہیں سکتا ،پھرفرمایا : اگرتویہاں سے (صحیح سالم )چلابھی گیا،تو اللہ تجھ کو ہلاک وبربا دکردے گا اور مجھے خواب میں تیرے متعلق (تفصیلات ) بتایاگیا ہے اورحضرت ثابت بن قیس کی طرف اشارہ فرماکر کہا یہ تجھ کو بتائیں گے۔(بخاری۵۱۱/۱،باب علامات النبوةعمدة القاری۳۵۵/۱۱)

حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں مجھے حضرت ابوھریرة ؓنے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دکھایاگیا کہ آپ کے ہاتھ میں سونے کے دوکنگن ہیں،ان کی وجہ سے مجھے بہت پریشانی (شدید فکر لاحق )ہوئی ،تومیرے پاس وحی آئی کہ ان پرپھونک مارو،چناں چہ میں نے پھونک ماری،تو وہ اڑگئے، میں اس خواب کی تعبیر دوجھوٹے شخصوں سے لی جومیری نبوت کے بعد نبوت کا دعوی کریں گے ،ایک اسودعنسی ہے اور دسرا شخص صاحب یمامہ مسیلمہ کذاب ہے ۔ (بخاری ،باب علامات النبوة: ۳۶۲۱،عمدة القاری ۳۵۶/۱۱)

عقیدہ ختم نبوت پر صحابہ کا اجماع

حضرات صحابہ کرام جوخاتم النبیین وسیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کے سب سے پہلے مخاطب تھے انھوں نے قرآنی آیات اور احادیث رسول اللہ کا صاف صاف مطلب یہی سمجھاکہ آپ علیہ الصلوة والسلام پرنبوت کوختم کردیا گیاہے،آ پ کے بعدکوئی نبوت کا دعوی کرے، توجھوٹا ہے ،یہی وجہ ہے کہ عہدنبوت وعہدخلفاءراشدین میں جوجھوٹے پیداہوئے ان کا مقابلہ کیاگیا ۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں مسیلمہ کذاب نے نبوت کادعوی کیا اورایک بڑی جماعت جو اذان ونماز ،روزہ کے قائل تھی ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اورقرآن کے منکر نہیں تھی،مسیلمہ کے ساتھ ہوگئی ،تمام مہاجر وانصار صحابہ کرام( جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت وصحبت یافتہ تھے)نے مسیلمہ کذاب کو دعوی نبوت اور اس کی جماعت کو اس کی تصدیق کی بناپر کافر اورواجب القتل سمجھا ۔

ابوبکرصدیقؓ کامنکرینِ ختم نبوت کے خلاف اعلان جنگ

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ نے منکرینِ ختم نبوت کے خلاف اعلان جنگ کیا اورتمام منکرینِ ختم نبوت کو کیفرکردار تک پہنچایا ،صحابہ میں سے کسی نے بھی اس پر انکارنہیں کیااورکسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ یہ لوگ اہل قبلہ ،کلمہ گوہیں ،قرآن پڑھتے ہیں ،نماز ،روزہ، حج ،زکوة اداکرتے ہیں ،ان کو کیسے کافرسمجھ لیاجائے ؟حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کاابتداءاً اختلاف کرنا ،شرح صدر کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی موافقت کرنے کی جوتفصیلات کتبِ احادیث میں منقول ہیں، وہ منکرین زکوة سے متعلق ہیں نہ کہ منکرین ختم نبوت سے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوچکی ہے ،بے شمار قبائل مرتد ہوچکے ہیں ،بعض نے زکوة دینے سے انکار کردیا ہے ،اس کے علاوہ مسلمان اندرونی وبیرونی دشمنوں کے خطرات میں گھرے ہوئے ہیں،مسلمان بے سروسامانی کےعالم میں ہیں :ان تمام حالات کی پرواہ کئے بغیر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد بن ولید ؓ کی امارت میں ایک لشکر یمامہ کی جانب مسیلمہ کذاب کی سرکوبی کے لئے روانہ فرمایا۔

مسیلمہ کذاب چالیس ہزار کے لشکر کے ساتھ مسلمانوں کے ساتھ مقابلہ کیا جن میں سے تقریبا اٹھائیس ہزار قتل ہوئے اورمسیلمہ کذاب کو حضرت وحشی ؓ نے مسیلمہ کذاب کو جہنم رسید کیا اور وہ فخرکرتے تھے کہ میں زمانہ کفر میں سیدالشہداءکو قتل کیا اورزمانہ ءاسلام میں ایک بدترین شخص کو جہنم رسیدکیا اور اس معرکے میں تقریبا بارہ سو صحابہ نے تحفظ ختم نبوت کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیاجن میں سات سو قراءصحابہ بھی تھے ۔(مستفاد از ختم نبوت :مفتی شفیع عثمانیؒ :۳۰۲)

تابعین وسلف صالحین کا عمل

خلیفہ عبدالملک بن مروان کے عہدِخلافت میں حارث نامی شخص نے نبوت کا دعوی کا ،خلیفہ عبدالملک نے جوحضرات صحابہ وتابعین کے متفقہ فتوی وفیصلے سے اس کو قتل کرکے سولی پر ﷺچڑھادیا ۔

امام طحاوی ؒ نے اپنی تصنیف لطیف ”عقیدة الطحاوی “میں تحریرفرماتے ہیں

کل دعوة نبوة بعدنبوتہ فغی ،وھوی ،وھوالمبعوث الی عامة الجن ،وکافة الوری بالحق والھدی ۔(عقیدة الطحاوی : ۴۸)

ہردعوی نبوت حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے بعدگمراہی

ہردعوی نبوت آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے بعدگمراہی وضلالت ہے ؛بلکہ اسلام سے خروج وبغاوت ہے ،آپ کو تمام جن وانس کی جانب حق اورہدایت کے ساتھ مبعوث کیاگیاہے ۔

قاضی عیاض ؒ ”شفاء“ میں مذکورہ تحریرفرماتے ہیں

فعل ذالک غیرواحدمن الخلفاء، والملوک باشباھمم، واجمع علما ءوقتھم علی صواب فعلھم ،والمخالف فی ذالک من کفرھم کافر۔(الشفاءبتعریف حقوق المصطفی۲۲۳۶)

اخبر صلی اللہ علیہ وسلم انہ خاتم النبیین، لانبی بعدہ ،واخبرعن اللہ تعالیٰ انة خاتم النبیین،وانہ ارسل کافة للناس واجمعت الامة حمل ھذاالکلام علی ظاھروان مفہومہ المراد بہ دون تاویل، وتخصیص ،فلاشک فیکفرھولاءالطوائف کلھا قطعا اجماعا وسمعا۔(بحوالہ ختم نبوت : ۳۰۸)

الغرض

الغرض قرآن ،حدیث ،صحابہ وتابعین ،ائمہ مجتہدین اورعلماءوسلف کا متفقہ فصیلہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں ،ختم نبوت آپ کی شان ،امت کے لئے انعام ہے، جواس کا منکرہے وہ کافرہے ،جوشخص محمدرسول اللہ کو خاتم النبیین نہ سمجھے، وہ بھی کافرہے اورجو جھوٹے نبی کی تصدیق کرے ،وہ بھی کافر۔

لہذاعہدنبوت ہی میں دعوی کرنے والے جھوٹے مدعیان نبوت مسیلمہ کذاب ،اسودعنسی ،طلیحہ ،سجاح سے لے کر مرزاغلام احمدقادیانی تک سب کا فرہیں اوران کی تصدیق کرنے والے بھی کافرہیں ،قیامت تک جو بھی شخص قیامت تک نبوت کا دعوی کرے، وہ بھی کافرہے ،حضرت عیسی علیہ الصلوة والسلام قرب قیامت میں دنیامیں محمدرسول اللہ خاتم النبیین کے خلیفہ کی حیثیت سے تشریف لے آئیں گے نہ کہ بحیثیت نبی ۔

ختم نبوت اورہماری ذمہ داری

الف: ناموس رسالت کی پاسبانی اورختم نبوت کا تحفظ ہرمسلمان کا اولین فرض ، دینی غیرت کا تقاضا اورعشق رسول کی پکارہے ۔ ٭ عقیدہ ختم نبو ت دین کے بنیادی اوربدیہی عقائدمیں سے ہے ،اس کی حقیقت ،حیثیت وحکم اوراس سے متعلقہ تفصیلات کا جاننا پہلی ذمہ داری ہے اور عامة المسلمین کو اس اہم عقیدے سے متعلق آگاہ کرنا؛تاکہ امت اپنے بنیادی عقیدہ کوجانے اور کسی بھی جھوٹے مدعی نبوت کے دجل وفریب کا شکارنہ ہو۔

ب: ختمِ نبوت عقیدہ بھی ہے اورعقیدت بھی ،ختمِ نبوت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امتیازی شان اورآپ کے لئے خصوصی انعام ہے ،اب کوئی نبوت کا دعوی کرے، تو وہ آپ کا گستاخ اور اس کی تصدیق کرنے والے بھی گستاخ رسول ہیں ،لہذاناموسِ رسالت کی حفاظت کے لئے اس طرح کے مدعیان نبوت کی خبرلینااور امت کے بھولے بھالے مسلمان جوان کا شکارہوگئے ہیں ان مکاروں کے چنگل سے نکالنا اور اس طرح کے کذابوں سے امت کی حفاظت کرنا۔

علماء،خطباء،ائمہ حضرات سے گذارش

ج: علماء،خطباء،ائمہ حضرات کاختم نبوت پرمشتمل آیات واحادیث کی تشریح کے موقع پر اپنے خطبات،مواعظ ودروس میں بطور خاص روشنی ڈالنا، نیز سیرة النبی کے عنوان پر منعقدہونے والا جلسوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس امتیازی شان کو ممتاز بناکربھی پیش کیا جاسکتاہے ۔

د: عام فہم اور آسان انداز میں عقیدئہ ختم نبوت سے متعلق اردو،مقامی اوردیگرعلاقائی زبانوں میں چھوٹے چھوٹے رسائل کی اشاعت اور انہیں عامة المسلمین تک پہنچانے کاانتظام و ا ہتمام کرنا ۔

سیدالمرسلین وخاتم النبیین کی تعبیر

ہ: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام گرامی لیاجائے تو”سیدالمرسلین وخاتم النبیین “کی تعبیراختیارکی جائے؛ تاکہ آپ کی ختم نبوت کا باربارتذکرہ ہواورعوام وخواص کے ذھن میں راسخ ہوجائے۔

علامہ قسطلانی شارح بخاری تحریرفرماتے ہیں : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ پر حاضری دینے والوں کے لئے صلوة وسلام کے بہترین تعبیر :السلام علیک یا سیدالمرسلین وخاتم النبیین (المواھب اللدنیہ ۵۹۶/۳) ہے۔

ناموس رسالت کی حفاظت اورجھوٹے مدعیان نبوت کے دجل وفریب سے امت کو بچانے کے لئے حضرت سیدابوبکر صدیقؓ ،حضرت خالدبن ولیدؓاوردیگرصحابہ نے تحفظ رسالت اور امت کی حفاظت کے لئے جس طرح کی قربانیاں پیش کیں۔

علامہ سیدانورشاہ کشمیری اورختم نبوت

محدث العصر علامہ سیدانورشاہ کشمیری ؒ اور آپ کے تلامذہ :حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی اورحضرت مولانا مرتضی حسن چاندپوری اور مولانا یوسف بنوری وغیرہ اکابردارلعلوم نے جس طرح غلام احمدقادیانی کا مقابلہ کیا، اس کے شروروفتن سے امت کو آگاہ کیا اور اس کے لئے جانی ومالی قربانیاں پیش کیں ،اگر ہم مقدروبھرکوشش نہیں کریں گے، توہم اللہ کے پاس کیاجواب دیں گے اور میدان محشرمیں حوض کوثر پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربارمیں کیا منہ لے کرجائیں گے۔

علامہ انورشاہ کشمیری ؒ کا وہ تاریخ جملہ بھی ہمیں یادرکھنا چاہئے ”اگرہم تحفظ ختم نبوت نہ کرسکیں، تو گلی کا کتابھی ہم سے بہترہے “ ۔ بروز جمعہ ۶۲/ اگست۱۹۳۲ءجامع مسجدالصادق بہارولپور میں علامہ سیدانورشاہ کشمیریؒ کو نماز جمعہ اداکرنی تھی ،مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی تھی، قرب وجوارکے گلی کوچے نمازیوں سے بھرے ہوئے تھے ،نماز کے بعد علامہ انورشاہ کشمیری ؒ نے اپنی تقریرکا آغاز کرتے ہوئے ارشادفرمایا:

میرے پاس کوئی زادراہ نہیں

میں خونی بواسیرکے مرض کے غلبے سے نیم جان تھا ،ڈابھیل کے لئے سفر کے لئے پابرکاب تھاکہ اچانک شیخ الجامعہ (بھاول پور)کامکتوب مجھے ملا ،جس میں بہاول پہنچ کر مقدمے کی شہادت (ختم نبوت اور قادیانی کے کافرہونے کی ) دینے کے لئے لکھاگیا تھا ،میں نے سوچاکہ میرے پاس کوئی زادراہ ہے نہیں ،شاید یہی چیز ذریعہ نجات بن جائے کہ میں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے دین کا جانب دار بن کر یہاں آیاہوں،یہ جملہ سن کر مجمع بے قرارہوگیا ۔

ان صاحب نے ہماری تعریف میں مبالغہ کیا

آپ کے ایک شاگر مولانا عبدالحنان ہزاری آہ وبکا کرتے ہوئے کھڑے ہوئے اورمجمع سے بولے کہ اگر حضرت کو بھی اپنی نجات کا یقین نہیں ،پھراس دنیا میں کس کی مغفرت متوقع ہوگئی ؟اس کے علاوہ مزید چندتوصیفی کلمات عرض کئے،جب وہ صاحب بیٹھ گئے۔

حضرت شاہ صاحب نے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہا : ان صاحب نے ہماری تعریف میں مبالغہ کیاہے؛ حالاں کہ ہم پر یہ بات کھل گئی کہ ”گلی کا کتا بھی ہم سے بہتر ہے، اگرہم تحفظ ختم نبوت نہ کرسکیں“

حضرت شاہ صاحب اس مقدمے سے فارغ ہوکر ڈابھیل تشریف لے گئے؛ لیکن چند ہی دن میں اس مرض نے مزید شدت اختیارکرلی دوبارہ آپ دیوبند تشریف لے آئے اور آخرت کے سفرپر روانہ ہوگئے ۔(مستفاد : کمالات انوری ،احتساب قادیانیت۳۶/۳ ) عبداللطیف قاسمی خادم تدریس جامعہ غیث الہدی بنگلور ۲۶/ربیع الاول۱۴۴۰ھ م مطابق ۵دسمبر ۲۰۱۸ء