خلع اوراس کے کاحکام:شریعت میں بیوی سے کچھ مال لے کر اس کو نکاح سے آزاد کرنے کا نام خلع ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشادہے
فان خفتم ان لایقیما حدوداللہ ،فلاجناح علیھما فیما افتدت بہ ۔(البقرة : ۲۲۹)
اگرتم لوگ خوف محسو س کرو کہ میاں بیوی اللہ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے (حقوقِ زوجیت نیز اس سے متعلقہ شرعی احکام کو پورانہیں کرسکیں گے )تو میاں بیوی پر کوئی حرج کی بات نہیں ہے کہ عورت کچھ عوض دے (اورشوہر اس کو لے کر رشتہءنکاح سے بیوی کو آزاد کردے )
لیکن یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ جیسے طلاق مرد کے لئے آخری چارہ کار ہے، اسی طرح عورت کی طرف سے خلع کا مطالبہ بھی آخری حد ہے اور جب تک رشتہءنکا ح بالکل دشوار نہ ہوجائے، خلع کا مطالبہ کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔
جس نے بلاوجہ اپنے شوہر سے طلاق مانگی ،اس پرجنت کی خوشبوحرام
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
ایما امرأة سألت زوجھا طلاقامن غیرباس ،فحرام علیھا رائحة الجنة ۔(ترمذی عن ثوبان باب ماجاءفی المختلعات۲۲۶/۱رقم : ۱۱۸۷)
عورتوں کوطلاق نہ دی جائے مگر قابل اعتراض بات پر ،اللہ تعالی مزہ چکھنے والے مرداورمزہ چکھنے والی عورت کو پسند نہیں فرماتے ،جس خاتون نے بلاوجہ اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کیا ،اس پرجنت کی خوشبوحرام ہے ۔
حضرت ابوموسی اشعری ؓ سے مروی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلاوجہ طلاق دینے والوںاوربلاوجہ خلع کا مطالبہ کرنے والیوں کی مذمت بیان کرتے ہوئے ارشادفرمایا
لاتطلق النساءالامن ریبة ،ان اللہ تبارک وتعالی لایحب الذواقین، ولاالذواقات ۔(رواہ الہیثمی فی مجمع الزوائد : ۷۷۶۱)
خلع زوجین کے درمیان علاحدگی کا باعزت طریقہ ہے
بعض دفعہ مرد ظالم ہوتے ہیں ،حقوق ِزوجیت ادانہیں کرتے ،نیز عورت کو رشتہءنکاح سے آزادبھی نہیں کرتے تاکہ وہ سکون کی زندگی گزارسکے، ان حالات میں شریعت نے عورت کو ظلم وستم سہنے اورمصائب ومشکلات پرصبرکرنے پرمجبورنہیں کیا؛ بلکہ اس کو باعزت طریقہ پر رشتہءنکاح سے نکلنے کا راستہ ”خلع “کی صورت میں رکھاہے ۔
خلع کی ایک مصلحت یہ ہے کہ بعض اوقات میاں بیوی کا اختلاف کا کوئی ایسا سبب ہوتا ہے کہ خود بیوی بھی برسرِ عام اس کا اظہار کرنا نہیں چاہتی ؛کیونکہ اس سے خود عورت کی عزت و آبرو بھی مجروح ہوسکتی ہے،ان حالات میں خلع زوجین کے درمیان علاحدگی کا ایک باعزت طریقہ ہے جس میں فریقین کے لئے عافیت اور اپنے وقار کا تحفظ ہے۔
نکاح کا اصل مقصود باہمی محبت ، مودت اور سکونِ دل کی کیفیت مفقود ہو
بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ بظاہر نفرت و اختلاف کا کوئی سبب موجود نہیں ہوتا؛ لیکن کسی وجہ سے میاں بیوی کے مزاج میں ہم آہنگی باقی نہیں رہتی اور نکاح کا اصل مقصود باہمی محبت ، مودت اور سکونِ دل کی کیفیت مفقود ہوجاتی ہے؛حالانکہ شوہر کوئی ایسی زیادتی نہیں کرتا جسے قانون کے دائرہ میں حق تلفی کہا جاسکے؛لیکن بیوی کو اپنے شوہر کی طرف رغبت بھی نہیں ہوتی، اسلام نے ایسے مواقع کے لئے خلع کی صورت رکھی ہے کہ بیوی پورا مہر یا مہر کا کچھ حصہ معاف کر کے اسے طلاق پر آمادہ کرلے ۔(مستفاد از مسلم پرسنل لاء:۳۳)
امام بخاری ؒ نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓسے روایت کی ہے: ثابت بن قیس ؓ کی بیوی (جمیلہ بنت سہلہ )حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئیں اورعرض کیا ،اے اللہ کے رسول! مجھے ثابت بن قیس کی دینداری واخلاق سے متعلق کوئی شکایت نہیں ہے؛لیکن مجھے یہ پسند نہیں کہ مسلمان ہوکرکسی کی ناشکری کروں،(یعنی میرے شوہر کا میرے ساتھ حسنِ سلوک اور میری طبیعت کا ان کی طرف مائل نہ ہونا، جس کی وجہ سے شوہرکی ناقدری وناشکری ہورہی ہے )اس لئے ہم دونوں میں جدائی کرادیجئے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ان کو ان کا باغ لوٹادوگی؟(جو مہرمیں اداکیاتھا)انھوں نے عرض کیا ،جی ہاں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضر ت ثابت ؓ سے فرمایا : باغ لے لو اور ان کو طلاق دے دو،چنانچہ حضرت ثابت نے طلاق دے دی ۔(بخاری ۷۹۴/۲،رقم: ۵۲۵۳)
بدل خلع کی مقدار
خلع دراصل زوجین کی باہمی رضامندی سے علاحدگی کا فیصلہ ہے ،جس میں عورت کی طرف سے عوض دیا جاتا ہے؛لیکن یہ عوض مہرکی مقدارسے زیادہ نہیں ہونا چاہئے۔
ولا یحل لکم ان تاخذو مما آتیتموھن شیئا الا ان یخافا الا یقیما حدودا للہ،فان خفتم الا یقیما حدوداللہ، فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ،تلک حدوداللہ ،فلا تعتدوھا ،ومن یتعد حدوداللہ، فاولئک ھم الظلمون۔(البقرہ:۲۲۹)
تمہارے لئے حلال نہیں ہے کہ تم عورتوں سے کچھ لوجو تم نے انہیں دیاتھا ؛مگر جب کہ خاوند اور بیوی دونوں خوف محسوس کریں کہ وہ اللہ کی حدود کوقائم نہیں رکھ سکیں گے ،پھر اگر تم لوگ ڈرو اس بات سے کہ میاں بیوی اللہ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے، تو کچھ گناہ نہیں دونوں پر کہ عورت بدلہ دے کر چھوٹ جاوے،یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں،لہذا ان سے آگے مت بڑھو اور جو کوئی اللہ کی باندہی ہوئی حدوں سے آگے بڑھے ، وہی لوگ ظالم ہیں۔
غرض اگر عورت کی طرف سے زیادتی نہ ہو، تب تو مرد کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ طلاق کا کوئی معاوضہ وصول کرے، ہاں اگر عورت کی طرف سے زیادتی ہویا وہ کسی معقول وجہ کے بغیر طلاق کی طلب گار ہو، تو مرد کو زیادہ سے زیادہ اتنا ہی واپس لینا چاہئے جو اس نے بطورِ مہر دیا ہے، اس سے زیادہ کا مطالبہ ہرگز نہ کرے اور یقینا یہ اس کی مردانہ غیرت اور حمیت کے بھی خلاف ہے کہ شریعت نے اسے طلاق کااختیا ر دے کر جو اعزاز عطا کیا ہے، وہ اسے کسب ِزر کے لئے استعمال کرے۔
خلع میں عورت اپنے ذاتی حقوق کو معاف کرکے بھی خلع لے سکتی ہے،جیسے عدت کا نفقہ ،اب تک مہرادانہیں کیاگیاہو،تو مہرمعاف کرسکتی ہے ۔(مستفادازقاموس الفقہ ۳۶۳/۳)
خلع کے احکام
الف:خلع سے طلاقِ بائن واقع ہوتی ہے ۔ب:خلع کے لئے قاضی کا فیصلہ ضروری نہیں ہے ۔ج:خلع کی صورت میں شوہرکو رجعت کاحق نہیں رہتا؛البتہ عدت میں یاعدت گزرنے کے بعدعورت کی رضامندی سے نئے مہر سے تجدیدِ نکاح ہوسکتاہے ۔د:خلع کے لئے کسی مخصوص وقت کی قیدنہیں ہے ،یعنی پاکی وناپاکی کے وقت بلاکراہت خلع کی کارروائی کی جاسکتی ہے۔(مستفاداز:قاموس الفقہ۳۶۵/۳)
عدت
شریعت کی اصطلاح میں عدت اس مدت(زمانہ) کوکہتے ہیں جس میں نکاحِ صحیح ختم ہونے کے بعدعورت اپنے آپ کو روکے رکھتی ہے۔
عدت دوطرح کی ہوتی ہے:(۱)عدتِ وفات (۲)عدتِ طلاق ،
ذیل میں صرف عدتِ طلاق کے بعض احکام کو ذکر کیاجارہاہے ۔
اسلام میں نسب کی حفاظت کو بڑی اہمیت حاصل ہے،اسی لئے شریعت نے عدت کا حکم دیا ہے کہ جب کسی عورت کی اپنے شوہر سے جدائی ہو، تو دوسرے نکاح اور اس جدائی کے درمیا اتنا فاصلہ ہونا چاہئے کہ نسب مشتبہ نہ ہو،جب رشتہءنکاح طلاق،خلع یافسخ کے ذریعہ ختم ہوجائے، تو عورت پرعدتِ طلاق واجب ہوتی ہے۔
عدت طلاق کی مدت
الف:حاملہ عورت کی عدت وضعِ حمل (بچہ کی ولادت) ہے ۔ (الطلاق:۴)
ب:جس عورت کو حیض کا سلسلہ جاری ہو، اس کی عدت تین حیض ہے ۔(البقرة:۲۲۸)
ج:جن عورتوں کوکم عمری یا عمرکی درازی کی بناپرحیض نہ آتاہو،ان کی عد ت تین مہینے ہے ۔(الطلاق:۴)
د:جس عورت کو صحبت وخلوتِ صحیحہ سے پہلے ہی طلاق دی جائے ،اس پر کسی قسم کی عدت نہیں ہے۔ (الاحزاب:۴۹)
عدت کے احکام
الف:عدت کے درمیان صراحةً نکاح کا پیغام دینا درست نہیں ہے ۔(البقرة:۲۳۵)
طلاقِ رجعی میں نکاح کا پیغام بالکل نہیں دیاجاسکتا۔
ب:عدت میں شوہرکی طرف سے مہیاکئے ہوئے مکان میں رہنا ضروری ہوگا ۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:”لا تخرجوھن من بیوتھن“ ۔(الطلاق:۱)
مطلقہ عورتوں کوگھرسے (عدت پوری ہونے تک )مت نکالو۔
اس میں ایک حکمت بھی پوشیدہ ہے کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو لفظ ”طلاق “ کے ذریعہ ایک یا دو طلاق دی ہو،تو عدت کے درمیان اسے اپنی بیوی کو لوٹانے کا حق حاصل ہوگا،اگر عورت طلاق دینے والے شوہر کے گھر ہی میں رہے، تو موافقت اور موانست کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں ،اس طرح ایک ٹوٹتا ہوا رشتہ دوبارہ جڑسکتا ہے؛البتہ شوہرکے مکان میں عدت گزارنے کی صورت میں عورت کو اپنی جان ومال یاعزت وآبروکاخطرہ ہو،یامکان کے منہدم ہونے کااندیشہ ہو ،تو کسی دوسرے مکان میں عدت گزارسکتی ہے ۔
ج:عدت کا نفقہ شوہرکے ذمہ واجب ہے ۔
د:جس عورت کو طلاقِ رجعی دی گئی ہو ،اگربیوی کو نکاح میں لوٹالینے کاارادہ ہو،تو شوہرسفرپرلے جاسکتاہے ۔
ہ: جس عورت کو طلاقِ بائن یا طلاق ِمغلظ دی گئی ہو ،وہ عورت شوہرکے ساتھ یا محرم کے ساتھ عدت پوری ہونے تک ہرگز سفرنہیں کرسکتی۔ (مستفادازقاموس۳۷۵/۴)
درس قرآن،درس حدیث ، فقہ وفتاوی ،اصلاحی علمی اورتحقیقی دینی مضامین ومقالات کے لئے فیضان قاسمی ویب سائٹhttp://dg4.7b7.mywebsitetransfer.com کا مطالعہ کریں اور دوست واحباب کو مطلع کریں ۔جزاکم اللہ