خیرخواہی مسلمانوں کے ساتھ: عبداللطیف قاسمی ،جامعہ غیث الہد ی بنگلو ر
ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پرجوحقوق ہیں؛ ان میں سے ایک اہم حق مسلمان کے ساتھ بھلائی اورخیرخواہی کا معاملہ ہے ،مسلمانوں کے ساتھ خیرخواہی کرنے سے آپس میں محبت اورالفت پیداہوتی ہے ،دل کینہ ،حسد ،بغض اورنفرتوں سے پاک ہوتے ہیں،خیرخواہ سے لوگوں کو محبت ہوتی ہے ،بدخواہ سے لوگ دوربھاگتے ہیں ، خیرخواہی وہی کرسکتاہے جو بے غرض ہو ،ہرایک کے لیے دل میں وسعت وفراخی رکھتاہو اور اس کادل کینہ ،بغص ،عداوت اورحسد سے پاک ہو ۔
ایک مسلمان کے ساتھ وہ معاملہ کیاجائے جواس کے حق میں بہترہو،اس کے حقوق اداکئے جائیں،اس کی راحت رسانی کی فکر کی جائے ،اس کو تکلیف واذیت پہنچانےسے گریزکیاجائے ،دینی ودنیوی امور میں اپنے دینی بھائی کے لیے اس اُمر کی خواہش کرے،کوشش کرے اوراس کی رہبری کرے جس میں اس کی بھلائی ہو ،مصیبت میں مبتلاہوجائے ،تومصیبت میں مبتلاہونے پرنہ خوشی کا اظہارکرے نہ ہی خوش ہو ؛بلکہ اپنی طاقت کے موافق اس کو دورکرنے کی کوشش کرے ۔
اپنے بھائی کے لیے وہی چاہے جواپنے لیے چاہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف الفاظ میں ارشادفرمایاہے
عن أنس عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لا يؤمن أحدكم، حتى يحب لأخيه ما يحب لنفسه۔(رواہ البخاری ،کتاب الایمان ،باب من الایمان ان یحب لاخیہ مایحب لنفسہ:۱۳)
تم سے کوئی شخص مومن (کامل )نہیں ہوسکتا؛جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہ نہ چاہے جو اپنے لیے چاہتاہے ۔یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے ساتھ خیرخواہی کرنے کوایمان کے کمال کا ذریعہ بتایاہے ۔
حضرت تمیم داری ؓفرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
عن تميم الداري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الدين النصيحة إن الدين النصيحة إن الدين النصيحة قالوا: لمن يا رسول الله قال: «لله وكتابه ورسوله، وأئمة المؤمنين، وعامتهم، أو أئمة المسلمين، وعامتهم-،(سنن ابی داؤد،کتاب الآداب ،باب النصیحۃ:۴۹۴۴)
دین سراسر خیرخواہی ہے ،دین سراسرخیرخواہی ہے، دین سراسرخیرخواہی ہے، یعنی دین کے وجوداوربقاکا دارومدار خیرخواہی پرہے ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات بارباردہرائی ،تو صحابہ نے عرض کیا : یارسول اللہ! خیرخواہی کس کے ساتھ کرنی ہے ؟آپ نے فرمایا: اللہ ،اس کی کتاب ،اس کے رسول ،حکومت کے سربراہان ا اورعام مسلمانوں کے ساتھ خیرخواہی کا معاملہ کرنا ہے ۔
اللہ تعالیٰ کے ساتھ خیرخواہی
اللہ تعالیٰ کے ساتھ خیرخواہی یہ ہےکہ اس کی ذات اوراس کی صفات پرجیسے وہ متصف ہے ایمان لانا،صرف اسی کی بندگی کرنا ،اس کے ساتھ ذات وصفا ت میں کسی کوشریک نہ ٹہرانااوراس کے احکام پرعمل کرنا۔
کتاب اللہ کے ساتھ خیرخواہی
اللہ کی کتاب پرایمانالانا، اس کی عظمت کرنا،اس سے محبت کرنا، اس کی تلاوت کرنا، اس کی تبلیغ واشاعت کرنا،اس میں تدبراورغوروفکرکرنا،اس کے احکام پرعمل کرنا اوراس کی طرف لوگوں کو دعوت دینا ۔
رسول اللہ کے ساتھ خیرخواہی
آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لانا،آپ سے محبت کرنا ،آپ کی تعظیم کرنا ،آپ کی شان میں نہ غلو کرنانہ آپ کی توہین کرنا،آپ کی سنت وشریعت پر عمل کرنا،آپ کے دین کی نشرو اشاعت کرنا۔
امراء کے ساتھ خیرخواہی
واجب اورجائز امور میں ان کی اطاعت اورپیری کرنا،ان کے ساتھ معاونت کا معاملہ کرنا ،شدیدمجبوری کے بغیران سے بغاوت نہ کرنا۔
عام مسلمانوں کے ساتھ خیرخواہی
عام مسلمانوں کی بھلائی کی بات سوچنا ،ان کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرنا ،ان کے ساتھ وہ معاملہ کرنا جوان کے حق میں مناسب اوربہترہو۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
عن أبيه، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: حق المسلم على المسلم ست قيل: ما هن يا رسول الله؟، قال: إذا لقيته فسلم عليه، وإذا دعاك فأجبه، وإذا استنصحك فانصح له، وإذا عطس فحمد الله فسمته، وإذا مرض فعده وإذا مات فاتبعه-(رواہ مسلم عن ابی ھریرۃ،کتاب الآداب،باب من حق المسلم علی المسلم:۲۱۶۲)
ایک مسلمان کے دوسرے پر چھ حقوق ہیں ، عرض کیا گیا: وہ حقوق کیاہیں؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی مسلمان تم سے ملاقات کرے،توتم اس کو سلام کرو، جب وہ دعوت دے ،تواس کی دعوت کو قبول کرو، جب وہ تم سے خیرخواہی چاہے ،تواس کے ساتھ خیرخواہی کرو، (جب تم سے اپنے کسی معاملے میںمشورہ طلب کرے ،تو اس کو مشورہ دینے میں اس کی خیرخواہی کا لحاظ کرو)جب اس کو چھینک آئے اورالحمدللہ کہے ،تو اس کے جواب میں یرحمک اللہ کہو،جب وہ بیمارہوجائے ،تو اس کی عیادت کرو، جب وہ مرجائے ،تواس کے جنازے میں شرکت کرو۔
مسلمان کے ساتھ خیرخواہی
ہرمسلمان کے ساتھ خواہ وہ موجودہو،یانہ ہو،جانا پہچاناہو،یاانجاہو، ہرایک کےساتھ خیرخواہی کرنا دین کا حصہ ہے ،مسلمان کا حق ہے ،اگرکوئی مسلمان کسی سے خیرخواہی کا طلب گارہوتاہے ،توخیرخواہی واجب کے درجے میںہوجاتی ہے ، اگرکوئی کام اس کے مناسب وبہترہو،تواس کی ترغیب دینا،کوئی کام اس کے لیے نقصان دہ ہو،تو اس کو نقصان سے بچانے کی فکرنا،یہ مسلمان کے ساتھ خیرخواہی ہے ۔
جب کوئی مسلمان اپنی ذات ، کاروبار،ملازمت،کسی چیز کی خریدوفروخت، رشتہء نکاح ،طلاق وخلع، یاکسی بھی مسئلے میں آپ پراعتمادکرتے ہوئے آپ سے مشورہ کرے ،تو اُس وقت اس کوپوری امانت داری کے ساتھ اس کے مناسب حال مشورہ دینا ،نقصان سے بچانے کی فکرکرنا ،اُس حالت میں اپنے لیے جوفیصلہ لے سکتے ہیں، وہ فیصلہ اُس کے لیے کرنالازم ہوجاتاہے ،جوبھلائیاں ہیں ،ان کی ٹھیک ٹھیک وضاحت کرے ، جوخرابیاں ہوں ،ان کو صاف صاف بتائے ،اگراس سلسلےمیں کوئی کوتاہی کرتاہے ،تو یہ مسلمان کے ساتھ خیرخواہی کے منافی اور خیانت ہے ،اگرکسی مسئلے میں دھوکہ دینے کی کوشش کی جائے ،توعلماء نے اس کو نقاق قراردیاہے۔
خیرخواہی کامفہوم
ہر مسلمان کے ساتھ ’’خیر خواہی‘‘ کرنا، اس خیرخواہی کے مفہوم میں بڑی وسعت ہے ،حقیقت تو یہ ہے کہ’’ہر مسلمان کی خیر خواہی‘‘یہ ایک ایسا عملِ خیرہے کہ اگر ہر مسلمان اس تعلیمِ نبوت کو حِرزِ جان بنا کر اس پر عمل شروع کردے، تو ایک مسلم معاشرےکی کایا پلٹ جائے اور’’مسلم معاشرہ ‘‘ راحت و سکون اوراطمینان کا ایک ایسا گہوارہ بن جائے کہ دنیاہی میں جنت کے سکون و اطمینان کا جلوہ نظر آنے لگے۔
جب ہر مسلمان اپنے اوپرلازم کرلے کہ میں ہر مسلمان کی خیر خواہی کروں گا، ہر ایک کی صلاح وفلاح اور نفع رسانی و بھلائی کےسوا نہ کچھ کروں گا،نہ کچھ سوچوں گا، تو نہ کوئی مسلمان کسی مسلمان کے ساتھ خیانت کرے گا، نہ چغلی، نہ غیبت نہ بہتان تراشی کا مرتکب ہوگا، نہ کسی طرح کا ظلم کرے گا، وہ سب کا بھلا چاہے گااورسب کے ساتھ بھلائی کرے گا،،تو مسلم معاشرہ ہر قسم کے مکرو فریب،نقصان و ضرر ،ظلم وستم،بغض و حسد، عنادو نفاق، بدخواہی و ایذا رسانی وغیرہ تمام اخلاق رزیلہ سے پاک وصاف ہوجائے گا ۔
سب سے زیادہ خیرخواہ حضرات انبیاء علیہم السلام
مخلوق میں سب سے زیادہ خیرخواہ حضرات انبیاء علیہم السلام ہیں ،جنہوں نے اپنی امتوں کے ساتھ بے پناہ خیرخواہی کا معاملہ فرمایاہے ،انی انصح لکم ،انی انالکم ناصح امین وغیرہ کلمات سے امت کے سامنے اپنا ناصح ہونا بیان فرمایا،حضرات انبیاء علیہم السلام کو اپنی امتوں سے ہم دردی وشفقت ہوتی ہے ،اس وجہ سے وہ لوگوں کو ایسی باتوں کی تعلیم دیتے ہیں ،جن میں ان کی دنیا وآخرت کی بھلائی اور کامیابی ہوتی ہے ۔
امت اپنےخیرخواہ اورناصح لوگوں سے غافل ہوتی ہے ،ان کی ہدایات اورتعلیمات سے روگردانی کرتی ہے ،تو بھی حضرات انبیاء اپنی خیرخواہی کے وافرجذبات اوردلی تڑپ کے ساتھ ان کے گھروں پر رات اوردن جا کرمحض ان کی خیرخواہی کی بنیاد پر کر محنت کرتے ہیں اورامت کوسمجھاتے ہیں کہ ہماری محنت کی مزدوری اوربدلہ اللہ دیں گے ،ہم بے غرض ہوکر تمہارے دروزاوں پر آکر تمہاری تھوڑیاں پکڑکر تمہاری ساتھ بھلائی چاہتے ہیں اورجنت کی دعوت اورجہنم سے بچانے کی فکر کرتے ہیں ، انسانوں کے ساتھ خیرخواہی حضرات انبیاء علیہم السلام کی خاص صفت ہے ،اسی صفت کو عام امتی کو اپنانے کی ترغیب دی گئی ہے ۔
خیرخواہی اور حضرت جریرؓکی استقامت
عن قيس، سمعت جريرا رضي الله عنه، يقول: بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم على شهادة أن لا إله إلا الله، وأن محمدا رسول الله، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، والسمع والطاعة، والنصح لكل مسلم-( بخاری ،کتاب البیوع،باب ھل یبیع حاضرلباد:۲۱۵۷)
حضرت جریرؓ فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست ِمبارک پر اللہ کی وحدانیت،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت ،اقامت صلوۃ ،زکوۃ کی ادائیگی ،سمع وطاعت اور ہرمسلمان کے ساتھ خیرخواہی کامعاملہ کرنے پر بیعت کی ہے ۔
حضرت جریرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جوعہد کیاتھا ، ساری زندگی اُس عہد کے پابند رہے ،مسلمانوں کا اجتماعی معاملہ ہو ،یاکسی مسلمان کا انفرادی مسئلہ ،ہرموقع پر مسلمان کے ساتھ خیرخواہی کو اپنے اوپرلازم کرلیاتھا۔
میں نے تمہاری ساتھ خیرخواہی کی
مغیرہ بن شعبہؓ(جوحضرت امیرمعا ویہ ؓ کی جانب سے کوفے کے امیرتھے)کاانتقال ہوگیا،(جب کسی سرکاری ذمہ دار اورامیرکا انتقال ہوتاہے ،تو عوام میں بغاوت ،انتشار اور خانہ جنگی کے خطرات پیداہوتے ہیں،امن وامان ختم ہوجاتاہے ، کوفے میں اس طرح کے حالات بکثرت پیش آتے تھے، اس لیے حضرت جریرؓ کوفے میں امن وامان کے باقی رکھنے اورعوام کو فتنوں سے بچانے کی فکر سے ) مسجد کے منبر پرکھڑے ہوکراللہ کی حمدوثنابیان کی اورفرمایا: اُس اللہ سے ڈرو جواکیلاہے ،اس کا کوئی شریک نہیں ،سکون اوراطمینان کولازم پکڑو؛ یہاں تک کہ کوئی امیر(حضرت امیرمعاویہ ؓکی طرف سے )مقررہوکر آجائے ،کسی قسم کے فتنے اورفساد میں مت پڑو،امن وامان کو لاز م پکڑو)امیرجلدآجائےگا ۔
اس کے بعدفرمایا: اپنے (وفات پانے والے )امیرکے لیے معافی وبخشش طلب کرو ،وہ معافی و بخشش کو پسند کرتے تھے ،پھرآخرمیں فرمایا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اسلام قبول کرنے کے لیے حاضرہوا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے شرط لگائی کہ میں ہرمسلمان کے ساتھ خیرخواہی کروںگا،اس مسجد کے رب کی قسم، میں نے اس شرط کو قبو ل کرتے ہوئے بیعت کی ہے ،(میں اس عہد وبیعت کونبھانے کی سعی کرتاہوں اس لیے) میں نے تمہاری ساتھ خیرخواہی کی ہے،(امن وسلامتی کو برقراررکھنے کی تلقین کی ہے )یہ باتیں کہہ کر منبرسے نیچے اترآئے ۔ (بخاری ،کتاب لایمان ،باب الدین النصیحۃ:۵۸)
حضرت جریرؓ کی خیرخواہی کا ایک دل چسپ واقعہ
حضرت جریر رضی اللہ عنہ نے اپنےآزادکردہ غلام سے فرمایاکہ تین سودرہم میں ایک گھوڑاخریدکرلاؤ،غلام بازارگیا ،تین سودرہم میں گھوڑاخرید کر گھوڑے کے مالک کو ساتھ لے آیا؛تاکہ حضرت جریرؓ مالک کو قیمت اداکریں،حضرت جریرؓ نے گھوڑادیکھ کر مالک سے فرمایا:تمہاراگھوڑا تین سودرہم سے زیادہ قیمت کا ہے ،کیاتم اس کو چارسو درہم میں خریدوگے ؟اس نےخوش ہوکرکہا: ضرور،پھرحضرت جریرؓ نے کہا: تمہاراگھوڑا چارسودرہم سے زیادہ قیمت کا ہے ،کیاتم پانچ سودرہم میں فروخت کروگے ؟اسی طرح قیمت بڑھاتے بڑھاتے آٹھ سودرہم تک لے گئے اورآٹھ سودرہم میں گھوڑاخریدا،کسی نے عرض کیا :حضرت ! گھوڑا آپ کو تین سوروپئے میں مل رہاتھا ،آپ نے آٹھ سوروپئے میں کیوں خریدا؟
حضرت جریرؓ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر ہرمسلمان کے ساتھ بھلائی وخیرخواہی کرنے پربیعت کی ہے( میں اس عہد وبیعت کا پابندہوں) ،اس شخص کا گھوڑا میرے نزدیک تین سودرہم سے زیادہ قیمت کا تھا ،اگرمیں تین سودرہم میں خریدتا ،تویہ مسلمان کے ساتھ خیرخواہی کے خلاف ہوتا،اس گھوڑے کی واقعی جوقیمت تھی ،میں نے وہ اداکی ہے ۔(طبرانی بحوالہ فتح الباری ،کتاب الایمان، باب الدین النصیحۃ:۵۸)
ان احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہواکہ دینِ اسلام فقط عبادات ،ذکر و اذکار یا وظائف کا نام نہیں؛ بلکہ بندوں کے حقوق، ان کے ساتھ خیرخواہی، ان کے لیے خیر اوربھلائی کا چاہنا، یہ بھی دینِ اسلام کا حصہ ہے، لوگوں کی تذلیل کرنا ،یا اُن کے نقصان کے درپے ہونا ،یا اُن کے ساتھ بدخواہی کامعاملہ رکھناایمان کی شان کے خلاف ہے۔