دعا کی اہمیت وفضیلت: دعا عبادت کا مغز ہے ،اللہ سے لینےکا ذریعہ ہے ۔
اللہ تعالی کا ارشادہے
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ(الغافر:۶۰)
مجھ سے مانگو،میں تمہاری دعاقبول کروں گا ۔
جوشخص فرض نمازاداکرے ،اس کے لیے ایک مقبول دعاہے اورجوقرآن پاک ختم کرے ،اس کے لیے ایک مقبول دعاہے ۔
دوسری جگہ ارشادہے
ہےوَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ۔(البقرۃ:۱۸۶)
جب میرے بندے مجھ سے مانگتے ہیں ،تومیں ان سے قریب ہوتاہوں اور دعاکرنے والوں کی دعاقبول کرتاہوں۔
یہ دوآیتیں بطورنمونہ پیش کی گئیں جن میں اللہ جل جلالہ بندو ں کو دعاکا حکم دے رہے ہیں اوردعاکی قبولیت کا وعدہ بھی فرمارہے ہیں ۔
خالق نہ مانگنے سے ناراض ہوتاہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا
مَنْ لَمْ يَسْأَلِ اللَّهَ يَغْضَبْ عَلَيْهِ۔(رواہ الترمذی عن ابی ھریرة فی کتاب الدعوات :۳۷۳۳)
جوشخص اللہ سے نہیں مانگتا،اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوتے ہیں۔
مخلوق مانگنے سے ناراض ہوتی ہے ،خالق نہ مانگنے سے ناراض ہوتاہے ۔
رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
الدُّعَاءُ مُخُّ العِبَادَةِ۔(رواہ الترمذی عن انس بن مالک ماجاءفی فضل الدعاء:۱۷۳۳)
دعاعبادت کا مغز اورلب لباب ہے ۔
انسان عبادت کرتاہے ،نماز پڑھتاہے ؛لیکن توجہ ودھیان نہیں ہوتا،جب اللہ کی طرف متوجہ ہوتاہے ، ا للہ کے سامنے اپنی عاجزی وانکساری کو ظاہرکرتاہے ،اپنے آپ کو متواضع بناکر پیش کرتاہے ،تواللہ تعالیٰ ضرورخوش ہوتے ہیں اوراس کی دعاکو قبول فرماتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ بے نیاز ہیں،بندے سراپا محتاج ،بندوں کی جملہ ضرویات کی تکمیل اللہ ہی فرماتے ہیں ،لہذا بندوں کو چاہئے کہ ہرحاجت اللہ ہی سے مانگیں،دعا کےلیے نہ کوئی خاص وقت ہے نہ خاص جگہ ،جب چاہیں ،اللہ سے مانگ سکتے ہیں،ہروقت،ہرجگہ اللہ تعالیٰ دعا قبول کرتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے بعض اوقات ،مقامات اوراحوال کوقبولیت ِدعامیں خصوصی امتیاز عطافرمایا ہے جن میں خصوصیت سے دعاکی قبولیت کا وعدہ کیا گیاہے ،ان ہی اوقات میں فرض نمازوں کے بعدکی دعابھی شامل ہے،دعا۔(تفصیل کے لیے جواہرالفقہ جلددوم، احکام دعامصنفہ مفتی محمدشفیع عثمانیؒ مطالعہ کی جاسکتی ہے)دعاء
فرائض کے بعد دعاکی اہمیت وحیثیت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو فرائض کے بعد دعاکرنے کی بطورخاص ترغیب دی ہے اورقبولیت کی بشارت بھی سنائی ہے،نیزآپ سے فرائض کے بعد خصوصی اورعمومی دعائیں منقول ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاعام معمول فرض نمازوں کے بعداجتماعی دعامانگنے کانہیں تھا؛مگرگاہے ماہے آپ نے اجتماعی اورجہری دعاءبھی مانگی ہے،یہی وجہ ہے کہ فقہائے کرام علامہ نووی ،صاحب نورالایضاح حسن شرنبلالی وغیرہ نے فرائض کے بعد دعاکو مستحب قراردیاہے ۔(مستفادازمعارف السنن ۱۲۳/۳،تحفہ الالمعی۹۵/۲)دعاء
حافظ ابن لقیم ؒنے ”زادالمعاد“میں تحریرفرمایاہے کہ فرائض کے بعد امام ومقتدی کے لیے دعارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورحضرات خلفائے راشدین کی سنت سے ثابت نہیں ہے ،بقول علامہ قسطلانی حافظ ابن حجرؒ نے ابن قیم ؒ کی پرزورومدلل تردید کی ہے ۔(تحفة الاحوذی،باب مایقول بعدماسلم۱۶۸/۲)
حافظ ابن القیم ؒ کی مذکورہ قول کی وجہ سے متاخرین حنابلہ،سلفی اوربعض علمائے غیرمقلدین فرائض کے بعد دعاکو بدعت قراردیتے ہیں اور عوام میں فتنے برپاکرتے رہتے ہیں ،دوسری طرف بعض علاقوں میں احناف نے بھی فرائض کے بعد دعاکو گویا نماز کا جزءقراردے کر اجتماعی اورجہری دعاکو لازم وواجب کا درجہ دے دیاہے ؛حالانکہ ائمہ اربعہ کے نزدیک فرائض کے بعد دعامستحب ہے۔
اس تحریرمیں اسی افراط وتفریط کے درمیانی اورمعتدل راہ کو احادیث شریفہ ،شراح حدیث اورفقہائے کرام کی تشریحات کی روشنی میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
فرائض کے بعددعاسے متعلق احادیث
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ: قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ: أَيُّ الدُّعَاءِ أَسْمَعُ؟ قَالَ:جَوْفَ اللَّيْلِ الآخِرِ، وَدُبُرَ الصَّلَوَاتِ المَكْتُوبَاتِ۔(رواہ الترمذی : ۳۴۹۹،والنسائی : ۹۸۵۶)
قبولیت کے اعتبار سے کونسی دعاافضل ہے ؟آپ نے ارشادفرمایا : رات کے آخری حصے میں اورفرض نمازوں کے بعد کی جانے والی دعاقبولیت کے اعتبارسے افضل ہے ۔فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہواکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر لیل اور فرض نمازوں کے بعدکی دعاکو افضل ولائقِ قبول قراردیاہے ۔
عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ صَلَّى صَلَاةَ فَرِيضَةٍ ،فَلَهُ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ، وَمَنْ خَتَمَ الْقُرْآنَ فَلَهُ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ۔(مجمع الزوائد عن الطبرانی باب الدعاءعند ختم القرآن : ۱۱۷۱۲)
فرض کے بعد دعا کرنے سے نامرادی نہیں
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: مَا مِنْ عَبْدٍ بَسَطَ كَفَّيْهِ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ، ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِلَهِي وَإِلَهَ إِبْرَاهِيمَ، وَإِسْحَاقَ، وَيَعْقُوبَ، وَإِلَهَ جَبْرَائِيلَ، وَمِيكَائِيلَ، وَإِسْرَافِيلَ عَلَيْهِمُ السَّلَامُ، أَسْأَلُكَ أَنْ تَسْتَجِيبَ دَعْوَتِي، فَإِنِّي مُضْطَرٌّ، وَتَعْصِمَنِي فِي دِينِي فَإِنِّي مُبْتَلًى، وَتَنَالَنِي بِرَحْمَتِكَ فَإِنِّي مُذْنِبٌ، وَتَنْفِيَ عَنِّي الْفَقْرَ فَإِنِّي مُتَمَسْكِنٌ، إِلَّا كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ لَا يَرُدَّ يَدَيْهِ خَائِبَتَيْنِ( رواہ ابن السنی فی عمل الیوم واللیلة،باب مایقول فی دبرصلاة الصبح:۱۳۸ )
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :جو بندہ نماز کے بعدیوں کہتاہے : اے میرے معبود!اے ابرہیم ،اسحاق اوریعقوب علیہم السلام کے معبود !اے جبرئیل ،میکائیل ا وراسرافیل کے معبود!میں آپ سے دعاکرتاہوں کہ آپ میری دعاقبول فرمائیں،اس لیے کہ میں مجبورہوں،دین کے معاملے میں میری حفاظت فرما؛ کیونکہ میں(معاصی میں) مبتلا ہوں،اپنی رحمت نازل فرما کہ میں گنہگارہوں،مجھ سے فقروتنگ دستی کو دور فرماکہ میں مسکین ہوں،اللہ تعالیٰ پرلاز م ہے کہ اس کے ہاتھوں کو ناکام ونامرادواپس نہ کریں ۔دعا
اس روایت سے معلوم ہواکہ نماز کے بعددعاضرورقبول ہوتی ہے ،کامل ومکمل نماز فرض ہی ہے ،لہذا فرض نمازوں کے بعد ہاتھ اٹھاکردعاکا اہتمام کرنا چاہئے ۔دعا
عام معمول فرائض کے بعد اجتماعی وجہری دعاءکانہیں
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى الله عليه وسلم رَفَعَ يَدَيْهِ بَعْدَ مَا سَلَّمَ وَهُوَ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ فَقَالَ اللَّهُمَّ خَلِّصِ الْوَلِيدَ بْنَ الْوَلِيدِ وَعَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ وَسَلَمَةَ بْنَ هِشَامٍ وَضَعَفَةَ الْمُسْلِمِينَ الَّذِينَ لَا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلَا يهتدون سبيلا من أيدي الكفار۔(تحفة الاحوذی۱۷۰/۲،معارف السنن۱۲۲/۳تفسیرابن کثیر،النساء:۹۷)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہونے کے بعد قبلہ رو ہوکر دعاءفرمائی :اے اللہ! ولیدبن ولید،عیاش بن ابی ربیعہ ،سلمہ بن ہشام اوران کمزورمسلمانوں کو کفارکے(ظلم وستم )سے نجات عطافرما جو ہجرت کے لیے کوئی تدبیراورراستہ نہیں پارہے ہیں ۔ا
عن ابن عباس وابن عمرؓ صلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الفجر،ثم اقبل علی القوم ،فقال :اللھم بارک لنا فی مدنا ،وبارک لنا فی صاعنا ۔(رواہ الطبرانی فی الکبیر،رجالہ ثقات ،معارف السنن ۱۱۳/۳)
فرض نماز کے بعدضعفائے مسلمین اورشہرمدینہ کے لیے ہاتھ اٹھاکر اجتماعی وجہری دعا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجرسے فارغ ہوئے اور مصلیوں کی طرف رخ فرماکر دعافرمائی : اے اللہ ہمارے شہر میں برکت عطا فرما اور ہمارے صاع میں برکت عطافرما۔
احادیث ِمذکورہ سے معلوم ہواکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض نماز کے بعدضعفائے مسلمین اورشہرمدینہ کے لیے ہاتھ اٹھاکر اجتماعی وجہری دعاکی ہے؛چونکہ عام معمول فرائض کے بعد اجتماعی وجہری دعاءکانہیں تھا،اس وجہ سے احیاناًوضرورة ًفرائض کے اجتماعی وجہری دعاکاجواز ثابت ہوگا۔
عَنْ حَبِيبِ بْنِ مَسْلَمَةَ الْفِهْرِيِّ – وَكَانَ مُسْتَجَابًا -: أَنَّهُ أُمِّرَ عَلَى جَيْشٍ فَدَرِبَ الدُّرُوبِ، فَلَمَّا لَقِيَ الْعَدُوَّ قَالَ لِلنَّاسِ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – يَقُولُ: “لَا يَجْتَمِعُ مَلَأٌ فَيَدْعُو بَعْضُهُمْ وَيُؤَمِّنُ سَائِرُهُمْ، إِلَّا أَجَابَهُمُ اللَّهُ۔(رواہ الطبرانی فی الکبیر،مجمع الزوائد باب التامین علی الدعاءرجالہ رجال الصحیح غیرابن لھیعة،وھوحسن الحدیث:۱۷۳۴۷ )
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوارشادفرماتے ہوئے سنا : کچھ لوگ جمع ہوں،ان میں سے ایک شخص دعاکرے ،بقیہ حضرات اس کی دعاپر آمین کہیں ،تواللہ پاک ان کی دعاکوضرور قبول فرماتے ہیں۔
مذکورہ روایت سے عمومی اعتبار سے ہیئت اجتماعیہ کے ساتھ جہری دعاکا جواز ثابت ہوتاہے ۔
فرائض کے بعد اذکاراورانفرادی دعائیں
عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا انْصَرَفَ مِنْ صَلَاتِهِ اسْتَغْفَرَ ثَلَاثًا وَقَالَ: «اللهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ، تَبَارَكْتَ ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَام(رواہ مسلم باب استحباب الذکربعدالصلوة :۵۹۱)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوتے،تو تین مرتبہ استغفارفرماتے اوریہ دعاءپڑھتے اللہم انت السلام ومنک السلام تبارکت ذالجلال والاکرام ۔ِ
عن ابی أَيُّوبَ قَالَ: مَا صَلَّيْتُ خَلْفَ نَبِيِّكُمْ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – إِلَّا سَمِعْتُهُ يَقُولُ حِينَ يَنْصَرِفُ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ خَطَايَايَ، وَذُنُوبِي كُلَّهَا، اللَّهُمَّ وَأَنْعِشْنِي، وَاجْبُرْنِي، وَاهْدِنِي بِصَالِحِ الْأَعْمَالِ وَالْأَخْلَاقِ، لَا يَهْدِي لِصَالِحِهَا وَلَا يَصْرِفُ سَيِّئَهَا إِلَّا أَنْتَ.رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الصَّغِيرِ وَالْأَوْسَطِ، وَإِسْنَادُهُ جَيِّدٌ.(رواہ الھیثمی فی مجمع الزوائدوقال اسنادہ جیدر: ۱۶۹۷۵وروی الحاکم فی المستدرک بلفظ اللہم انعمنی،واحینی وارزقنی:مناقب ابی ایوب:۵۹۴۲ )
حضرت ابوایوب انصاریؓ فرماتے ہیں:میں نے جب بھی کوئی نماز تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پڑھی ہے ،تو میں نے آپ کو ضرور یہ دعاکرتے ہوئے پایا:اے اللہ !میری ساری خطائیں معاف فرما، اے اللہ ! مجھے بلند مرتبہ عطا ءفرما،میری کمی و کوتاہی کو دورفرما،نیک وصالح اخلاق کی توفیق عطافرما؛کیونکہ اچھے اخلاق واعمال کی تیرے علاوہ کوئی توفیق دے نہیں سکتا،نہ برے اخلاق واعمال سے کوئی بچاسکتاہے ۔
نماز کے بعد ان کلمات سے پناہ طلب کرتے تھے
كَانَ سَعْدٌ يُعَلِّمُ بَنِيهِ هَؤُلاَءِ الكَلِمَاتِ كَمَا يُعَلِّمُ المُعَلِّمُ الغِلْمَانَ الكِتَابَةَ وَيَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَتَعَوَّذُ مِنْهُنَّ دُبُرَ الصَّلاَةِ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الجُبْنِ، وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أُرَدَّ إِلَى أَرْذَلِ العُمُرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الدُّنْيَا، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ، فَحَدَّثْتُ بِهِ مُصْعَبًا فَصَدَّقَهُ۔(رواہ البخاری عن عمرو بن میمون فی کتاب الجہاد،باب مایتعوذمن الجبن ،رقم:۲۸۲۲)
عمروبن میمون کہتے ہیں :حضرت سعدؓمندرجہ بالا کلمات اپنے بچوں کو اس طرح سکھاتے تھے جیسے لکھنا ،پڑھناسکھاتے تھے ،حضرت سعدؓ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد ان کلمات سے پناہ طلب کرتے تھے ،اے اللہ !میں تجھ سے بزدلی ،نکمی عمرکی طرف لوٹائے جانے ،دنیا کے فتنے اورعذاب قبرسے پناہ طلب کرتاہوں۔
حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: دَخَلَتْ عَلَيَّ امْرَأَةٌ مِنَ الْيَهُودِ، فَقَالَتْ: إِنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ مِنَ الْبَوْلِ، فَقُلْتُ: كَذَبْتِ، فَقَالَتْ: بَلَى، إِنَّا لَنَقْرِضُ مِنْهُ الْجِلْدَ وَالثَّوْبَ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الصَّلَاةِ وَقَدِ ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُنَا، فَقَالَ: مَا هَذَا؟ فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا قَالَتْ، فَقَالَ: صَدَقَتْ، فَمَا صَلَّى بَعْدَ يَوْمِئِذٍ صَلَاةً إِلَّا قَالَ فِي دُبُرِ الصَّلَاةِ: رَبَّ جِبْرِيلَ وَمِيكَائِيلَ وَإِسْرَافِيلَ أَعِذْنِي مِنْ حَرِّ النَّارِ، وَعَذَابِ الْقَبْرِ۔(رواہ النسائی :۱۳۴۳)
جہنم کی گرمی اورقبرکے عذاب سے میری حفاظت فرما
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں:میرے پاس ایک یہودی عورت آئی ،اس نے کہا کہ پیشاب کی بے احتیاطی کی وجہ سے ہمیں عذابِ قبرہوتاہے ،میں نے کہا : تم جھوٹ کہتی ہو،اس نے کہا:نہیں ،ہمارے کپڑے اورکھالوں کو ادھیڑدیاجائے گا ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازکے لیے نکلے جب کہ ہماری آوازیں بحث ومباحثے کی صورت میں بلندہوچکی تھیں،آپ نے ارشادفرمایا: کیابات ہے ؟ میں نے وہ تمام باتیں سنائیں جوہمارے درمیان ہوئیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس یہودی عورت نے سچ کہا،حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں:اس دن کے بعدسے جوبھی نماز آپ نے ادافرمائی ،اس نماز کے بعد یوں دعاءکرتے : اے جبرئیل ،میکائیل اوراسرافیل کے رب!جہنم کی گرمی اورقبرکے عذاب سے میری حفاظت فرما۔دعاء
بطورنمونہ مذکورہ بالااحادیث وآثار فرائض کے بعد اجتماعی وانفرادی دعاءکی اصل ، ترغیب اور دعاہے استحباب کو ثابت کرنے کے لیے پیش کی گئی ہیں ،ورنہ کتبِ احادیث میں بے شمار روایات اس قبیل سے موجود ہیں۔
استحباب الدعوات عقیب الصلوات
علامہ فاضل محمدعلی بن حسین مکی مالکی نے اس موضوع پرعربی زبان میں ایک رسالہ ”مسلک السادات الی سبیل الدعوات “ تصنیف فرمایاہے ،جس میں علامہ موصوف نے دعاکے احکام بالخصوص فرائض کے بعد دعاءکے استحباب کواحادیثِ شریفہ اورعبارات فقہیہ سے ائمہ اربعہ کے نزدیک مستحب ہونے کے ثابت کیاہے۔
حضرت اقدس حکیم الامت اشرف علی تھانوی ؒ نے ”استحباب الدعوات عقیب الصلوات “ کے نام سے اس رسالہ کی تلخیص فرمائی ہے،جو ”امدادالفتاوی جدید“ میں تخریجات کے ساتھ منسلک ہے ،جس کا اردو ترجمہ آپ ہی کے حکم سے حضرت مفتی محمدشفیع عثمانی ؒ نے کیا ہے ،جو جواہرالفقہ جلد دوم میں موجود ہے ،نیز مفتی صاحب نے ایک جامع رسالہ بنام” احکام ِدعا“ کا بھی اضافہ کیاہے جونہایت مفید ہے ۔
فرائض کے بعد دعاکا طریقہ کار
مذکورہ بالاتمام تفصیلات کے باجود ہرفرض نماز کے اجتماعی اورجہری دعارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مستمرہ نہیں ہے ،امام کے سلام پر نماز مکمل ہوچکی ہے ، نماز کا نہ کوئی جزءباقی ہے ،نہ ہی امام ومقتدی کا کسی قسم کا تعلق ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرائض کے بعد دعاکی ترغیب دی ہے ، قبولیت کی زیادہ امیدہے ،اس لیے نمازسے فراغت کے بعد امام ومقتدی سب انفرادی طورسے عجز ،تواضع ،انکساری اورآہستہ آواز سے اپنی دنیوی واخری حاجات کو اللہ سے مانگیں،کسی خاص موقع پر خاص دعاپوری جماعت سے کرانی مقصود ہو ،توایسے موقع پر اجتماعی اورجہری دعاکی بھی گنجائش ہے ، ایک آدمی کسی قدربلندآواز سے دعاکرے اوردیگرحضرات آمین کہیں ،بشرطے کہ دوسروں کی نماز وعبادت میں خلل نہ ہو اورایسا کرنے کی عادت بھی نہ ہو کہ عوام سمجھنے لگیں کہ دعاکرنے کا طریقہ یہی ہے،دعاکے بغیرنماز ناقص رہے گی، جیساکہ آج کل عام طورسے ذہن بناہواہے۔
دعاکا اصل ضابطہ قرآن کریم کی روشنی میں
حضر ت مولانامفتی شفیع عثمانیؒ تحریرفرماتے ہیں :دعاکا اصل ضابطہ قرآن کریم نے یہ بیان فرمایاہے
ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ۔(الاعراف :۵۵)
اپنے رب سے التجاءکرو، عاجزی ، تضرع اور آہستہ آواز سے ،بے شک اللہ تعالیٰ حدسے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے ۔
اس آیت میں دعاکے دو اہم آداب کی طرف اشارہ فرمایا ہے ،ایک تضرع اوردوسرے آواز کی پستی ،دوسری بات یہ ارشادفرمائی ہے کہ جو دعاءکے آداب کا لحاظ نہیں کرتے اورحدسے تجاوز کرنے والے ہیں،اللہ تعالیٰ ان کو پسندنہیں فرماتے ۔
دعاکرنے والاامام ہو،یا مقتدی، یا منفرد، اس کے لیے اللہ تعالیٰ کا بتایاہوا پسندیدہ طریقہ یہی ہے کہ خشوع ،خضوع ،تضرع وگریہ زاری اورآہستہ آواز سے دعاکرے،جو اس کے خلاف کرے، وہ حدسے تجاوزکرنے والاہوگا ،اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ،ظاہرہے کہ جو دعا ناپسندیدہ طریقے پر کی جائے ،وہ قبولیت کے لائق نہیں ،فضل وکرم کامعاملہ الگ ہے ،اسی لیے ائمہ اربعہ کے نزدیک دعا آہستہ اورخفیہ کرناہی مستحب اوراولی ہے ۔(جواہرالفقہ ۱۹۹/۲)
مالکیہ اورشافعیہ نے خاص شرائط کے ساتھ بعض حالات میں امام کے لیے جہرا دعاکرنے کی اجازت دی ہے ،مثلاعام مقتدی ناواقف وجاہل ہوں،دعامانگنے کا طریقہ بھی نہ جانتے ہوں،توان کو سکھانے کے لیے امام جہراً دعاکرے اورمقتدی آمین کہیں ،وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ امام کے قریب کوئی مسبوق نہ ہوجواپنی باقی ماندہ رکعات کو پوری کررہاہو،حنفیہ اورحنابلہ کے نزدیک مطلقاً اجازت نہیں ہے ،یہ تومفاسد سے قطع نظر نفس مسئلہ کا حکم ہے ۔(جواہرالفقہ۱۹۹/۲)
اجتماعی دعاکا رواج
مولاناسیدمحمدیوسف بنوری ؒ تحریرفرماتے ہیں
قدراج فی کثیر من البلاد الدعاءبھیئة اجتماعیة رافعین ایدیھم بعدالصلوات المکتوبة ،ولم یثبت ذالک فی عھدہ صلی اللہ علیہ وسلم وبالاخص بالمواظبة ،نعم ثبتت ادعیة کثیرة بالتواتر ومن غیرھیئة اجتماعیة۔(معارف السنن ۴۰۹/۳)
بہت سارے شہروں میں فرض نماز وں کے بعد ہاتھ اٹھاکر اجتماعی دعاکا رواج ہوگیاہے ،عہدنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کا ثبوت نہیں ملتا،خاص کرمواظبت اورپابندی کے ساتھ،ہاں فرض کے بعد بہت سی دعائیں تواترسے ثابت ہیں؛بغیرہاتھ اٹھائے ہوئے اورانفرادی طریقے پر نہ کہ اجتماعی طریقے پر۔
ایک دوسرے موقع پر لکھتے ہیں:
غیرانہ یظھربعدالبحث والتحقیق انہ وان وقع ذالک احیانا عندحاجات خاصة لم تکن سنة مستمرة لہ صلی اللہ علیہ وسلم ولاللصحابة والالکان ان ینقل متواتراالبتة۔(معارف السنن ۱۲۴/۳)
بحث وتحقیق کے بعد یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگرچہ کبھی کبھی خصوصی مواقع پر نماز کے بعد دعاکی گئی ؛لیکن یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کی سنت مستمرہ نہیں تھی،اگرایساہوتا،تو یہ بات تواترکے ساتھ ضرور منقول ہوتی ۔
حضرت مولانا خالدسیف اللہ صاحب رحمانی مدظلہ تحریرفرماتے ہیں
فی زمانہ نمازوں کے بعد دعاﺅں کااہتمام والتزام اس درجے ہے کہ بجائے خودیہ دعائیں نماز کا جزءبن گئی ہیں ،اگرکوئی امام کبھی دعانہ کرے ،تو اس کی خیرنہیں، اہل علم کے نزدیک یہ اصول مسلم ہے کہ جوچیز واجب نہ ہو،اس کو واجبات کا درجہ دے دینا اوراس کا اس درجہ اہتمام کرنا جوثابت نہ ہو،اس کے بدعت ہونے کے لیے کافی ہے ،پس ضرورت ہے کہ علماءوائمہ مساجد اس پرتوجہ دیں اوراس عمل کو اتنی تقویت نہ دیں کہ ان کا یہ فعل بدعت کے زمرے میں داخل ہوجائے ۔(قاموس الفقہ ۴۱۵/۳)
معتدل اورقول فیصل
حضرت اقدس مفتی سعیداحمدصاحب نوراللہ مرقدہ تحریرفرماتے ہیں
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول فرضوں کے بعد اجتماعی دعامانگنے کا نہیں تھا؛مگرگاہے ماہے آپ نے فرضوں کے بعد اجتماعی دعامانگی ہے اورجہری مانگی ہے،نیزرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرضوں کے بعددعامانگنے کی ترغیب دی ہے ،یہ تمام باتیں اپنی جگہ ثابت ہیں اوران کو تسلیم کئے بغیرچارہ نہیں۔
دورِاول کے تمام مسلمان نمازکے اندردعامانگتے تھے ،وہ اس پر پوری طرح قادرتھے ،عربی ان کی مادری زبان تھی ،وہ صحیح عربی بولتے تھے اورآج بھی عرب علماءکو اس پردسترس حاصل ہے ؛جب اسلام عجمیوں میں پہنچااورعربوں کاحال بھی یہ ہوگیا کہ اگرچہ وہ عربی بولتے ہیں ؛مگرصحیح عربی نہیں جانتے ،بگڑی ہوئی زبان بولتے ہیں،اس لیے اب عام مسلمان دعائے ماثور ہ پراکتفاءکرنے پرمجبورہیں اورعجمیوں کے لیے تووہ محض اذکاربن گئے ہیں،دعاکی شان ان میں باقی نہیں رہی ،اس لیے علماءنے اس کا متبادل یہ تجویزکیا کہ دبرالصلوات یعنی نمازوں کے بعد دعا مانگی جائے ،ہرشخص اپنی زبان میں خوب عاجزی اورانکساری کے ساتھ سمجھ کر دعاکرے ۔
اسی لیے کتابوں میں نمازوں کے بعد دعاکرنے کو سنت یاثابت نہیں کہا؛بلکہ مستحب لکھاہے ،نیز اس نئے طریقے کو بدعت نہیں کہہ سکتے ؛کیونکہ اس کی اصل ثابت ہے ۔
فرضوں کے بعد دعا کی ترغیب
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرضوں کے بعد اجتماعی دعاکی ہے اورآپ نے فرضوں کے بعد دعاکرنے کی ترغیب بھی دی ہے ؛مگربعدمیں اس سلسلے میں چندخرابیاں پیداہوگئیں ،دعا کو اتنا لازم سمجھ لیا گیا کہ گویا اس کے بغیر نمازادھوری ہے ؛حالانکہ مستحب کو لاز م کرلینے سے وہ ناجائز ہوجاتاہے ،اسی طرح جہری دعاکاسلسلہ شروع ہوگیا ،امام نے چند دعائیں یادکرلیں ،وہ ان ہی پڑھتاہے ،نہ لوگ سمجھتے ہیں نہ امام ۔
دوسری طرف اس کے ردِ عمل میں چندلوگوں نے فرضوں کے بعد دعاکرنے کو بدعت کہناشروع کردیا ؛حالانکہ اس کی اصل موجود ہے ،،خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی فرضوں کے بعد اجتماعی دعاکی ہے اورفرضوں کے بعد دعاکرنے کی ترغیب دی ہے ،پس یہ بدعت کیسے ہوسکتی ہے ؟وہ لوگ کہتے ہیں :اب دعاکا التزام شروع ہوگیا ہے ،لہذا دعاچھوڑدینی چاہئے ؛مگرغورکرنے کی بات یہ ہے کہ یہ غلطی کی اصلاح نہیں ،دعاءبندکردینے سے تو بندوں کا رب العلمین سے دعا کا تعلق منقطع ہوجائے گا ۔دعاء
اجتماعی دعا کبھی چھوڑ دی جائے اورہیئت اجتماعی کو ضروری نہ سمجھا ئے
اس لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ جن فرضوں کے بعد سنن ہیں ،ان میں سلام کے بعد صرف مختصر اذکار پڑھے جائیں ،پھرسنن ونوافل سے فارغ ہوکر الباقیات الصالحات یعنی ۳۳ مرتبہ سبحان اللہ ،۳۳مرتبہ الحمدللہ اور۳۴مرتبہ اللہ اکبر پڑھے ،پھرعاجزی اورانکساری کے ساتھ خوب جم کر انفرادًا دعامانگے۔
جن نمازوں کے بعد سنتیں نہیں ہیں ،ان میں سلام کے بعد متصلاً الباقیات الصالحات پڑھے ،پھردعامانگے اورلوگوں کو دعاءسرًا مانگی چاہئے ؛تاکہ ہرآدمی اپنی مراد اللہ سے مانگ سکے ۔
اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ التزام نہ ہونے پائے ،کبھی دعاچھوڑ بھی دی جائے اورہیئت اجتماعی کو ضروری نہ سمجھا ئے اگرسارے مجمع کی مرادمشترک ہو ،یاامام کے پیش نظر لوگوں کو دعا ءمانگنے کا طریقہ سکھانا ہو،توپھرجہرًا بھی دعامانگی جاسکتی ہے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہراً دعائیں مانگی ہیں ،تب ہی تو وہ منقول ہوکر ہم تک پہنچی ہیں ۔
خلاصہ یہ ہے کہ دوباتیں بے شک قابل ِاصلاح ہیں : ایک ہیئت اجتماعی ،دوسری دعاکا التزام اصلاح کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ عام احوال میں جہری دعا نہ کی جائے ؛بلکہ ہرشخص اپنی زبان میں اپنی حاجتیں مانگے ،توہیئت اجتماعی خود بخود ختم ہوجائے گی التزام کو ختم کرنے کی صورت یہ ہے کہ امام صاحب لوگوں کو مختلف اوقات میں یہ بات سمجھاتے رہیں کہ امام اورمقتدیوں کا رابطہ سلام پرختم ہوجاتاہے ،نماز سلام پرپوری ہوجاتی ہے ،پس جس کو کوئی حاجت ہو ،وہ جاسکتاہے ؛بلکہ خود امام کو کوئی ضرورت ہو ،تو وہ بھی جاسکتاہے ۔(ملخص ازتحفة الالمعی ۹۵/۲)دعاء
موجود ہ مروجہ طریقہءدعاکے مفاسد
موجودہ زمانے میں اجتماعی اورجہری دعاکا جورواج ہے ،اس میں میں نہ دعاکی شان ہے نہ روح ،نہ دعاکی حقیقت نہ آدا ب ِدعاکی رعایت اورنہ مسبوق حضرات کالحاظ، مساجدکے ائمہ اورذمہ داران پر اللہ تعالی رحم فرمائے کہ قرآن وسنت کی تلقین اوربزرگان سلف کی ہدایات کو نظراندازکرتے ہوئے ہرفرض نماز کے بعدبآواز بلند وجدکے ساتھ دعاکی ایک مصنوعی سی کارروائی عمل میں لاتے ہیں اورمسبوق حضرات کی فرض نمازکو بربادکردیتے ہیں۔
حضرت مولانامفتی محمدشفیع عثمانیؒ تحریرفرماتے ہیں
آج کل عوام جس انداز سے دعامانگتے ہیں ،اول تو اس کو دعامانگنا ہی نہیں کہاجاسکتا؛بلکہ پڑھنا کہنا چاہئے ؛کیونکہ اکثریہ بھی معلوم نہیں ہوتاکہ ہم جوکلمات زبان سے بول رہے ہیں،ان کاکیامطلب ہے ؟جیساکہ آج کل عام مساجد میں اماموں کا معمول ہوگیاہے کہ کچھ عربی زبان کے دعائیہ کلمات انھیں یادہوتے ہیں ،نماز کے ختم پران کو پڑھ دیتے ہیں ،اکثران اماموں کو بھی ان کلمات کا مطلب ومفہوم معلوم نہیں ہوتا،جاہل مقتدی تو بالکل بے خبرہوتے ہیں ،وہ بے سمجھے بوجھے امام کے پڑھے ہوئے کلمات کے پیچھے آمین آمین کہتے ہیں ،اس سارے تماشے کاحاصل چندکلمات کا پڑھنا ہوتاہے ،دعامانگنے کی حقیقت پائی نہیں جاتی ۔(معارف القرآن،الاعراف:۵۵ ،۵۷۷/۳)
ہمارے زمانے کے ائمہءمساجد کو اللہ تعالی ہدایت فرماویں کہ قرآن وسنت کی تلقین اوربزرگان سلف کی ہدایات کو یکسرچھوڑبیٹھے ہیں،ہرنماز کے بعد دعاکی ایک مصنوعی سی کارروائی ہوتی ہے ،بلندآواز سے کچھ کلمات پڑھے جاتے ہیں جوآداب ِدعا کےخلاف ہونے کے علاوہ ان نمازیوں کی نماز میں خلل انداز ہوتے ہیں ،جومسبوق ہونے کی وجہ سے امام کے فارغ ہونے کے بعداپنی باقی ماندہ نماز پوری کررہے ہوتے ہیں،غلبہ ءرسوم نے اس کی برائی اورمفاسد کو ان کے نظروں سے اوجھل کردیاہے ۔(معارف القرآن،الاعراف :۵۷۷/۳،۵۵)
فرائض کے بعد اجتماعی اورجہری دعاکے مفاسد
الف:امام دعاکرتے ہیں اورمقتدی آمین کہتے ہیں ،گویا امام اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان واسطہ ہے،دعاامام کے واسطے ہی سے ہوسکتی ہے ؛حالانکہ اللہ بلاواسطہ سنتے ہیں،ہرایک کی سنتے ہیں ۔
ب :امام قرآن وحدیث کی مسنون دعائیں پڑھتے ہیں،معنی سمجھ کرپڑھیں ،تواولی وافضل ہے ،عموماً ائمہ اورمقتدی حضرات ان دعاؤں کا معنی نہیں سمجھتے ،امام صاحب دعائیہ کلمات پڑھتے ہیں ،جہاں سانس مکمل ہوتی ہے ،وہاں مقتدی آمین کہتے ہیں،نہ امام کو پتہ ہے کہ اس نے کیامانگا؟ نہ مقتد ی کو پتہ ہے کہ کس بات پرآمین کہی ہے ،بعض ائمہ یوں دعاکرتے ہیں : ربنا انزل علینا مائدة من السماءالخ ربنا افرغ علینا صبرا الخ ظاہربات ہے کہ پہلی دعاکواللہ نے نقل فرمایا ہے ،بطوردعااس کی نقل کرنابے معنی بات ہے ،دوسری دعا مصیبت میں مبتلاہونے کی صورت میں کی جاتی ہے ، عام حالات میں اس دعاکو مانگنا گویا مصیبت کو مانگناہے ۔
ج:مشترکہ حاجات وضروریات کے علاوہ ہرشخص کی ذاتی ضروریات ہوتی ہیں ،امام صاحب چندازبردعائیں پڑھتے ہیں ،مقتدی مجبوراً ان پرآمین کہتے ہیں ، مناسب یہ ہے کہ ہرشخص انفرادی طورسے اپنی اپنی ضروریات کے موافق دعائیں کرے ۔
د:امام صاحب بآواز بلند دعائیہ کلمات پڑھتے ہیں ،مسبوق اپنی چھوٹی ہوئی رکعات مکمل کرنے میں لگے ہوئے ہیں ،امام صاحب کی جہری دعااورمقتدیوں کی بلند آمین سے اُن مسبوق لوگوں کی نمازمیں خلل واقع ہوتاہے ۔
خلاصہ یہ کہ موجود ہ مروجہ طریقہءدعاءقرآن وسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہے ،اس وجہ سے عام حالات میں اس مروجہ طریقہ دعاے اجتناب کرتے ہوئے امام اورمقتدی سب آہستہ دعامانگیں ؛البتہ کسی خاص موقع پرجہاں مذکورہ مفاسد نہ ہوں، کوئی شخص جہری دعاکرے ، دیگرحضرات آمین کہیں ،اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔(ملخص جواہرالفقہ ۲۰۱/۳)
نماز کے بعدہاتھ اٹھاکر دعاکرنا
کسی بھی دعاکے موقع پر(احوال متواردہ کی دعائیں مرادنہیں ہیں)خواہ نماز کے بعد کی جانے والی دعاہو،یادیگراوقات میں کی جانے والی دعا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل اورآپ کی ہدایات وتعلیمات سے ہاتھوں کو اٹھاکر دعاءکرنا اوردعاسے فارغ ہونے کے بعد ہاتھوں کو برکت کے لیے چہرہ پر پھیرلینا ثابت ہے ۔
عَنْ الفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الصَّلَاةُ مَثْنَى مَثْنَى، تَشَهَّدُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ، وَتَخَشَّعُ، وَتَضَرَّعُ، وَتَمَسْكَنُ، وَتُقْنِعُ يَدَيْكَ، يَقُولُ: تَرْفَعُهُمَا إِلَى رَبِّكَ، مُسْتَقْبِلًا بِبُطُونِهِمَا وَجْهَكَ، وَتَقُولُ: يَا رَبِّ يَا رَبِّ، وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَهُوَ كَذَا وَكَذَا ، وقَالَ غَيْرُ ابْنِ المُبَارَكِ فِي هَذَا الحَدِيثِ: مَنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَهِيَ خِدَاجٌ۔(رواہ الترمذی عن الفضل بن عباس باب ماجاءفی التخشع فی الصلوة :۳۸۵)
نماز(نفل ) دودورکعت ہے ، ہردورکعت پر تشہد ہے اور(نماز)خشوع، خضوع اورسراپاسکون کا نام ہے،پھراپنے ہاتھوں کے اندرونی حصہ کوچہرے کی طرف بناکرآسمان کی طرف اٹھاؤ،پھرکہو :اے رب ! اے رب!جوشخص اس طرح نہ کرے ،وہ نمازناقص ہے ۔
اس روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو نمازوں کے بعد دعاکرنے کامکمل طریقہ بتایاہے، جس میں ہاتھ اٹھاکر دعاکرنا بھی شامل ہے ۔
دعامیں ہاتھوں کو اٹھانامستحب
سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، قَالَ: أَتَى رَجُلٌ أَعْرَابِيٌّ مِنْ أَهْلِ البَدْوِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الجُمُعَةِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلَكَتِ المَاشِيَةُ، هَلَكَ العِيَالُ هَلَكَ النَّاسُ، فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ، يَدْعُو، وَرَفَعَ النَّاسُ أَيْدِيَهُمْ مَعَهُ يَدْعُونَ۔(رواہ البخاری کتاب الجمعة با ب رفع الناس ایدھم مع الامام فی الاستسقائ: ۱۰۲۹)
جمعہ کے دن (دورانِ خطبہ )ایک دیہاتی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا،عرض کیا ،یارسول اللہ !امویشی ،اہل وعیال اورعام لوگ (قحط سالی کی وجہ سے )مررہے ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھاکردعاءفرمائی اورلوگوں نے بھی دعاکے لیے اپنے ہاتھوں کواٹھاکر دعاکی الخ
علامہ مباک صاحب پوری ”تحفة الاحوذی “ فرماتے ہیں
مذکورہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ دعااستسقاءمیں ہاتھوں کو اٹھایاہے ؛لیکن دعاکے دیگرمواقع میں بھی ہاتھوں کو اٹھانے کا یہی حکم ہے ،ہاتھوں کو اٹھانادعائے استسقاءکے ساتھ خاص نہیں ہے ،یہی وجہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے اس روایت سے کسی بھی دعامیں ہاتھوں کے اٹھانے کے جواز واستحباب پر استدلال کیاہے ۔
علامہ مبارک پوری(غیرمقلدعالم دین) فرماتے ہیں: میرے نزدیک نماز کے بعد ہاتھوں کو اٹھاکر دعاکرنا جائز ہے ،کوئی حرج نہیں ہے ۔(تحفة الاحوذی۱۷۳/۲)
حضرت سہل بن سعد فرماتے ہیں
عَن سهل بن سَعْدٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: كَانَ يَجْعَل أصبعيه حذاء مَنْكِبَيْه وَيَدْعُو۔(مشکوۃ المصابیح: ۲۲۵۴)
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی انگلیوں کے سروں کو مونڈھوں کے برابرکرتے ،پھردعاکرتے ۔
حدیث مذکورسے معلوم ہواکہ عام دعاﺅں میں اپنے ہاتھوں کو مونڈھوں کے مقابل اٹھاناچاہئے ۔
دعاسے فارغ ہوکر چہرے پر ہاتھ پھیرنا
حضرت سلمان ؓفرماتے ہیں
ان ربکم إِنَّ اللَّهَ حَيِيٌّ كَرِيمٌ يَسْتَحْيِي إِذَا رَفَعَ الرَّجُلُ إِلَيْهِ يَدَيْهِ أَنْ يَرُدَّهُمَا صِفْرًا خَائِبَتَيْنِ-(رواہ الترمذی : ۳۵۵۶،و ابوداودباب الدعاء:۱۴۸۸)
تمہارارب شریف وشرم سارہے کہ جب کوئی بندہ ہاتھ اٹھاکردعاکرتاہے ،تو اس کے ہاتھوں کے خالی واپس کرنے سے شرماتاہے ۔
حضرت عمرؓ فرماتے ہیں
(۱)كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَفَعَ يَدَيْهِ فِي الدُّعَاءِ، لَمْ يَحُطَّهُمَا حَتَّى يَمْسَحَ بِهِمَا وَجْهَهُ۔(ترمذی باب ماجاءفی رفع الایدی عندالدعاء: ۳۳۸۶)
دعاسے فارغ ہوجاؤ ،تو ہاتھوں کو اپنے چہروں پرپھیرلو
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہاتھ اٹھاکردعافرماتے ،تودونوں ہاتھوں کو اپنے چہرے پر پھیرنے سے پہلے ہاتھ نہیں چھوڑتے تھے۔
حضرت سائب بن یزید اپنے والدسے نقل کرتے ہیں
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا دَعَا فَرَفَعَ يَدَيْهِ، مَسَحَ وَجْهَهُ بِيَدَيْهِ۔(ابوداؤد،باب الدعاء :۱۴۹۲واحمد حدیث یزید:۱۷۹۴۲)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہاتھ اٹھاکردعافرماتے ،تودونوں ہاتھوں کو اپنے چہرے اورجسم پرپھیرتے ۔
حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا سَأَلْتُمُ اللَّهَ فَاسْأَلُوهُ بِبُطُونِ أَكُفِّكُمْ، وَلَا تَسْأَلُوهُ بِظُهُورِهَا۔(ابودا۔دباب الدعاء: ۱۴۸۶)
دعاءکے مختلف پہلوہیں ،جن میں سے بطور خاص مذکوہ پہلوؤں کے سلسلے میں بحث کی گی ہے ،اس لیے کہ مذکورہ مباحث ہی میں لوگوں میں افراط وتفریط پائی جاتی ہے۔
ہاتھوں کے اندرونی حصوں کو(پھیلاکر )دعاکرو، ہتھیلیوں کی پشت (پھیلاکر ) مت مانگو،جب دعاے فارغ ہوجاؤ ،تو ہاتھوں کو اپنے چہروں پرپھیرلو ۔
محترم قارئین کرام !فیضان قاسمی خالص علمی ،اصلاحی اوردینی ویب سائٹ ہے ،خود بھی اس کا مطالعہ کریں ،دوست واحباب کو بھی مطلع کریں ،دعافرمائیں کہ اللہ تعالی اس ویب سائٹ کو مرتبین کے لیے ذخیرہ آخرت اورامت کے لیے مفید ونافع بنائے ۔آمین