رکوع مل گیا، تو رکعت مل گئی

رکوع مل گیا، تو رکعت مل گئی

الحمدلله رب العالمين، والصلوة والسلام على سيد المرسلين ، وعلى من تبعهم باحسان الى يوم الدين ، امابعد:

جمہورامت کا مذہب

احادیث صحیحہ، آثار صحابہ اور اقوال فقہاء کی روشنی میں پوری امت اس بات پرمتفق ہے کہ جو امام کو رکوع میں پائے، وہ تکبیر کہہ کر رکوع میں چلا جائے اور امام کے سے سر اٹھانے سے پہلے دونوں ہاتھوں سے دونوں گھٹنوں کو مضبوطی سے پکڑ لے ،تو وہ رکوع کو پانے والا ہوگا اور جس کو رکوع مل گیا، وہ رکعت بھی پانے والا ہوگا ،اگر چہ اس نے قیام نہیں کیا، قراءت کے وقت میں امام کے ساتھ شریک بھی نہیں تھا اور امام کے سلام پھیرنے کے بعد اس رکعت کو ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

جوشخص امام کے ساتھ اس وقت شریک ہوا جبکہ امام نے رکوع سے سر اٹھایا تھا، تو وہ رکوع کو پانے والا نہیں ہے اور جس کو امام کے ساتھ رکوع نہیں ملا ،تو وہ رکعت کو پانے والا شمار نہیں کیا جائے گا، امام کے سلام پھیرنے کے بعد اس کے لئے اس فوت شد ہ رکعت کو ادا کرنا ضروری ہے۔

یہی مذہب حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت زید بن ثابت اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے منقول ہے، نیز ائمہ اربعہ امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل، سفیان ثوری ، اوزاعی اور اسحاق بن راہویہ وغیر ہ ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ کا مذہب ہے ۔

اہل حدیث اورغیرمقلدین کا مذہب

غیر مقلدین حضرات نے احادیث، آثار صحابہ اور جمہور امت کے خلاف مذہب اختیا کرتے ہوئے یوں کہا : جو شخص امام کے ساتھ رکوع میں شریک ہوا اور اس نے قیام وقراءت نہیں کی، تو وہ امام کے ساتھ رکوع پانے کی وجہ سے رکعت کا پانے والا نہیں ہوگا، اس لئے کہ اس نے قیام وقراءت نہیں کی ، لہذا اس رکعت کو امام کے سلام پھیرنے کے بعد ادا کرنا ضروری ہے۔

سب سے پہلے اس مذہب کو امام بخاری نے رساله‘‘ قراءة خلف الامام’’ میں ذکر کیا ہے، اس کی نسبت حضرت ابو ہریرہ ؓکی طرف کرتے ہوئے اس مذہب کو مدلل کرنے کی کوشش کی ہے، بعد ازاں ابن حزم ، شافعی محدثین میں سے ابن خزیمہ تقی الدین سبکی رحمۃ اللہ علیہم نے اختیار کیا ہے ،محمد صالح مقبلی نے اس کو راجح کیا۔(فتح الباری باب متی یقوم الناس ۱۴۸٫۲ عمدة القاری ، باب لا یسعی الی الصلوة ۲۱٫۴ عون المعبود باب الرجل یدرک الا مام ساجدا كيف تصنع ۱۰۸٫۲)

جمہورامت کے دلائل

(۱)عن أبي بكرة انه انتهى إلى النبي صلى الله عليه وسلم، وهوراكع ، فركع قبل ان يصل الى الصف ، فذكر ذالك للنبي صلى الله عليه وسلم ، فقال: زادك الله حرصاء ولاتعده. (رواه البخاری ۱۰۸٫۱ رقم:۷۸۳)

حضرت ابو بکرہؓؓ سے مروی ہے کہ وہ (مسجد میں) رسول الله صلی اللہ کے پاس اس وقت پہنچے جبکہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام رکوع میں تھے، حضرت ابوبکرۃؓ صف شروع ہونے سے پہلے ہی رکوع میں چلے گئے، آپ علیہ السلام سے یہ بات ذکر کی گئی، تو آپ علیہ السلام نے حضرت ابو بکرۃ ؓسے فرمایا: الله تمہارے شوق میں اضافہ فرمائے ، دوبارہ اس طرح نہ کرو۔

فائدہ: اس روایت سے معلوم ہوا کہ حضرت ابو بکرہ ؓ رکوع کے فوت ہونے کے خوف سےصف شروع ہونے سے پہلے ہی رکوع میں چلے گئے اور آپ علیہ السلام کو جب اس کی اطلاع ہوئی، تو آپ علیہ السلام نے حضرت ابوبکرہؓ کو اس رکعت کے دہرانے کا حکم نہیں دیا ؛بلکہ آپ نے فرمایا: صف میں تنہا رکعت مت باند و ،اگر رکوع کی وجہ سے رکعت شرعا ً شمارنہ کی جاتی، تو آپ علیہ السلام اس رکعت کے دہرانے کا ضرور حکم فرماتے ، جیسا کہ آپ علیہ السلام نے تنہا صف میں کھڑے ہونے سے منع فرمایا، تو معلوم ہوا کہ رکوع ملنے سے رکعت مل جاتی ہے۔

امام کورکوع میں پالیا ،تواس نے رکعت پالی

(۲)عن ابي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : من ادرك ركعة من الصلوة ، فقد ادركها قبل ان يقيم الامام صلبه. (رواه ابن خزيمة في صحيحه ،باب ذكر الوقت الذي فيه الماموم مدركا للركعة اذا الخ رقم: ۱۵۹۵ ، التلخيص الحبير:۵۹۵)

حضرت ابو ہریر ہ ؓفرماتے ہیں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: جوشخص امام کے پیٹ درست کرنے سے پہلے امام کورکوع میں پالیا ،اس نے رکعت پالی۔

یہ روایت وضاحت کے ساتھ دلالت کرتی ہے کہ مدرک ِرکوع مدرک ِرکعت ہے۔

(۳)عن عن معاوية بن ابی سفیان قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لاتبادرونی برکوع وسجود، فانه مهماسبقكم به ، اذاركعت تدرکونی به اذارفعت ،فانی قدبدنت . (رواہ ابوداؤ دبا مایؤمر به المأموم من اتباع الامام ،رقم: ۶۱۹)

حضرت معاویہؓ فرماتے ہیں: آپ علیہ السلام نے فرمایا: رکوع وسجود میں مجھ سے آگے مت پڑھو، اس لئے کہ جب میں تم سے پہلے رکوع میں چلا جاؤں، تو جب میں سر اٹھاوں، تو مجھے تم پالوگے، اس لئے کہ میرا جسم بھاری ہو گیا ہے ۔

اس روایت سے معلوم ہوا کہ جب مقتدی امام کے ساتھ رکوع سے سر اٹھانے سے پہلے جا ملے، تو اس کورکعت مل جاتی ہے۔ (عمدة القاری ، باب ال یسعی الی الصلوۃ ۲۱۱/۲)

سجدے میں شریک ہو جاؤ ، اس سجدہ کوشمارنہ کرو

(۴)عن ابي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : اذاجئنم الى الصلوة ،ونحن سجود، فاسجدوا ولاتعدوه شيئا، ومن ادرك ركعة ،فقدادرك الصلوة – (رواہ ابوداؤ درقم: باب في الرجل يدرك الامام وهوساجدا ۲۹/۱رقم:۸۹۳)

حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا

جب تم نماز کو آؤاور ہم سجدے میں ہوں ،تو تم بھی سجدے میں شریک ہو جاؤ اور اس سجدہ کوشمارنہ کرو اور جس نے امام کے ساتھ رکوع پالیا، اس نے نمازیعنی نماز کی ووہ رکعت پالی۔

اس روایت سے معلوم ہوا کہ مقتدی امام کے ساتھ رکوع میں شریک ہوجائے ،تو اس کو رکعت مل گئی، اگر صرف سجدے میں شریک ہوا ،تو اگر چہ الله تعالی اس سجدے کا بھی پوراثواب عطا فرمائیں گے؛ لیکن یہ سجدہ رکعت کے قائم مقام نہیں ہوگا ۔

(۵)عن ابي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من ادرك الركوع من الركعة الأخيرة من الجمعة ، فليضف اليها ركعة اخرى . (رواه دارقطني في سننه ،في من يدرك ركعة من الجمعة رقم:۱۶۰۳)

حضرت ابو ہریرہ ؓفرماتے ہیں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا:جو شخص جمعہ کی آخری رکعت کے رکوع کو پا لے، اس کو چاہئے کہ وہ مزید ایک رکعت جمعہ کی ادا کر لے۔

اس روایت سے صاف طور سے معلوم ہوا کہ رکوع ملنے سے رکعت مل جائے گی۔

آثارصحابہ

(۶)عن زیدبن وهب قال خرجت مع عبدالله من داره ، فلما توسطنا المسجد ، ركع الامام ، فكبر عبدالله، ثم ركع، وركعت معه ،ثم مشينا الى الصف راكعين حتى رفع القوم رؤوسهم ، فلما قضى الامام الصلوة ، قمت اصلی ، فاخذ عبد الله ، فاجلسني ، وقال انك قدادركت . (عمدة القاری ۵۰۸/۴ مصنف ابن شيبة)

حضرت زید بن وهب فرماتے ہیں : میں حضرت عبد الله بن مسعود ؓکے گھر سے نکلا ، جب ہم لوگ مسجد کے درمیان پہنچے، تو امام نے رکوع کردیا ، حضرت عبد الله بن مسعوددؓنے تکبیر کہی اور رکوع میں چلے گئے،آپ کے ساتھ میں نے بھی رکوع کر دیا ، پھر ہم رکوع کی ہیئت میں صف میں جا ملے، جب امام نے نمازمکمل کردی، تو فوت شده رکعت ادا کرنے لئے کھڑا ہوا ،تو حضرت عبداللہ ؓنے مجھے بٹھا دیا اورفرمایا تم کورکعت مل گئی ہے،( لہذ ارکعت دہرانے کی ضرورت نہیں ہے)۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کامذکورہ فتوی ہمارے مدعی پر صاف طور سے دلالت کرتا ہے کہ مدرک ِرکوع مدرک رکعت ہے۔

(۷)عن مالك أنه بلغه أن ابن عمر وزيد بن ثابت کانايقولان : من ادرك الركعة ،فقدادرك السجدة .( المؤطاللامام مالك :۷)

امام مالکؒ فرماتے ہیں: مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ حضرت ابن عمر اور زید بن ثابتؓ فرماتے تھے کہ جس کو رکوع مل گیا، اس کو سجدہ بھی مل گیا۔

یعنی رکوع مل گیا ،تو سجدہ کا بھی شمار ہوگا، اگر امام کے ساتھ صرف سجدہ ملا، تو رکوع اور رکعت شمارنہیں کی جائے گی۔

رکوع مل گیا،تو رکعت مل گئی ؛لیکن خیر کثیر سے محروم

(۸) عن مالك أنه بلغه ان ابا هريرة كان يقول : من ادرك الركعة ، فقد ادرك السجدة ،ومن فاته قراءة القرآن، فقد فاته خير كثير .( المؤطاللامام مالك : ۷،رقم:۱۸)

امام مالکؒ فرماتے ہیں: مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے تھے : جس کو رکوع مل گیا، اس کوسجدہ بھی مل گیا اور جس کی قراءت فوت ہوگئی ،(اگر چہ اس کو رکوع مل گیا ہو )وہ خیر کثیر سے محروم ہو گیا ۔

یعنی رکوع مل گیا ،تو رکعت مل گئی ؛لیکن سورة فاتحہ کے چھوٹ جانے سے وہ خیر کثیر سے محروم رہا۔

غیرمقلدین کے دلائل اوران کے جوابات

(۱) عن ابي هريرة قال عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: اذاسمعتم الاقامة ، فامشوا الى الصلوة ، و عليكم السكينة والوقار، ورلاتسرعوا ، فماادركتم ،فصلواء ومافاتكم فأتموا . (باب ماادركتم فصلواومافاتكم فاتموا ۸۸/۱ ،رقم: ۶۳۶)

حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب تم اقامت سنو، تو نماز کے لئے سکون و وقار کے ساتھ آ ؤ ،جلد بازی نہ کرو ،نماز کا جو حصہ تم امام کے ساتھ پالو، اس کو ادا کرو، نماز کے جوارکان امام کے ساتھ تمہارے چھوٹ جائیں ، ان کو مکمل کر لو۔

اس روایت سے معلوم ہوا کہ امام کے ساتھ جوبھی رکن ادا نہ ہوا ہو، اس کو امام کے سلام کے بعد ادا کرنا چاہئے ،لبذار کوع میں امام کے ساتھ شرکت کرنے والے کا قیام اور قراء ت چھوٹ گئی ہے، امام کے سلام کے بعد مستقل رکعت میں قیام وقراءت کرنی چاہئے ۔

جواب : امام کے ساتھ جب رکوع میں شریک ہو گیا، تو وہ شخص رکعت پانے والا ہوگا جیسا کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے ،لہذا جوشخص امام سے رکوع کے بعد جا ملے، وہ رکعت پانے والا نہیں ہے، اگر چه سجدہ کا ثواب مل جائے گا ؛لیکن رکعت پانے والا نہیں ہوگا۔

سجدہ کے وقت آؤ ،توسجدہ میں شامل ہوجاؤ

عن ابي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : اذاجئتم الى الصلوة ،ونحن سجود، فاسجدواو لاتعدوه شيئا، ومن ادرك ركعة ،فقدادرك الصلوة .(رواہ ابوداؤدر قم: باب في الرجل يدرك الامام وهوساجدا،۱۲۹/۱رقم:۸۹۳)

عن ابي هريرة قال اذا ادركت القوم ركوعا ، لم تعتد بتلك الركعة .(رواه البخاري في جزء القراءة خلف الامام)

حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں:جب تم قوم کو رکوع کی حالت میں پاؤ،تو امام سے رکوع میں تمہاری شرکت ہو ،تو وہ رکعت شمارنہیں ہوگی۔

جواب : حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں: یہ روایت موقوف ہے ،مرفوع ہونے کوئی اصل نہیں ہے، حافظؒ فرماتے ہیں: ؓمذکورہ روایت ابن خزیمہ وغیرہ حضرات نے حضرت ابو ہریرہؓ کی جوروایت پیش کی ہے، اس کے خلاف ہے( التلخیص الحبیر رقم :۵۹۵)

چشم کشافتوی

علامہ قاضی شوکانی صاحب نیل الاوطار جوظاہری محدث ہیں انھوں نے ‘‘نیل الاوطار’’ میں جمہور مذہب کی تضعیف اور امام بخاری و غیر ہ کے مذہب کی تائید کی ہے ؛لیکن علامہ شوکانی نے اپنے فتاوی ” افتح الربانی فی فتاوی الشوکانی‘‘ میں اس قول سے رجوع کرتے ہوئے بڑی عمدہ اور اصحاب ظواہراور غیر مقلدین کے لئے چشم کشا فتوی صادر کیا۔

کیافرماتے ہیں علماء دین مسئلہ ذیل میں: جو شخص امام کے ساتھ نماز میں اس حال میں داخل ہوا کہ امام رکوع کی حالت میں ہو اور مقتدی نے قیام نہیں کیا ہے اور نہ ہی اس نے سورہ فاتحہ پڑھی ہے؟ کیا وہ امام کے سلام کے بعد فماادركتم فصلو، و مافاتكم، فاتموا حدیث کی وجہ سے امام کے سلام کے بعد اس رکعت کی قضاءکرے یا من ادرك ركعة من الصلوة ،فقد ادركها قبل ان يقيم الإمام صلبه، اور “قراءة الامام قراءة له ” احادیث کی وجہ سے مدرک ِرکعت ہوگا ،اگر چہ اس نے فاتحہ نہیں پڑھی ہواور قیام بھی نہیں کیا؟ جزاكم الله خيرا عن المسلمين افضل الجزاء۔

جواب

احادیث صحیحہ سے نماز میں امام و مقتدی کے لئے سورۂ فاتحہ پڑھنا ثابت ہے، روایات کے ظا ہرکا تقاضا یہ ہے کہ صرف ایک رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھی جائے ؛لیکن دیگر نصوص ہر رکعت میں فاتحہ پڑھنے پر دلالت کرتی ہیں، جب یہ بات واضح ہوگئی، تو یہ بات جان لینی چاہئے کہ من ادرك الامام على حالة، فليصنع كمايصنع الامام الخ روایت ثابت ہے، جس حال میں امام کو پائے ، اسی حال میں امام کے ساتھ شریک ہو جانا چاہئے ۔

مدرک رکوع پرفاتحہ لاز م کریں گے ،تو تین احادیث کا ترک لازم آئے گا

اگر مقتدی امام کو رکوع میں پانے کے با وجود رکوع میں گئے بغیر سورۂ فاتحہ پڑھنے میں لگ جائے ،تو مذکورہ روایت میں جو امام کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے، اس کی خلاف ورزی لازم آئے گی، نیز ” انما جعل الامام ليؤتم به ” یہ حدیث بھی ثابت ہے، امام رکوع میں ہو اور مقتدی سورہ فاتحہ و قیام میں لگا ہو، تو امام کی اتباع حدیث مذکورہ کی بنا پر کیسے ہوسکتی ہے؟ تیسری بات: من ادرك ركعة من الصلوة ،فقد ادركها قبل ان يقيم الإمام صلبه . یہ روایت بھی ثابت ہے۔

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ امام کو رکوع میں پائے ،تو فورارکوع میں چلے جانا چاہئے ، اگر چہ سورہ فاتحہ نہ پڑھی ہواور و مدرک ِرکوع شمار ہوگا۔

مندرجہ بالا روایات کی روشنی میں مجھے یہ بات سمجھ میں آئی کہ مذکورہ حالت یعنی کوئی شخص نماز میں داخل ہواور امام رکوع میں ہو، تو اس کو فورا رکوع میں چلا جانا چاہئے اور اس کو فاتحہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ، یہ حالت قراءت سورہ فاتحہ سے مستثنی ہوگی، اس لئے کہ جو مقتدی امام کو رکوع کی حالت میں پاکر رکوع میں چلا گیا اور فاتحہ نہیں پڑھی ،اگر ہم اس پر فاتحہ و قیا م فوت ہونے کی وجہ سے رکعت کے اعادہ کام کریں، تو من ادرك ركعة من الصلوة ، فقد ادركها قبل ان يقيم الإمام صلبه “کا کوئی مطلب نہیں ہوگا۔

اگر ہم کہیں کہ اول سور ہ فاتحہ پڑھو بعدازاں رکوع میں جاو تو ” انما جعل الامام ليؤتم به، فاذا ركع فاركعوالخ ” کے خلاف ہوگا کہ امام رکوع میں ہے اور مقتدی قیام میں لگا ہوا ہے۔

حق بات یہی ہے کہ مدرک رکوع مدرک رکعت ہے

نیز “من ادرك الامام على حالة، فليصنع كمايصنع الامام امام جس حالت میں ہو، اسی حالت میں امام کے ساتھ شامل ہو جاؤ، اس حکم کے بھی خلاف ہوگا۔

غرض یہ کہ رکوع میں شرکت کی وجہ سے فاتحہ فوت ہو گیا، اس وجہ سے ہم مقتدی کے لئے رکعت کے اعادہ کا حکم کرتے ہیں ، تین احادیث کا تر ک لازم آتا ہے، لہذاحق بات یہی ہے کہ مقتدی کے لئے مذکورہ حالت میں سورہ فاتحہ لازم نہیں ہے، نیز رکعت کا اعادہ نہیں ہوگا ؛بلکہ مدرک رکوع مدرک رکعت شمار ہوگا ۔

ہمارے مدعی کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے کہ من ادرك الامام ساجدا فليسجد، ولا يعد شيئا

اس روایت سے معلوم ہوا کہ جو آدمی امام کوسجدہ میں پائے، وہ امام کے ساتھ سجدہ میں چلائے جائے ؛لیکن اس کا یہ سجدہ شمار نہیں کیا جائے گا( رکعت کے قائم مقام نہیں ہوگا )۔

آخر میں علامہ شوکانی تحریر فرماتے ہیں

وفي هذا المقدار كفاية ، فاشدد بذالك ، ودع عنك ماوقع في هذالبحث من الخبط، والخلط والتردد، والتشكك و الوسوسة -ملخص من عون المعبود ۲ / باب الرجل يدرك الإمام ساجداكيف يصنع ۱۱۲٫۲)

شیخ محمدبن صالح عثیمن رحمہ اللہ

سعودیہ کے مشہور عالم دین علامہ محمد بن صالح عثیمن اپنے ایک فتوے میں تحریر فرماتے ہیں:

نماز میں سورة الفاتحہ پڑ ھنا ایک صورت میں ساقط ہوتا ہے، وہ صورت یہ ہے کہ کوئی شخص امام کو رکوع کی حالت میں پائے ،تو وہ سورہ فاتحہ پڑھے بغیر رکوع میں چلا جائے ، یہ بات حدیث ابو یکرہؓ سے ثابت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکرہؓ کو رکعت دہرانے کا حکم نہیں فرمایا، اگر وہ رکعت جس میں سورة الفاتحہ چھوٹ گئی ہو، دہرانا ضروری ہوتا ،تو آپ علیہ السلام حضرت ابو بکرہؓ کو ضرور اس کا حکم فرماتے ، اس لئے کہ آپ علیہ السلام کی عادت مبارک فور اًر ہبری کرنے کی تھی۔

جیسا کہ آپ علیہ السلام نے اس شخص سے جس نے نمازتعد یل ارکان کے بغیر جلدی جلدی ادا کردی، ارشادفرمایا: نماز پڑھو اس لئے کہ تمہاری نماز نہیں ہوئی ۔ (مجموعہ فتاوی عثیمن ۷۹۵/۱۲، رقم الفتوی: ۳۵۷)

غیرمقلدین کی بکواس ،احادیث صحیحہ کا مذاق پڑھئے اس رنگین سطر پرکلک کیجئے ۔ علامہ ناصرالدین البانی کا فتوی سنئے کہ مدرک رکوع مدرک رکعت ہے

درس قرآن،درس حدیث ، فقہ وفتاوی ،اصلاحی ،علمی اورتحقیقی مضامین ومقالات کے لئے فیضان قاسمی ویب سائٹ کی طرف رجوع فرمائیں ،دوست واحباب کو بھی متوجہ فرمائیں ،جزاکم اللہ خیرا