ریاض الجنہ مسجد نبوی کا وہ مقد س ،متبرک اورمحترم حصہ ہے ،جوحجرئہ عائشہ ؓ (جس میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرمارہے ہیں) اورمنبررسول کے درمیان واقع ہے ،جس کو خصوصی اعجاز اورامتیازی شان حاصل ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی ایک کیاری قراردیاہے ۔
حضرت عبداللہ بن زیدمازنی ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
مابین بیتی ومنبری روضة من ریاض الجنة۔ (متفق علیہ، بخاری:۱۱۹۵)
میرے حجرےاور منبرکے درمیان جنت کی ایک کیاری (چھوٹاساباغیچہ) ہے۔
اکثرعلمائے کرام نے اس حدیث کو حقیقت پر محمول کرتے ہوئے ارشادفرمایاہے کہ قیامت کے دن زمین کے اس مبارک حصے کو جنت کا حصہ بنادیاجائے گا ،یایہ کہ زمین کا یہ حصہ جنت ہی کا ایک ٹکڑاہے جس کو دنیا میں نازل کیاگیاہے ،جس طرح حجراسود جنت کا پتھرہے ،جس کو دنیا میں اتاراگیاہے۔(مستفاد:ازتحفة القاری ۵۱۵/۳)
علامہ خطابی اوردیگرعلماءنے ارشادفرمایاکہ اس حصہ زمین پر اللہ کی اطاعت ،عبادت ذکرواذکارکرنا جنت کے باغات میں سے ایک باغ کے ملنے کاذریعہ ہے ،منبررسول کے قریب عبادت کرنے سے حوض کوثرپر حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک سے آب کوثرپینے کی سعادت حاصل ہوگی ۔(عمدة القاری ملخص: فضل مابین القبر والمنبر:۵۷۵/۵)
اسطوانۃ المہاجیرین
یزیدبن ابی عبید فرماتے ہیں: کہ میں صحابی رسول حضرت سلمہ بن اکوع ؓکے ساتھ مسجدحاضرہوتا ،وہ مصحف والے ستون (ریاض الجنہ کا ایک ستون)کے پاس آکر نفل نمازوغیرہ ادافرماتے ،میں نے عرض کیا ،ابومسلم !میں آپ کودیکھتاہوں کہ آپ اس ستون کے پا س پہنچ کرضرورنفل وغیرہ پڑھتے ہیں؟ فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھاہے کہ آپ بھی اس مقام میں عبادت کرنے کااہتمام فرمایاکرتے تھے۔(متفق علیہ : بخاری ،کتاب الصلوة ،باب الصلوة الی الاسطوانة(فتح الباری کتاب الصلوة باب الصلوة الی الاسطوانة:۵۰۲)
حافظ ابن حجرؒفرماتے ہیں: مصحف والاصندوق جس اسطوانہ کے پاس رکھاجاتاتھا ،اس کانام اسطوانة المہاجرین تھا اوریہ ستون ریاض الجنہ کے بالکل درمیان واقع تھا ۔
عبداللہ بن زبیرؓاس ستون کے قریب عبادت کرتے تھے
حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ آپ فرماتی تھیں :اگر اس اسطوانہ (کی فضیلت )کولوگ جان جائیں ،تو اس (فضیلت ) کے لئے قرعہ اندازی کرنے لگیں ، اورآپ نے اپنے بھانجے حضر ت عبداللہ بن زبیر سے اس کی فضیلت وحقیقت کوبیان فرمایاتھا جس کی وجہ سے حضرت عبداللہ بن زبیر بکثرت اس اسطوانہ کے قریب نمازیں پڑھاکرتے تھے ۔
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں : پھرمجھے یہ روایت ابن نجارکی ”تاریخ المدینہ “میں ملی ، اس میں مزید یہ اضافہ ہے کہ حضرات مہاجرین اس اسطوانہ کے قریب جمع ہوتے تھے ۔(فتح الباری، کتاب الصلوة، باب الصلوة الی الاسطوانة :۵۰۲)
حافظ ابن حجرؒفرماتے ہیں: اصح الکتب بعدکتاب اللہ جامع صحیح بخاری کی قبولیت کی ایک بڑی وجہ وہ ہے جس کو متعدد مشائخ نے بیان کیاہے کہ امام بخاری ؒ نے ریاض الجنة میں تراجم بخاری پرنظرثانی فرمائی ہے اورہرایک ترجمہ وباب قائم کرنے کے لیے دورکعت نماز ادافرمائی ہے ۔(مقدمة فتح الباری الفصل الثانی۲۰/۱ )
ریاض الجنہ کا رقبہ:لمبائی تقریبا بائیس (۲۲)میٹراورچوڑائی تقریباپندرہ (۱۵) میٹرہے ۔(تاریخ مدینہ منورہ:۱۲۳، مصنفہ عبدالمعبود)
ریاض الجنہ ایک بابرکت جگہ
لہذامسجد نبوی میں حاضری کی سعادت ملے ،تو اس مبارک حصے میں عبادت ،ذکر ،دعا ،توبہ اوراستغفارکرنا چاہئے ،ریاض الجنہ ایک بابرکت جگہ ہے ، ہرایمان والا جو مسجد نبوی میں حاضرہوتاہے ،اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اس جگہ دونفل ضرور اداکرے ، یہ تمنااورخواہش قابل مبارک ؛لیکن ہم لوگوں کو چاہئے کہ مسجد کا ادب واحترام کرتے ہوئے ،ریاض الجنہ میں حاضرہوں ، نمازیوں کے سامنے سے گذرکر، کسی کو دھکادے کر اوراذیت پہنچاکرجانا،گرنوں کو پھاندنااورجگہ حاصل کرنے کے لئے مسجدمیں دوڑنا یہ سب باتیں احترامِ مسجد کے خلا ف ہیں ، آداب کا خاص خیال رکھنا چاہئے ،بابرکت مقامات کی بے ادبی بسااوقات محرومی کا سبب بن جاتی ہے ۔
قابل قدرقارئین کرام ! فیضان قاسمی ایک خالص دینی ویب سائٹ ہے ، اللہ پاک سے دعاکریں کہ اللہ تعالیٰ اس ویب سائٹ کو قبول فرماکر قارئین کرام کے لیے نافع اورمرتب ومعاونین کے لیے ذخیرہ آخرت بنائے ،آپ حضرات سے گزارش ہے کہ اس ویب سائٹ کا خود مطالعہ فرمائیں ،کچھ خامیاں ہوں ،ضرور مطلع فرمائیں اوردوست واحباب کو شیئر کریں ۔طالب دعا: ابوفیضان عبداللطیف قاسمی ،جامعہ غیث الہدی ،بنگلور،الہند