آپ کانام یعقوب بن ابراہیم بن حبیب بن سعدبن بحیر بجلی ہے،کنیت ابویوسف ہے ،اسی نام سے مشہور ہیں ،آپ کے جدامجدسعدبن بحیر صحابی رسول ہیں ،جن کا تعلق قبیلہ اوس سے ہے،آپ کی ولادت مرکز علم کوفہ میں ۱۱۳ھ میں ہوئی ۔(سیراعلاءالنبلاء۴۷۰/۷،حسن التقاضی فی سیرة الامام ابی یوسف القاضی :۷۲)
میرے داداسعدبن بحیر ،رافع بن خدیج اور ابن عمر ؓوغیرہ کو کم عمری کی وجہ سے ”غزوہ احد “ میں شرکت کی اجازت نہیں ملی ؛ البتہ غزوہ خندق اور اس کے بعد کے غزوات میں شرکت کا موقع ملاہے ۔
غزوہ خندق کے موقع پر سعد بن بحیر کو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیاگیا،آپ علیہ السلام نے سرپرہاتھ پھیرکر دعاءِمغفرت فرمائی ،امام ابویوسف ؒ فرماتے ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پھیرنے کی برکت کا اثراب تک ہمارے خاندان میں موجودہے ،سعدبن بحیر کسی موقع پر کوفہ منتقل ہوگئے ،کوفہ ہی میں ان کی وفات ہوئی ،حضرت زید بن ارقم ؓ نے نماز جنازہ پڑھائی ، حضرت سعدبن بحیر ؓ کی اولاد کوفہ میں مقیم رہی یہاں تک امام ابویوسف ؒ کی ولادت بھی کوفہ ہی میں ہی ہوئی ۔(اخبارابی حنیفہ واصحابہ،حسن التقاضی فی سیرة الامام ابی یوسف القاضی :۷۳)
تحصیل علم
امام ابویوسفؒ فرماتے ہیں :میں علم ِحدیث اورعلم فقہ حاصل کرتاتھا ،تنگ دست اورمالی اعتبارسے پریشان حال رہتاتھا،میں ایک دن امام ابوحنیفہؒ کے درس میں شریک تھاکہ میرے والد محترم آئے ،مجھے اپنے ساتھ لے گئے اورفرمایا :امام ابوحنیفہؒ کے ساتھ پیرمت پھیلاؤ ،امام ابوحنیفہؒ امیرآدمی ہیں اورتم روزی روٹی کے محتاج ہو ،میں نے اپنے والدکی اطاعت کرتے ہوئے کسب معاش میں مشغول ہوگیا۔
امام ابوحنیفہؒ مجھے درس میں تلاش کرتے رہے ،اس لئے کہ میں سبق میں اہتمام سے شرکت کرتاتھا،چنددن بعد دوبارہ سبق میں حاضرہوا ،توآپ نے سبق سے غیرحاضرہونے کی وجہ دریافت فرمائی،میں نے اپناقصہ سنایا ،امام ابوحنیفہ ؒ نے فرمایا : تم تحصیل علم میں لگے رہو،جب سبق مکمل ہوا اورتمام ساتھی رخصت ہوگئے ،تو آپ نے مجھے ایک تھیلی عطافرمائی جس میں ایک سو درہم تھے ،فرمایا: ان کو خرچ کرو اور جب ختم ہوجائیں تومجھے بتاؤ، میں نے کبھی اپنا حال عرض نہیں کیا ،اس کے باوجود تھوڑے تھوڑے وقفہ سے مجھے درہم کی تھیلی دیاکرتے تھے ،یہاں تک کہ میں خودکفیل اورصاحب حیثیت ہوگیا۔(اخبارابی حنیفہ واصحابہ،سیراعلام۴۷۰/۴ )
مشفق ومہربان استاذنے اپنے ہونہار تنگ دست طالب کی دینی تعلیم اورترقی کے لئے اس کی کفالت کی ذمہ داری اپنے ذمہ لے لی اورا س ذمہ داری کو خود کفیل ہونے تک نبھاتے رہے، معاشی اعتبار سےایک کمرزو ر بچہ کو آسمان علم کا روشن ستارہ بنادیا ۔ اولئک آبائی ،فجئنا بمثلہ
بعض حضرات نے لکھاہے کہ امام ابویوسف ؒ کے والد کا انتقال ہوگیا تھا ، والدہ نے ایک دھوبی سے نکاح کرلیا تھا ،مذکورہ واقعہ والدہ کا ہے والد کا نہیں ، علامہ زاہد کوثریؒ نے اس واقعہ کو بے اصل قراردیاہے ۔( حسن التقاضی : ۷۶)
امام ابویوسفؒ کا مقام ومرتبہ
آپ فقیہ ،محدث،مغازی وتاریخ عرب کے ماہر اور امام ابوحنیفہؒ کے علوم کے امین وناشرہیں،خلافت بنوعباسیہ کے تین خلفاء:مہدی ،ہادی اورھارون رشید کے زمانہ میں تقریبا سولہ سال۱۶۶ھ تا ۱۸۲ قاضی القضاة (چیف جسٹس ) تھے۔ (حسن التقاضی: ۷۱)
امام الجرح والتعدیل یحی بن معین فرماتے ہیں
مارأیت فی اصحاب الرأی اثبت فی الحدیث ،ولااحفظ ،ولااصح روایة من ابی یوسف ؒ۔(سیر۴۷۰/۷)
میں نے فقہاءمیں حدیث میں سب سے زیادہ مضبوط،الفاظ حدیث کو زیادہ یادرکھنے والا اور سب سے بہترین روایت پیش کرنے والا امام ابویوسفؒ سے بڑھ کرکسی شخص کو نہیں دیکھا۔
عمربن حمادؒ اپنے والدسے روایت کرتے ہیں:ایک دن میں ابوحنیفہؒ کی مجلس میں تھا ،امام ابوحنیفہ ؒ کی داہنی طرف امام ابویوسف اوربائیں جانب امام زفرؒ بیٹھے ہوئے کسی مسئلہ میں بحث کررہے تھے،امام ابویوسف ؒ زیربحث مسئلہ میں کوئی دلیل پیش کرتے ،امام زفر فورًا اس دلیل کو رد کردیتے ،امام زفرکوئی دلیل پیش کرتے ،امام ابویوسف اس کا جواب دے دیتے ،یہی سلسلہ جاری رہا،یہاں تک کہ نماز ظہرکی اذان ہوگئی ،امام ابوحنیفہؒ نے امام زفرؒ کی ران پر ہاتھ مارا اورفرمایا : لاتطمع فی رئاسة ببلدة فیھاابویوسف ،وقضی لابی یوسف اے زفرجس شہرمیں ابویوسف ہوں، وہاں ان سے سبقت کرنے کی کوشش نہ کرو، یہ کہہ کر امام ابوحنیفہ ؒنے امام ابویوسف ؒ کے حق میں فیصلہ فرمادیا ۔ (اخبارابی حنیفہ واصحابہ)
اساتذہ کرام
حافظ شمس الدین ذہبی ؒ تحریرفرماتے ہیں
حدث عن ھشام بن عروة ،ویحی بن سعید الانصاری ،وعطاءبن السائب ،وحجاج بن ارطاة ،وابی حنیفہ رحمھم اللہ ،ولزمہ ،وتفقہ بہ ،وھوانبل تلامذتہ ،واعلم۔(سیراعلام النبلاء۴۷۰/۷)
امام ابویوسف ؒ نے ہشام بن عروة ،یحی بن سعیدانصاری ،عطاءبن سائب ،حجاج بن ارطاةاوردیگرمتعددمحدثین وفقہاءسے علم حاصل کیاہے بطورخاص امام ابوحنیفہ ؒ سے علم حاصل کیا،امام ابوحنیفہ ؒ کے تلامذہ میں سب سے زیادہ قابل ،زیادہ علم والے اورآپ کے علوم کے وارث ،امین اور ناشرہیں ۔
امام ابویوسف ؒ فرماتے ہیں
صحبت اباحنیفة ؒ سبع عشرة سنة لاافارقہ فی فطر،ولااضحی الامن مرض ۔(سیراعلام النبلاء۴۷۰/۷،اخبارابی حنیفہ واصحابہ)
میں امام ابوحنیفہؒ کی خدمت میں سترہ سال رہا،کبھی بیماری کے بغیرغیرحاضرنہیں ہوا ،یہاں تک عیداوربقرہ عیدمیں بھی آپ کی خدمت میں رہاکرتاتھا۔
امام ابویوسفؒ فرماتے ہیں : میں انتیس سال امام ابوحنیفہؒ کی خدمت میں پہنچ کر صبح کی نماز اداکرتاتھا،ایک دن بھی حضرت کے ساتھ میری فجرکی نماز فوت نہیں ہوئی ۔(حسن التقاضی: ۷۶)
علامہ زاہد کوثری ؒ فرماتے ہیں: سترسال مکمل وقت فارغ کرکے امام ابوحنیفہ ؒ کی خدمت میں گزاری ،بقیہ مدت جزئی اوقات میں استفادہ کے لئے حاضرہوتے تھے ۔
لڑکے کی وفات پربھی درس سے غیرحاضری نہیں
امام یوسف ؒ فرماتے ہیں: ایک دن میرے بیٹے کا انتقال ہوگیا ،میں نے پڑوسیوں کو تجہیزوتکفین اورتدفین اوردیگرامورکی ذمہ داری دے کر امام ابوحنیفہؒ کے سبق میں حاضرہوگیا ،بیٹے کی وفات کے باوجود سبق سے غیرحاضری نہیں کی ۔(حسن التقاضی: ۷۶)
فائدہ: کس قدرمخلص ،ہمدرد،مشفق ومہربان اورمحنتی استاذ ! ،کیاخوب وفاشعار،علم کاجویا،علم کا دیوانہ، استاذ کی عقیدت ،عظمت اورمحبت میں سرشار طالب علم !،نہ موجودہ زمانہ کی طرح اقامتی وغیراقامتی مدارس، نہ تنخواہ داراساتذہ کے اصول وضوابط،اس کے باجود استاذ وشاگردکا رشتہ ورابطہ اتنا مضبوط کہ اولاد کی تجہیز وتکفین کی مشغولی بھی سبق سے غیرحاضری کی اجازت نہیں دیتی ہے ،نہ سردوگرم ایام نماز صبح میں مجلس درس میں شرکت سے مانع ،استاذکی محنت ،کوشش ،محبت وشفقت ،طالب علم کی استقامت وسعی پیہم نے امام ابوسف کی امام الائمہ اورقاضی القضاة کے مقام تک پہنچایا ۔
علامہ اقبال مرحوم نے کیاخوب کہا
یقین محکم ،عمل پیہم ،محبت فاتح عالم *جہادزندگانی میں ہیں ،یہ مردوں کی شمشیریں
ماکان فی الدنیا مجلس اجلسہ احب الی من ابی حنیفہؒ وابن ابی لیلی ،فانہ مارأیت فقیھا افقہ من ابی حنیفة، ولاقاضیا خیرامن ابن ابی لیلی۔(اخبارابی حنیفہ واصحابہ)
دنیا میں کوئی مجلس ایسی نہیں ہے جس میں مجھے بیٹھنے کی خواہش اورتمنا ہو سوائے امام ابوحنیفہؒ اورقاضی ابن ابی لیلی کی مجلس کے، اس لئے کہ میں نے امام ابوحنیفہؒ سے بڑا فقیہ اورقاضی ابن لیلی سے بڑا قاضی نہیں دیکھا۔
استاذکی توجہات اوروصیت نامہ کی تحریر
امام ابوحنیفہؒ نے جب اپنے ہونہار شاگردرشید میں رشد ونجابت ،اصلاح خلق اورامت کی رہبری ورہنمائی کی استعداد پیداہوگئی ، امام ابوحنیفہؒ نے امام ابویوسف ؒ کے لئے ایک وصیت نامہ تحریرفرمایاہے ،جونہایت قیمتی ہے، عبادات ، تعلیم وتربیت،حسن اخلاق ،ازدواجی زندگی کے رہنما اصول ،طلبہ ءعلم کے ساتھ شفقت ومحبت کا سلوک ،امراءوسلاطین کے ساتھ تعلقات کی نوعیت ، عوام الناس کے ساتھ برتاؤ کا طریقہ کار وغیرہ اہم تعلیمات وہدایات پربڑی تقطیع کے پانچ صفحات پر مشتمل ہے،اس وصیت نامہ میں احتیاط ، احتراز اورپرہیز کی باتیں زیادہ ہیں ،اس لئے کہ انسان بے احتیاطی ہی سے نیچے گرتااورلغزش کھاتاہے ۔
آخرمیں امام ابوحنیفہؒ نے لکھا کہ میری ان نصیحتوں کو قبول کرو، میں نے تمہارے اورمسلمانوں کے فائدہ کے لئے یہ نصیحتیں قلم بندکی ہیں اوراپنی دعاو¿وںمیں یادرکھو۔
وصیت نامہ کو علامہ موفق مکی نے ”مناقب ابی حنیفة“ میں صاحب فتاوی بزازیہ نے اپنے فتاوی میں اورعلامہ ابن نجیم ”الاشباہ والنظائر “ میں قدرے لفظی اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے ۔(حسن التقاضی : ۱۲۶)
قلندرہرچہ گوید ،دیدہ گوید
یہ وصیت نامہ اس وقت تحریر فرمایاہے کہ جب کہ امام ابویوسف ؒ اس زمانہ کے مروجہ علوم سے فارغ ہوئے ہیں ،ابھی نکاح بھی نہیں ہوا ہے ؛لیکن امام ابوحنیفہؒ کی دوررس نگاہوں نے بھانپ لیا تھاکہ یہ فاضل نوجوان ،قاضی القضاة ، استاذ الفقہاءوالمحدثین ،وقت کا امام اور مرجع خلائق بنے گا ،اس وجہ سے ان ضروری امور پر وصیت نامہ تحریرفرمایا تاکہ اس کو حرز جان بنائے رکھیں اورزندگی کی ہرموڑ عمل پیراہوں اور دنیا وآخرت کی کامیابی وسرخ روئی سے سرفراز ہوں ،یہ وصیت نامہ بہت طویل ہے ،ان شاءاللہ مستقلًا ترجمہ کیا جائے گا ۔
جس استاذ میں اپنے طلبہ کے سے متعلق اتنی فکر مند ی ودرد مندی ہو ،شفقت وہم دردی ، طلبہ کی خوابیدہ صلاحیتوں کو بیداکرنے اور جلابخش کا کامل جذبہ ہو، وہی استاذ طلبہ کے لئے وقت ،صلاحیت لگائے گا ،اصلاحی تدابیربرروئے کار لائے گا ،دنیوی ضرورتوں کی کفالت کرے گا اور دعاؤں کا اہتمام بھی کرے گاتاکہ طلبہ کی دنیا بھی بھلی ہوجائے ،آخرت بھی سنورجائے اور استاذکے لئے ذخیرہ آخرت بن جائے ۔
استاذمحترم کے لئے دعاؤں کااہتمام
تعلیمی،تربیتی، اصلاحی اوردنیوی اعتبار سے امام ابوحنیفہ ؒکے بے شمار احسنات امام ابویوسف ؒ پرہیں ،نیز امام ابویوسفؒ کا دل استاذ کی عقیدت ،محبت اور عظمت معمور ولبریز تھا ، جس کی وجہ سے امام ابویوسف ؒ ہردعا ونماز کے موقع پر اپنے استاذ محترم کے لئے دعا کرتے تھے ۔
امام ابویوسفؒ فرماتے ہیں
ماصلیت صلوة قط ولاغیرھا الادعوت اللہ لابی حنیفةؒ ،واستغفرت لہ ۔(فضائل ابی حنفیفة :۱۶۴،اخبارابی حنیفة واصحابہ )
جب بھی میں نماز پڑھتاہوں یا دعاءکرتاہوں،توضرورامام ابوحنیفہؒ کے لئے دعاءکرتاہوں اوران کے لئے استغفارکرتاہوں۔
معلوم ہوا کہ طالب علم کو چاہئے کہ وہ ہروقت اپنی دعاؤوں میں اپنے اساتذہ کو یا درکھے ۔
داوؤد بن رشید ؒ فرماتے ہیں:اگرامام ابوحنیفہؒ کے دیگرتلامذہ نہ ہوتے، امام ابوحنیفہؒ کے فخروافتخار اوران کے علوم کے فروغ کے لئے امام ابویوسف ہی ؒ کا فی تھے، امام ابویوسف نے آپ کے علم اورفیض کو عام کیا ۔(حسن التقاضی: ۸۰)
تلامذہ
امام ابویوسف ؒ سے امام الجرح والتعدیل یحی بن معین،امام احمدبن حنبل،محمدبن الحسن شیبانی، اسدبن فرات ،احمدبن منیع، وغیرہ جبال علم حدیث کی روایت کرتے ہیں(سیر۴۷۰/۷)ابن حجرمکی ؒ نے آپ کے تلامذ ہ کی فہرست میں امام مالک بن انس ،لیث بن سعد اور عبداللہ بن مبارک رحمھم اللہ کوبھی شامل فرمایاہے۔(حسن التقاضی: ۱۲۵)
وفات
بروز جمعرات ۵ ربیع الاول۱۸۲ھ میں بغداد میں آپ کی وفات ہوئی ، خلیفہ ھارون رشید نے نمازہ جنازہ میں شرکت کی اوربغداد کے مقام ”کرخ“میں اپنے خاندانی مقبرہ میں تدفین کرائی ،امام یوسف ؒ کے بعد اس مقبرہ میں زبیدہ خاتون اور محمدامین مدفون ہوئے ،نیزموسی کاظم بھی اسی قبرستان میں مدفون ہیں ، عراق میں اس وقت اس قبرستان کو ”کاظمیہ“ کہاجاتاہے ۔(حسن التقاضی:۱۲۵)
نوٹ: امام ابویوسفؒ کے نسب، تاریخ ولادت ووفات ،یتیمی کا مسئلہ اورآپ سے متعلق دیگراختلافی باتوں میں نہایت عمدہ تحقیق علامہ زاہد کوثریؒ نے ” حسن التقاضی فی سیرة الامام ابی یوسف القاضی “ میں کی ہے ،کتاب مختصر مگر جامع ومحقق اور رطب ویاس سے پاک ،اس موضوع پر شاندار اورسابقہ کتب کا خلاصہ ونچوڑہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب لوگوں کو اپنےاساتذہ کی قدر ان کے لئے دعاؤوں کااہتمام اور شفقت ومحبت کے ساتھ اپنے طلبہ پرمحنت کرنے کی توفیق نصیب فرمائے ،ابوفیضان قاسمی