شرعی مسجد کب وجود میں آئے گی ؟

امام ابویوسف ؒ فرماتے ہیں: وقف کرنے والے کا یہ کہہ دیناکافی ہے کہ میں نے اس جگہ کو مسجدبنادیا،اب وہ زمین شرعی مسجد ہوگئی ،شرعی مسجد ہونے کے لیے نماز کی ادائیگی ضروری نہیں ،امام ابوحنیفہ اورامام محمدؒکے نزدیک مسجد کی نیت سے اس جگہ کو سپرد کردینا بھی ضروری ہے، جیساکہ دیگراوقاف میں ہوتاہے ،ہرچیز کی حوالگی اس کی حیثیت کے لحاظ سے ہوتی ہے ،مسجدکی حوالگی اس میں باجماعت نماز کی ادائیگی سے ہوگی ،لہذا مسجد کے لیے وقف کی جانے والی جگہ اس وقت شرعی مسجدہوگی جب کہ وہ جگہ ممیز اورجداکرکے ذمہ داران کے سپردکردی جائے اورواقف کی اجازت سے اذان واقامت کے ساتھ علانیہ باجماعت نماز بھی اداکرلی جائے ۔

یزول ملکہ عن المسجد والمصلی بالفعل وبقولہ جعلتہ مسجد ا عندالثانی وشرط محمد والامام الصلوة فیہ بجماعة ۔(الدرالمختار۵۴۶/۵)قال ابن عابدین تحت قولہ ”بجماعة “لانہ لابدمن التسلیم عندھما خلافا لابی یوسف ،وتسلیم کل شیءبحسبہ ،ففی المقبرة بدفن واحد واشتراط الجماعة لانھا المقصودة من المسجد ،ولذاشرط ان تکون جھرا باذان واقامة والالم یصر مسجدا،قا ل الزیلعی: وھذہ الروایة ھی الصحیحة ۔(ردالمحتار کتاب الوقف مطلب فی احکام المسجد۶۶۴۵،فتاوی محمودیہ ۴۱۱۹۳،قاموس الفقہ۹۵/۵)

مسجدکے دوحصے :شرعی مسجد اورملحقاتِ مسجد

شرعی مسجد وہ جگہ ہے جوجماعت خانہ کے حدود میں ہو؛جہاں تک صفیں بچھائی جاتی ہیں، یاصفوں کے نشان بنائے جاتے ہیں ،یامسجد تعمیر کرنے والوںنے جہاں تک کی حدودکو مسجد میں داخل کرنے کاارادہ کیا ہو۔ (فتاوی قاسمیہ۶۱۳/۱۷)
ان العرف خصص المسجدبالمکان المھیا للصلوات الخمس ۔(الموسوعة الفقہیة ۳۲۵/۳۷)
شرعی مسجد سے مرادمسجدکی وہ مخصوص جگہ ہے جس کونمازکے لئے خاص کرلیاگیاہو۔

ملحقاتِ مسجد سے مراد جماعت خانہ اورشرعی مسجدسے باہروضوخانہ ،سامان رکھنے کا سامان وغیرہ ہیں ۔
اگرشرعی مسجد کی پہچان مشکل ہو ،تو اس کی پہچان کے لئے کوئی علامت ونشان لگانا دینابہترہے ؛تاکہ معتکفین وغیرہ کے لئے سہولت ہو۔(مستفاداز کتاب النوازل ۲۱۴/۱۳)احاطہءمسجد کا وہ حصہ یعنی نماز پڑھنے کے لئے مخصوص نہیں ؛بلکہ افتادہ زمین چھوڑدی گئی ہے یا اس میں مسجد کی ضروریات کے لیے کمرے بنادئے گئے ہیں،مسجدسے ملحق مکتب ،وضوخانہ اوراستنجاخانے وغیرہ ہیں ،یہ سب مسجد کے حکم میں نہیں ہیں ،اس حصہ میں جنابت اورحیض کی حالت میں آمد ورفت ، دنیوی گفتگو اورخرید فروخت جائز ہے ۔(قاموس الفقہ ۹۵/۲)

مسجدصغیروکبیر

جس مسجد کی لمبی ساٹھ(۰۶) فٹ اورچوڑائی ساٹھ(۶۰) فٹ ہو، وہ مسجد کبیر ہے ،جو مسجد اس سے چھوٹی ہو ،وہ مسجدصغیر ہے ۔
فقیہ الامت حضرت مولامفتی محمودحسن گنگوہی ؒ تحریرفرماتے ہیں:(مسجد کبیر)چالیس ذراع لمبی ،چالیس ذراع چوڑی،ایک قول کے مطابق ساٹھ ذراع ہے ۔(فتاوی محمودیہ ادارہ صدیق ۳۸۴/۱۴)

حضرت مولانامفتی محمدسلمان صاحب منصورپوری تحریرفرماتے ہیں:مسجدکبیرکے سلسلہ میں متون کی جوعبارات دستیاب ہوئیں ،ان میں مطلقًا چالیس ذراع کا ذکرہے ،طول وعرض کی صراحت نہیں ہے ؛لیکن بعض فقہی عبارتوں سے پتہ چلتاہے کہ اس سے مراد طول وعرض ہی ہے ،جیساکہ ماءکثیر کے معاملہ میں دہ دردہ کی صراحت فقہ میں موجو دہے۔

مسجد صغیر ھواقل من ستین ذراعا ،وقیل من اربعین ،وھوالمختارکمااشار الیہ فی الجواھر۔(ردالمحتار،کتاب الصلوة باب مایفسدالصلوة ومایکرہ ۳۹۸/۲)قال الرافعی : فی حاشیة عبدالحکیم : الصغیرمایکون اقل من جریب کما فی البرجندی ،والجریب ستون ذراعا فی ستین بذراع کسری سبع قبضات ۔(تقریرات الرافعی۸۳/۲)
انت خبیر بان اعتبار العشر اضبط ،ولاسیما فی حق من لا رأی لہ من العوام ،فلھذا افتی بہ المتاخرون الاعلام ای فی المربع باربعین ،وفی المدرو بستة وثلاثین ،وفی المثلت من کل جانب خمسة عشر وربعا وخمسا بذراع الکرباس۔ ( الدرلمختار ،کتاب الطھارة ،باب المیاہ ۳۴/۱، کتاب النوزل ۲۳۴/۱۳)