شوہرکے حقوق :شریعت میں جن اعزہ اوررشتہ داروں کے حقوق زیادہ ہیں ان میں سے شوہروبیوی بھی ہیں؛ چونکہ پوراخاندانی نظام ازدواجی رشتہ ہی سے متعلق ہے ،اسی سے خاندان کی تشکیل ہوتی ہے اورخاندان کا دائرہ وسیع ہوتاہے ۔
زوجین کے سلسلے میں شریعت کا عمومی نقطہءنظریہ ہے کہ ان کے درمیان مالک ومملوک اورآقاوباندی کی نسبت نہیں ؛بلکہ وہ ایک معاملہ کے دوفریق اورزندگی کے دورفیق ہیں ؛البتہ قدرتی طورپران کی صلاحیتیں مختلف ہیں ،بعض صلاحیتیں مردوں میں ہیں،عورتوں میں نہیں اوربعض صلاحیتیں عورتوں میں ہیں جن سے مردمحروم ہیں ۔
اسی صلاحیت کے اعتبار سے اسلام نے دونوں کے دائرہ کارکو تقسیم فرمایاہے کہ گھرکے باہرکی ذمہ داریاں مردپوراکریں گے اورگھرکے اندرکی ذمہ درایاں عورتیں پوری کریں گی ،نیز شوہرکی حیثیت خاندان کے سربراہ اورمحافظ ومنتظم کی ہے ،اسی کو قرآن مجیدنے ”قوام“کے لفظ سے تعبیرکیاہے ،اس میں مرد کے لئے بھی عافیت ہے اورعورت کے لئے بھی اوراسی میں خاندانی نظام کا بقاءبھی ہے۔
شوہرکے حقوق (۱)شوہرکی اطاعت وفرمان برداری
شوہر کا پہلاحق اطاعت وفرمانبرداری ہے ،قرآن مجید نے ”فالصالحات قانتات “ سے اس کی طرف اشارہ کیاہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد احادیث میں اس کوبیان فرمایاہے ۔
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا
ایماامراة ماتت، وزوجھا راض عنھا دخلت الجنة ۔(رواہ الترمذی عن ام سلمة، باب ماجاءفی حق الزوج علی المرأة رقم:۲۱۹/۱،۱۱۶۱،والحاکم واقرہ الذھبی:۷۳۲۸)
جس عورت کو اس حال میں موت آئے کہ اس کا شوہر اس سے خوش ہو،تووہ جنت میں داخل ہوگی ۔
(الف) اگرشوہر کسی خلاف ِشرع کام کا حکم دے، اس میں شوہرکی اطاعت جائزنہیں ہے ،جیسے غیرمحرم کے سامنے بے پردہ ہونا وغیرہ ۔
(ب)جوباتیں شریعت کے خلاف نہیں ہیں اور شوہرکو اس کے مطالبہ کا حق بھی نہیں ہے ،ان میں شوہرکی اطاعت کی جاسکتی ہے؛ لیکن واجب نہیں ہے، جیسے عورت کی مملوکہ اشیاءوجائدادمیں تصرف کرنا ۔
(ج)جن باتوں کا شریعت نے حکم دیاہے، جیسے نماز روزہ وغیرہ یاجوباتیں شوہرکا عورت پرحق کا درجہ رکھتی ہیں ،جیسے شوہرکے تقاضہءطبعی کی تکمیل بشرطیکہ کوئی شرعی یاطبعی مانع موجودنہ ہو،ان امورمیں شوہر کی اطاعت بیوی پرواجب ہے،شوہرکے حقوق۔
گھرکی نگرانی ا ورحفاظت
شوہرکا دوسراحق یہ ہے کہ بیوی اس کے گھرکی نگرانی اورحفاظت کرے ،اس حفاظت ونگرانی میں بچوں کی تربیت ،شوہرکے مال وجائدادکی حفاظت اورخوداپنی عفت وپاکدامنی کا تحفظ داخل ہیں ،اللہ تعالیٰ نے“حافظات للغیب بماحفظ اللہ“ کہہ کر اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایاہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا
کلکم راع ،وکلکم مسؤول عن رعیتہ ۔۔۔والمرأة راعیة فی بیت زوجھا،و مسؤولة عن رعیتھا۔(رواہ البخاری عن ابن عمر، باب الجمعة فی القری:رقم:۱۲۲/۱،۸۹۳)
تم میں سے ہرایک نگراں ہے اوراپنی زیرنگرانی چیزوں کی بابت جواب دہ ہوگاعورت اپنے شوہرکے گھرکی نگراں ہے اوراس سے اس کی ماتحت چیزوں سے متعلق سوال کیاجائے گا ۔
شوہرکے گھرمیں قیام
شوہرکا بنیادی حق ”حق ِحبس“( شوہر کے گھرمیں ٹہرے رہنا )ہے یعنی شوہرکی اجازت کے بغیرعام حالات میں عورت اس گھرسے باہرنہیں نکل سکتی جواسے بطوررہائش گاہ کے دیاگیاہے ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشادہے
وقرن فی بیوتکن، ولاتبرجن تبرج الجاھلیة الاولی ۔(الاحزاب: ۳۳)
اے امہات المومنین !اپنے گھروں میں ٹہری رہواور زینت کے ساتھ باہرنہ نکلاکروجیسے زمانہ ءجاہلیت میں نکلاکرتی تھیں۔
مجبوری کی صورتیں مستثنی ہیں، مثلا بیوی کے والدین شدید بیمارہیں اورکوئی ان کا تیماردارنہیں ہے، توشوہر کی ممانعت کے باوجود عورت کے لئے والدین کی تیمارداری کے لئے جانا جائز ہے ۔
میکہ جانا
فقہاءنے لکھاہے : شوہرکوچاہئے کہ وہ وقتاًفوقتاً بیوی کو اس کے والدین اوررشتہ داروںسے ملاقات کے لئے لے جائے ،یاجانے کی اجازت دے ،کتنے دنوں میں جانے کی اجازت دی جائے؟ اس میں عرف ورواج کا اعتبارہوگا؛البتہ شوہرکی طرف سے اجازت نہ ہونے کی صورت میں بلااجازت والدین سے ہفتہ دوہفتہ میں ایک مرتبہ اوردیگرمحرم رشتہ داروں سے سال میں ایک مرتبہ ملاقات کے لئے جاسکتی ہے ۔
میکہ میں قیام
جتنے دن شوہربخوشی میکہ میں ٹہرنے کی اجازت دے ،یاجتنے دن ٹہرنے کا عمومی عرف ورواج ہو،اتنے دن میکہ میں قیام کرسکتی ہے ، جوعورت شوہرکی اجازت ومرضی کے بغیربلاکسی جائزحق اورعذرکے میکہ چلی جائے،یا میکہ میں شوہرکی مرضی وعمومی رواج کے مدت سے زیادہ ٹہری رہے ،وہ عورت ناشزہ (نافرمان ) سمجھی جائے گی اورگنہگارہوگی اورجتناعرصہ میکہ میں گزارے گی، اس مدت کے خرچ کی بھی وہ حق دارنہیں ہوگی ۔(مستفاداز:قاموس الفقہ۲۰۴/۵)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
الف:بھگوڑاغلام یہاں تک کہ وہ اپنے آقاکے پاس لوٹ آئے ۔
ب:نشہ میں مست انسان جب تک کہ نشہ دورنہ ہوجائے۔
ج:وہ عورت جس کا شوہر (شرعی عذرکی بناپر)ناراض ہویہاںتک شوہرخوش نہ ہوجائے ۔
صحیح ابن حبانرقم : ۵۳۵۵،ابن خزیمہ باب نفی صلاة المرأة الغاضبةرقم:۹۱۰۔
حافظ ابن حجرؒ اورملاعلی قاری ؒ فرماتے ہیں
اگرشوہر بیوی سے اس کی بداخلاقی ،بے ادبی اورنافرمانی کی وجہ سے ناراض ہو،خواہ دن کا وقت ہویارات کا،جب تک شوہربیوی سے خوش نہیں ہوجاتا ،بیوی کے لئے یہ وعید باقی رہے گی ۔(فتح الباری باتت المراة مھاجرة فراش زوجھا۲۴۳/۹،مرقات باب الامامة ۱۹۸/۳)
نیز جووالدین اپنی شادی شدہ لڑکی کو شوہرکی مرضی اورجائز عذرکے بغیر گھرمیں ٹہرالیتے ہیں، وہ بھی گنہگارہون گے ،اس طرح کی حرکتوں سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقیاں اورنفرتیں پیداہوتی ہیں اورجھگڑوں کا آغازہوتاہے جو نہایت مضرثابت ہوتا ہے۔
اصلاح کے لئے بیوی کی تادیب وتنبیہ
شریعت نے بیوی کی اصلاح کے لئے شوہرکوتادیب وتنبیہ کرنے کا حق بھی دیاہے ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشادہے
واللاتی تخافون نشوزھن ،فعظوھن ،واھجروھن فی المضاجع، واضربوھن ،فان اطعنکم ،فلاتبغواعلیھن سبیلا ۔(النساء: ۳۴)
جن بیویوں سے تمہیں نافرمانی کا اندیشہ ہو،انھیں پہلے سمجھاؤ ،اگرنہ سمجھیں،تو ان کے ساتھ بسترپر سونا چھوڑدو،پھربھی نہ سمجھیں،تو انہیں مارو،اگرتمہاری بات مان لیں،تو ان کے خلاف کوئی بہانہ(جدائی، پٹائی کا) تلاش نہ کرو ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا
فان فعلن ذالک ،فاضربوھن ضربا غیرمبرح ۔
اگربیویاں اطاعت نہ کریں تو ایسی مارماروجوتکلیف دہ نہ ہو۔
(رواہ مسلم عن جابرباب حجة النبی صلی اللہ علیہ وسلم:رقم:۱۴۷،۳۹۷/۱)
علامہ شامی ؒ فرماتے ہیں
لیس لہ ان یضربھا فی التادیب ضربا فاحشا ،وھوالذی یکسرالعظم، اویخرق الجلد، اویسودہ ۔(ردالمحتارکتاب الحدودباب التعزیر۱۳۱/۶)
شوہرکے لئے ازراہِ تادیب نامناسب حد تک مارپیٹ جائز نہیں ہے، یعنی ایسی مار کہ ہڈی ٹوٹ جائے یا چمڑی پھٹ جائے، یا جلد سیاہ ہوجائے ۔
کن امورمیں تادیب کی جائے
الف:شوہرکے لئے زینت اختیارنہ کرے ۔
ب:کسی شرعی یا طبعی عذرکے بغیر تقاضئہ طبعی کے لئے آمادہ نہ ہو ۔
ج: شوہرکی اجازت کے بغیربلاعذرشرعی گھرسے نکل جائے ۔
د:نماز ادانہ کرنے پرتادیب کی بعض فقہاءنے اجازت دی ہے ،بعض حضرات نے اس کو اللہ کاحق سمجھ کر شوہر کوتادیب کرنے کی اجازت نہیں دی ہے ۔
ان امور کے علاوہ عورت کی طرف سے ہونے والی زیادتیوں جیسے شوہرکے ساتھ بدتمیزی سے پیش آنا ،غیرمحرم کے سامنے جانا ،شوہرکا کوئی قیمتی سامان کسی کو دینا ،بچوں کوبہت مارپیٹ کرنا وغیرہ امورمیں تادیب کی جاسکتی ہے ۔
طلاق کا حق
شریعت نے شوہر کو ایک خصوصی حق ”طلاق “کابھی دیاہے ۔(جس کی تفصیل آئندہ صفحات میں ذکرکی جائے گی)
میراث کا حق
بیوی کا انتقال ہوجائے اور بیوی مال چھوڑکرجائے، تو دوصورتیں ہوں گی ،بیوی کی کوئی اولادزندہ ہو، تو شوہر کوبیوی کے مال میں سے ایک چوتھائی حصہ ملے گا ،اگربیوی کی کوئی اولادنہ ہو، تو شوہرکو بیوی کے مال میں سے آدھاحصہ ملے گا ،بقیہ دیگر شرعی وارثین کو ملے گا ۔شوہرکے حقوق
بیوی کے اخلاقی واجبات
شوہرکے حقوق دراصل بیوی کے فرائض سے عبارت ہیں،اسلام نے عورتوں کے ذمہ کچھ اخلاقی واجبات بھی رکھے ہیں ،مثلا اپنے بچوں کودودھ پلانا ،امورخانہ داری کو انجام دینا وغیرہ ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی وفاطمہ ؓکو نصیحت فرماتے ہوئے خانگی امورکو تقسیم فرمایاہے۔
حضرت علی ؓباہرکے کام کاج انجام دیں گے اورحضرت فاطمہ خانگی امور انجام دیں گی ،علماءنے فرمایاکہ روٹی پکانا،بسترلگانا،گھرمیں جھاڑودینا،پانی بھرنااوردیگرگھریلوکام داخل ہیں۔
نیز حضرت اسماءبنت ابوبکر ؓحضرت زبیر ؓ کی خوب خدمت کیاکرتی تھیں ،پانی لانا ،گھرکی صفائی کرنا ،جانوروں کا خیال رکھناوغیرہ جس کو علامہ ابن القیم جوزیؒ نے بالتفصیل بیان کیاہے (ملخص از:زادالمعاد فی ھدی خیرالعباد،فصل فی حکم النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی خدمة المرأة لزوجھا۹/۴)
چنانچہ عہدِنبوی اورخیرالقرون کا معمول رہاہے کہ خواتین گھرکی صفائی ،ستھرائی اور پکوان وغیرہ کا کام انجام دیاکرتی تھیں ،اس لئے کہ یہ امور شوہرکے اخلاقی حقوق میں داخل ہیں ؛البتہ شوہرگھریلوضرویات کے لئے خادم رکھنے کی طاقت رکھتاہو،توعورت پر خانگی امور کو انجام دینا قانوناًواجب نہیں ہوگا ۔(مستفاداز قاموس الفقہ ۱۰۸/۴)