شیخ الاسلام حضرت مدنی بحیثیت محدث

حضرت مدنی بحیثیت محدث :شیخ الاسلام حضرت مولانا سیدحسین احمد مدنی صدرالمدرسین وشیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند

اسم گرامی حسین احمد بن سید حبیب اللہ بن سیدپیرعلی صاحب،آپ حسب ونسب کے اعتبار سے آپ حسینی الاصل ہیں ،سلسلہ نسب حضرت علی زین العابدین کے واسطہ سے حضرت حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے جاملتاہے،تقریبًاانیس پشت پہلے آپ کا خاندان ہندوستان ہجرت کرکے آیاتھا ۔(تاریخ دارالعلوم دیوبند ۸۳/۲)

آپ کی ولادت باسعادت ۱۹شوال۱۲۹۶؁ھ مطابق ۱۸۷۹؁ءبمقام بانگر مؤ ضلع اناؤمیں ہوئی ،جہاں آپ کے والد محترم اسکو ل کے ہیڈ ماسٹرتھے ،آپ کاتاریخی نام چراغ محمد ہے ۔(نقش حیات۱۵/۱)

ابتدئی تعلیم

جب آپ کی عمر تین سال تھی ،تووالد ماجد وہاں سے منتقل ہوکرآبائی وطن قصبہءٹانڈہ چلے آئے ، آپ کی ابتدائی تعلیم تا مڈل یہیں ہوئی،والدہ سے قاعدہ بغدادی اورپانچ پارے ناظرہ قرآن پڑھا اوروالدصاحب سے ناظرہ قرآن مجید کی تکمیل کی ،نیز والدصاحب سے چندفارسی کی کتابیں بھی پڑھیں،والدمحترم حضرت مولانا فضل الرحمن گنج مرادبادی کے دست گرفتہ اورصحبت یافتہ تھے۔(نقش حیات:۵۳/۱)۔

تیرہ سال کی عمر میں اوائل صفر ۱۳۰۹؁ھ میں دا رالعلوم دیوبند حاضرہوئے جہاں آپ کے دوبڑے بھائی سیدمحمدصدیق صاحب اورسیداحمد صاحب زیرتعلیم تھے ، ان حضرات کا کمرہ حضرت شیخ الہندؒ کے مکان کے قریب تھا ،بڑے بھائی نے حضرت شیح الہندسے درخواست کی ،آپ تبرکاگلستان اور میزان شروع کرادیں ،حضرت شیخ الہند نے حضرت مولاناخلیل احمدسہانپوری ؒ سے فرمایاکہ تم حسین احمد کے اسباق شروع کراؤ، مولانا خلیل احمد سہانپوری نؒے علمائے کرام کے مجمع میں آپ کی میزان الصرف اورگلستان سعدی شروع کرائی ،آپ کی مکمل تعلیم ابتدائی درجات تادورہ حدیث دارالعلوم دیوبند ہی میں ہوئی ۱۳۱۶؁ھ میں دورہ حدیث سے فارغ ہوئے ۔(نقش حیات:۵۵)

اپنے استاذ محترم کے ساتھ مالٹا کے قیدخانہ میں دس ماہ کے عرصہ میں جمادی الاولی تا ربیع الاول حفظ قرآن مجید مکمل فرمالیا،اگلے رمضان میں حضر ت شیخ الہند کؒو تراویح میں قرآن سنایا۔

اساتذہ کرام

دارالعلوم دیوبند میں تقریبًاسات سال کے عرصہ میں متعدداساتذہ کرام سے علم حاصل کیا ،جن میں ممتاز ومشہوراساتذہ کرام شیخ الہند حضرت مولانا محمودحسن دیوبندی،حضرت مولاناعبدالعلی صاحب،حضرت مولانا خلیل احمدسہانپوری،حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب عثمانی،حضرت مولاناحبیب الرحمن صاحب عثمانی،حافظ محمداحمد صاحب (فرزندحضرت ناتوی)مولاناغلام رسول ہزاری حکیم محمدحسن (شیخ الہند کے چھوٹے بھائی) اوردیگرمشاہیر رحمہم اللہ سے آپ نے علم حاصل کیا ۔

مولانا ذوالفقارصاحب حضرت شیح الہند ؒ کے والدمحترم سے فصول اکبری پڑھی ،حضرت شیخ الہند ؒ سے علم منطق کی ابتدائی کتابیں ، شرح عقائد، ہدایہ آخرین ،نخبة الفکر ،تفسیربیضاوی ،صحیح بخاری، سنن ابواؤد ، جامع ترمذی، موطاامام مالکؒ اورمؤطاامام محمد، ؒتفسیربیضاوی ،شر ح عقائدوغیرہ متعدد کتابیں اورحضرت مولاناعبدالعلی صاحب (حضرت نانوتوی ؒ کے شاگرد)سے مسلم شریف ،نسائی ، ابن ماجہ وغیرہ پڑھیں۔(نقش حیات:۵۶)

مدینہ منورکے قیام کے دوران علم ادب میں مہارت پیداکرنے کے لئے بعدنماز مغرب مشہورادیب شیخ آفندی عبدالجلیل کے اسباق میں شرکت کی ،نیز شیخ موصوف سے آپ کو اجازت حدیث بھی حاصل ہے ،شیخ التفسیر حسب اللہ الشافعی المکی ،شیخ عبدالسلام داغستانی اورشیخ سید احمد برزنجی مفتی الشافعیہ مدینہ منورہ سے بھی آپ کو روایت حدیث کی اجازت حاصل ہے ۔(ہندوستان اورعلم حدیث: ۵۵۰)

استاذمحترم کی شفقت وتربیت

حضرت شیخ الہند ؒ صدرالمدرسین تھے ، آپ کے پاس چھوٹی کتابیں نہیں ہوتی تھیں ، آپ کے حقیقی بھتیجے منشی حبیب حسن ہمارے درسی ساتھی ،نیز میرے بڑے بھائی صاحب حضرت کی خدمت کرتے تھے اورحضرت شیخ الہند ؒ ہم تینوں بھائیوں سے بہت شفقت فرماتے تھے ،ان وجوہ کی بناپر آپ سے متعدد چھوٹی اوربڑی کتابوں کے پڑھنے کا اتفاق ہوا۔( نقش حیات: ۵۷)

حضرت مدنی فرماتے ہیں: چونکہ میں کم عمری میں دیوبند حاضرہواتھا اورہماراکمرہ بھی حضرت شیخ الہند ؒ کے مکان کے قریب تھا ،بڑے بھائی سیدمحمدصدیق صاحب بکثرت حضرت کی خدمت میں حاضرہوتے اورگھریلو خدمت بھی کرتے تھے ،اس وجہ سے میرا بھی حضر ت کے گھر میں بکثرت آنا جاناہوتا اورحضرت کی اہلیہ محترمہ بہت شفقت فرمایاکرتی تھیں۔(نقش حیات: ۵۶)

جب حضرت مدنی اورآپ کے بھائی دارالعلوم سے گھرجانے کا ارادہ فرمایا ،اس وقت حضرت شیخ الہند ؒ ان حضرات کو رخصت کرنے کے لئے اسٹیشن تک تشریف لے آئے اور بطورخاص نصیحت کرتے ہوئے فرمایا ،کسی بھی حال میں پڑھانا مت چھوڑنا ۔(نقش حیات:۶۹/۱)

بخاری وترمذی کے اسباق میں دوبارہ شرکت

حضرت مدنی ؒ ۱۳۲۷؁ھ میں حضرت شیخ الہند سے دوبارہ بخاری وترمذی پڑھنے اور آپ کے پہلی کی وفات کی بناپر نکاح ثانی کے ارادہ سے ہندوستان تشریف لے آئے ۔

حضرت مدنی فرماتے ہیں: میں سیدھا دیوبند پہنچااورترمذی شریف وبخاری میں شریک ہوگیا اوربالالتزام ان دونوں کتابوں کو پھرپڑھا ،مسائل پرپوری بحث کیاکرتاتھا،حضر ت رحمة اللہ علیہ بھی اس مرتبہ غیرمعمولی توجہ فرماتے تھے اورخلاف عادت تحقیقی جوابات نہایت وضاحت سے دیتے تھے ،جس سے بہت فائدہ ہوا ،حضرت رحمة اللہ علیہ اگرچہ پہلے بھی بہت شفقت فرمایاکرتے تھے؛ مگر اس مرتبہ بہت زیادہ عنایات فرمائیں،علمی افادات کے علاوہ دنیاوی اورمعاشی امور میں بھی مثل والدحقیقی ؛بلکہ زیادہ توجہ فرماتے ہے ، میرا قیام بھی حضرت رحمة اللہ علیہ کے یہاں رہا،دوسرے نکاح کے بعد بھی اہلیہ کو حضرت رحمة اللہ علیہ کے مکا ن ہی پر رکھا ،سفروحضر میں ساتھ رہا ،دارالعلو م میں بسلسلہ تدریس ملاز م بھی ہوگیا ۔(نقش حیات :۱۱۷/۱)

شاگردرشید کی خدمت اوروفاداری

حضرت مدنی ؒ نے حضرت شیخ الہندکے مطیع وفادار اورخدمت گزارشاگردرشید تھے ، ہراعتبار سے آپ کی خدمت کیاکرتے تھے،حضرت شیخ الہند کو جب حجاز سے گرفتارکیا گیا،آپ بھی حضرت شیخ الہند کے ہمراہ محض آپ کی خدمت کے لئے گرفتاہوئے ، مالٹا میں جب حضرت شیخ الہند اورآپ کے رفقاءکرام محصور تھے ،دن رات جی بھر استاذ محترم کی خدمت کی ،مالٹا کی شدیدسردی میں ہروقت گرم پانی کا تیارکرنا ،تین وقت کھانااورچائے بنانا ، ملاقاتیوں کے لئے چائے بنانااورراحت پہنچانے کی دیگرخدمات کو اپنا فرض منصبی سمجھتے ہوئے انجام دیتے تھے، کوئی ساتھی ان امور میںشریک ہوناچاہتا،تو صاف فرمادیاکرتے کہ یہ میرافرض منصبی ہے ۔ (سوانح حضرت شیخ الاسلام مدنی : ۴۵)

ایک مرتبہ حضرت مدنی استاذ محترم کے پاؤں دبارہے تھے کہ مولانامحمدمیاں صاحب بھی حصول سعادت کی غرض سے شریک ہوگئے ،مسرت وانسباط کے عالم میں کہنے لگے ،آج ہم برابر ہوگئے ، حضرت شیخ الہند ؒ نے فرمایا : بھائی تم کہاں کہاں ان کی پیروی اوربرابری کروگے ۔(سوانح حضرت شیخ الاسلام : ۵۹)

ایسے مخلص ،سفروحضرکے خدمت گزارشاگردکے لئے استاذ محترم نے کیاکیادعائیں کی ہوں گی ،جن کی برکتیں آپ کو حاصل ہوئی ہوں گی۔

دستاربندی

۱۳۲۸؁ھ مطابق ۱۹۱۰؁ءمیں عظیم الشان جلسہءدستاربندی منعقدہوا ،اکابرکے مجمع (حضرت تھانوی ،حافظ احمد صاحبؒ اورمولاناحبیب الرحمن صاحب عثمانیؒ کےعلاوہ متعدداہل علم عوام وخواص )میں حضرت شیخ الہند ؒ نے اپنے دست مبارک سے اولاً علامہ انورشاہ کشمیریؒ اورشیخ الاسلام حضرت مدنیؒ کی دستاربندی فرمائی ۔(نقش حیات:۱۴۷/۱)

بیعت وسلوک

۱۳۱۶؁ھ ہی میں عالم ربانی شیخ کامل شریعت وطریقت کے مجمع البحرین حضرت رشیداحمدگنگوہیؒ کی خدمت میں حاضرہوئے اور آپ کے دست حق پربیعت کی ،دارالعلوم دیوبند سے فراغت حاصل فرماکرگھرتشریف لے آئے ،تو آپ کے والدمحترم اپنے اہل خانہ کے ساتھ مدینہ منور ہ ہجرت کی ،آپ نے ۱۳۱۶؁ھ میں اپنے والدین کے ہمراہ مدینہ منورہجرت کی ،مکہ مکرمہ میں اپنے شیخ کے حکم سے حضرت حاجی امداداللہ مہاجرمکی کی خدمت میں جو آپ کے شیخ کے شیخ تھے حاضرہوکرروحانی تربیت حاصل کی ،۱۳۱۹؁ھ میں حضرت گنگوہی ؒ نے آپ کو اپنی خدمت میں طلب فرمایا ،دوماہ چاردن حضرت گنگوہی ؒ کی خدمت میں رہے ،اجازت اورخلافت سے سرفراز فرمایا اورآپ کے سرپر دستارخلافت باندھی ،۱۳۲۰؁ھ میں دوبارہ مدینہ منورہ حاضرہوگئے اورمدینہ منورہ میں تدریسی خدمات کا آغاز فرمایا ۔( نقش حیات۱۰۷/۱)

علمی شان ومقام

شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریاصاحب کاندھلوی رحمة اللہ علیہ مندرجہ ذیل الفاظ میں حضرت مدنی کے علم وفضل کی شہادت دیتے ہیں :میرے نزدیک ابوحنیفہ ءزمانہ ،بخاری اوانہ ،جنید وشبلی عصر،حضرت شیخ العرب والعجم مولاناحسین احمد مدنی کی مدح میں کچھ لکھنے والا”مادح ِخورشیدمداح خود است “ کا مصداق ہے ، میراخیال ہے :حضرت کے فضل وکرم ،تبحرفی العلم والسلوک سے شاید ہی کسی اہل بصیرت کو اختلاف ہو ۔(ہندوستان اورعلم ہندوستان : ۵۵۲)

ڈاکٹرابوسلمان شاہ جہاں پوری تحریرفرماتے ہیں:حضر ت مدنی ایک بلند پایہ عالم دین تھے ،وہ اپنے دورکے بے مثال محدث تھے ،درس وتدریس اورتحقیقِ حدیث میں ان کاپایہ بہت بلند تھا،تدریسِ حدیث میں ان کاایک خاص اسلوب تھا، جس نے انہیں اقران وامثال میں امتیاز بخشاتھا ،وہ ایک بہت بڑے فقیہ تھے ،انہیں نہ صرف فقہ کے مسائل ازبرتھے؛بلکہ فقہ وحدیث میں ان کا درجہ ایک محقق اورمجتہد کاتھا، وہ مفسر بھی تھے ،نہ صرف حروف وسواد کی رہنمائی میں؛بلکہ معانی کی گہرائی میں اترکر قرآن کے بصائر وحکم اورمسائل واحکام کی تشریح وتفسیرفرماتے تھے ،وہ ایک زاہد شب زندہ داربزرگ اوراپنے وقت کے ایک عظیم الشان شیخ طریقت تھے ۔( ہندوستان اورعلم حدیث : ۵۵۲)

درس وتدریس

آپ نے مدینہ منورہجرت فرمانے کے بعد حضرت شیخ الہند ؒ کی نصیحت پرعمل کرتے ہوئے بعض ہندوستانی اورعرب طلبہ کی درخواست پرکچھ نحووصرف کی ابتدائی کتابیں پڑھانے کا شروع کیا ،۱۳۱۹؁ھ میں حضرت گنگوہی ؒ کے حکم پر ہندوستان آئے ،۱۳۲۰؁ھ میں مدینہ منورہ واپسی ہوئی ،مدرسہ شمسیہ باغ منورہ میں مدرس ہوگئے ، طلبہ کی کثر ت کی وجہ سے خارج اوقات حرم مدنی میں بعدنمازفجر،عصر،مغرب اوربسااوقات بعدنمازعشاءطلبہ کو مختلف علوم وفنون کی کتابیں پڑھاتے تھے ،مدرسہ کے ناظرڈاکٹرمحمد خواجہ صاحب نے مدرسہ ہی میں پڑھانے پراصرارکیا ، استفادہ کرنے والے طلبہ ،اہل مدینہ ،ترکی ،مصر،بخاری ،کابل وغیرہ کے طلبہ تھے، وہ حرم میں ہی پڑھنا چاہتے تھے ،اس لئے مجبورہوکر مدرسہ شمسیہ باغ سے مستعفی ہوگئے ،حرم مدنی میں بلامعاوضہ مختلف علوم وفنون کا درس شروع فرمایا ۔

مالٹا سے رہائی کے بعد آپ حضرت شیح الہند کے ہمراہ ہندوستان آئے ، اولاًامروہہ ،پھرآزادمدرسہ عالیہ کلکتہ اس کے بعد ۱۳۲۴؁ھ تا ۱۳۴۶؁ھ مطابق ۱۹۲۳؁ءتا ۱۹۲۸؁ءدارالعلوم سلہٹ آسام میں شیخ الحدیث کے فرائص انجام دئے ۔

حضرت علامہ انورشاہ کشمیری ؒ دارالعلوم دیوبند سے مستعفی ہوگئے ،دارالعلوم دیوبند کے اس عظیم منصب کے لئے حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ اوردیگر اراکین شوری کی تجویز سے آپ کو۱۳۴۶؁ھ مطابق۱۹۲۸؁ءکو دارالعلوم دیوبند کا صدرمدرس اورشیخ الحدیث مقررکیاگیاہے۔

درس کا اہمتمام

حضرت مدنی ؒ درس حدیث کا بہت اہتمام فرماتے تھے، آپ نہایت مشغول شخص تھے ؛لیکن دیوبند کے قیام کے دوران کبھی درس کا ناغہ نہیں ہوتا ،روزانہ ظہر سے (چوتھے گھنٹہ ) میں سبق ہوتا اوربعدنماز عشادیررات تک سبق جاری رہتا،سال کے اواخرمیں بعدنمازعصر بھی سبق ہواکرتاتھا ،آپ درس حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت ومعیت تصورکرتے تھے ، درس حدیث کو روحانی ترقی کاذریعہ سمجھتے تھے اورفرمایاکرتے تھے کہ درس حدیث فیوض باطنیہ کے حصول کا بہت بڑاذریعہ ہے ،اس کا اثر طلبہ کے ذہن ومزاج پربھی خود بخود پڑھتاتھا،حضرت جب بھی سفرسے واپس تشریف لے آتے ،ایک آواز پر طلبہ پروانہ واراپنے کمروں اوربستروں سے نکل کر دارالحدیث میں جمع ہوجاتے تھے،جتنی دیردرس ہوتاکوئی اٹھنے کانام نہیں لے تھا۔(ہندوستان اورعلم حدیث، مقالہ مولانا عبداللہ معروفی صاحب : ۵۵۹)

سفر سے واپس آئے،اسی وقت اطلاع ہوئی کہ درس ہوگا

مفکراسلام حضرت مولانا ابولحسن علی الندوی رحمہ اللہ تحریرفرماتے ہیں:رات کو دس بجے کہیں سفر سے واپس آئے،اسی وقت طلبہ کو اطلاع ہوئی کہ درس ہوگا،کیسی نیند ،کہاں کا تکان ،پورے نشاط کے ساتھ درس دیا، اسی میں طلبہ کے سوالات کے جوابات اوروہ بھی غیرمتعلق سوالات کے جوابات آپ تعجب سے سنیں گے کہ حج کے سفرسے واپس آئے ہیں ،جس سفرکے بعد مہینوں لوگ تھکن اتارتے ہیں اورکس طرح آئے ہیں کہ راستہ میں ہربڑے اسٹیشن پرمتعلقین ومحبین سے مصافحہ کرتے ،مزاج پوچھتے ،ملاقات کرتے آئے ہیں ،آتے ہی حکم ہواکہ سبق ہوگا ،بتائیے سیاسی لیڈورں میں یہ واقعہ مل سکتاہے ؟کہ مشاہیرعصرمیں؟بغیرانتہائی تعلق مع اللہ کے یہ ممکن نہیں،یہ ہیں وہ کرامتیں جوبڑی بڑی حسی کرامتوں سے بدرجہا بلندہیں ۔ (تذکرہ شیخ الاسلام : ۱۲۷)

حکیم ضیاءالدین صاحب بیان فرماتے ہیں: حضرت مدنی کی اہلیہ کی وفات ہوگئی، تدفین سے فراغت کے کچھ دیربعد دارالحدیث حاضرہوکر بخاری شریف کا د رس شروع فرمادیا ،حضرت مولانا شبیراحمد عثمانیؒ نے درس موقوف کرنے کی درخواست کی اورسمجھانے کی کوشش کی ،تو فرمایا : اللہ کے ذکرسے بڑھ کر اطمینان قلب کس چیز سے حاصل ہوسکتاہے ۔( شیخ الاسلام نمبر:۷۸)

درسی خصوصیات

آپ کے شاگردرشید ہمارے استاذمحترم بحرالعلوم حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی مدظلہ العالی استاذحدیث ارالعلوم دیوبند آپ کی درسی خصوصیات کو بیان فرماتے ہوئے لکھتے ہیں

حضرت شیخ الہند ؒ کی اتباع میں حضرت (مدنی) کا طرز درس متوسط بحث کا تھا ؛مگر جب آپ دارالعلوم کے صدرمدرس اورشیخ الحدیث ہوئے، تو علامہ انورشاہ صاحبؒ نے جس کی طرح ڈالی تھی ،آپ نے بھی اسی طرزکو اپنایا اوراس کو بحسن وخوبی انجام دیا ۔

نمبر(۱)مشکل الفاظ کی لغوی تشریح ،مشکل جملوں کی ترکیب نحوی اورمعانی وبیان سے متعلقہ امورکاذکر ۔
نمبر(۲)ترمذی شریف میں اسناد پر سیرحاصل بحث نمبر(۳) ۔اہم مباحث کی تنقیح وتجزیہ کرتے ہوئے ہرہرجز پرمفصل ومدلل گفتگو۔ نمبر(۴)تگو فرماتے تاکہ طلبہ کے لئے سمجھنے میں سہولت ہو۔اختلافی مسائل سے متعلق احادیث کی شرح میں اختلاف ائمہ بیان کرنے کے بعدا مام اعظم ابوحنفیہ ؒ کے مسلک کوراجح فرماتے ۔

نمبر(۵)حضر ت کی ایک جانب کتب صحاح ستہ اورمؤطئین رکھی رہتی تھیں ،مذکورہ بالاکتب میں سے کوئی حدیث ،اختلاف الفاظ وغیرہ بیان کرنے کی ضرورت پیش آتی، تو حدیث نکال کربقیدصفحہ پڑھ کرسناتے اوراس کی بھی تشریح فرماتے،جس سے طلبہ میں مطالعہ کا ذو ق پیداہوجاتاتھا اورتحقیق کی راہ بھی ہموارہوتی تھی ، اس طرح درس صرف ایک کتاب کانہیں؛بلکہ امہات کتب کا درس ہوجاتاتھا ۔

اندازبیاں سادہ ،تمثیلی اورتوضیحی

نمبر(۶)تقریرکی رفتارآہستہ ،اندازبیاں سادہ اورتمثیلی وتوضیحی ہوتاتھا،جس کی وجہ سے ذہین ومتوسط درجہ کے طلبہ خوب محظوظ ہوتے تھے اور غبی وکند ذہن طلبہ بھی مستفید ہوجاتے تھے ۔

نمبر(۶)دورانِ درس طلبہ کے لئے آزادی ہوتی کہ اپنے شبہات واعتراضات پرچیوں پر لکھ کرپیش کریں ،بعض پرچیاں معقول اوروزنی ہوتیں، بعض مہمل اورلغو قسم کی ہوتی تھےں ،ہرپرچی کو کشادہ جبینی سے پڑھتے اورجواب مرحمت فرماکرمطمئن فرماتے ،کبھی آپ کواعتراضات سے مکدراورمنقبض ہوتے ہوئے دیکھانہیں گیا۔

نمبر(۷)موقع بموقع حضرت نانوتوی ؒ کی تحقیقات وحکم کابیان ۔نمبر(۸)اخلاقیات ومعاشرت سے متعلقہ احادیث میں طلبہ کی اخلاقی تربیت اوران میں اصلاحِ معاشرہ کا جذبہ پیداکرنے کی غرض سے اخلاقیات اوراصول معاشرت پر کھل کرتقریرفرماتے۔

آپ کی شخصیت میں وہ تمام صلاحتیں جمع ہوگئیں تھیں جو ایک وسیع النظر متبحر عالم دین میں ہونی چاہئیں

کشادہ ذہنی، قوی حافظہ،ذکی فہم ، تدرسی عرصہ میں مختلف البلاد ،مختلف المسالک طلبہ کو مختلف علوم وفنون کی تدریس ،مدینہ پاک کے کتب خانوں اوروہاں کے علماءسے اختلاط واستفادہ ، اسارت مالٹا میں دنیا بھر کے عالی دماغ سیاسی افراد سے ملاقات وتبادلہءخیال ، اپنے خاص استاذ کی رفاقت ،علمی وسیاسی امور میں معاونت،سیاسی شعور وحساسیت اورآزدای وطن کے لئے بے پنا ہ قربانیوں کی وجہ سے آپ کی شخصیت میں وہ تمام صلاحتیں جمع ہوگئیں تھیں جو ایک وسیع النظر متبحر عالم دین میں ہونی چاہئیں۔

نمبر(۹)اس وجہ سے حضرت الاستاذچاہتے تھے کہ طالب علم محض کتاب کا کیڑابن کرنہ رہ جائے ؛بلکہ مسلمان ،ملک وقوم اورعالمِ اسلام سب کے لئے مفید ونافع بنے ،اس لئے حدیث شریف کے درس میں موقع ومحل کے اعتبارسے جہاں اخلاقی ومعاشرتی درس دیتے تھے ،تاریخی ،اقتصادی ،سیاسی اورعالم اسلام سے متعلق بہت سے باتیں ذکرفرماتے تاکہ عالمی مسائل کے سمجھنے میں اورعالم ِاسلام کے استحکام کی راہ میں جدوجہد کا جذبہ پیداہوا ۔

نمبر(۱۰)بخاری جلد اول اورترمذی میں طلبہ عبارت پڑھاکرتے تھے ،بعدنمازعشاءبخاری جلد ثانی (ازکتاب المغازی )کا سبق ہوتاتھا ،جس میں حضرت الاستاذ خودفصیح عربی زبان کے لہجہ میں قراءت فرماتے کہ دارالحدیث میں ایک عجیب کیف وسماں ہوتاتھا جس کو ہرشخص محسوس کرتاتھا ۔

ابتدائے قراءت میں مندرجہ ذیل خطبہ پڑھاکرتے تھے

الحمدللہ رب العلمین ،والصلوة والسلام علی خیرخلقہ سیدناومولانا محمدوآلہ واصحابہ اجمعین ،امابعد : فان اصدق الحدیث کتاب اللہ ،وخیرالھدی ھد ی سیدنا ومولانامحمد صلی اللہ علیہ وسلم، وشرالامور محدثاتھا ،وکل محدثة بدعة ،وکل بدعة ضلالة ،وکل ضلالة فی النار ،وبالسند المتصل منا الی الامام الحافظ الحجة امیرالمؤمنین فی الحدیث ابی عبداللہ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن المغیرة بن بردزبة الجعفی البخاری رحمہ اللہ تعالی،ونفعنا بعلومہ ،آمین انہ قال الخ

نمبر(۱۲)رسول اللہ کے ساتھ ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔ ، کسی پیغمبر کانام آتا،تو علیہ وعلی نبینا الصلوة والسلام کہتے ۔ نمبر(۱۳)صحابی کانام ہوتا،تو رضی اللہ عنہ، سندِ حدیث میں صحابی کے ساتھ دیگررجال کے لئے رضی اللہ عنہ وعنہم فرماتے ۔

نمبر(۱۴)ائمہ مذاہب کے لئے رحمہ اللہ اگرایک سے ز اید ہوں، تو رحمھم اللہ کہتے ۔
اگرطالب علم مذکورہ امورمیں قراءتِ حدیث کے درمیان کوتاہی کرتا،تو فورًا ٹوکتے اوراس کے خیرات وبرکا ت بیان فرماتے ۔

حضرت مدنی ؒفرماتے ہیں کہ میں مدینہ منورہ کے قیام کے زمانہ ہی سے ترضی میں صحابی کے ساتھ دیگررجال ِسندکو شامل کرتارہاہوں ،ایک دن خواب میں دیکھاکہ بڑے بڑے محدثین حرم محترم میں بیٹھے ہوئے ہیں، میں بھی وہاں بیٹھ گیا ، کسی نے کہا کہ : حسین احمد کے لئے دعاکرو ،یہ ترضی میں صحابہ کرام کے ساتھ ہم کوبھی شامل کرتاہے ۔(ملخص : ہندوستان اورعلم حدیث:۵۵۵)

حضرت مدنی ؒ کی مذکورہ خصوصیات دارالعلوم درس حدیث اور قراءت حدیث کے معمولات ہیں

احقرابوفیضان عبداللطیف عرض گزارہے کہ الحمد اللہ دارالعلوم دیوبندمیں حضرت مدنی علیہ الرحمہ کے بلاواسطہ تلامذہ میں حضرت مولاناشیخ نصیراحمدخاں ؒصاحب سے صحیح بخاری جلد اول ،حضرت مولانا عبدالحق صاحب اعظمی ؒ سے صحیح بخاری جلدثانی ،بحرالعلوم حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی سے مسلم جلد ثانی اورسنن ابی داؤد جلد اول اورعلامہ قمرالدین صاحب گورکھپوری مدظلہ العالی سے مسلم جلداول اورنسائی پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی ۔

بقیہ کتب حدیث حضرت مولانا فخرالدین صاحب مرادابادیؒ کے تلامذہ حضرت مولانا مفتی سعیداحمد صاحبؒ سے جامع ترمذی جلد اول اورشرح معانی الاثار،حضرت مولانا سیدارشدمدنی مدظلہ سے ترمذی جلد ثانی ،حضرت مولاناریاست علی بجنوری ؒ سے سنن ابن ماجہ ، حضرت مولانا عبدالخالق صاحب مدارسی مدظلہ العالی سے شمائل ترمذی اورحضرت مولانا قاری عثمان صاحب منصورپوری مدظلہ سے مؤطاامام مالک اورحضرت مفتی امین صاحب پالن پوری سے مؤطاامام محمد ؒ پڑھی ہے ۔

الحمد اللہ دارالعلوم دیوبند میں تمام اساتذہ کرام کے سامنے قراءت حدیث میں شیخ الاسلام حضرت مدنی علیہ الرحمہ کی مذکورہ خصوصیات درس حدیث اور قراءت حدیث کے معمولات ہیں ،گویا حضرت مدنی نے جن طریقوں و آداب کے ساتھ درس حدیث اورقرا ءت حدیث کی بنیادڈالی، وہی طریقے اور آداب آپ کے تلامذہ کے توسط سے برصغیرہندوپاک میں عام ہوئیں ۔

تلامذہ

مدینہ منورہ کے قیام کے زمانہ میںاہل مدینہ،ترکی ،بخاری ،الجزائر اوردیگرممالک کے بے شمارمختلف المسالک طلبہ نے آپ سے استفادہ کیاہے ، حرم نبوی میں آپ کے زمانہ میں طالبان علوم نبوت کی کثیرتعدادآپ کے حلقہ درس میں شریک ہوکراستفادہ کرتی تھی ،جن میں سے چند مشہوروممتاز تلامذہ میں شیخ عبدالحفیظ کردی عضوالمحکمة العلیا ،شیخ احمدبساطی قاضی مدینہ منورہ ، شیخ محمود عبدالجواد چیرمین بلدیہ مدینہ منورہ ،مجاہدجلیل شیح بشیرابراہیمی جزائری اورجزائرکے مشہورمجاہد آزادی اورسیاسی رہنما شیخ عبدالحمید بن بادیس ہیں ۔(ہندوستان اورعلم حدیث:۵۵۰)

دارالعلوم دیوبند کی مسندصدارت اوردرس حدیث کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے فیض کو دوردورتک پہنچایا ،آپ کے خلوص وللہیت کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے آپ کے تلامذہ کو مقبولیت سے نوازا،تلامذہ نے ہندوستان ،پاکستان ،بنگلہ دیش اوردیگرممالک میں درس وتدریس کا سلسلہ شرو ع کیا اور حدیث شریف میں نمایاں خدمات انجام دیں ۔

حضرت مولانا شیخ نصیراحمدخاں صاحب ؒ نے تقریبا بتیس سال صحیح بخاری جلد اول اورحضرت مولانا عبدالحق صاحب اعظمی ؒ نے تقریبا یہی مدت بخاری جلد ثانی کا درس دیا ، دارالعلوم وقف دیوبند میں حضرت مولاناسیدانظرشاہ مسعودی نے بھی عرصہ داراز بخاری کا درس د یاہے ، مولانا سلیم اللہ خاں ؒ جو وفاق المدارس پاکستان کے صدرتھے حضر ت مدنی کے شاگردتھے ،عرصہ دراز بخاری وترمذی کا درس دیا ،بندہ ناچیز کے طالب علمی کے زمانہ میں جنوبی ہندوستان اورشمالی ہندوستا ن اوربنگلہ دیش کے اکثرمدارس اسلامیہ کے شیو خ الحدیث حضر ت مدنی کے تلامذہ تھے، یا حضرت مولانا فخرالدین صاحب مرادابادی کے تلامذہ تھے۔

دارالعلوم دیو بند میں آپ سے درس بخاری وترمذی میں شرکت کرنے والے تلامذہ کی تعداد تقریبا (۴۴۸۳) ہے ، جو ایشیا،افریقہ ،یورپ اورامریکہ میں پھیلے ہوئے تھے ۔(ہندوستان اورعلم حدیث: ۵۵۱)

وصال

حضرت مدنی نے بخاری شریف کاآخری درس ۲۸محرم الحرام ۱۳۷۷؁ ھ مطابق ۱۹۵۷؁ءکو دیا ،بروز جمعرات دوپہر۱۳ جمادی الاولی ۱۳۷۷؁ھ مطابق۵دسمبر۱۹۵۷؁ءکو علم وعمل ،زہد وتقوی اوررشدوہدایت کا آفتاب غروب ہوگیا،حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند کی ایما ءپر شیخ الحدیث حضرت مولانا محمدزکریا صاحب رحمة اللہ علیہ نے رات بارہ بجے نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کے جسدخاکی کوقبرستان قاسمی میں آپ کے استاذمحترم حضرت شیخ الہند کے پہلو میں سپردخاک کیاگیا ۔(ماہنامہ دارالعلوم دیوبند۱۴۳۳؁ھ مولانافضیل ہلال عثمانی)

اصلاحی، علمی اوردینی تحقیقی مضامین ومقالات کے لئے فیضان قاسمیhttp://dg4.7b7.mywebsitetransfer.com رجوع کیجئے جو محض خالص علمی ویب سائٹ ہے ،دین واسلام کی اشاعت کے معاون بنیں ۔