صفہ سائبان اورسایہ دارجگہ کو کہتے ہیں، عہد رسالت میں تحویل قبلہ کے بعد مسجد نبوی کے شمال ِمشرق میں مسجدسے متصلاایک چبوترہ بنایاگیا ،جس پر سایہ کابھی انتظام کیاگیاتھا ،اس چبوترہ کو صفہ کہاجاتاہے ،اس جگہ قیام کرنے والے صحابہ کرام کو اصحاب صفہ کہاجاتاہے ۔
صفہ اوراصحاب صفہ
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جومسافر ،ضعفائےمسلمین وفقرائے مہاجرین اوروہ مساکین جن کا گھربارنہیں ہوتاتھا ،وہ حضرات بارگاہِ نبوت ورسالت میں حاضرہوتے اور اسی چبوترے میں قیام فرماتے تھے،موجودہ توسیع کے اعتبار سے ریاض الجنہ کے پیچھے ،باب جبرئیل یاباب النساءسے داخل ہونے کے بعد بائیں جانب واقع ہے ،مقام صفہ کا طول وعرض چالیس مربع فٹ ہے ۔( تاریخ مدینہ منورہ: ۱۵۵) ۔
اصحابِ صفہ کا زہد وتوکل
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں:میں نے ستراصحاب صفہ کو دیکھاکہ ان کے پاس چادرتک نہ تھی ،فقط تہبند تھا ،یاکمبل جس کو اپنی گردنوں میں باندھ لیتے تھے، کمبل اس قدرچھوٹاکہ کسی کی آدھی پنڈلیوں تک پہنچتا،کسی کے ٹخنوں تک اورہاتھوں سے اس کو تھامتے کہ کہیں سترکھل نہ جائے ۔(بخاری، باب نوم الرجال فی المسجد:۴۴۲)
صفہ والے اسلام کے مہمان تھے ،ان کے کھانے کا انتظام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیاکرتے تھے ، حضرت عبدالرحمن بن ابوبکر ؓ فرماتے ہیں :اصحاب صفہ فقراءومساکین تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: جس کے گھر میں دوآدمیوں کا کھانا ہے ،وہ تیسرے آدمی کو اپنے ساتھ لے جائے ،جس کے گھرمیں تین آدمیوں کا کھانا ہے،وہ چوتھے کولے جائے ،جس کے پاس چارلوگوں کا کھاناہو،وہ پانچویں اورچھٹے آدمی کولے جائے ، حضرت ابوبکر ؓ تین افراد کو لے آتے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس دس افراد کو اپنے ساتھ لے جاتے۔(بخاری باب السمر مع الضیف:۶۰۲)
اصحاب صفہ کی مصروفیات
اصحاب صفہ ارباب ِتوکل اوراصحاب تبتل کی ایک جماعت تھی جورات دن تزکیہءنفس ،کتاب وحکمت کی تعلیم پانے اوردینی تقاضوں کوپوراکرنے کے لیے خدمت اقد س میں حاضررہتے تھے ،اصحابِ صفہ میں حضرت ابوہریرة ، حضرت ابوالدرداء،حضرت سلمان فارسی ،حضرت بلال وغیرہ حضرات سرفہرست ہیں ،ان حضرات کونہ تجارت سے کوئی مطلب تھا،نہ زراعت سے کوئی سروکار،یہ حضرات اپنی آنکھوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدارپرانوارکے لیے ،کانوں کو آپ کے کلمات قدسیہ کے سننے کے لیے اورجسم کو آپ کی صحبت ومعیت کے لیے وقف کرچکے تھے ۔
اصحابِ صفہ اپنے اوقات قرآن مجیدسیکھنے ،احادیث نبویہ سننے اورذکرواذکار میں صرف کرتے ،یا ان خدمات کی انجام دہی میں اپناوقت لگاتے جن کی ذمہ داری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیاکرتے تھے ،قبائل تک اسلام کی دعوت پہنچانا ،نومسلم جماعتوں کو قرآن مجیداوراسلام کی تعلیم دینا اورتقاضوں کے پیش نظرجنگی مہمات میں شرکت ان حضرات کی مشغولی تھی، بئر معونہ میں سترقراءصحابہ کی شہادت ہوئی ،ان کا تعلق بھی اصحاب صفہ ہی سے تھا،گویا صفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم گاہ ،تربیت گاہ ،خانقاہ اوراضیاف اسلام کا مہمان خانہ تھا۔
اصحابِ صفہ دعوتی وتبلیغی اسفار،سرایا میں شرکت ،وطن واپسی ،نکاح ،گھرکا انتظام اوروفات وغیرہ کی وجہ سے کبھی کم ہوجاتے اورکبھی بڑھ جاتے ،کبھی سترہوگئے اورکبھی کم وبیش حتی کہ یہ تعدادکبھی چارسو تک جاپہنچتی ۔(فتح الباری،حلیہ الاولیاء)
اصحاب ِ صفہ کی تعلیم وتربیت
حضرت ابوطلحہؓ حضرت ام سلیم ؓ کے پاس آئے اورفرمایا :میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ہوکرآیاہوں ،آپ اصحاب ِصفہ کو سورة النساءپڑھارہے ہیں ،آپ نے بھوک کی شدت کی وجہ سے پیٹ پر پتھرباندھ رکھاہے ۔ (رواہ ابن الحافظ ابن حجر ؒ فی فتح الباری نقلاعن ابی نعیم کتاب المناقب،علامات النبوة فی الاسلام ۷۲۸/۶)
حضرت عقبہ بن عامر ؓ فرماتے ہیں: ہم صفہ میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لے آئے ،فرمایا: تم میں سے کون چاہتاہے کہ صبح سویرے بطحان یا عقیق نامی بازارمیں جائے ،وہاں سے دوکوہان والی اونٹیاں گناہ اورقطع رحمی کے بغیر لے آئے ،ہم نے عرض کیا ،ہم میں سے ہرایک اس کی خواہش کرے گا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص صبح سویر ے مسجد جاکر قرآن پاک کی دوآیتیں سیکھے ،وہ دواونٹیوں سے افضل ،تین آیتیں سیکھے، تین اونٹیوں سے افضل اور چارآیتوں کا سیکھنا چاراونٹیوں سے افضل ہے ۔(رواہ مسلم کتاب فضائل القرآن باب فضل استماع القرآن : ۸۰۳)
حدیث کی کتابوں اورسیرت طیبہ میں ہمیں بے شمار واقعات اس نوعیت کے ملتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اصحاب صفہ کے علم وذکر کے حلقوں میں تشریف لے جاتے ،انہیں قرآن مجید کی تعلیم دیتے ،تربیت فرماتے، احادیث نبوی سناتے ،ان کی حوصلہ افزائی فرماتے، تحصیل علم کی ترغیب دیتے اورفقروفاقہ پرصبرکی تلقین فرماتے ،مذکورہ دوروایتیں بطورنمونہ پیش کی گئی ہیں ۔
قبائل میں صفہ کے مبلغین اوران کی شہادت
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں:چندلوگ( قبیلہ رعل ،ذکوان ،عصیہ اوربنولحیان) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اوردرخواست کی کہ ہمارے ساتھ آپ کے چنداصحاب کو روانہ فرمائیں جوہمیں قرآن وسنت سکھائیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصارمیں سے ستر صحابہ جن کو قراءکہاجاتاتھا، ان کے ساتھ روانہ فرمایا: جن میں میرے ماموں،حرام بھی شامل تھے ،یہ حضرات راتوں میں قرآن پڑھتے ،یادکرتے اورسیکھتے تھے،دن میں مسجد میں پانی لاتے ، لکڑی کاٹ کربیچتے اور فقراءواصحاب صفہ کے لیے کھانا وغیرہ خریدکرلاتے ،منزل مقصود پرپہنچنے سے پہلے ہی درمیانی راستے میں ان سب حضرات کوبے دردی کے ساتھ شہید کردیا گیا،ان شہداءنے دعاکی۔
اللہم بلغ عنا نبینا انا قدلقیناک، فرضینا عنک ،ورضیت عنا ،قال: واتی رجل حراما خال انس من خلفہ، فطعنہ برمح حتی انقذہ ،فقال حرام : فزت ورب الکعبة ،الخ
اے اللہ ! ہمارے نبی کو ہماری طرف سے اطلاع دیجئے کہ ہم آپ سے آکر مل گئے ہیں ، ہم آپ سے راضی ہوگئے ہیں اورآپ ہم سے راضی ،حضرت انس ؓ فرماتے ہیں:ایک شخص میرے ماموں کے پیچھے سے آیا اوراس نے نیزے سے حملہ کردیا ،میرے ماموں نے کہا : ربِ کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا ،(اللہ نے ان لوگوں کی دعاقبول فرمائی اوراپنے رسول تک ان کی خبرپہنچائی پھر)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو یہ خبرپہنچائی۔(رواہ مسلم عن انس کتاب الامارة ،باب ثبوت الجنة للشھید: ۴۸۸۰)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ سے شدید صدمہ پہنچا ،آپ نمازِ فجرمیں تقریباًایک ماہ تک دعائے قنوت میں ان قبائل کے لیے بددعاکرتے رہے۔
اصحاب صفہ اورحیرت ناک قوت حافظہ
حضرت ابوہریرة ؓصفہ کے مشہورونامورطالب علم ہیں،صحابہ کرام میں سب سے زیادہ روایت کرنے والے صحابی ہیں ،حدیث کی کتابوں میں تقریباً آپ سے پانچ ہزارتین سوچوہتر(۴۷۳۵) روایات مروی ہیں ،حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ حضر ت ابوہریرة ؓفرماتے تھے
تم کہتے ہو کہ ابوہریرة ؓ بہت احادیث بیان کرتے ہیں(حالاں کہ انہوں نے سن آٹھ ہجری کے بعد اسلام قبول کیا ہے ) ۔اللہ کے یہاں حساب ہوگا ۔مہاجرین اورانصار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنی احادیث کیوں نہیں بیان کرتے ؟(اس سوال کا جواب یہ ہے کہ )میرے مہاجربھائی بازارمیں تجارت میں مشغول رہتے اورمیرے انصاری بھائی باغات وغیرہ میں مصروف رہتے ،میں ایک فقیرانسان تھا ،بقدرکفایت روزی کے ساتھ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربارمیں پڑارہتاتھا،جس وقت یہ حضرات موجودنہیں ہوتے ،میں اس وقت بھی حاضرخدمت رہتا،جواحادیث وہ بھول جاتے ،میں ان کو یادکرلیاکرتاتھا۔
احادیث سنتاہوں ،پھربھول جاتاہوں،کیاکروں
ایک دن رسول اللہ صلی اللہ نے فرمایا: جب تک میں اس مجلس میں گفتگوکروں، اس وقت تک تم میں سے جوشخص چادرپھیلائے رکھے گا،پھراس کو اپنے سینے سے لگالے گا ،وہ کبھی ان احادیث کو نہیں بھولے گا ،میں نے اپنی چادرپھیلادی ،اس چادرکے علاوہ میرے پاس کوئی چادر بھی نہیں تھی ،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا خطاب مکمل فرمایا، اس وقت میں نے اس چادرکو اپنے سینے سے لگایا ،قسم ہے، اس ذات کی جس نے آپ کو دین حق کے ساتھ بھیجا، میں نے اس مجلس کی کسی بات کوآج تک نہیں بھولا۔(بخاری،کتاب الحرث والمزارعة ، باب ماجاءفی ا لغرس : ۲۳۵۰)
ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوہریرة ؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی ،یارسول اللہ !آپ سے بے شمار احادیث سنتاہوں ،پھربھول جاتاہوں،آپ نے ارشادفرمایا: اپنی چادرپھلاؤ،میں نے اپنی چادر پھلائی ، پھرآپ نے دونوں ہاتھوں سے چلوبھر ا (چلوبھر کر چادرمیں کسی محسوس چیز کے ڈالنے کی طرح اشارہ فرمایا) اس کے بعد فرمایا : اس کو اپنے سینے سے لگالو،میں نے ایسے ہی کیا ،اس کے بعد سے کبھی کوئی حدیث میں نے نہیں بھولی ۔(بخاری کتاب العلم باب حفظ العلم : ۱۱۹)
صفہ سے متعلق اکابرکے تجربات
حضرت مولانا ابوبکر صاحب طیبی بیجاپوری سابق استاذ مدرسہ صولتیہ مکة المکرمہ ومہتمم حال مدرسہ ندوۃ الابراربیجاپور فرماتے ہیں
مدرسہ صولتیہ مکة المکرمة میں تدریسی خدمات کے لیے میراتقررہوا ،ابتدائی ایام میں تھوڑی دشواری ہواکرتی تھی ،اس لئے کہ میں حنفی عالم تھا، اسباق میں مالکی ،شافعی اورحنبلی طلبہ بھی شریک ہوتے تھے ، دوران درس اپنے بعض سوالات پیش کرتے ،بعض مرتبہ ان کے جوابات دینے میں قدرے دشواری ہوتی تھی۔
میں نے شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریاصاحب ؒ کے ماموں حکیم یامین صاحب ،ناظم کتب خانہ مدرسہ صولتیہ کے سامنے اپنی دشواری وپریشانی کا اظہارکیا ،انہوں نے فرمایا : بیٹا ہفتہ دس دن کے لیے مدینہ منورہ چلے جاؤاورصفہ میں بیٹھ کر ”بدائع الصنائع “ حفظ کرکے آجاؤ، تمہاری دشواری دورہوجائے گی ، چناں چہ میں نے ہفتہ دس کی رخصت لی اور مسجد نبوی حاضرہوکر مقام صفہ میں بیٹھ کراول تا آخر ”بدائع الصانع“ کی عبارت پڑھی ،اللہ کا فضل ،اصحاب صفہ کی برکت اور حکیم یامین صاحب کی توجہ سے الحمداللہ ”بدائع الصنائع “پوری مجھے زبانی یادہوگئی ، صفحات کے صفحات میرے ذہن میں نقش ہیں ۔
احقرنے اولایہ واقعہ مولانا کی زبانی ایک فقہی سمینار میں سنا ،جب ان سطورکو لکھنے کاارادہ کیا ،تب دوبارہ حضرت سے تصدیق چاہی ،تومولانانے پرزور تصدیق بھی فرمائی اوررہبری بھی ،اللہ تعالیٰ مولانا کے سایہء شفقت کو صحت وسلامتی کے ساتھ دراز فرمائے ۔
صفہ سے متعلق خلاصہ کلام
حافظ ابونعیم اصفہانی نے ”حلیہ الاولیاء“میں امام حاکم نے ”المستدرک “ میں صفہ اوراصحاب صفہ کے حالات کے مفصل بیان کیاہے ،نیزحافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری، کتاب الاستیذان باب کیف کان عیش النبی واصحابہ میں اصحاب الصفہ سے متعلق بہت ساری تفصیلات جمع کی ہیں ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ صفہ اسلامی تاریخ کا اولین دارالعلوم ہے ، جہاں کے پہلے مدرس اورصدرمدرس حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ،وہاں کے ممتاز طالب ِعلم اسلامی تاریخ کے سب سے بڑے محدث ہیں ،یہ مقام نہایت بابرکت ہے ،بطورخاص علماءوطلبہ کے لیے کہ اگر اللہ تعالی مدینہ پاک کی حاضری کی سعادت نصیب فرمائیں ،تواس مقام میں حاضرہوکر علمی کمال پیداکرنے کے لیے کوئی ظاہری تدبیر ضرورکرنی چاہئے ۔
احقرنے صفہ اوراصحاب صفہ کے تذکرہ کو دراز کردیاہے؛تاکہ ہمیں اندازہ ہوکہ اسلام میں مساجدمسلمانوں کے مرکزی مقام کی حیثیت رکھتی ہیں ،مسلمانوں کے تمام دینی وملی تقاضے مسجد ہی سے پورے کئے جاتے ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کا عملی نمونہ امت کے سامنے پیش فرمایا ؛لیکن افسوس صدافسوس کہ ہم نے مسجد کو صرف پنچ وقتہ نمازوں تک محدود کردیاہے ۔اللہ تعالی ہماری حالت زارپررحم فرمائے ا ورہمیں مساجد کو کماحقہ آبادکرنے کی توفیق نصیب فرمائے ۔آمین،طالب :دعاابوفیضان عبداللطیف قاسمی،جامعہ غیث الہدی ،بنگلور ،الہند
قابل قدرقارئین کرام !فیضان قاسمی ایک اسلامی ویب سائٹ ہے ،دعاکریں کہ اللہ تعالیٰ اس کو امت کے لیے نافع اور مرتب ومعاونین کے لیے ذخیرہ آخرت بنائے ،آمین ،اس ویب کے افادیت کو بڑھانے کے لیے آپ دوست واحباب کو مطلع کریں اور لنک شئیرکریں ،اللہ تعالیٰ آپ کو بھی اجرعطافرمائیں گے ۔