طعن وتشنیع سے بچناکن حالات میں محمود

طعن وتشنیع سے بچناکن حالات میں محمود اورکن حالات میں مذموم

لوگ عام طورپر معاشرہ ،سماج اورافرادخاندان کے طعن وتشنیع سے بچنے اوران کو خوش کرنے کے لئے بسااوقات غلط ،ناجائز اورمعصیت کا کا م بھی کرگزرتے ہیں مثلاذمہ داراحباب کاماتحتوں کی بے راہ روی ، ذمہ دایوں کی انجام دہی میں کوتاہی، اوران کی مختلف قسم کی خیانتوں کے علم کے باجود سکوت وخاموشی اختیارکرنا ، ماتحتوں کا ذمہ دارکے متعلق ہرجائز وناجائز کام کے سلسلہ میں ہاں میں ہاں ملانا اوران کی جی حضوری کرنا ، تقریبات کی فضولیات ،فضولیات پوری کرنے کے لئے درپردہ سودی قرضے ،مردوں اورعورتوں کے مخلوط ومعاصی پرمشتمل اجتماعات میں شرکت، وغیرہ ۔

بسااوقات کوئی اہم ،ضروری اوربنیادی شرعی کام جس کا ترک کرنا شرعًا ناجائز ہوتاہے،مثلًا قدرت کے باجود کسی امرمنکر پر نکیر ،منکر کو منکرکہنے سے احتراز اورپہلوتہی برتی جاتی ہے اورمداہنت سے کام لیا جاتاہے اوراپنے آپ کو برابننے سے بچانے کے لئے سکوت اختیارکیاجاتاہے ؛تاکہ ان سے کوئی ناراض نہ ہواورہم ہردل عزیز بنے رہیں؛حالانکہ لایخافون لومۃ لائم کی ایمانی صفت کو اپناتے ہوئے،طعن وتشنیع کی پرواہ کئے بغیر احقاق حق اورابطال باطل ، امتثال اوامر اوراجتناب نواہی میں ہمیں اللہ اوراس کے رسول کو خوش کرنے کی کوشش کرناچاہئے اور اس معاملہ میں خدائی پکڑاور گرفت کے متعلق اللہ سے ڈرنا چاہئے نہ کر سماج معاشرہ ،اپنے اورپرایوں کے طعن وتشنیع اورملامت کے خوف سے شرعی فرائض کا تارک اورمعاصی کا مرتکب بنیں۔

اللہ نے اپنے حبیب ﷺ کولطیف تنبیہ فرمائی ہے

اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کولطیف تنبیہ فرمائی ہے ، کہ آپ اپنے دل کی بات کہ جس کو اللہ ظاہر کرنے والے ہی تھے – چھپارہے تھے اور آپ لوگوں سے ڈر رہے تھے ؛ حالاں کہ اللہ تعالیٰ زیادہ ڈرے جانے کے لائق ہیں۔(الاحزاب:۳۷)

اللہ نےاپنےحبیب کی تنبیہ فرمائی ہے ، توہمارے اورآپ کے بارے میں کیاخیال ہے ؟

افسوس کہ آج ہمارے معاشرہ کے ذمہ دار،مقتدااورعلماء سے بسااوقات دانسہ یا غفلت میں اس طرح کی باتیں سرزدہوجاتی ہیں ،جن کی وجہ سے معاشرہ میں ایک عجیب انتشار ،چہ می گوئیاں اور جائز وناجائز تبصروں کا نہ رکنے والا ایک سلسلہ شروع ہوجاتاہے ۔

اگرقوم کے مقتدا ،علماء معاشرہ کے بااثروذمہ دارحضرات طعن وتشنیع اورمخصوص لوگوں کی ناراضی سے بچنے یا خوش کرنے کے لئے کوئی غیرشرعی اورنامناسب کام کریں یا ضروری وشرعی کام ترک کردیں ، تو مسلمانوں میں بے شمارغلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں ،عوام ان کی اقتداء واتباع کرتے ہوئے وہ بھی اسی راہ پرچلتے ہیں ،پھرعوام کے معاصی میں ابتلاء یا طاعات کے ترک کے ذمہ دار یہی حضرات سبب وذریعہ بنتے ہیں اوربنیں گے اورعنداللہ ماخوذ ہوسکتے ہیں۔

طعن سے بچنے کےسلسلے میں قرآنی ضابطہ

قرآن وسنت نے ہماری رہبری فرمائی ہے کہ کن مقامات میں لوگوں کے طعن سے بچنامحمود ہے اورکن حالات میں مذموم ہے ، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانیؒ نے سورۃ الاحزاب کی مندرجہ ذیل آیات کی تفسیر میں مذکورہ عنوان کو بہت آسان ودل نشین تفسیرکے ساتھ قرآن وسنت سے ثابت کیا ہے ،ہم میں سے ہرایک کو اس کا مطالعہ کرنا چاہئے اور اس پرعمل کرنا چاہئے ،بندہ نے معارف القرآن سے الفاظ کو بعینہ باقی رکھتے ہوئے تلخیص کی ہے اورحضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی کی آسان ترجمہ قرآن سے بھی ترجمہ وتفسیرنقل کی ہے ۔

وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ

وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ فَلَمَّا قَضَى زَيْدٌ مِنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا ۔(الاحزاب:۳۷)

ترجمہ :جب آپ اس شخص کو جس کو اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے انعام سے نوازا ہے اور آپ نے بھی اس پر کرم کیا ہےکہہ رہے تھے کہ تم اپنی بیوی کو اپنے پاس رہنے دو اور اللہ سے ڈرو‘ تو صورتِ حال یہ تھی کہ آپ اپنے دل کی بات کہ جس کو اللہ ظاہر کرنے والے ہی تھے چھپارہے تھے اور آپ لوگوں سے ڈر رہے تھے ؛ حالاں کہ اللہ تعالیٰ زیادہ ڈرے جانے کے لائق ہیں ، پھر جب زید نے اس سے ضرورت پوری کرلی تو ہم نے آپ سے اس (کی بیوی ) کا نکاح کردیا ؛ تاکہ مسلمانوں پر منھ بولے بیٹوں کی بیویوں — جن سے وہ ضرورت پوری کرچکے ہوں۔۔۔کے معاملہ میں کوئی تنگی نہ رہے اور اللہ کا حکم پورا ہوکر ہی رہنے والاہے۔آسان ترجمہ قرآن۳۳۳/۲

تفسیر:مراد اس شخص سے حضرت زید ؓہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے پہلا انعام تو یہ فرمایا کہ ان کو مشرف با اسلام کردیا ،دوسرے آپ کی صحبت کا شرف عطا فرمایا اور آپ نے ان پر ایک انعام تو یہ کیا کہ ان کو غلامی سے آزاد کردیا، دوسرا یہ کہ ان کی تربیت فرما کر ایسا بنادیا کہ بڑے بڑے صحابہ بھی ان کی تعظیم کرتے تھے۔

امسک علیک زوجک واتق اللہ

اپنی بی بی کو آپ اپنے نکاح میں روکیں، طلاق نہ دیں اور خدا سے ڈریں،،خدا سے ڈرنے کا حکم اس جگہ اس معنی میں بھی ہوسکتا ہے کہ طلاق ایک مبغوض و مکروہ فعل ہے، اس سے اجتناب کریں اور یہ معنی بھی ہوسکتا ہے کہ نکاح میں روکنے کے بعد طبعی منافرت کی وجہ سے ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کریں، آپ کا یہ فرمانا اپنی جگہ صحیح و درست تھا؛ مگر منجانب اللہ ہونے والے واقعہ کا علم ہوجانے اور دل میں حضرت زینب سے نکاح کا ارادہ پیدا ہوجانے کے بعد زید کو طلاق نہ دینے کی نصیحت ایک طرح کی رسمی اظہار خیر خواہی کے درجہ میں تھی، جو شانِ رسالت کے مناسب نہ تھی، خصوصاً اس لئے کہ اس کے ساتھ لوگوں کے طعنوں کا اندیشہ بھی شامل تھا ۔معارف القرآن۱۵۳/۷

اللہ نے آپ ﷺ کانکاح زینب ؓسےکرایا غیر اسلامی رسم کے خاتمے کے لیے

اللہ تعالیٰ کو یہ بات منظور تھی کہ منھ بولے بیٹے کو اپنا بیٹا قرار دینے اور اس کی بیوی کو اپنی بہو کی طرح حرام سمجھنے کی جو رسم زمانۂ جاہلیت سے آرہی ہے ، اس کو رسول اللہ ﷺ کے عمل کے ذریعہ ختم کرایا جائے ؛ کیوں کہ اگر حضرت زینب سے آپ ﷺ کا نکاح ہوجائے تو آپ ﷺ کے اس عمل سے ہمیشہ کے لئے یہ غیر اسلامی رسم ختم ہوجائے گی ، رسول اللہ ﷺ کو منشاء ربانی کا علم ہوچکا تھا کہ حضرت زینب کو حضرت زید طلاق دے دیں گے اور پھر ان کا نکاح آپ ﷺ سے ہوگا ؛ لیکن اس خیال سے کہ آپ ﷺ کے دشمنوں کو جو مکہ سے لے کر مدینہ تک موجود تھے ، مذاق اُڑانے اور پروپیگنڈہ کرنے کا موقع ملے گا۔

آپ ﷺ حضرت زید کو اس بات سے منع کرتے رہے کہ وہ حضرت زینب کو طلاق دیں ، اللہ تعالیٰ نے یہاں اسی کا ذکر فرمایا ہے کہ حضرت زید جن پر اللہ نے انعام کیا کہ ان کو ایمان کی توفیق عطا فرمائی اور مسلمانوں میں بلند درجہ سے نوازا اور جن پر آپ ﷺ نے بھی احسان کیا کہ ان کو آزاد کیا اور ایسی قربت عطا کی ، جو آپ ﷺ کے اہل بیت کے سوا کسی اور کو حاصل نہ ہوسکی ۔

حقیقی بیٹے کی بیوی کی طرح لے پالک بیٹے کی مطلّقہ سے نکاح حرام نہیں

آپ ﷺ لوگوں کے بدنام کرنے کے ڈر سے ان سے کہہ رہے تھے کہ وہ اس رشتہ کو ختم نہ کریں ؛ لیکن اللہ تعالیٰ کو آپ ﷺ کے اور حضرت زینب کے نکاح کے سلسلہ میں جو بات منظور تھی ، وہ ہوکر رہے گی ؛ چنانچہ حضرت زید نے حضرت زینب کے ساتھ ازدواجی زندگی کا ایک وقفہ گزار لیا تو پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ خود ہم نے آپ ﷺ کا نکاح حضرت زینب سے کردیا اور پھر اس کی حکمت بھی بیان کردی گئی کہ اس کی حکمت یہ ہے کہ لوگوں پر یہ بات اچھی طرح واضح ہوجائے کہ منھ بولا بیٹا حقیقی بیٹے کے حکم میں نہیں ہوتا اور بیٹے کی بیوی کی طرح اس کی مطلّقہ بیوی سے نکاح حرام نہیں۔آسان ترجمہ قرآن ۳۳۴/۲

اس لئے آیت مذکورہ میں عتاب ان الفاظ میں نازل ہوا کہ آپ دل میں وہ بات چھپا رہے تھے جس کو اللہ تعالیٰ ظاہر کرنے والا تھا، جب منجانب اللہ حضرت زنیب ؓکے ساتھ آپ کے نکاح کی خبر مل چکی ہےاور آپ کے دل میں نکاح کاا رادہ پیدا ہوچکا ہے، تو اس ارادہ کو چھپا کر ایسی رسمی گفتگو جو آپ کی شان کے مناسب نہیں تھی کی اور لوگوں کے طعنوں کے اندیشہ پر فرمایا کہ آپ لوگوں سے ڈرنے لگے؛حالانکہ ڈرنا تو آپ کو اللہ ہی سے سزا وار ہے۔

یعنی جب آپ کو یہ معلوم تھا کہ یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے والا ہے، اس کی ناراضی کا اس میں کوئی خوف وخطر نہیں ،تو پھر محض لوگوں کے طعنوں سے گھبرا کر آپ کے لئے یہ گفتگو مناسب نہیں تھی۔معارف القرآن ۱۵۴/۷

طعن وتشنیع سے بچنا محمود

اس مسئلہ میں اصل ضابطہ جو قرآن و سنت سے ثابت ہے یہ کہ جس کام کے کرنے سے لوگوں میں غلط فہمی پیدا ہونے اور ان کے طعن وتشنیع میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ ہو، تو لوگوں کے دین کی حفاظت اور ان کو طعن وتشنیع کے گناہ سے بچانے کے نیت سے چھوڑ دینا اس صورت میں جائز ہے جب کہ یہ فعل خود مقاصد شرعیہ میں سے نہ ہو اور کوئی دینی حکم حلال و حرام اس سے متعلق نہ ہو۔

اس کی نظیر سنت ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ زمانہ جاہلیت میں جب بیت اللہ کی تعمیر کی گئی، تو اس میں کئی چیزیں بناء ابراہیمی کے خلاف کردی گئی ہیں ،اول تو یہ کہ بیت اللہ کا کچھ حصہ تعمیر سے باہر چھوڑ دیا۔

دوسرے بناء ابراہیمی میں لوگوں کے بیت اللہ میں داخل ہونے کے لئے دو دروازے تھے، ایک مشرقی جانب میں دوسرا مغربی جانب میں، جس کی وجہ سے بیت اللہ میں داخل ہونے اور نکلنے میں زحمت (تکلیف )نہیں ہوتی تھی، اہل جاہلیت نے اس میں دو تصرف کئے کہ مغربی دروازہ تو بالکل بند کردیا اور مشرقی دروازہ جو سطح زمین سے متصل تھا ،اس کو اتنا اونچا کردیا کہ بغیر سیڑھی کےکوئی اس میں داخلہ نہ ہو سکے، جس سے یہ مقصد تھا کہ وہ جس کو اجازت دیں صرف وہ اندر جاسکے۔

غلط فہمی کا خطرہ نہ ہوتا، تو میں کعبےکو بناء ابراہیمی کے مطابق بنا دیتا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر نو مسلم لوگوں کے غلط فہمی میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ نہ ہوتا، تو میں بیت اللہ کو پھر بناء ابراہیمی کے مطابق بنا دیتا،یہ حدیث سب کتب معتبرہ میں موجود ہے،اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو غلط فہمی سے بچانے کے لئے اپنا یہ ارادہ جو شرعاً محمود تھا، اس کو ترک کردیااور منجانب اللہ اس پر کوئی عتاب نہیں ہوا، جس سے اس عمل کا عند اللہ مقبول ہونا بھی معلوم ہوگیا؛ مگر یہ معاملہ بیت اللہ کو بناء ابراہیمی کے مطابق دوبارہ تعمیر کرنے کا ایسا نہیں جس پر کوئی مقصد شرعی موقوف ہو یا جس سے احکام حلال و حرام متعلق ہوں۔ (معارف القرآن ۱۵۵/۷)

مقصود شرعی متاثرہونے کی مثال

حضرت زینب بنت جحشؓ کا نکاح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےحضرت زید بن حارثہ ؓکے ساتھ کیاتھا، دونوں کی طبیعتوں میں موافقت نہ ہوئی، حضرت زیدؓ ان کی تیز زبانی اور نسبی شرافت کی بنا پر اپنے کو اونچا سمجھنے اور اطاعت میں کوتاہی کرنے کی شکایت کیا کرتے تھے، دوسری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بذریعہ وحی یہ بتلا دیا گیا تھا کہ زید ان کو طلاق دیں گے، اس کے بعد زینبؓ آپ کے نکاح میں آئیں گی۔

ایک روز حضرت زید ؓنے ان ہی شکایات کو آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش کر کے اپنا یہ ارادہ ظاہر کیا کہ ان کو طلاق دے دیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اگرچہ منجانب اللہ یہ علم ہوگیا تھا کہ واقعہ یوں ہی پیش آنے والا ہے، کہ زیدؓ ان کو طلاق دے دیں گے، پھر یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح میں آئیں گی؛لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید کو طلاق دینے سے روکا۔

حضرت زینبؓ کے واقعے میں ایک شرعی مقصود

اس لئے کہ قلب مبارک میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اگر انہوں نے طلاق دے دی اور پھر زینب کا نکاح آپ سے ہوا ،تو عرب اپنے دستور ِجاہلیت کے مطابق طعن وتشنیع کر یں گے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرلیا، اگرچہ قرآن نے اس دستور ِجاہلیت کو سورة لاااحزاب کی ہی سابقہ آیات میں ختم کردیا ہے،اس وجہ سے کسی مومن کے لئے تو اس کے وسوسہ کا بھی خطرہ نہیں تھا ؛لیکن کفار جو قرآن ہی کو نہیں مانتے، وہ اپنی جاہلانہ رسم یعنی منہ بولے بیٹے کو تمام احکام میں حقیقی بیٹے کی طرح سمجھنے پر زبان طعن دراز کریں گے،یہ اندیشہ بھی حضرت زید کو طلاق دینے سے منع کرنے کا سبب بنا، اس پر حق تعالیٰ کی طرف سے محبوبانہ عتاب قرآن کی ان آیات میں نازل ہوا۔

حضرت زینب کے واقعہ میں ایک شرعی مقصد متعلق ہےکہ جاہلیت کی رسم بد اوراس خیال باطل کی عملی تردید ہوجائے کہ منہ بولے بیٹے کی مطلقہ بیوی سے نکاح حرام ہے ؛کیونکہ قوموں میں چلی ہوئی غلط رسموں کوتوڑنا عملاًاسی وقت ممکن ہے جب اس کا عملی مظاہرہ ہو ،حکم ربانی اسی کی تکمیل کے لئے حضرت زینب ؓ کے نکاح سے متعلق ہواتھا ۔ملخص ازمعارف القرآن ۱۵۶/۷

درس حدیث ،فقہ وفتاوی ، اصلاحی علمی اورفقہی تحقیقات کے لئے فیضان قاسمی ویب سائٹ کی طرف رجوع کیجئے ،دوست واحباب کو مطلع کیجئے اورشیئربھی کیجئے ۔ جزاکم اللہ خیرا

اپنا تبصرہ بھیجیں