طلاق اوراسلامی نقطہءنظر: نکاح ایک قابلِ احترام اورمقدس رشتہ ہے ،اسلام چاہتاہے کہ جس مردوعورت نے نکاح کی صورت میں ایک ساتھ زندگی بسرکرنے اورایک دوسرے کے ساتھی بن کررہنے کا عہدکیاہے ،وہ اس پرہمیشہ قائم رہیں اورمعمولی معمولی باتوں اورچھوٹی چھوٹی الجھنوں میں الجھ کر اس رشتہ کی مضبوط بنیادوں کو مسمارنہ کریں۔
قرآن مجیدنے میاں بیوی کے رشتہ کو ایک دوسرے کے لئے سکون کا ذریعہ اورایک دوسرے کے لئے لباس قراردیاہے ،جس طرح لباس انسانی جسم کا سب سے بڑاہم راز ،تکلیف وآرام کا ساتھی اورمحافظ ہوتا ہے، اسی طرح میاں بیوی ایک دوسرے کے ہم راز اوران کی آپسی کمزوریوں پرپردہ ڈالنے والے اورہرحال میں ایک دوسرے کے رفیق ہوتے ہیں۔
اسلام میں نکاح کوبڑی عظمت حاصل ہے ،اس لئے کہ نکاح عفت وپاکدامنی کاباعث ہے، دواجنبی خاندان ایک دوسرے سے قریب ہوتے ہیں اوران کے درمیان محبت والفت پیداہوتی ہے ۔
خدانخواستہ اگریہ رشتہ ٹوٹتاہے، تواتنی ہی مضرتیں لاتاہے ،دوآدمیوں کی زندگی ویران ہوجاتی ہے، معصوم بچے باپ کی شفقت سے یا ماں کی ممتاسے محروم ہوجاتے ہیں اوران کی تعلیم وتربیت صحیح طریقہ سے نہیں ہوپاتی ،دوخاندان جس قدرایک دوسرے سے قریب ہوئے تھے ،اب اتنا ہی دورہوجاتے ہیں اورآپس میں سخت قسم کی نفرتیں اورکدورتیں پیدہوجاتی ہیں ،اس لئے شریعت ابتداءہی میں ایسے تمام دروازے بندکرنے کی کوشش کرتی ہے جوبعدمیں چل کرباہمی نفرت ،اختلاف اورایک دوسرے سے جدائی کا سبب بن سکتے ہیں ۔
طلاق ایک سخت ناپسندیدہ عمل
طلاق ایک مقدس رشتہءنکاح کو ختم کرنے کا نام ہے ،اس لئے اسلام میں طلاق نہایت ناپسندیدہ عمل ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا
ابغض الحلال الی اللہ عزوجل تعالی الطلاق۔(سنن ابی داؤد:باب فی کراہیة الطلاق۱۲۹۶/۱رقم:۲۱۷۸)
اللہ تعالی کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ عمل طلاق ہے ۔
حضرت ابوموسی اشعری ؓ سے مروی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلاوجہ طلاق دینے والوں کی مذمت بیان کرتے ہوئے ارشادفرمایا
لاتطلق النساءالامن ریبة ،ان اللہ تبارک وتعالی لایحب الذواقین، ولاالذواقات ۔(رواہ الہیثمی فی مجمع الزوائد : ۷۷۶۱)
عورتوں کواسی وقت طلا ق دی جائے جب ان کاکرداراخلاقی اعتبار سے مشکوک ہو؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ ان مردوں اورعورتوں کو پسندنہیں کرتے جومحض ذائقہ چکھنے والے ہوں ۔
طلاق ایک ناخوش گوارضرورت
اس بات میں شبہ نہیں کہ بعض اوقات طلاق اےک ناخوشگوار ضرورت بن جاتی ہے،طلاق ایک تکلیف دہ چیز ہے؛ لیکن بعض دفعہ اس سے زیادہ تکلیف دہ باتوں کو روکنے کا ذریعہ بنتی ہے،اگر میاں بیوی کے درمیان تعلقات نا خوشگوار ہوں ،ایک ساتھ نباہ دشوار ہوجائے،مرد اپنی عورت سے نجات پانا چاہتا ہو اور اس کے لئے قیدِ نکاح سے باہر آنے کا کوئی قانونی راستہ نہ رکھا جائے ،تو وہ غیر قانونی راستے اختیار کرتا ہے اور اس میں عورت کا زیادہ نقصان ہے۔
بعض اوقات ایسے حالات پیداہوجاتے ہیں جن کی وجہ سے میاں بیوی کو ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارنا ممکن نہیں ہوتا،ایک دوسرے سے علاحدہ رہ کرزندگی بسرکرنے ہی میں دونوں کے لئے چین وسکون اوراطمینان کاسامان ہو تاہے،ان حالات میں شریعت ایک ناپسندیدہ ضرورت سمجھ کرطلاق کی اجازت دیتی ہے۔
ازدواجی زندگی کا وہ قانون مکمل نہیں جس میں رشتہءنکاح کے بندھن کو کھولنے کی گنجائش نہیں
طلاق ایک ناپسندیدہ عمل ہے؛ لیکن ازدواجی زندگی کا وہ قانون مکمل کہلانے کا مستحق نہیں جس میں رشتہءنکاح کے بندھن کو کھولنے کی گنجائش نہ رکھی گئی ہو ،میاں بیوی میں نفرتیں پیداہوجائیں اوربے سکونی کی زندگی گزارنے لگیں،نہ شوہرکے لئے بیوی سے علاحدہ ہوکرذہنی سکون حاصل کرنے کا قانونی راستہ ہو،نہ عورت کے لئے شوہرکے ظلم وزیادتی وغیرہ سے نجات حاصل کرنے کی کوئی جائز صورت ہو،یہ یقینا ایک غیرفطری بات ہے،ایسی بے کیف وتلخ زندگی گزارنے پرمجبورکرنا،جبروظلم ہوگا،نیزایسی تلخ زندگی دونوں کی صحت اورصلاحیت پراثراندازہوتی ہے۔
آج کل ہندو سماج میں زیادہ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بیویوں کو جلانے اور قتل کرنے کے جو واقعات پیش آرہے ہےں ،وہ اسی کا نتیجہ ہےں؛چونکہ قانونی طور پر علاحدگی کو دشوار بنا دیا گیا ہے، اس لئے بہت سے لوگ اس طرح کے غیر قانونی راستے اختیار کرتے ہےں،اسلام میں طلاق کی اجازت کا منشاءیہی ہے، اگرچہ ےہ ناپسندیدہ فعل ہے؛لیکن میاں بیوی کا ساتھ چلنا دشوار ہوجائے، تو اس قید سے آزاد ہونے کے لئے ایسا راستہ کھلا رکھا جائے کہ لوگ لاقانونیت پر مجبور نہ ہوں،نیزاس میں عورت کی زندگی اور اس کی عزت و آبرو کے لئے بھی تحفظ کی تدبیر ہے۔
طلاق کا حق مرد کو دیاگیا
قدرتی اعتبارسے عورتیں جذباتی ہوتی ہیں ،یہ عورتوں کاعیب نہیں؛ بلکہ ان کا حسن ہے ،
وفورِجذبا ت کے بغیر بے پناہ محبت کرنے والی ماں،خوب پیارکرنے والی بیوی ثابت نہیں ہوسکتی ،نیز عورتیں جذباتی ہونے کی وجہ سے جلدباز ہوتی ہیں ،کسی بات سے جلدخوش بھی ہوجاتی ہےںاورجلد ناراض بھی ،اس لئے خواتین کو اسلام یاکسی مہذب سماج میں طلاق کا حق نہیں دیاگیاہے ۔
مردمیں عورتوں کی بنسبت قوتِ فیصلہ زیادہ ہوتی ہے ،نیز وہ عورتوں کی بنسبت کم جذباتی ہوتے ہیں ،اس وجہ سے اسلام نے ان کو طلاق کا حق دیاہے اورانہیں بے حداحتیاط کے ساتھ اس حق کو استعمال کرنے کی تلقین کی ہے ۔
الف:بلاضرورت طلاق دینا شریعت میں سخت ناپسندیدہ ہے،دینی مزاج اور خوفِ خدارکھنے والے اس ناپسندیدہ عمل سے بچنا چاہیں گے ۔
ب: اسلام نے کسبِ معاش کی ذمہ داری مردپررکھی ہے ،کسب ِمعاش کے لئے وہ گھرسے باہرنکلتاہے، مردچاہتاہے کہ بچوں کی نگرانی وتربیت کے لئے بیوی کا اعتمادحاصل ہو ،لہذا وہ طلاق کے ذریعہ اپنے گھرکوویران کرنا نہیں چاہتا،اس وجہ سے وہ طلاق سے گھبراتاہے ۔
ج: طلاق کی بناپر مردکو مہر،عدت کا نفقہ ،متعہ ،لڑکے ہوں،تو سات سال کی عمر تک ،لڑکیاں ہوں،تو بالغ ہونے تک ان کا خرچ برداشت کرناپڑتاہے، یہ ساری مالی ذمہ داریاں مردپرعائدہوتی ہیں جو اسے طلاق کا قدم اٹھانے سے روکتی ہیں،اس وجہ سے مردوں کو طلاق کا حق دیاگیاہے ۔طلاق۔ اسلامی نقطہءنظر
رہنمااصول برائے ازدواجی زندگی بزبان ارد ،رومن انگریزی اور انگریزی میں نیز درس قرآن ،درس حدیث ،فقہ وفتاوی اورعلمی تحقیقات اوردیگراصلاحی مضامین اورحمد نعت کے لئے فیضان قاسمی ویب سائٹ http://dg4.7b7.mywebsitetransfer.comکا مطالعہ کیجئے ۔