طلاق دینے کا صحیح طریقہ،طلاقِ احسن:شریعت نے طلاق کے آداب و احکام بھی بتائے ہیں کہ طلاق کس وقت دی جائے اور کتنی دی جائیں؟ طلاق کے سلسلہ میں قرآن مجیدنےیہ اصول بتایا کہ طلاق دیتے ہوئے بھی حسن ِسلو ک کو ملحوظ رکھا جائے”الطلاق مرتان ،فامساک بمعروف اوتسریح باحسان“ ۔(البقرة: ۲۲۹)
الف:طلاق اس طرح نہ دی جائے کہ عدت طویل ہوجائے،جس سے عورت کو خواہ مخواہ ذہنی الجھن میں ڈالاجائے،نیز جب ضرورت ایک طلاق سے پوری ہوجاتی ہے ،تواس سے زیادہ طلاق دینے کی کیا ضرور ت ہے؟
ب:صرف ایک طلاق دی جائے ،یعنی شوہربیوی سے صاف لفظوں میں کہے ”میں نے تجھے طلاق دے دی“ اس لئے کہ مرد بیوی سے جدائی چاہتاہے،تو اس کا مقصد ایک طلاق سے پوراہوجائے گا،طلاق ایک ناپسندیدہ ضرورت ہے ،ضرورت سے زیادہ کا استعمال مزیدناپسندیدہ اور قرآن وسنت کا مذاق ہوگا ۔
حالتِ حیض میں طلاق دیناسخت گناہ
ج:طلاق حالتِ حیض میں نہ دی جائے ،حالتِ حیض میں طلاق دیناسخت گناہ ہے ،نیز حیض کی حالت میں ایک حد تک بیوی کی طرف رغبت کا سامان نہیں ہوتا، تو ممکن ہے اس حالت میں سنجیدہ فیصلہ کے تحت طلاق نہ دی گئی ہو؛ بلکہ بے رغبتی کی بنا پر طلاق دی ہو؛ حالانکہ طلاق ایسا حق نہیں کہ اتنی جلد بازی میں سوچے سمجھے اور سنجیدہ فیصلہ کئے بغیر اس کا استعمال کیا جائے۔
د:ایسی پاکی کے زمانہ میں طلاق دی جائے جس میں بیوی سے صحبت نہ کی ہو؛ کیونکہ عدت کے طویل ہونے کا اندیشہ ہے ،اگر حمل ٹہر جائے اورعوت حاملہ ہوجائے، تو اب اسے وضعِ حمل تک عدت گزارنی ہوگی۔
چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
یاایھا النبی اذا طلقتم النسائ، فطلقوھن لعدتھن،واحصوالعدة۔(الطلاق:۱)
اے نبی!جب تم عورتوں کوطلاق دو ، تو ان کی عدت پرطلاق دو اور عدت کو شمارکرتے رہو۔
ہ:ایک طلاق دینے کے بعد عدت گزرنے دی جائے ،عدت حاملہ عورت کی وضع حمل،حیض والی کے لئے تین حیض ،کم عمریا عمروالی کے لئے تین مہینے ہے۔
مذکورہ طریقے پر جو طلاق دی جائے اس کوفقہاءطلاقِ احسن کہتے ہیں یعنی طلاق کا بہترطریقہ نیز طلاق رجعی کی بھی ایک صورت ہے،یہ طلاق دینے کا صحیح طریقہ،طلاقِ احسن ہے۔
طلاق حسن
بسااوقات آدمی تین طلاق دے کر رشتہءنکاح اس طرح ختم کرنا چاہتاہے کہ اس کے لئے رجوع
اورتجدیدِنکاح کاموقع آیندہ بالکل باقی نہ رہے ،ایسی صورت میں شریعت اسلامی کی تعلیم یہ ہے کہ یکبارگی تین طلاقیں نہ دی جائیں؛بلکہ پاکی کی حالت میں ایک طلاق دے کر غوروفکرکیاجائے ،اگرآپسی حالات درست نہ ہوسکیں،توایک ماہواری کے بعد دوسری پاکی کے زمانہ میں دوسری طلاق دی جائے ۔
پھرغورکیاجائے ،اگراب بھی حالات قابومیں نہ آسکیں اورتیسری طلاق دے کر رشتہءنکاح مکمل ختم کرنے ہی میں دنیا وآخرت کی بھلائی نظرآئے ،تودوسری ماہواری گزرنے کے بعدتیسری پاکی کی حالت میں تیسری طلاق دی جائے ،اس کے بعد رشتہ ءنکاح ختم ہوجائے گا ،اب مردوعورت ایک دوسرے کے لئے حرام ہوجائیں گے ،رجوع یا عدت میں تجدیدنکاح کی گنجائش نہیں رہے گی ،اس کو طلاق حسن کہتے ہیں،طلاق دینے کا صحیح طریقہ،طلاقِ حسن ہے ۔
طلاق رجعی
لفظ ”طلاق“یاایسے لفظ سے ایک یادوطلاق دی جائے جوعرف میں طلاق ہی کے لئے استعمال ہوتاہے ،اس کو طلاق ِرجعی کہتے ہیں۔
یعنی ایسی طلاق جس میں عدت گزرنے سے پہلے شوہر چاہے،تو بیوی کو دوبارہ نکاح میں واپس لے سکتاہے ،عورت کی مرضی ،نیز تجدیدِنکاح کی ضرورت نہیں ہے ،دومرتبہ طلاقِ رجعی کا حق حاصل رہتاہے، تیسری بارطلاق دینے میں یہ گنجائش بالکل نہیں رہے گی،طلا قِ رجعی :عدت گزرنے کے بعدطلاق ِبائن ہوجاتی ہے،نیز رجعت کی گنجائش بھی ختم ہوجاتی ہے ؛البتہ مردوعورت باہمی رضامندی اورنئے مہرکے ساتھ نکاح کرسکتے ہیں ۔
طلاقِ رجعی طلاق کا سب سے بہترطریقہ ہے ،اس لئے کہ عدت گزرنے تک شوہرکو سوچنے ،صحیح فیصلہ کرنے لئے ایک لمبا وقت ملے گا ،جذبات اورنفسیات کا غلبہ بھی نہ ہوگا، جذبات یا غصہ کی وجہ سے طلاق دے دیا ہو،تو تلافی کی گنجائش بھی ہوگی ،نیز عورت کے لئے سخت تنبیہ کا ذریعہ اور سنبھلنے کی مزید ایک مرتبہ گنجائش بھی مل جائے گی ۔
جب عدت پوری ہونے کے قریب ہوجائے، تو اللہ تعالی کا ارشاد ہے
فاذا بلغن اجلھن، فامسکو ھن بمعروف،او فارقوھن بمعروف، واشھدوا ذوی عدل منکم۔(الطلاق:۲)
جب مطلقہ عورتیں اپنی عدت کے ختم کو پہنچیں ، تو ان کو دستور کے موافق رکھ لو، ےا دستور کے موافق چھوڑدو اور دومعتبرآدمیوں کوگواہ بنالو۔
رجعت کا طریقہ
یعنی جب عدت ختم کے قریب ہوجائے، تو آخری فیصلہ کرنا ہے،اگر بیوی کو رکھنا ہو، تو اسے لوٹا لے اور بہتر ہے کہ لوٹانے پر بھی دو گواہ بنالے تاکہ آئندہ کسی نزاع اور تہمت کا اندیشہ نہ ہو اور اگر بیوی کی طرف رغبت نہ ہو اور نباہ کی امید نہ رہے، تو بھلے طریقہ پر علاحدہ کردے،بہتر طریقہ پر علاحدگی سے مراد یہ ہے کہ عدت گزر جانے دے،جیسے ہی عدت گزر جائے گی، عورت بائنہ ہوجائے گی؛البتہ اس بات کی گنجائش باقی رہے گی کہ اگر مرد وعورت کو پشیمانی ہو اور وہ دوبارہ ازدواجی رشتہ میں منسلک ہونا چاہیں، تو نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں،ےیہ گنجائش ایک اور دو طلاق کی صورت میں ہے۔(مسلم پرسنل لاء:۳۰)
جب طلاق دینے والامرد طلاقِ رجعی میں بیوی کو اپنے نکاح میں واپس لیناچاہے،توبہترہے کہ دومعتبرلوگوں کی موجودگی میں اپنی بیوی سے کہے ”میں نے تمہیں اپنے نکاح میں واپس لے لیا“یا معتبرلوگوں کی موجودگی میں یوں کہے ”میں نے اپنی بیوی کو اپنے نکاح میں واپس لے لیا“ نیز دورانِ عدت بیوی سے صحبت کرنے ،یا بوسہ لینے یا شہوت سے چھولینے سے بھی رجعت ہوجائے گی ۔(الہدایہ ۱۹۵/۲)
طلاق بائن
طلاقِ بائن وہ طلاق ہے جس میں عورت شوہرکے نکاح سے فورًا نکل جاتی ہے ،عدت کے درمیان بھی آپسی رضامندی ،نئے مہراورنکاح کے بغیرلوٹانے کی گنجائش نہیں رہتی،مندرجہ ذیل صورتوں میں طلاق بائن ہوجاتی ہے۔
طلاقِ بائن میں سابق میاں بیوی کے لئے آپسی رضامندی اورنئے مہرکے ساتھ عدت میں اور عدت گزرنے کے بعد بھی ازسرنونکاح کرنے کی گنجائش رہتی ہے ۔
الف:صحبت سے پہلے ہی بیوی کو طلاق دی جائے۔(خواہ طلاق صریح ہو)
ب:صراحت کے ساتھ طلاق بائن دی جائے ۔
ج:عورت سے کچھ معاوضہ لے کریا اس کے واجب الادءحقوق معاف کراکر طلاق دی جائے ،جیسے خلع میں ہوتاہے ۔
د:کنائی الفاظ سے طلاق دی جائے،یعنی طلاق کی نیت سے ایسے الفاظ بیوی سے کہے جس سے طلاق مرادلی جاسکتی ہواوران الفاظ کاکوئی دوسرا معنی بھی ہو،مثلا ”اب میراتمہارارشتہ باقی نہیں رہا“ ”تم میرے گھرسے چلی جاؤ“وغیرہ۔
ہ:قاضی کے ذریعہ نکاح ختم کرانے کی زیادہ ترصورتیں طلاق ِبائن کے تحت آتی ہیں ۔
(مستفاداز قاموس الفقہ ۳۴۴/۴)
طلاقِ بائن میں سابق میاں بیوی کے لئے آپسی رضامندی اورنئے مہرکے ساتھ عدت میں اور عدت گزرنے کے بعد بھی ازسرنونکاح کرنے کی گنجائش رہتی ہے ۔
خوش گوارازداوجی زندگی اردو ،رومن انگریزی اور انگریزی زبان میں نیز دیگراصلاحی ،علمی وتحقیقی دینی مضامین کے مطالعہ کے لئے فیضان قاسمی ویب کا استعمال کیجئے ۔http://dg4.7b7.mywebsitetransfer.com