ا بن ام مکتوم مؤذن رسول اللہ ﷺ

عبداللہ ا بن ام مکتوم مؤذن رسول اللہ ﷺ: آپ کا نام نامی اسم گرامی کے سلسلہ میں کئی نام آئے ہیں،عبداللہ ،عمرو،حصین ،والد کانام بالاتفاق قیس ہے ،آپ ابن ام مکتوم کے نام سے مشہور ہیں۔

آپ کا سلسلہ نسب اس طرح ہے ،عمروبن قیس بن زائد ة بن الاصم ۔اسم الاصم الجندب ۔بن ھرم بن رواحة بن حجر بن عبد معیص بن عامر بن لوی القرشی العامری آپ قریشی ہیں اور رسول اللہ ﷺکے سسرالی رشتہ دار ہیں،حضرت خدیجة الکبری کے مامو زاد بھائی ہیں ،آپ کی والدہ کانام عاتکہ بنت عبداللہ بن عنکثة بن عامر بن مخزوم بن یقظة المخزومیة ہے ۔(سیر اعلام النبلاء۲۱۹/۳،المستدرک۷۳۵/۳،اسدالغابة ۳۶۹۲،طبقات ان سعد،الاستیعاب عمدة القاری ۱۴۴/۴)

عبداللہ ا بن ام مکتوم شروع زمانہ میں اسلام قبول کرنے والوں میں سے ہیں،مدینہ منورہ میں حضرت بلالؓ اور حضرت سعد القرظ کے ساتھ آپ ﷺکے مؤذن تھے ،بچپن میں آنکھوں کی بینائی چلی گئی تھی۔

حضرت انس ؓفرماتے ہیں:ایک مرتبہ حضرت جبریل علیہ السلام رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضرہوئے ،حضرت عبداللہ ا بن ام مکتوم بھی حاضر خدمت تھے،رسول اللہ ﷺنے دریافت فرمایا: تمہاری بینائی کب زائل ہوئی ؟حضرت عبداللہ ا بن ام مکتوم نے جواب دیا بچپن میں میری بینائی زائل ہوئی ،آپ علیہ السلام نے فرمایا:اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: جب میں اپنے بندے کی عمدہ وپیاری چیز (آنکھ) لے لیتاہوں،تو اس کے بدلہ میں جنت عطاکرتاہوں(سیر۲۲۰/۳،شعب الایمان ۹۶۰۲)

ہجرت

حضرت ابن ام مکتوم ؓان خوش نصیب فرزندانِ اسلام میں سے ہیں جنھوں نے شروع زمانہ میں اسلام کے لئے مدینہ منورہ کی جانب ہجرت کی ،چنانچہ حضرت براءؓبن عازب فرماتے ہیں:ہمارے انصار کے پاس سب سے پہلے حضرت مصعب ؓبن عمیرآئے،آپ کے بعد حضرت ابن ام مکتومؓ آئے اور یہ دونوں حضرات لوگوں کو قرآن شریف کی تعلیم دیتے تھے۔ (سیر۲۲۰/۳،طبقات ابن سعد ۲۰۶/۴،اسدالغابة۳۹۷/۳)

حضرت ابن ام مکتوم ؓنے مدینہ منورہ میں ”دارالقراء“میں قیام فرمایا اوریہ حضرت مخرمہ بن نوفل کا گھر تھا۔(طبقات ۲۱۰/۴،حلیة الاولیا۳/۲)عبداللہ ا بن ام مکتوم حضرت ابن ام مکتوم ؓان خوش نصیب فرزندانِ اسلام میں سے ہیں جنھوں نے شروع زمانہ میں اسلام کے لئے مدینہ منورہ کی جانب ہجرت کی۔

چنانچہ حضرت براءؓبن عازب فرماتے ہیں:ہمارے انصار کے پاس سب سے پہلے حضرت مصعب ؓبن عمیرآئے،آپ کے بعد حضرت ابن ام مکتومؓ آئے اور یہ دونوں حضرات لوگوں کو قرآن شریف کی تعلیم دیتے تھے۔ (سیر۲۲۰/۳،طبقات ابن سعد ۲۰۶/۴،اسدالغابة۳۹۷/۳) حضرت ابن ام مکتوم ؓنے مدینہ منورہ میں ”دارالقراء“میں قیام فرمایا اوریہ حضرت مخرمہ بن نوفل کا گھر تھا۔(طبقات ۲۱۰/۴،حلیة الاولیا۳/۲)

آپ ﷺسے محبت اور آپ کے گھر والوں سے تعلق

حضرت ابن ام مکتوم ؓکو رسول اللہ ﷺسے بے انتہاءمحبت تھی ،چنانچہ آپ ﷺکی شان اقدس میں ایک یہودی عورت نے گستاخی کی، تو آپ اسے برداشت نہیں کرسکے؛ حالانکہ آپ کا قیام اسی عورت کے گھر میں تھااور وہ عورت آپ کے ساتھ حسن سلوک بھی کیاکرتی تھی اسکو ماردیا۔

حضرت عبداللہؓ بن مغفل فرماتے ہیں:حضرت ابن ام مکتوم ؓمدینہ میں ایک یہودی عورت کے گھرقیام فرمایا جو انصار کی رشتہ دار تھی ،یہ عورت حضرت ابن ام مکتومؓ کے ساتھ حسن ِسلو ک معاملہ کرتی تھی؛ لیکن آپ علیہ السلام پر طعن وتشنیع کرتی تھی ،حضرت ابن ام مکتومؓ نے اس عورت کو پکڑااور اس کو ماردیا اور وہ عورت مرگئی۔

آپ علیہ السلام کی خدمت میں جب یہ مقدمہ پیش ہوا، تو آپ علیہ السلام نے حضرت ابن ام مکتومؓ سے تحقیق فرمائی، توحضرت ابن ام مکتومؓ نے عرض کیا ،وہ عورت میرے ساتھ حسن سلوک کیاکرتی تھی ؛لیکن اس نے مجھے خدااور اس کے رسول ﷺکی شان میں گستاخی کے ذریعہ تکلیف پہنچائی ہے ،آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ اس پر لعنت فرمائے ۔اس نے خود اپنے خون کو ہدر کرلیا(خدااور اس کے رسول کی شان میں گستاخی کی وجہ سے قابل سزاہوگئی )(سیر ۲۲۲/۳،طبقات۲۱۰/۴)

حضرت ام سلمہ ؓفرماتی ہیں:میں اور حضرت میمونہؓ رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضرتھے ،اتنے میں حضرت ابن ام مکتومؓ حاضر خدمت ہوئے ،رسول اللہ ﷺنے ہم سے ارشادفرمایا:حضرت ابن ام مکتومؓ سے پردہ کر و،ہم نے عرض کیا ،یارسول اللہ !کیا وہ نابینانہیں ہیں جو ہمیں نہیں دیکھ سکتے؟آپ علیہ السلام نے ارشادفرمایا : کیا تم بھی نابیناہو ؟(یعنی عورت کے لئے بھی اپنی نگاہ کی حفاظت ضروری ہے جیسے مرد کے لئے عور ت سے نگاہ کی حفاظت ضروری ہے )(ترمذی باب ماجاءفی احتجاب النساءمن الرجال ،مسند احمد رقم ۲۵۳۲۶)

ابن ام مکتومؓ کا اکرام

حضرت شعبیؒ فرماتے ہیں :میں حضرت عائشة کی خدمت میں حاضر ہوا اورآپ کے پاس حضرت ابن ام مکتومؓ تشریف فرماتھے ،حضرت عائشة حضرت ابن ام مکتومؓ کو اترنج کا ٹ کاٹ کردے رہی تھیں،حضرت ابن ام مکتومؓ اس کو شہد کے ساتھ نوش فرمارہے تھے ۔

حضرت عائشة ؓنے مجھ سے فرمایا : رسول اللہ ﷺکے خاندان کی طرف سے حضرت ابن ام مکتومؓ کا برابر اکرام کیا جاتارہاہے، جب سے اللہ تعالی ٰنے اپنے نبی علیہ السلام کو ان کے سلسلہ میں عتاب فرمایا ،حضرت شعبیؒ فرماتے ہیں ام المؤمنین سورہ عبس کا شان نزول مرادلے رہی تھیں۔(مستدرک ۷۳۵/۳،طبرانی اوسط رقم ۱۱۴۶۰۰)

مندرجہ ءبالا واقعات سے ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ آپ کو آپ علیہ السلام اور آپ کے اہل بیت سے کس قدر تعلق تھا اور آپ ﷺکے اہل بیت آپ کے ساتھ کس درجہ اکرام کا معاملہ کرتے تھے۔

فضائل

حضرت ابن ام مکتومؓ ان خوش نصیب افراد ِامت میں سے ہیں جن کے بارے میں آسمان سے قرآن کی آیتیں نازل ہوئیں ہیں ،جن میں سرفہرست اور مشہور سورئہ عبس ہے ،سور ہ عبس کا شان نزول یہ ہے کہ ایک مرتبہ رسو ل اللہ ﷺبعض رؤساء مشرکین جن میں ابو جہل بن ہشام ،عتبہ بن ربیعہ ،ابی بن خلف ،امیہ بن خلف اور شیبہ وغیرہ تھے۔

آپ علیہ السلام ان کے ساتھ گفتگو اور تبلیغِ اسلام میں مشغول تھے، اتنے میں حضرت ابن ام مکتومؓ حاضر خدمت ہوئے ؛چونکہ نابینا تھے ، مجلس میں کون ہیں پتہ نہیں چلا اور کسی آیت کے بارے میں آپ ﷺسے سوال کرنے لگے اور باربار اصرار کرنے لگے ،آپ علیہ السلام کو ان کفار مکہ سے کلام کو قطع کرنا ناگوار ہوا ،اس لئے کہ یہ لوگ ہر وقت آپ ﷺکی مجلس میں نہیں آتے ،نہ ہر وقت ان کو اللہ کا کلمہ پہنچایا جاسکتاہے ،اس وقت یہ کفار مکہ آپ کی بات سن رہے تھے، جس سے ان کے ایمان لانے کی توقع کی جاسکتی تھی۔

حضرت ابن ام مکتومؓ پکے ایمان والے، ہروقت کے حاضرباش تھے،بعدمیں بھی قرآنی آیت وغیرہ معلوم کرسکتے ہیں،ان مجموعی حالات کی وجہ سے رسول اللہ ﷺحضرت ابن ام مکتومؓ کی طر ف متوجہ نہیں ہوئے ،جوگفتگوروساءقریش کے ساتھ جاری تھی ،اس کوجاری رکھا،جب رسول اللہ ﷺمجلس سے فارغ ہوئے، تو سورئہ عبس کی آیتیں نازل ہوئیں،جن میں آپ علیہ السلام کے اس طرزعمل پرتنبیہ کی گئی، اس سورت کے نازل ہونے کے بعد آپ علیہ السلام حضرت حضرت ابن ام مکتومؓکی بڑی خاطر تواضع واکرام فرمایاکرتے تھے۔(ذکرہ کثیر من المحدثین والمفسرین )

اس شخص کا کیا حکم ہے جو جہاد نہیں کر سکتا

حضرت زید ؓبن ثابت فرماتے ہیں :میں حضرت رسول اللہ ﷺکے بغل میں بیٹھا تھا ،آپ پر سکینہ نازل ہوئی (وحی کے آثارشروع ہوئے )آپ علیہ السلام کی ران مبارک میرے ران پر پڑی ،میں نے رسول اللہ ﷺکی ران سے زیادہ کسی وزنی چیز کو نہیں پایا،پھر آپ سے وحی کی کیفیات دور ہوئیں،آپ علیہ السلام نے فرمایا :لکھو ،میں نے ایک ہڈی پر لکھا”لایستوی القاعدون من المؤمنین،والمجاھدون فی سبیل اللہ الخ

حضر ت ابن ام مکتوم ؓنے عرض کیا(وہ نابینا تھے )یارسول اللہ !اس شخص کا کیا حکم ہے جو جہاد نہیں کر سکتا؟جب ابن ام مکتوم ؓ کی گفتگو ختم ہوئی تو دوبارہ آثار وحی شروع ہوئے اور وحی نازل ہوئی ،آپ علیہ السلام نے فرمایا: جو تم نے لکھا اس کو پڑھو،میں نے پڑھا”لایستوی القاعدون من المؤمنین،والمجاھدون فی سبیل اللہ الخ آپ نے ارشاد فرمایا :”لایستوی القاعدون من المؤمنین غیر اولی الضرر،والمجاھدین فی سبیل اللہ الخ لکھو (بخاری ۳۹۷/۱،باب قول ا للہ عزوجل ”لایستوی القاعدون من المؤمنین الخ)

غزوات کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کی جان نشینی

حضرت شعبیؒ فرماتے ہیں:رسول اللہ ﷺنے تیرہ غزوات میں شرکت فرمائی ہے ،ہر غزوہ میں حضرت ابن ام مکتوم ؓکو مدینہ میں اپنا جانشین وخلیفہ مقررفرماکر تشریف لے جاتے ،حضرت ابن ام مکتوم ؓلوگوں کی امامت فرماتے ۔(طبقات ۲۰۵/۴،سیر۲۲۰/۳)

حضرت ابن ام مکتوم ؓکو اللہ کے بنی علیہ السلام کا اپنی زندگی میں خلیفہ وجانشین طے کرنا یقینًاآپ کے لئے بہت بڑی فضیلت ہے ۔ مندرجہ ذیل غزوات میں حضرت ابن ام مکتوم ؓمدینہ میں آپ کے خلیفہ رہے:(۱)غزوة الابواء(۲)بواط(۳)ذوالعشیرة (۴)احد (۵)حمراءالاسد(۶)غطفان (۷)جہینہ (۸)غزوة ذات السویق (۹)نجران (۱۰)ذات الرقاع۔ (اسد الغابة ۳۷۹۳،الاستیعاب ۱۲۷۳)(۱۱)خندق (۱۲)بنو قریظہ (۱۳)تبوک (طبقات ابن سعد )

ابن ام مکتوم ؓسے روایت کرنے والے حضرات

آپ سے حضرت زربن حبیش ،حضرت عبدالرحمن بن لیلی ،حضرت عبد اللہ بن شداد بن الھاد ی اور حضرت ابو البختری حضرات تابعین نے روایت کی ہے ،آپ کی روایا ت مسند احمد بن حنبل ،سنن اوداو¿د ،سنن ابن ماجة ،مشکل الاآثار ،مستدرک حاکم اور طبرانی میں مذکو رہیں۔ (تتبع از راقم )

شہادت

حضرت انس ؓفرماتے ہیں : حضرت ابن ام مکتوم ؓقادسیہ کی لڑائی میں حضرت سعد بن ابی وقاص کی ماتحتی میں شریک ہوئے اور آپ کے ساتھ سیا ہ جھنڈا تھا اور آپ کے بدن پر زرہ تھی اور اسی معرکہ میں شہادت نوش فرمائی۔ (سیر ۲۲۳/۳،الاستیعاب ۳۷۲/۱،اسد الغابة ۳۹۷/۳)

واقدی نے ذکر کیاہے کہ معرکہ سے مدینہ منورہ واپس ہوئے اور مدینہ میں وصال ہواہے ،حضرت عمرؓکے بعد آپ کا تذکرہ ہمیں تاریخ میں نہیں ملتا ہے۔ (سیر۳۲۳/۳)

(حضرت ابن ام مکتوم ؓکی تاریخ ولادت اور تاریخ وفات یقینی طور سے کتب تراجم میں مذکو رنہیں ہے ) نبی علیہ السلام کے مؤذن ِخاص، اسفار میں آپ علیہ السلام کے جانشین اللہ کے نبی علیہ السلام کے جانثار صحابی رسول سرزمین عراق میں قادسیہ کے معرکہ میں جامِ شہادت نوش فرماکر تمام نابینا حضرات کے لئے نمونہءپیش کرتے ہوئے اپنے مولیٰ حقیقی سے جاملے ۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات کو بلند فرمائے اور آپ کی طرح ہمیںبھی قبول فرمائے ۔آمین یارب العلمین(اذان ومؤذنین رسول اللہ ۱۰۱تا۱۰۶ ابوفیضان قاسمی)