سیوطی علامہ جلال الدین :آپ کا نام عبد الرحمن بن ابی بکر، کنیت ابو الفضل، لقب جلال الدین ہے۔
ولادت باسعادت :آپ ۸۴۹ ھ میں نواح مصر میں’ سیوط‘ یا ’اسیوط ‘نامی شہر میں پیداہوئے،آپ کو ”ابن الکتب‘ ‘ بھی کہا جاتا ہے، ایک مرتبہ آپ کے والد نے آپ کی والدہ سے بعض کتابےں لانے کو کہا ، جب وہ کتابیں لانے کے لئے گئیں ،تو دردزہ میں مبتلا ہوگئیں اور اسی دوران علامہ جلال الدین سیوطی ؒ کی ولادت بھی ہوگئی۔
تعلیم و تربیت اوراساتذہ
جلال الدین سیوطی کی عمر پانچ سال دس ماہ کی تھی کہ آپ کے والد کی وفات ہوگئی،اس وقت تک آپ کا حفظ قرآن شریف تقریباً سورة تحریم تک مکمل ہوچکا تھا ،آپ کے والد ماجد وفات سے قبل جن لوگوں کو آپ کی علمی ،عملی اور اخلاقی تربیت سے متعلق وصیت کی تھی ان میں سر فہرست علامہ ابن الہمام ؒصاحب ”فتح القدیر“ بھی تھے۔
آپ نے مختلف اساتذہ سے علم حاصل کیا،محققین نے آ پ کے اساتذہ کی تعداد تقریباً اکیاون(۵۱) تک شمار کی ہے،جن میں سے علامہ جلال الدین محلی ،زین عقبی ،شمس سیرمی ،مجدبن محمدالحنفی الشمنی وغیرہ سرفہرست ہیں،علوم متداولہ سے فراغت کے بعد آپ تعلیم و تدریس ،تصنیف و تالیف میں مشغول ہوگئے۔
علامہ جلال الدین سیوطی کی تصانیف
علامہ جلال الدین سیوطیؒ صاحب تصانیف کثیرہ شمار کئے جاتے ہیں،نیزکم وقت میں تصنیف کرنے میں مشہور ہیں ،اپنے استاذعلامہ محلی کی وفات کے بعدآپ کی باقی ماندہ تفسیر جو تقریباً پندرہ(۱۵ )پارہ تھی، اس کویکم مضان میں شروع کیااوردس شوال صرف چالیس دن کے عرصے میں مکمل کرلیا۔
علماءنے آپ کی تصانےف کی تعدادپانچ سو (۵۰۰ )اور بعض نے چھ سو( ۶۰۰) اور بعض نے نوسو (۹۰۰) شمار کی ہے،آپ نے تقریباًہر فن میں کتابیں لکھیں ۔
چنانچہ اصول تفسیر میں ”الاتقان فی علوم القرآن’‘ ، تفسیر میں شہر آفاق تصنیف ”تفسیرجلالین ‘ فن تفسیر میں آپ کی مشہور ترین کتاب ’الدر المنثور فی التفسیر بالماثور ‘ بھی ہے ، اصولِ حدیث میں ”تدریب الراوی“ ، حدیث میں ”الجامع الصغیر“،”تنویر الحوالک فی شرح موطا امام مالک“ ”اللائی المصنوعة فی الاحادیث الموضوعة“ہے ، طبقات محدثین ،اسماءرجال میں ”حسن المحاضرہ“”’اسعاف المؤطافی رجال موطا“ اور اصول فقہ میں” الاشباہ والنظائر“ ان کے علاوہ دیگر بہت ساری کتابیں تصنیف فرمائی ہیں۔
آپ کے فضائل
آپ کے فضائل سوانح نگاروں نے آپ کے فضائل کو لکھنے سے یہ کہہ کر قلم روک لیاکہ آپ کی شہرت آپ کے فضائل کوبیان کرنے سے مستغنی بنا دیتی ہے۔
علامہ سیوطیؒ اپنے زمانے میں اسمائے رجال، روایتِ حدیث ،درایتِ حدیث اور استنباط ِاحکام کے اعتبار سے سب سے بڑے عالم تھے،نیز حدیث اصولِ حدیث، تفسیر، اصولِ تفسیر ،فقہ واصول فقہ وغیرہ تقریباًسات علوم میں آپ کو مہارت تامہ حاصل تھی،آپ کو دولاکھ احادیث زبانی یادتھیں،بعض علماءنے کہا ہے کہ آپ کے علم و فضل کے لئے آپ کی تصانیفات ہی سب سے بڑی دلیل ہیں۔
چالیس سال کی عمر تک تعلیم و تدریس اور افتاءوغیرہ میں مشغول تھے،اس کے بعد آپ دریائے نیل کے کنارہ” روضة المقیاس“ نامی جگہ میں گوشہ نشینی اختیار کرلی اور اکثر کتابیں وہیں تصنیف فرمائیں،وزراءاور امراءآپ کو بلا بھیجتے ؛لیکن آپ تشریف نہیں لے جاتے اور ایسے لوگوں سے مستغنی رہتے،پھرامراءو وزراءخود آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور آپ سے استفادہ کرتے۔
آپ صاحب کرامات بزرگ بھی تھے، ایک مرتبہ آپ نے اپنے ایک خادم محمدبن علی حباک سے دریافت کیا: کیاتم کعبة اللہ میں عصر کی نماز ادا کرنا چاہتے ہو؟خادم نے کہا ،ضرور،تو آپ نے فرمایا: یہ ممکن ہے ؛مگر اس شرط پر کہ میری وفات تک کسی کو خبرنہ دو،شاگرد فرماتے ہیں کہ ہم ستائیس قدم چلے کہ ہم کعبة اللہ میں”باب المعلی“ پہنچ گئے ،طواف کیا، نماز ادا کی،زم زم نوش کیا ، پھر واپس آگئے۔
ستر سے زائد مرتبہ آپ کوخواب میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت کی سعادت حاصل ہوئی۔
وفات
آپ کے داہنے بازومیں ورم اورسوجن پیداہوگئی ،آپ سات دن سخت تکلیف برداشت کرنے کے بعد جمعہ کی رات ۱۹/جمادی الاولی نوسوگیارہ۹۱۱ ھ میں اس دارفانی سے انتقال فرمایا ،”باب القرافة‘میںآپ کی تدفین عمل میں آئی۔
المراجع:حسن المحاضرہ للسیوطی،اللضوءاللامع للسخاوی ،البدرالطالع للشوکانی،شذرات الذھب۔
علامہ محلی ؒکا تعارف
نام ونسب
آپ کانام نامی محمدبن احمدبن محمدبن ابراہیم ہے،آپ ۷۹۱ ھ میں”محلہ کبری “مصرمیں پیداہوئے،اسی نسبت سے محلی کے نام سے مشہورہیں،مسلکاًشافعی ہیں۔
علامہ محلی کے اساتذہ
علامہ محلی نے بدرمحموداقصرائی ،برہان بیجوری ،شمس بساطی اورعلاءبخاری وغیرہ سے علم حاصل کیا اورحدیث شریف شرف بن کویک سے پڑھی ۔
فضائل
آپ متکلم ،نحوی،اصولی ،فقیہ اورمفسرہیں ،ذہانت وفطانت میں بے مثال تھے ،آپ فرماتے ہیں: میراذہن غلطی کو قبول نہیں کرتا؛اس کے باوجودآپ زبانی یادرکرنے پرقادرنہیں تھے، ایک مرتبہ آپ نے کچھ کاپیاں یادکیں،توآپ کا بدن گرم ہوگیا ۔
آپ متقی ،پرہیزگارامربالمعروف اورنہی عن المنکر کے پابندتھے، اس معاملہ میں کسی کی پرواہ نہیں کرتے تھے ،حکام وامراءکو سختی کے ساتھ برائیوں پرنکیرفرماتے اورامراءبھی ادب واحترام کے ساتھ ستنے رہتے ،آپ نہایت سادہ لباس اور معمولی سواری کے عادی تھے ،آپ کے لئے عہدئہ قضاءپیش کیاگیا،آپ نے قبول نہیں فرمایا ،چندایام ”مدرسہ مؤئدیہ “اور”مدرسہ برقوقیہ“ میں تدریسی خدمات انجام دی۔
علامہ محلی نے قیمتی کتابیں تصنیف فرمائیں جونہایت مختصرمنقح اورعمدہ عبارت پرمشتمل ہیں
الف:شرح جمع الجوامع للسبکی(اصول فقہ)
ب:شرح المنہاج (فقہ شافعی)
ج:شرح الورقات(اصول فقہ)
د:مختصرالتنبیہ للشیزای (فی فروع الشافعی)
ان کے علاوہ بعض ناتمام تصانیف بھی موجودہیں۔
وفات:آپ کی وفات ۸۶۴ھ میں ہوئی۔
مذکورہ تعارف: تفسیرجلالین کے تمہیدی اسباق کا ایک حصہ ہے،جس کو بندہ نے پوری تحقیق اوراختصارکے ساتھ قلم بند کیا ہے ، علامہ محلی جوکے علامہ سیوطی کے استاذ اورزماناً مقدم ہیں اس اعتبار سے آپ کا تذکرہ بھی مقدم ہونا چاہئے ،چونکہ علامہ محلی کے حالات کتب تراجم میں بہت مختصر ہیں ،اس وجہ سے علامہ سیوطی کے تذکرہ کو مقدم کردیاگیاہے ،طالب دعا : عبداللطیف قاسمی جامعہ غیث الہدی بنگلور انڈیا-