علامہ نووی کا تعارف: نام ونسب
آپ کا اسم گرامی یحی بن شرف بن مری بن حسن بن حسین بن حزام بن محمد بن جمعہ ہے ،آپ کی کنیت ابوزکریا ہے اورلقب محی الدین ہے۔ (الطبقات الشافعیة۳۹۵/۸)۔
ولادت باسعادت
علامہ نوویؒ ملک شام (سوریا) دمشق میں” حوران“ نامی بستی کے” نویٰ“ نامی دیہات میں ماہ محرم ۶۳۱ھ میں پیداہوئے ۔
ابتدائی تعلیم وتربیت
بچپن کا زمانہ ’ ’نویٰ“ میں گذارا،آپ ؒ کے والد نے آپ کو ایک دکان میں لگادیاتھا تاہم قرآن پاک کی تعلیم کا سلسلہ شروع کرادیاتھا ۔
رشد ونجابت کے آثار
علامہ نووی ؒ کے شیخ یاسین بن یوسف زرکشیؒ فرماتے ہیں
میں نے نووی ؒکو’ ’نوی ‘’میں ان کی دس سال کی عمر میں دیکھا،بچے انھیں اپنے ساتھ کھیلنے پر مجبور کرتے ہیں اور یہ ا ن سے دور بھاگتے ہیں ،ساتھیوں کے کھیلنے پر مجبور کرنے کی وجہ سے رورہے ہیں او راس حال میں بھی قرآن پاک کی تلاو ت کررہے ہیں ۔
شیخ زرکشیؒ فرماتے ہیں :یہ صورت حال دیکھ کر میرے دل میں نووی کی محبت پیداہوگئی،ان کے والد نے انھیں ایک دکان میں لگادیاتھا ،خرید وفروخت کی حالت میں بھی قرآن سے غفلت نہیں ہوتی تھی ۔
علامۃ زرکشی کی دوراندیشی
زرکشی ؒ فرماتے ہیں: میں نووی کوجو قاری صاحب قرآ ن پڑھارہے تھے، ان کے پا س گیا اور نووی کے بارے میں تاکیدی نصیحت کی اور کہا کہ مستقبل میں یہ بچہ اپنے زمانہ کا بڑا عالم وزاہد بنے گااو رلوگ اس سے خوب مستفید ہوں گے۔
قاری صاحب نے مجھ سے کہا: کیا تم نجومی ہو ؟میں نے کہا ،میں نجومی نہیں ہو ں؛لیکن اللہ تعالیٰ نے میرے زبان سے یہ کلمات نکلوائے ہیں ۔
قاری صاحب نے نوویؒ کے والد محترم کو یہ قصہ سنا یا ،ان پر اس واقعہ کا اثرہوا اور حصول علم کے لئے علامہ نووی ؒ کو لگادیا ۔
چنانچہ بلوغ سے پہلے حافظ ِ قرآن ہوگئے ،”نویٰ “کے اساتذہ سے علم حاصل کرنے کے بعد ،۹۴۶ھ میں دمشق آئے،دمشق میں پہنچ کرروزانہ مختلف فنون کے بارہ اسباق مختلف اساتذہ سے پڑھتے رہے ،اسی دوران آپ نے اپنے والدکے ہمراہ حج کیا اور مدینہ منورہ میں ڈیڑھ ماہ قیام کیا۔
شرف بن مری علامہ نووی ؒ کے والد محترم فرماتے ہیں :نوویؒ بچپن میں ستائیسویں رمضان میں میرے بازومیں سورہے تھے ،رات میں اچانک بیداررہوگئے اور کہنے لگے یہ کیسی روشنی ہے جو پور ے گھرمیں پھیل گئی ہے ،پورے گھر والے بیدارہوئے ؛لیکن ہم میں سے کسی کو روشنی نظر نہیں آئی ،پھر میں نے سمجھاکہ آج کی رات شبِ قدرہے ۔(الطبقات الشافعیة الکبری۳۹۵/۸)
فضائل ومناقب
صاحب طبقات کبری نے آپ کا تذکرہ ان عظیم کلمات میں کیاہے
شیخ الاسلام ،استاذ المتاخرین ،حجة اللہ علی اللاحقین ،والداعی الی سبیل السالفین ،کان یحی سیدا وحصورا مع التفنن فی اصناف العلوم فقھا ومتون احادیث ،واسماءالرجال ،ولغة ،وتصوفا وغیرذالک ۔(الطبقات الکبری ۳۹۶/۸)
شیح الاسلام متاخرین کے رہبر ورہنما ،بعد والوں کے لئے حجت ،اسلاف کی راہ کے داعی ،آپ ؒ نے تجرد کی زندگی گذارری ،فقہ ،متونِ حدیث ،اسماءرجال ،لغت اور تصوف وغیرہ علوم کے جامع ہیں ۔
صاحب طبقات فرماتے ہیں
آپ کی شخصیت سے متعلق میں علامہ شیخ تقی الدین سبکی ؒ کے کلمات سے زیادہ کہنے پر قادرنہیں ہو ں
وفی دارالحدیث لطیف معنی علی بسط لھا اصبووآوی
عسی انی امس بحر وجھی مکانا مسہ قدم النواوی
دارالحدیث میں ایک عجیب حقیقت ومعنویت ہے ،جس کے فرش کی جانب میں جاتاہوں اورٹھکانہ حاصل کرتاہوں ،اس امید کہ ساتھ کہ میرے چہرہ سے وہ جگہ مس ہوجائے جس پر علامہ نووی ؒ کے قدم مبارک پڑے ہوں
زہدوقناعت کی زندگی
علامہ نووی ؒا نتہائی زاہد ،متقی ،پرہیزگار ،اورصوم دہر کے پابند تھے ،رات دن میں صرف ایک مرتبہ رات کے آخری حصہ میں کھانا تناول فرمایاکرتے،پھلوں اور سبزیوں سے پرہیز کرتے ،اگر کوئی اصرار کرتا تو فرماتے اس سے جسم میںرطوبت پیداہوجاتی ہے اور اس سے نیند میں اضافہ ہوجاتاہے۔
نیز پھل نہ کھانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی خود آپ فرماتے ہیں کہ دمشق کے اکثر باغات وغیرہ اوقاف کے ہیں اور اس پر دوسرے غیرمستحق لوگ قابض ہیں ،لہذا ان کا استعمال درست نہیں، نیز دمشق میں بٹائی پر کھیتی ہوتی تھی جس کی وجہ سے علامہ نوویؒ ان پھلوں کے استعمال سے کلی اجتناب کرتے تھے ۔
آپ کے والد محترم نوی سے انجیر وغیرہ روانہ فرماتے آپ ان ہی معمولی غذاؤں پر قناعت کرتے ،والدہ جو کپڑے روانہ کرتی تھیں، ان ہی کو استعمال فرمالیتے اور پیوند زذہ کپڑا پہناکرتے ،اپنے طلباءمیں سے کسی سے کوئی ہدیہ قبول نہ فرماتے ،ایک مرتبہ ایک فقیر نے ایک پیالہ ہدیہ میں پیش کیا، تو اس کو قبول فرمالیا ۔
اخلاق وعادات
علامہ نووی ؒ کے تمام سوانح نگاروں نے لکھاہے کہ آپ کے اند ر زہد ،تقوی ،امراءوحکام کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ اور امر بالمعرو ف نہی عن المنکر کے صفات موجود تھے۔
ابن فرح کہتے ہیں کہ شیخ محی الدین نوویؒ میں تین باتیں ایسی جمع ہیں کہ ان میں سے ہرصفت ایسی عظیم ہے کہ لوگ ایسے شخص کی خدمت میں حاضری کی سعادت حاصل کرنے کے لئے دوردراز کے سفر طے کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، زہد ،تقوی اور امر بالمعرو ف نہی عن المنکر،چہ جائے کہ سب جمع ہوں۔
علمی مقام ومرتبہ
علامہ نووی ؒ علماءشافعیہ کے عظیم ترین علمی شخصیات میں سے ہیں ،حدیث ،فقہ وغیرہ علوم میں آپ نے ”شرح مسلم “”ریاض الصالحین “”الاذکار النوویة“ وغیر ہ کتب امت کے لئے بطور وراثت چھوڑی ہیں کہ یہ کتابیں ہر مسلمان کے گھر میں موجود ہیں اور ہر مسلمان کی دینی ضروت ان سے پوری ہوتی ہیں ۔
حدیث ، ،فقہ ،اصول فقہ ،اسماءرجال ،لغت، تصوف،منطق وغیرہ علوم میں آپ ماہر وکامل تھے ،آپ نے طالب ِ علمی کے زمانہ میں انتہائی محنت سے علم حاصل کیا اور جب تدریس کا زمانہ آیا،تب بھی پورے انہماک وتوجہ سے علمی مصروفیات میں مشغول رہے ۔
ابن العطار ؒ کہتے ہیں کہ ہم سے ہمارے شیخ نے بیان کیا کہ علامہ نوویؒ دن ورات کسی وقت اپنا وقت ضائع نہیں کرتے تھے ،یہاں تک کہ راستہ چلتے چلتے بھی علمی سوچ میں مشغول رہتے، اس انداز سے چھ سال مطالعہ میں گذارنے کے بعد تصنیف وتالیف ،وعظ ونصیحت ،درس وتدریس اور امر بالمعروف نہی عن المنکر میں مصروف ہوئے ۔
ابن خلکان کہتے ہیں کہ علامہ نوویؒ ”قبالیہ “”فلکیہ“”رکنیہ“میں تدریسی خدمات انجام دی ہیں ،۶۶۵ھ میں ”دارالحدیث اشرفیہ “میں شیخ الحدیث مقرر ہوئے تاوفات تقریبًا گیارہ سال حدیث کا درس دیتے رہے ۔
تصنیفات وتالیفات
”شرح النووی علی مسلم “”المنھاج “”ریاض الصالحین “”الاذکار النوویة ،،فقہ میں” المجموع“ ”شرح المہذب“ تاکتاب المصراة”روضة الطالبین “اسماءرجال میں” تھذیب الاسماءواللغات “ آداب میں” التبیان فی آداب حملة القرآن“ وغیرہ متعد د نافع کتابیں تصنیف فرمائیں ۔
اللہ تعالیٰ نے علامہ نووی ؒ کی کتابو ں کوایسی قبولیت عطافرمائی کہ محدثین ، فقہاءاور عوام الناس میں کوئی علامہ نوویؒ کی کتابوں سے مستغنی نہیں ہے ۔
صاحب طبقات شافعیہ فرماتے ہیں کہ علامہ نوویؒ کو عمر مستعار صرف پینتالیس(۴۵)ملی ،نوویؒ نے اتنی زیادہ کتابیں تصنیف فرمائیں کہ ان کی پوری عمرمحض اتنی کتابوں کی نقل کے لئے کافی ہے ۔
حافظ ابن حجر ، حافظ بدرالدین عینی، ابن تیمیہ ،بعد کے تمام محدثین پر حدیث کے سلسلہ میں آپ کا عظیم احسان ہے ،جس سے کسی صاحبِ علم کو انکار کی گنجائش نہیں ۔
اساتذہ وتلامذہ
رضی بن برھان ، عبدالعزیز بن محمد انصاری ،زین الدین بن عبدالدائم،جمال الدین صیرفی وغیرہ حضرات سے علم حاصل کیا(تذکرة الحفاظ۱۷۴/۴)۔
تلامذہ
علماءکی ایک بڑی جماعت نے آپ ؒ سے کسب فیض کیاہے ،جن میں سلیمان جعفری ،شہاب الدین احمد بن جعفران ،شہاب الدین اربدی ،علاءالدین بن عطار اور علامہ مزی وغیرہ حضرات ہیں۔(تذکرة الحفاظ۱۷۴/۴)
وصال
علامہ نوویؒ نے بیت المقدس کا سفر کیا ،واپس اپنی بستی ”نوی“ اپنے والد کی خدمت میں حاضرہوکر مرض الوفات میں مبتلاءہوئے اور اسی جگہ پر پینتالیس (۴۵) کی عمر میں۲۴رجب المرجب ۶۷۶ ھ میں وفات پائی ،آپ کے والد محتر م کا انتقال ۶۸۵ھ میں ہوا ۔
اللہ تعالیٰ علامہ نووی ؒ کی قبر پر نور کی بارش برسائے ،ہمیں آپ کے علوم ومعارف سے مستفید فرمائے اورآپ کے ساتھ ہمیں بھی اپنے نیک ومقبول بندوں میں شامل فرمائے ۔ آمین یارب العلمین
بندہ ناچیز نےعلامہ نووی ؒ کی کتاب ’’التبیان فی آداب حملۃ القرآن ‘‘کا اردوترجمہ حاملین قرآن کے نام سے کیاہے ، مولانا مفتی اشتیاق احمد صاحب استاذ دارلعلوم دیوبندنے نظرثانی فرمائی ہے ،یہ کتاب کتب نعیمیہ دیوبندسے طبع ہوئی ہے اوراس ویب سائٹ پر اس کے بے شماراقتباسات موجودہیں،اللہ تعالیٰ سب کو قبول فرمائے ۔آمین