سلف وخلف ،صحابہ وتابعین ،علماءاور ائمہ مسلمین کا خوبصورت آواز سے قرآن کی تلاوت پر اتفاق ہے ۔
نیز رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مشہور احادیث ہیں مثلًا
زینوا القرآن باصواتکم ،مااذن اللہ ،للہ اشداذنا وغیرہ
حضرت سعدبن ابی وقاصؓ اور حضرت ابولبابہ ؓسے مروی ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
من لم یتغن بالقرآن ،فلیس منا ۔(رواہ ابوداؤد باسنادین جیدین ،وفی اسناد سعد اختلاف لایضر)
جو شخص قرآن ِپا ک کو خوبصورت آواز سے نہ پڑھے ،وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔
حضرت براءؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوعشاءکی نمازمیں ”والتین “”والزیتوں“پڑھتے ہوئے سنا ،میں نے آپ ﷺ کی آواز سے زیادہ خوبصورت آواز کسی کی نہیں سنی۔بخاری ومسلم
علماءنے فرمایا کہ قرآن ِپا ک کو خوبصورت آواز اورترتیل کے ساتھ پڑھنا مستحب ہے ؛جب کہ آواز کے بنانے اور کھینچنے میں شرعی حدود سے تجاوز نہ ہو ۔
آواز کوبنانے اور کھینچنےکی شرعی حدود
اگر شرعی حدود سے تجاوزہوجائے کہ کوئی حرف بڑھ گیا یا کسی حرف کو چھپادیا،تویہ حرام ہے ،قرآن ِپاک کو الحان کے ساتھ پڑھنے کو امام شافعی ؒ نے ایک جگہ پر مکروہ قراردیاہے ۔
ہمارے اصحاب نے فرمایا اس میں تفصیل ہے اگر آواز کے بنانے اور کھینچنے میں شرعی حدود سے تجاوز کرے ،تو مکرورہ ہے، اگر شرعی حدود سے تجاوزنہ کرے، تویہ جائزہے ۔
قاضی القضاة ماوردیؒ نے اپنی کتاب ”الحاوی“میں فرمایا ہے کہ کوئی شخص قرآن ِپاک کو موسیقی کے قوانین وقواعد کے مطابق پڑھتاہے ،اگرقرآن کا کوئی لفظ حرکت کے بڑھانے یا حرکت کے حذف کرنے سے ،حرف مدہ میں مد نہ کرنے یا غیرہ مد ہ حرف میں مد کرنے سے حقیقی شکل سے نکل جائے یا کوئی نیاحرف پیدا ہوجائے یا آواز بنانے کے لئے اس طرح کھینچناکہ بعض الفاظ میں خلل پید اہوجائے یا معنی مشتبہ ہوجائے ،تو یہ حرام ہے ،پڑھنے ولا فاسق ہے اور سننے والا گنہگار ہے ،اس لئے کہ اس نے سید ھے راستہ سے ہٹ کر کج روی اختیار کی ہے ۔خوبصورت آواز سے قرآن کی تلاوت
حدر کے ساتھ اور درد کے ساتھ تلاوت کرنا
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں
قرآنا عربیا غیر ذی عوجا،بہترعربی زبان میں ہم نے نازل کیاہے۔
اگرکسی قاری کا طرزِتلاوت قرآن کے کسی لفظ کو اس کی اصلی شکل سے نہیں نکالتا اور اس کی قراءت ترتیل کے مطابق ہے ،تو اس طرح پڑھنا مباح ہوگا، اس لئے کہ اس نے قراءت کو سنوارنے کے لئے یہ طرز اختیار کیاہے۔
قرا ءت کی مذکورہ حرام صورت جوکہ ناجائز ہے( راگ سے قرآن پڑھنا )اس میں بہت سارے جاہل ،گمراہ لوگ مبتلاہیں جو جنازوں اور بعض محفلوں میں اس طریقہ سے پڑھتے ہیں، یہ بدعت ہے جس کا حرام ہوناظاہر ہے ،اس طرح کی قراءت سننے والا گنہگار ہوگا جیساکہ قاضی ماوردی نے فرمایا ،نیز ہروہ شخص جو اس طرح پڑھنے والے کو منع کرنے کی قدرت رکھتاہو،پھر بھی منع نہ کرے ،وہ بھی گنہگارہوگا۔
امام شافعیؒ نے” مختصر مزنی“ میں فرمایا ہے: تلاوت کے وقت کسی بھی شرعی طریقہ سے اپنی آواز کو خوبصورت بنانا مستحب ہے اور مجھے حدر کے ساتھ اور درد کے ساتھ تلاوت کرنا زیادہ پسند ہے ۔
اہل لغت نے کہاہے کہ حدرت بالقراءة کا معنی ہے میں نے تیز پڑھا اورحدسے زیادہ جلدی نہیں کی اور جب آدمی رقتِ قلب کے ساتھ تلاوت کرے، تو کہا جاتاہے فلان یقرأ بالتحزین اذا رقق صوتہ ۔
ابن داؤد نے اپنی سند سے حضرت ابوہریرة ؓ سے نقل کیاہے کہ آپ ؓنے سورہ کورت درد کے ساتھ تلاوت فرمائی ۔
سنن ابی داؤد میں ہے کہ حضرت ابن ملیکہ ؒ سے سوال کیا گیاکہ اگر کوئی شخص اچھی آواز سے تلاوت کرنہیں سکتا،تو وہ کیا کرے ؟ابن ملیکہ ؒ نے جواب دیا کہ جتنا ہوسکے ،خوبصورت آوازمیں پڑھنے کی کوشش کرے ۔خوبصورت آواز سے قرآن کی تلاوت
خوش الحان قاری سے قرآن شریف سننا
جاننا چاہئے کہ اسلافؒ عمد ہ آواز والے قراءکرام سے درخواست کرتے کہ وہ اپنی خوبصورت آواز سے قرآن پاک کی تلاوت کرے تاکہ وہ عمدہ آواز میں قرآن پاک کو سنیں،یہ عمل بالاتفاق مستحب ہے ،یہ عبادت گذار او راللہ کے نیک بندوں کا شیوہ ہے او ریہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ۔
حدیث صحیح میں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ آپؓ نے فرمایا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا : اقرأ علیَّ القرآن ،مجھے قرآن ِشریف پڑھ کر سناؤ ،میں نے عرض کیا،
یارسو ل اللہ !اقرأ علیک ؟وعلیک انزل ؟یارسو ل اللہ کیا میں آپ کو پڑھ کر سناؤں جبکہ اس کلام کو آپ ہی پر نازل کیا گیاہے ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انی احب ان اسمعہ من غیری،میں دوسروں سے سننا چاہتاہوں ،چنانچہ میں نے سورئہ نساءپڑھنا شروع کیا، جب میں
فکیف ذا جئنا من کل امة بشھید ،وجئنا بک علی ھٰولاءشھیداً(النسائ:۴۱)
(اس وقت کیاحال ہوگا ؟جب ہم ہرامت میں سے ایک گواہ کو بلائیں گے اور ان لوگوں کے متعلق گواہی دینے کے لئے آپ کو بلائیں گے ) پر پہنچا، تو آپ ﷺنے فرمایا:حسبک الآن ،اب بس کرو،میں آپ علیہ الصلوة والسلام کی طرف متوجہ ہوا، تو آپ علیہ الصلوة والسلام کی آنکھیں آنسوں بہارہی تھیں۔رواہ البخاری ومسلم
ہمارے لئےہمارے رب کی یاد تازہ کیجئے
امام دارمی وغیرہ محدثین ؒنے اپنی صحیح سندوں کے ساتھ حضرت عمرؓ کے بارے میں ذکرکیاہے کہ حضرت عمر ؓ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے فرماتے :ذکرنا ربنا ،ہمارے رب کی یادہمارے لئے تازہ کیجئے ،تو حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ قرآن ِشریف پڑھاکرتے ۔
اس سلسلہ میں مشہورواقعات ہیں،بہت سارے اللہ والوں نے قرآن پڑھنے والوں سے
قرآن پا ک پڑھنے کی درخواست کی ،جب قاری نے تلاوت کی، تو اپنی جان جاںِآفریں کے سپرد کردی۔
علماءنے حدیث شریف کی مجلس کو بھی تلاوت ِکلام اللہ سے آغازکرنے اوراسی پرمجلس کو برخواست کرنے کو مستحب قراردیاہے کہ کوئی خوش الحان قاری قرآن شریف کی کچھ آیات پڑھے۔
ایسے مقامات میں قاری کو چاہئے کہ مجلس کی مناسب آیات کی تلاوت کرے او رقاری امیدوخوف ،اخلاق حسنہ اورنصیحت پرمشتمل،دنیاسے بے رغبتی پیداکرنے والی، آخرت کی طرف متوجہ کرنے والی ،آخرت کی تیاری اور امید وں کو مختصر کرنے والی آیات کی تلاوت کرے۔
خوبصورت آواز سے قرآن کی تلاوت ،حاملین قرآن ترجمہ التبیان للامام النووی:۸۳تا۸۶)