فجرکی سنت کب تک اداکرسکتے ہیں ؟

فجرکی سنت کب تک اداکرسکتے ہیں ؟الحمدللہ رب العالمین، والصلوة والسلام علی سیدالمرسلین ،وعلی من تبعھم باحسان الی یوم الدین ،امابعد

فجرکی سنت اورپنج وقتہ نمازوں کی سنن میں اصل حضرت ام حبیبہؓ کی روایت ہے : آپ علیہ السلام نے ارشادفرمایا

من صلی ثنتی عشرة رکعة فی الیوم ،واللیلة،بنی اللہ لہ بیتافی الجنة ،اربعا قبل الظھر،ورکعتین بعدھا،ورکعتین بعدالمغرب، ورکعتین بعدالعشاء، ورکعتین قبل صلوة الفجرصلاة الغداة۔(ترمذی باب ماجاءفی من صلی ثنتی عشرة،۹۴/۱رقم:۴۱۵،وفی روایة مسلم :قالت ام حبیبة فماترکتھن منذسمعتھن الخ۔ (مسلم باب فضل السنن ۱۱۵۱،رقم: ۷۲۸)

جوشخص رات ودن میں بارہ رکعتوں کی پابندی کرے، اللہ تعالی ٰاس کے لئے جنت میں ایک گھرتعمیرفرماتے ہیں ،ظہرسے پہلے چاررکعت ،ظہرکے بعددورکعت ،مغرب سے پہلے دورکعت اورعشاءکے بعد دورکعت اورفجرسے پہلے دورکعت ، حضرت ام حبیبہؓ اوراس روایت کے رواة میں سے عنبسہ ،عمروبن اوس اورنعمان بن سالم فرماتے ہیں جب سے ہم نے یہ حدیث سنی ہے، اس کے بعدکبھی ان سنتوں کوترک نہیں کیاہے۔

ان سنتوں میں سب سے زیادہ مؤکدسنتِ فجرہے ،اس لئے کہ سنتِ فجرکے سلسلے میں ایسے بلیغ تاکیدات اورترغیبات منقول ہیں جو دیگرسنتوں کے متعلق نہیں ہیں۔

فجرکی سنت کی فضیلت

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا

رکعتاالفجرخیرمن الدنیا ومافیھا ۔(رواہ مسلم باب فضل رکعتی الفجر،۱۵۱/۱،رقم: ۷۲۵)

فجرکی دوسنتیں دنیا ومافیہا سے بہترہیں۔

حضر ت عائشہ ؓ کی ایک دوسری روایت میں مروی ہے

ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم لم یکن علی شیءمن النوافل معاھدة منہ علی رکعتین قبل الصبح ۔(رواہ مسلم ،باب تعاھدرکعتی الفجر،۱۵۱/۱،رقم :۷۲۴)

آپ علیہ السلام نوافل میں سنت فجرکا جتنااہتمام فرماتے تھے ،ایسااہتمام کسی دوسری نفل نماز کانہیں فرماتے تھے ۔

حضرت ابوہریرة ؓ سے روایت ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

لاتدعوھما ،وان طردتکم الخیل ۔(رواہ ابوداؤد،باب رکعتی الفجر۱۷۹/۱،رقم الحدیث:۱۲۵۸)

نماز فجرکی سنتوں کوترک نہ کرو،اگرچہ گھوڑے تمہیں روندڈالیں۔

حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشادفرماتے ہوئے سنا،آپ علیہ السلام نے فرمایا

لاتدعوالرکعتین قبل صلوة الفجر،فان فیھا الرغائب۔(مجمع الزوائد: ۳۳۰۳)

فجرکی سنتوں کو نہ چھوڑواس لئے کہ اس میں مرغوبا ت ہیں یعنی اجرعظیم وثواب جزیل ہے جن کی خواہش کی جاتی ہے ۔

سنت فجرکی خصوصیات

الف:آپ علیہ الصلوة والسلام نے سنت فجرسے متعلق بلیغ تاکیدات ارشادفرمائی ہیں،نیز بذات خودآپ علیہ الصلوة والسلام سفروحضرمیں اس کا غیرمعمولی اہتمام فرماتے تھے۔ ب:لاصلوة بعدالفجرحتی تطلع الشمس کی وجہ سے سنت فجرکی ادائیگی کا وقت فوت ہوجاتاہے ، ظہرکی سنت قبلیہ میں فرض نماز کی ادائیگی کے بعدبھی وقت باقی رہتا ہے ۔

ج:سنت کی قضاءنہیں ہے ؛مگرفرض کے تابع ہونے کی صورت میں(لہذاصرف سنت فجرکے فوت ہونے کی صورت میں قضاءممکن نہیں)۔(معارف السنن۷۴/۴)

اختلافِ ائمہ

ظہر،عصر،مغرب اورعشاءمیں جب مؤذن اقامت شروع کردے، تو سنت نمازیاکوئی نفل نماز شروع کرنا بالاتفاق درست نہیں ہے ،اگرنفل نماز شروع کردی ہے اورایک رکعت مکمل کرلی ہے، تو مزیدایک رکعت جلداداکرکے سلام پھیردے ،اگرپہلی رکعت کا سجدہ نہیں ہوا، تو اسی حالت میں سلام پھیرکرفرض نمازمیں شامل ہوجائے ؛لیکن فجرکی سنت میں علماءکا اختلاف ہے۔

علامہ شوکانی نے اس سلسلے میں علماءکے نواقوال اور مولانامحمدیوسف صاحب بنوری ؒ نے دس اقوال ذکرفرمائے ہیں،شوافع اورحنابلہ کراہت کے قائل ہیں،حافظ ابن عبدالبرؒ اقامت کے بعدکسی بھی نفل نمازکوبشمول سنت فجرشروع کرناناجائزکہتے ہیں۔

اصحاب ظواہراورغیرمقلدین احبا ب کہتے ہیں کہ جب مؤذن اقامت شروع کردے، تو کسی بھی نفل نماز کو اگرچہ وہ سنت ِفجرہی کیوں نہ ہو شروع کرنا جائز نہیں ہے ،اگرشروع کردے، تو نماز صحیح نہیں ہوگی،ابن رشدمالکی ؒنے” بدایة المجتہد“میں اختلافی اقوال ذکرکرنے کے بعدلکھا ہذاغلومنھم۔(بحوالہ اوجزالمسالک ۶۶۷/۲)

احناف کے نزدیک راجح قول

بقیہ چھ اقوال کے قائلین فجرکی اقامت شروع ہونے کے بعدبھی فی الجملہ سنت فجرکی ادائیگی کے قائل ہیں ،احناف اورمالیکہ کایہی مذہب ہے، احناف کے نزدیک راجح قول کے مطابق اگرسنت فجرکی ادائیگی کے بعد ایک رکعت ،ایک روایت کے مطابق قعدہ میں شرکت ہوسکتی ہے ،تو سنت کی ادائیگی ضروری ہے۔

امام مالک ؒ کے نزدیک خارج مسجد سنت اداکرنے کے بعد فرض کی دونوں رکعتیں پاسکتاہے ،تو سنت ضروری ہے ،”جلاب “کی روایت کے مطابق سنت فجر کی ادائیگی ضروری ہے، اگرچہ جماعت فوت ہوجائے ۔(ملخص :العرف الشذی ۹۷/۱،معارف السنن۷۲/۴)

اگردوسری رکعت ملناناممکن ہو،یاتشہدمیں شرکت ناممکن ہو،توایسی صورت میں سنت چھوڑدے اورجماعت میں شریک ہوجائے،اس فوت شدہ سنت کی قضاءیابدل امام ابوحنیفہؒ اورامام ابویوسفؒ کے نزدیک کچھ نہیں ہے؛البتہ امام محمد ؒ کے نزدیک طلوع شمس کے بعدسے زوال کے درمیان اداکرسکتاہے۔(ھدایہ)

غرض ایں کہ احناف کے نزدیک سنت کی ادائیگی کے بعد فجرکی نماز میں ایک رکعت یاکم ازکم تشہدمیں امام کے ساتھ شرکت ہوسکتی ہےاوراقامت ہوچکی ہے، توصفوف جماعت سے دوریا مسجد کے خارجی حصہ میں ،یامسجدبڑی ہو،تو مسجدکے کنارے ایسی جگہ اداکرے کہ جس سے امام وجماعت کی مخالفت کاخیال پیدانہ ہو،فرض ونفل نماز کے اختلاط کا شبہ پیدانہ ہو۔

نوٹ: بدایة المجتہدمیں ابن رشدمالکی ؒ نے تحریرفرمایاہے : فجرکی سنت کے سلسلہ میں مذکورہ اختلاف کی وجہ ”اذااقیمت الصلوة ،فلاصلوة الاالمکتوبة“ کی نص فہمی ہے ،جن لوگوں نے اس کی تخصیص کی ہے ان حضرات نے فرمایاکہ اقامت صلوة کے بعدسنت فجرکی نہی کی علت اتصال صفوف ،فرض ونفل کا اختلاط اورمخالفت امام وقوم ہے ،جن حضرات نے اس کے عموم پر عمل کیا ،ان حضرات نے نہی کی علت فرض سے اعراض اورنفل کی مشغولی قراردیاہے۔(بدایة المجتہد بحوالہ اوجزالمسالک۶۶۷/۲)

احناف کے دلائل

احناف نے مذکورہ قول مندرجہ ذیل وجوہ کی بناپراختیارکیاہے ۔ نمبر(۱)سنت فجرکے متعلق آپ علیہ الصلوة والسلام کی غیرمعمولی ترغیبات اورتاکیدات ،نیز آپ علیہ السلام کا سفروحضرمیں اس کا اہتمام۔ نمبر(۲)تکبیرافتتاح دنیاومافیہاسے بہترہے –

لہذانفل نماز اقامت شروع ہوجانے کے بعدشروع کرنادرست نہیں ہے ،سنت فجربھی دنیا ومافیہاسے افضل ہے، لہذاسنت فجردیگرفضائل کی وجہ سے تکبیرافتتاح سے افضل ہوگی، لہذا سنت فجرکو اداکرنا ضروی ہے، اگرچہ تکبیرافتتاح فوت ہوجائے۔(بدائع الصنائع ۶۴۰/۱)

نمبر(۳)اذااقیمت الصلوة فلاصلوة الاالمکتوبة یہ روایت تخصیص کا احتمال رکھتی ہے ،کہ اگرصاحب ترتیب جس کی عشاءیا وترکی نماز فوت ہوگئی ہو، تو اس کے لئے ان کی ادائیگی کے بعدہی فرض کی جماعت میں شرکت ہوسکتی ہے ،اس شخص کے لئے فائتہ نماز یانماز وترفجرکی اقامت کے بعد بالاتفاق مکروہ نہیں ہے۔

لہذا سنت فجرکی غیرمعمولی اہمیت کی بناپر سنت ِفجرکی بھی تخصیص کی جاسکتی ہے ،نیز عبادلہ ثلاثہ حضرت عبداللہ بن مسعود،حضرت عبداللہ بن عمر ،حضرت عبداللہ بن عباس اورحضرت ابوالدرداءرضی اللہ عنہم کے آثاروعمل ،حضرت حذیفہ ؓاورحضرت ابوموسی اشعری ؓ کا سکوت ،حضرت مسروق ؒاورحسن بصری ؒکےفتوے کی وجہ سے احناف نے اورمالکیہ نے اس روایت کے عموم سے سنتِ فجرکی تخصیص کی ہے ۔

عبادلہ ثلاثہ کا عمل

نمبر(۴)عن عبداللہ بن ابی موسی قال جاءنا ابن مسعود، والامام یصلی الصبح ،فصلی رکعتین الی ساریة ،ولم یکن صلی رکعتی الفجر۔(رواہ الطبرانی ، مجمع الزوائد ،رقم : ۲۳۹۲،ورجالہ موثوقون ،اعلاءالسنن۱۰۱/۷)

حضرت عبداللہ بن ابوموسی اشعری ؒ فرماتے ہیں : ہمارے پاس حضرت عبداللہ بن مسعودؓ تشریف لے آئے جبکہ امام نمازِ فجرپڑھارہے تھے اور آپ ؓ نے فجرکی سنت ادانہیں کی تھی،حضرت ابن مسعودؓ ایک ستون کے قریب کھڑے ہوئے اورفجرکی سنت اداکی ۔

فائدہ: اس روایت سے معلوم ہواکہ فجرکی سنت اقامت کے بعدداخلِ مسجدبھی صفوف ِجماعت سے الگ پڑھ سکتے ہیں اورپڑھنا چاہئے ،اگراقامت کے بعدفجرکی سنت پڑھنا ناجائز ہوتا، تو حضرت ابن مسعودؓ ہرگز نہ پڑھتے ۔

حضرت ابن عمرؓکاعمل

نمبر(۵)عن مالک بن مغول قال سمعت نافعا یقول: ایقظت ابن عمرؓلصلوة الفجر،وقداقیمت الصلوة فقام فصلی رکعتین۔(رواہ الطحاوی رقم:۲۲۰۳) واسنادہ حسن ،آثارالسنن ،(اعلاء السنن ۱۰۲/۷)

حضرت نافع ؒ فرماتے ہیں: میں نے حضرت ابن عمرؓ کوفجرکی نماز کے لئے بیدارکیا ،آپ نے فجرکی سنت ادانہیں فرمائی تھی اورجماعت کھڑی ہوچکی تھی ، آپ نے اولاسنت ادافرمائی،بعدازاں جماعت کی نماز میں شرکت فرمائی۔

فائدہ:اس روایت سے معلوم ہواکہ فجرکی اقامت کے بعد سنت پڑھناجائز ہے ،اگرجائز نہ ہوتا ،تو حضرت ابن عمر جو ممانعت کی روایت کے بھی راوی ہیں ہرگز سنت نہ پڑھتے ۔

نمبر(۶)عن ابی عثمان الانصاری قال جاءعبداللہ بن عباس ؓ، والامام فی صلوة الغداة ،ولم یکن صلی الرکعتین، فصلی عبداللہ بن عباسؓ الرکعتین خلف الامام، ثم دخل معھم ۔ (رواہ الطحاوی،رقم:۲۲۰۱، واسنادہ حسن، ،اعلاءالسنن۱۰۲/۷)

حضرت ابن عباس ؓ حاضرہوئے جبکہ امام فجرکی نمازمیں مشغول تھے ،آپ نے سنت ادانہیں فرمائی تھی ،امام کے پیچھے (صفوف سے دور)سنت اداکرنے کے بعدامام کے ساتھ شرکت فرمائی ۔

حضرت ابوالدرداءؓاورحضرت ابوموسی اشعریؓ کا عمل

نمبر(۷)عن ابی الدرداءؓانہ کان یدخل المسجد،والناس صفوف فی صلاة الفجر،فیصلی الرکعتین،فی ناحیة المسجد،ثم یدخل مع القوم فی الصلوة۔(رواہ الطحاوی،۲۲۰۵، واسنادہ حسن ،آثارالسنن ،اعلاءالسنن۱۰۶/۶)

حضرت ابوالدرداءؓ فجرکی نماز میں حاضرہوتے؛ جبکہ لوگ صفوں میں ہوتے (اوراگرآپ نے سنت نہ اداکی ہوتی تو)مسجدکے کنارہ سنت ادافرماتے پھرجماعت کی نمازشرکت فرماتے ۔

نمبر(۸)عن حارثة بن مضرب ان ابن مسعود،واباموسی خرجامن عندسعیدبن العاص ،فاقیمت الصلوة ،فرکع ابن مسعودرکعتین،ثم دخل مع القوم فی الصلوة ،واماابوموسی فدخل الصف،رواہ ابوبکربن شیبة فی مصنفہ،واسنادہ صحیح،واثارالسنن،وفیہ ایضا فی طریق اخری فجلس ابن مسعودؓالی اسطوانة من المسجد،فصلی الرکعتین ثم دخل فی الصلاة رواہ الطحاوی ،۲۱۹۸،والطبرانی ،وفی اسنادہ لین ۔(اعلاءالسنن۱۰۷/۷)

حضرت حارثہؒ فرماتے ہیں: حضرت ابن مسعودؓ اورحضرت ابوموسی اشعریؓ حضرت سعیدبن العاص کے پاس سے فجرکی نماز کے لئے نکلے ،حضرت عبداللہ بن مسعودؓسنت فجرادافرماکرجماعت میں شریک ہوئے اورحضرت ابوموسی سیدھے جماعت میں شریک ہوگئے ۔

فجرکی اقامت کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعودنے سنت پڑھی ،حضرت حذیفہ اور ابوموسی اشعری نے حضرت ابن مسعودسے کوئی استفسارنہیں کیا؛ بلکہ سکوت اختیارکیاجو حضرت ابن مسعود کے عمل کی موافقت وتائیدپردلالت کرتاہے۔

فائدہ: یہ تمام روایات ہمارے مدعی ومقصود پردلالت کرنے میں واضح ہیں ۔

آثارتابعین

نمبر(۹)عن ابی عثمان النھدی قال کنا ناتی عمربن الخطاب قبل ان نصلی الرکعتین قبل الصبح ،وھوفی الصلاة ،فنصلی فی آخرالمسجد،ثم ندخل مع القوم فی صلاتھم۔رواہ الطحاوی(۲۲۰۸) واسنادہ حسن ،اثارالسنن ۔(اعلاءالسنن۱۰۷/۷)

اس روایت سے معلوم ہواکہ کبارتابعین کبارصحابہ کی موجودگی میں فجرکی اقامت کے بعد فجرکی سنت مسجدکے ایک گوشہ میں اداکرتے تھے ،ان پرحضرت عمر اوردیگرصحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نکیرنہیں فرماتے تھے ۔

فائدہ: اس روایت سے معلوم ہواکہ خلفاءراشدین کے زمانہ میں فجرکی جماعت کھڑ ےہوجانے کے بعدبھی جولوگ دیرسے مسجدمیں حاضرہوتے ،وہ سنت پڑھ کر جماعت میں شریک ہوتے تھے اورحضرات صحابہ اس پرنکیرنہیں فرماتے تھے۔

نمبر(۱۰)عن الشعبی قال کان مسروق یجیءالی القوم، وھم فی الصلاة ،ولم یکن رکع رکعتی الفجر،فیصلی الرکعتین فی المسجد،ثم یدخل مع القوم فی صلاتھم ۔ر واہ الطحاوی واسنادہ صحیح،وفی لفظ لہ قال فی ناحیة المسجد،اثارالسنن (اعلاءالسنن۱۰۸/۷)

حضرت مسروق اورحسن بصری وغیرہ تابعین سے اقامت کے بعدفجرکی سنت پڑھنے کا معمول اورفتوی منقول ہے۔

نمبر(۱۱)عن الحارث عن علی ؓ قال کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یصلی الرکعتین عندالاقامة ۔رواہ ابن ماجة،۱۱۴۷، فی باب فی رکتعین قبل الفجر،وفیہ الحارث ضعفہ بعضھم ،ووثقہ آخرون ،وھوحسن الحدیث کما مرغیرمرة ،وبقیةرجالہ ثقات۔(اعلاءالسنن۱۰۸/۷)

فائدہ:یہ روایت فجرکی اقامت کے بعدسنت کی ادائیگی پرصراحة ًدلالت کرتی ہے؛لیکن یہ روایت ضعیف ہے؛البتہ تائیدکے لئے کافی ہے۔

اصحاب ظواہروغیرمقلدین کے دلائل اوران کے جوابات

نمبر(۱)عن ابن عباس قال اقیمت الصلوة ،فقمت اصلی رکعتین ،فجذبنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،فقال اتصلی الصبح اربعا ۔رواہ الحاکم فی مستدرکہ وقال صحیح علی شرط مسلم،۱۱۵۴،و البیھقی،باب کراھیة الاشتغال بھما،۱۶۲/۳ ،۲۴۶۹، والبزار،وابویعلی وابن خزیمة وابن حبان فی صحیحھما ،۹۶۴۲۔(اعلاءالسنن۱۰۴/۷)

اس روایت سے معلوم ہواکہ فجرکی اقامت کے بعد نفل شروع کرنے والوں پراللہ کے نبی علیہ السلام نے نکیرفرمائی ہے ۔

جواب:عن ابی عثمان الانصاری قال جاءعبداللہ بن عباس ؓ، والامام فی صلوة الغداة ،ولم یکن صلی الرکعتین، فصلی عبداللہ بن عباسؓ الرکعتین خلف الامام ،ثم دخل معھم ۔(رواہ الطحاوی،رقم:۲۲۰۱، واسنادہ حسن، ،اعلاء السنن۱۰۲/۷)

فائدہ: اس روایت سے معلوم ہواکہ آپ علیہ السلام کا حضرت ابن عباس ؓ کو نمازکھڑی ہونے کے بعدفجرکی سنت اداکرنے سے منع فرمانے کی وجہ اقامت نہیں ہے؛ بلکہ اتصال صفو ف ہے ،یہی وجہ ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے آپ علیہ السلام کی اس نکیرکو اسی پرمحمول فرمایاہے ۔

اگروہی عمومی مطلب مراد ہوتاجوکہ اصحاب ظواہر وغیرمقلدین نے سمجھاہے،توحضرت ابن عباسؓ ہرگز جماعت کھڑی ہوجانے کے بعد سنت ادانہ فرماتے ،نیز جب صحابی کی روایت اورعمل میں تعارض ہوجائے تو راوی کاعمل حجت ہوتاہے،لہذا اصول حدیث کی روسے حضرت ابن عباس ؓ کے عمل کو لیاجائے گا اورروایت میں تخصیص کی جائے گی۔(ملخص: ازاعلاءالسنن۱۰۵/۷)

اذااقیمت الصلوة ،فلاصلاة الالمکتوبة

نمبر(۲)عن ابی ھریرة ؓ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :اذااقیمت الصلوة ،فلاصلاة الالمکتوبة ۔ رواہ مسلم باب کراہیةالشروع فی النافلة ،رقم:۷۱۰واصحاب السنن وراوہ البخاری تعلیقا)

اس روایت سے معلوم ہواکہ کسی بھی نماز کے لئے جب اقامت ہوجائے ،تو نفل نماز صحیح نہیں ہے ۔

جواب: یہ روایت عام مخصوص منہ البعض ہے ،سنتِ فجراس سے مستثنی ہے ،تخصیص کی وجوہ وقرائن مندرجہ ذیل ہیں (الف)سنت فجرکی فضیلت واہمیت ا ورتاکیدمیں بے شمارروایات واردہوئی ہیں،اس بناپرتخصیص ضروری ہے ۔

(ب)اکابروجلیل القدرصحابہ کا عمل ، حضرت عمراورکابرصحابہ کی موجودگی میں صحابہ وتابعین کااقامت صلوة کے بعدسنت فجراداکرنا ،اگرسنت فجرمستثنی نہ ہوتی تواکابروجلیل القدرصحابہ کرام منشاءنبوت کے خلاف ہرگز عمل نہ کرتے، ان حضرات صحابہ نے دیگرقرائن واحادیث کی روشنی میں سب سے پہلے تخصیص کی ہے ۔

ج:حضرت ابن عباس ؓ سے ممانعت کی روایت کرنا، پھراپنی روایت کے خلاف عمل کرنا،یہ بھی تخصیص کی دلیل ہے ۔

د:احادیث میں تطبیق اورفضائل کی تکمیل کے لئے تخصیص ضروری ہے تاکہ احادیث میں جمع اورفضائل کا استیفاءہوجائے ۔(معارف السنن۷۴/۴)

(ہ)حدیث باب میں کئی احتمالات ہیں (الف)سنت فجرکے علاوہ نفل درست نہ ہو،(ب)جس جگہ جماعت کھڑی ہوچکی ہو، صرف اس جگہ ممانعت ہو،(ج)ممانعت اس شخص کے لئے ہو مکمل طورسے جس کی جماعت فوت ہوجائے وغیرہ احتمالات خودتخصیص پردلالت کررہے رہیں۔(ملخص :ازمعارف السنن۷۴/۴)

(و)یہ روایت مرفوعاًوموقوفادونوں طریق سے مروی ہے ،اسی وجہ سے امام بخاری نے اس روایت کو تعلیقًاذکرکیاہے ،شارحین بخاری نے اس بات کا اعتراف کیاہے ،اکثرمحدثین نے اس روایت کے موقوف ہونے کوترجیح دی ہے ،اگرمرفوعًاہونابھی ثابت ہوجائے ،تو اس کا رفع قطعی نہیں ہوگا ،لہذااس روایت سے استدلال درست نہیں ہے ۔(معارف السنن۷۴/۴،اوجز۶۶۸/۲)

اذااقیمت الصلوة ،فلاصلوة الاالمکتوبۃ

نمبر(۳)عن ابی ھریرة ؓ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم :اذااقیمت الصلوة ،فلاصلوة الاالمکتوبہ ،قیل یارسول اللہ! ولارکعتی الفجر،قال ولارکعتی الفجر۔بیھقی باب کراھیة الاشتغال بھما۱۶۴/۳،رقم:۴۵۵، ،اسنادہ حسن (اعلاء السنن۱۱۱/۷)

فائدہ: اس روایت سے معلوم ہواکہ فجرکی سنت بھی جب اقامت ہوجائے ،تو صحیح نہیں ہے ۔ جواب:اس روایت کا ایک راوی مسلم بن خالدہے جوعمروبن یحی سے روایت کرتاہے ،مسلم بن خالدمتکلم فیہ راوی ہے اورعمرو بن یحی کا حال شاگردسے زیادہ خراب ہے، ابن عدی نے اس روایت کو یحی بن نصرکے مناکیرمیں ذکرکیاہے ۔(اعلاءالسنن۱۱۲/۷)

حضرت علامہ انورشاہ کشمیریؒ فرماتے ہیں: ولارکعتی الفجرکی زیادتی مسلم بن خالدنے کی ہے ،حافظ ابن حجرؒ نے ”فتح الباری“ میں اس روایت کو حسن قراردیاہے ،علامہ سیوطیؒ نے ”التوشیح علی البخاری “میں اس کو صحیح قراردیاہے ۔

حضرت شاہ فرماتے ہیں: مجھے تعجب ہے کہ حافظ ابن حجرؒ نے اس روایت کوکیسے حسن کہہ دیا ہے ؟ اس لئے کہ ابن عدی” الکامل“ میں راوی کی منکرروایات ذکرکرتے ہیں اوریحی بن نصرمتکلم فیہ راوی ،نیز حضرت شاہ فرماتے ہیں : یہ جزءا راوی کاادراج ہے ۔(العرف الشذی مع الترمذی ۹۹/۱)لہذااس مدرج کلام سے استدلال درست نہیں ہے۔

مدرج کلام سے استدلال درست نہیں

امام بیہقیؒ نے اس روایت کی سندپرکلام فرماتے ہوئے ذکرکیاہے کہ اس ٹکڑے کوصرف یحی بن نصرنے بیان کیا ہے ۔ امام بیہقیؒ حجاج بن نصیرعن عبادبن کثیرعن عمروبن دینارکی سندسے یہ روایت اس طرح بھی نقل کی ہے

عن ابی ھریرة ؓ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم :اذااقیمت الصلوة ،فلاصلوة الاالمکتوبہ ،الارکعتی الصبح۔بیھقی باب کراھیة الاشتغال بھما۱۶۴/۳،رقم:۴۵۵)

فائدہ:اس روایت سے بعض احناف نے اقامت کے بعد فجرکی سنت کے جواز پر استدلال کیاہے؛لیکن حجاج بن نصیراورعبادبن کثیر یہ دونوں راوی ضعیف ہیں، جس کی وجہ سے یہ قابل استدلال نہیں ہے اور بیہقی ؒ نے بھی اس کی صراحت کی ہے ،حضرت شاہ فرماتے ہیں مذکورہ دونوںزائداجزاءمدرج ہیں۔ (العرف الشذی ۹۹/۱)

اقیمت الصلوة ،فرای ناسایصلون بالعاجلة،فقال : اصلاتان

نمبر(۳)عن انسؓ خرج النبی صلی اللہ علیہ وسلم حین اقیمت الصلوة ،فرای ناسایصلون بالعاجلة،فقال : اصلاتان معا؟،فنھی ان تصلیا فی المسجداذااقیمت الصلوة ،(اخرجہ ابن خزیمة :رقم:۱۱۲۶۔اعلاءالسنن۱۱۰/۷)

آپ علیہ السلام نے چندلوگوں کو(بظاہراقامت سے پہلے) دیکھا کہ جلد جلدنماز پڑھ رہے ہیں ،آپ علیہ السلام نے فرمایا: کیا ایک ساتھ دونمازیں؟پھرآپ علیہ السلام نے اقامت کے بعد مسجدمیں فجرکی سنت پڑھنے سے منع فرمادیا۔

جواب: اس روایت میں فجرکی سنت کو مطلق اداکرنے سے منع نہیں کیاگیاہے ؛بلکہ داخل مسجداداکرنے سے منع کیا گیاہے جو احناف کا مذہب ہے ۔

نمبر(۴)روی عن عمربن الخطاب انہ کان اذارای رجلایصلی وھویسمع الاقامة ضربہ۔(بیھقی باب کراھیة الاشتغال بھما ۱۶۴/۳)

حضرت عمر ؓ جب کسی شخص کواقامت سننے کی حالت میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ،تو اس کی پٹائی کرتے۔

جواب: یہ روایت بلاسندہونے کی وجہ سے حجت نہیں ہے ،اگرثابت بھی ہوجائے ،تو یہ تنبیہ فجرکی علاوہ نمازوں سے متعلق ہوسکتی ہے ،نیز اس شخص کے لئے بھی ہوسکتی ہے جو اتصال صفوف یا داخل مسجدبلاحائل وغیرہ صورتوں میں نماز اداکرے۔ (اعلاءالسنن۱۰۷/۷)

نمبر(۵)عن عبداللہ بن سرجسؓقال دخل رجل المسجد،ورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی صلاة الغداة ،فصلی رکعتین فی جانب المسجد،ثم دخل المسجدمع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،سلم النبی صلی اللہ علیہ وسلم ،قال : یافلان! بای الصلاتین اعتدت ؟ بصلاتک وحدک ام بصلاتک معنا۔(مسلم باب صلاة المسافرین۴۷/۱رقم:۷۱۱)

حضرت عبداللہ بن سرجسؓ فرماتے ہیں:آپ علیہ الصلوة والسلام نمازفجرمیں تھے ،ایک شخص مسجدمیں حاضرہوئے اورمسجدکے ایک کنارہ سنت پڑھی ،آپ علیہ السلام نے سلام پھیرااورفرمایا :اے فلاں تم کس نماز کو(فرض) شمارکروگے ؟تم نے جوانفرادی نماز پڑھی ہے، وہ فرض ہے ؟یا ہمارے ساتھ جونماز پڑھی ہے وہ فرض ہے ؟

فائدہ: اس روایت میں اقامت صلاة کے بعدمسجدکے گوشہ میں بھی سنت فجراداکرنے سے منع فرمایا ہے۔

قداقیمت الصلوة یصلی الرکعتین

نمبر(۶)عن عبداللہ بن بجینةؓ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رای رجلا، وقداقیمت الصلوة یصلی الرکعتین، فلماانصرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لاث بہ الناس ،فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :الصبح اربعا،الصبح اربعا؟۔(بخاری،رقم:۶۶۳،۹۱/۱وفی روایة مسلم :رقم:۷۱۱)

مربرجل یصلی وقداقیمت صلاة الصبح،فکلمہ بشیء لاندری ماھو؟فلماانصرفنااحطنابہ نقول: ماذاقال لک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؟قال ،قال لی : یوشک احدکم ان یصلی الصبح اربعا،۔(اعلاءالسنن۱۱۸/۷)

حضرت عبداللہ بجینہ فرماتے ہیں:آپ علیہ الصلوة والسلام نے ایک شخض کوجواقامت (فجر) کے بعد سنت پڑھ رہاتھادیکھا، جب آپ علیہ السلام نے سلام پھیرا ،تولوگوں نے اس شخص کوگھیرلیااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا:کیاتم صبح کی نماز چاررکعت پڑھوگے؟

مسلم شریف کی روایت میں ہے :آپ علیہ السلام کا گزرایک شخص پرسے ہواجواقامت کے بعدنماز پڑھ رہاتھا،اللہ کے نبی علیہ السلام نے اس آدمی سے کچھ فرمایا، جس کوہم سمجھ نہیں سکے ،نماز کے بعدہم نے اس شخص سے پوچھاکہ آپ علیہ السلام نے تم سے کیافرمایا؟تو اس شخص نے کہا ،آپ علیہ السلام نے فرمایا:قریب ہے کہ تم میں سے کوئی آدمی فجرکی نماز چاررکعت پڑھنے لگے ۔

اذااقیمت صلاة الصبح، فقام رجل یصلی

نمبر(۷)عن ابن عباس ؓ اذااقیمت صلاة الصبح، فقام رجل یصلی ،فجذب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بثوبہ ،وقال:اتصلی الصبح اربعا؟(رواہ احمدرقم:۲۱۳)ورجالہ رجال الصحیح کمافی مجمع الزوائد۔(اعلاءالسنن۱۱۸/۷)

حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں:صبح کی اقامت ہوچکی تھی ،ایک شخص کھڑے ہوکرنمازپڑھنے لگے ،آپ علیہ السلام نے اس کے کپڑے کوپکڑکرکھینچااورفرمایا :کیا تم صبح کی نماز چاررکعت پڑھوگے؟

جواب:مذکورہ تینوں روایات میں داخل ِمسجدنماز پڑھنے کی ممانعت ،فرض ونفل کے درمیان اشتباہ کا اندیشہ ،اتصالِ صفوف اورامام ومقتدیوں کی مخالفت ہے جو،الصبح اربعا،الصبح اربعا؟یوشک احدکم ان یصلی الصبح اربعا سے واضح طورپر سمجھ میں آتاہے ،نیز حضرت ابن عباسؓ جو اس روایت کے راوی ہیں،خودانھوں نے بھی یہی مطلب سمجھاہے،یہی وجہ ہے کہ انھوں خارج ِمسجدیا ناحیة المسجد میں سنت فجرادافرمائی ہے۔(ملخص:ازاعلاءالسنن۱۱۹/۷)

اقیمت الصلوة ،فصلیت معہ الصبح

عن قیس ؓخرج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،فاقیمت الصلوة ،فصلیت معہ الصبح ،ثم انصرف النبی صلی اللہ علیہ وسلم،فوجدنی اصلی فقال:مھلایاقیس!اصلاتان معا؟قلت :یارسول اللہ ! انی لم اکن رکعت رکعتی الفجر،قال فلا،اذً ۔(الجامع الترمذی۹۶/۲رقم:۴۲۲)

حضرت قیسؓ فرماتے ہیں: آپ علیہ السلام باہرتشریف لے آئے ،اقامت ہوچکی تھی ،میں نے آپ علیہ السلام کی اقتداءمیں نمازاداکی،پھرآپ علیہ السلام نے مجھے دیکھاکہ میں نماز پڑھ رہاہوں،توآپ نے فرمایا:اے قیس رک جاو،میں نے عرض کیا ،یارسول اللہ! میں نے فجرکی سنت نہیں پڑھی تھی ،آپ علیہ السلام نے فرمایا : تب بھی نہیں پڑھنا چاہئے ۔

حضرت شاہ ؒ فرماتے ہیں:انکارہ علیہ السلام مثل ھذاالانکارثابت علی من شرع بعدالاقامة ،وقبل الاقامة ،وبعدالفراغ من الفریضة،فیماسیاتی فعلم ان مناط الحکم لیس علی مازعمتم بل شیءآخر،وھوعدم الفصل مکانا،والخلط مع الصفوف۔(العرف الشذی مع الترمذی ۹۰/۱)

حضرت شاہ ؒ فرماتے ہیں کہ آپ علیہ الصلوة والسلام نے اس شخص پر بھی نکیرفرمائی ہے جواقامت کے بعدنماز شروع کرے، یااقامت کے قریب نمازشروع کرے یا فرض نماز کے بعدفجرکی سنت اداکرے ۔

اقامت کے بعد نفل شروع کرنے کی ممانعت کی علت اقامت صلوة نہیں

ان تمام روایات سے معلوم ہواکہ اقامت کے بعد نفل شروع کرنے کی ممانعت کی علت اقامت صلوة نہیں؛بلکہ کوئی اور چیز ہے جوان تینوں صورتوں میں مشترک ہے،اس لئے کہ نکیراقامت سے پہلے ،اقامت کے بعد؛بلکہ فرض کے بعدبھی ثابت ہے، تومعلوم ہوا کہ ممانعت کی علت اتحادِمکان اورصفوف صلاة سے اتصال ہے ،لہذا اگریہ دوباتیں وجودنہ ہوں،توکراہت بھی ختم ہوجائے گی ۔

نوٹ: مراجع العرف الشذی ،معارف السنن،اوجز المسالک ،اعلاءالسنن ہیں،سب سے مفصل بحث اعلاءالسنن میں ہے ،جس میں علامہ ظفراحمدتھانوی عثمانی نے شمس الحق عظیم آبادی کی کتاب ”اعلام اھل العصر“کا خوب جائزہ لیاہے ،ان کے استدلالات فاسدہ کی خوب تردید کی ہے ۔

فرض نماز کے بعدفوت شدہ سنت کی قضاءیا بدل نہیں

(۱)ن قیس ؓخرج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،فاقیمت الصلوة ،فصلیت معہ الصبح ،ثم انصرف النبی صلی اللہ علیہ وسلم،فوجدنی اصلی فقال:مھلایاقیس!اصلاتان معا؟قلت :یارسول اللہ ! انی لم اکن رکعت رکعتی الفجر،قال فلا،اذً ۔(الجامع الترمذی۹۶/۱رقم:۴۲۲)

حضرت قیسؓ فرماتے ہیں: آپ علیہ السلام باہرتشریف لے آئے ،اقامت ہوچکی تھی ،میں نے آپ علیہ السلام کی اقتداءمیں نمازاداکی،پھرآپ علیہ السلام نے مجھے دیکھاکہ میں نماز پڑھ رہاہوں،توآپ نے فرمایا:اے قیس رک جاؤ،میں نے عرض کیا ،یارسول اللہ! میں نے فجرکی سنت نہیں پڑھی تھی ،آپ علیہ السلام نے فرمایا : تب بھی نہیں پڑھنا چاہئے ۔ اس روایت میں رسول اللہ علیہ وسلم نے نمازفجرکے بعد سنت ِفجراداکرنے سے منع فرمایاہے۔

لاصلوة بعدالفجرحتی تطلع الشمس (متفق علیہ ) یہ روایت معنَی متواترہے،لہذانماز فجرکے بعدکوئی بھی نفل نمازحتی کہ فوت شدہ سنت پڑھنا درست نہیں ہے ۔ عبداللطیف قاسمی ،خادم تدریس جامعہ غیث الہدی بنگلور ۳/صفرالمظفر۱۴۳۶ھ ۲۰۱۴/۱۱/۲۷