فخرالمحدثین حضرت مولاناسیدفخرالدین احمد صاحب مرادابادی ؒ: آپ کا اسم گرامی سیدفخرالدین احمد بن جناب حکیم سیدعالم بن منشی سیدعبدالکریم ہے ،آپ کا سلسلہ نسب بتیس واسطوں سے حضرت حسن بی علی بن ابی طالب ؓ سے جاملتاہے ۔
آپ کا خاندان ہرات ،لاہوراورملتان ہوتے ہوئے شاہ جہاں کے دورمیں دہلی پہنچا،آپ کے آباءواجدادمیں سیدقطب اورسیدعالم ممتاز علماءمیں سے تھے ،شاہ جہاں جو ایک علم پروراوربزرگوں سے عقیدت ومحبت رکھنے والاشہنشاہ تھا ،اس نے سیدقطب اورسیدعالم کے درس وتدریس کے لئے ہاپوڑ میں ایک مدرسہ اوران کے مکانات تعمیرکراکے دیا جس مدرسہ میں یہ حضرات نے تعلیم شروع کرائی،اس طرح یہ خاندان ہاپوڑمیں آبادہوگیا ، آپ کے دادا منشی سیدعبدالکریم صاحب محکمہ پولیس میں ملاز مت کے پیش نظراجمیرصوبہ راجستھان میں قیام پذیرتھے، اسی زمانہ میں ۱۳۰۷ھ م ۱۸۸۹ءشہراجمیر میں فخرالمحدثین کی ولادت ہوئی،آپ نے مدرسہ شاہی مراداباد میں نصف صدی تدریسی خدمات انجام دی ہیں اورمرادابادہی میں مقیم تھے، اس وجہ سے آپ کو مرادابادی کہاجاتاہے ۔ (مقدمہ ایضاح البخاری ۱۹/۱)
ابتدئی تعلیم
قاعدہ اورناظرہ قرآن مجید والدہ سے پڑھا ، اردو اورفارسی کی ابتدائی کتابیں بھی گھرکے افرادہی سے پڑھیں اور فارسی کی اونچی کتابیں اپنے نانا مظفرعلی صاحب سے پڑھیں ،اس کے بعد اپنے علاقہ کے مدرسہ مدرسہ منبع العلوم گلاؤٹھی ضلع بلندشہرتعلیم حاصل کی، اس کے بعد تھوڑا عرصہ بڑے بھائی جناب نصیرالدین صاحب کے ہمراہ دہلی میں تعلیم حاصل کی ، بڑے بھائی نمونیہ کے مرض میں مبتلاہوکر انتقال کرگئے ، اس حادثہ کی بناپر والدہ بھی اسی مرض اورغم میں مبتلاہوکر تین دن کے بعد انتقال کرگئیں ، والدہ کی وفات کی خبرسن کر حضرت کے دادا صرف ایک گھنٹہ کی وقفہ میں انتقال کرگئے ، والدصاحب ان حوادث کی تاب نہ لا کر تین دن کے بعد انتقال کرگئے ، حضر ت فخرالمحدثین کے لئے حالات سنگین ہوگئے دوچھوٹے بھائیوں کی کفالت دوپھوپیوں نے کی اور تعلیمی سلسلہ تقریبا موقوف ہوگیا۔(مقدمہ ایضاح البخاری ۲۱/۱)
دارالعلوم دیوبند میں داخلہ
اسی عرصہ میں جامع مسجد ہاپوڑمیں ایک مدرسہ کھولاگیا جس میں آپ نے تھوڑا عرصہ تعلیم حاصل کی ،اسی دوران آپ کے ماموں جناب سید اسماعیل صاحب نے سرپرستی فرماتے ہوئے آپ کو دارالعلوم دیوبند بھیج دیاہے ،حضرت فخرالمحدثین ۱۳۲۶ھ کو انیس سال کی عمر میں دارالعلوم پہنچے ،حضرت شیخ الہند ؒ نے داخلہ کے لئے مشکوة اورہدایہ آخرین کا امتحان لیا اورفرمایا تم دورہ کی کتابیں دوسال میں پڑھو،چنانچہ حضرت الاستاذ نے دورہ کی کتابوں کے ساتھ مختلف علوم وفنون کی کتابیں پڑھ کر ۱۳۲۸ھ میں فراغت حاصل کی ۔(مقدمہ ایضاح البخاری ۲۱/۱)
درس وتدریس
فراغت کے معًا بعداساتذہ کرام نے آپ کو دارالعلوم دیوبند میں تدریس کے تقررفرمالیا ،کچھ عرصہ بعد آپ کو۱۳۲۹ھ میں حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب نے دارالعلوم دیوبند کی طرف سے مدرسہ شاہی مراداباد روانہ فرمایا،اولًا آپ سے ابوداؤد ،جلالین ، شرح عقائد ،میبذی اورملاحسن متعلق کی گئیں،مدرسہ شاہی مراداباد میں حضرت نے تقریبا اڑتالیس (۴۸)سال تدریسی خدمات انجام دیں ، آپ کی استعدادکی پختگی اورقابلیت کی وجہ سے مختلف مدارس سے بڑی بڑی تنخواہ کے ساتھ دعوت دی گئی ؛ لیکن آپ نے ہرایک سے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ میرے بزرگوں نے مجھے شاہی مرادابادروانہ کیا ہے ،ان کی ایماءکے بغیر کسی اورجگہ جانے کے لئے تیارنہیں ۔(مقدمہ ایضاح البخاری ۲۴/۱)
دارالعلوم دیوبند میں تدریس اورمنصب صدارت
۱۹۴۲ءشیخ الاسلام حضرت مولاناسیدحسین احمدمدنی علیہ الرحمة مرادابادجیل میں محصور تھے ،اس وقت حضرت مدنی اور اکابردارالعلوم کے حکم سے دارالعلوم دیوبند تشریف لاکر بخاری شریف کا درس دیا ۔(ایضاح البخاری ۲۴/۱)
۱۹۴۵ءمیں حضرت مدنی ؒ نے کسی اہم کا م کے لئے دارالعلوم سے پانچ ماہ کی رخصت لی ،حضرت فخرالمحدثین ؒ کو اس عرصہ میں ترمذی شریف پڑھانے کے لئے بلالیاگیا،آپ نے ترمذی شریف کاردس یا،ان دونوں موقعوں پر آپ کوقائم مقام صدرالمدرسین بنایاگیا۔
تیسری مرتبہ۱۳۷۷ھ مطابق ۱۹۵۷ءشیخ الاسلام حضرت مدنی صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند کے وصال کے بعد مستقل طورسے دارالعلوم دیوبند میں شیخ لحدیث بنادیاگیا، آخرعمر تک پوری علمی شان وشوکت کے ساتھ بخاری شریف کا درس دیا ، ۱۳۸۷ھ میں علامہ ابراہیم بلیاوی ؒ کے بعد آپ کو صدالمدرسین بھی بنادیاگیا ۔(مقدمہ ایضاح البخاری ۲۵/۱)
علمی شان ومقام
آپ قابل وجیدالاستعداد عالم دین تھے ، حضرت شیخ الہند ؒ اورعلامہ انورشاہ ؒ سے علم حاصل کیا تھا ، اکابرکو آپ کی استعداداورقابلیت پر مکمل اعتمادواطمینا ن تھا ،یہی وجہ ہے کہ مردم شناس مہتمم حضرت مولاناحبیب الرحمن صاحب عثمانی ؒ نے آپ کے فراغت کے فورًا بعد دارالعلوم میں مدرس اورایک سال کے بعد مدرسہ شاہی مراداباد کے درجہ علیاکا استاذ مقررفرمادیا ۔(حصرت مفتی سعید احمد صاحب رحمہ اللہ سے بندہ نے براہ رست یہ باتیں سنی ہیں)
حضرت مدنی علیہ الرحمة نے اپنی زندگی میں دومرتبہ آپ کو دارالعلوم میں درس حدیث اور صدرمدرسی میں قائم مقام بنایا اور جب مرض الوفات میں مبتلاہوئے ،تو حضرت مدنیؒ نے تین ماہ قبل بخاری شریف کا درس سپرد کیا ،وفات کے بعد اراکین شوری نے آپ کومستقل طورپردارالعلوم کا شیخ الحدیث مقررکردیا۔
درس بخاری کا انداز
مولاناممدوح حضرت شیخ الہند ؒ اورعلامہ انورشاہ کشمیری ؒ کے خاص تلامذہ میں سے تھے، اس لئے آپ کے درس میں دونوں جلیل القدر اساتذہ کے رنگ کی آمیزش پائی جاتی تھی۔
الف: آپ کا درس بخاری نہایت مبسوط ،مفصل اوردل نشین ہوتاتھا ،حدیث کے تمام پہلوو¿ں پر سیرحاصل ہوتی تھی ۔
ب: اختلاف مذاہب اوردلائل کے ذکرکے بعد احناف کے فقہی مسلک کی تائید وترجیح کی وضاحت میں ایسے پرزوردلائل پیش فرماتے کہ سامع کا ذھن مطمئن ہوجاتاتھا۔
ج:درس بخاری میں محدثین کی تشریحات، اساتذہ کرام کے علوم ومعارف اورکتبِ حدیث متداولہ اورغیرمتدولہ کاخلاصہ مذکورہوتا ۔
د:اندازہ بیان نہایت پاکیزہ وشستہ تھا ،اس وجہ سے آپ کے درس بخاری کو شہرت تام اورقبول عام حاصل تھا۔(ملخص ازتاریخ دارالعلوم ۱۰۷/۱)
ایسا بامحاورہ ترجمہ کرتے کہ لطف آجاتااورچٹخارہ حاصل ہوتا
مولانا برہان الدین سنبھلی رحمة اللہ تحریرفرماتے ہیں:حضرت مولانا سیدفخرالدین احمد علیہ الرحمة کے درس میں یہ سعی ( ترجمة الباب کی تشریح )غایت درجہ اہتمام سے کی جاتی اوربالخصوص جلد اول کی تدریس کے وقت موصوف رموز ونکات بیان کرتے اورتراجم ابواب حکمتیں اورمصلحتیں اس طرح واشگاف فرماتے کہ خیال ہونے لگتاہے کہ خود مصنف ہی کتاب پڑھارہے ہیں ؛بلکہ کبھی تو ذھن غلط یا صحیح ،ایسا سوچنے لگتاکہ امام بخاری ؒ بھی شاید اس سے بہتر نہ پڑھاتے ۔(ہندوستان اورعلم حدیث : ۶۳۹)
مولانا کی ایک صفت جس میں وہ ہم عصراکثر علماءسے ممتاز نظرآتے ہیں،زبان کی فصاحت وبلاغت اورشیرینی تھی مولاناجب لب کشاہوتے ،تومعلوم ہوتا کہ سچ مچ پھول جھڑرہے ہیں ،ان کے نرم ونازک گلابی ہونٹوں سے نکلتے الفاظ بکھرتے موتی نظرآتے ،شگفتہ حسین گلکوں چہرہ اور اس پر نورانی سفید ڈاڑھی( راقم کی نظرسے سے طبقہ علماءمیں اتناحسین وجمیل اورکوئی نہیں گذرا)اس منظر کو ایسادل کش بنادیتے کہ سبحان اللہ !
جب کبھی بخاری پڑھتے ،تو ایسے مترنم اورپرسوز لہجہ میں روانی کے ساتھ پڑھتے کہ ایساسماں بندھ جاتاجس سے میں سامع ہمہ تن گوش ہوکر مستغرق ہوجاتا،کبھی کسی عربی عبارت کے ترجمہ کی ضرورت پیش آتی ،توایسا بامحاورہ کرتے کہ لطف آجاتااورچٹخارہ حاصل ہوتا،جس سے مولانا کی عربی اردو زبانوں سے گہری واقفیت اوراداشناسی بلکہ مہارت اورعبورکاپتہ چلتا۔(ہندوستان اورعلم حدیث : ۶۴۳)
حضرت مولانا مفتی اشرف علی صاحب باقوی رحمة اللہ دارالعلوم سبیل الرشادبنگلور
آپ کے شاگردرشید حکیم الملت امیرشریعت دوم کرناٹک حضرت مولانا مفتی اشرف علی صاحب باقوی رحمة اللہ دارالعلوم سبیل الرشادبنگلور میں تقریبًانصف صدی بخاری شریف کا درس دیاہے ، آپ نہایت فصیح وبلیغ شستہ اورشیریں ارد وبولتے تھے ،ہمارے استاذمحترم امیرشریعت کے تلمیذ رشید حضرت مولانا مفتی محمداسلم رشادی مدظلہ فرماتے ہیں کہ امیرشریعت حضرت مفتی صاحب دورانِ درس اپنے استاذمحترم فخرالمحدثین ؒ کے احادیث شریفہ کے بامحاورہ ترجمے بکثرت نقل فرماتے ، استاذ کی عقیدت ومحبت سے آبدیدہ ہوجاتے اور آواز میں درد آشکارہوجاتاتھا ،ہمارے استاذمحترم ان بامحارہ ترجموں کو اپنے استاذ کے توسط سے خوب نقل فرماتے رہتے ہیں،واقعی الفاظِ حدیث کاجامع اردو ترجمہ جواپنے اندر الفاظ حدیث کا معنی ومغز ، فہم مخاطب اورمتداولہ محاورں کی رعایت پرمشتمل ہوتاہے ،دل ودماغ گواہی دیتے ہیں کہ ان الفاظ حدیث کو اردوقالب میں اس سے بہترتعبیرمیں ادانہیں کیاجاسکتا۔
تلامذہ
آپ نے مدرسہ شاہی مرادابادمیں تقریبا اڑتالیس (۴۸)سال کتب حدیث اوربخاری شریف کا درس دیاہے ،دارالعلوم دیوبندمیں تقریبا پندرہ سال بخاری شریف کا درس دیاہے ،آپ کے زمانہ میں دارالعلوم میں دورہ حدیث کی طلبہ کی تعداد تقریبا ڈھائی سو اورپونے تین سو طلبہ ہواکرتی تھی، اس اعتبار سے آپ کے تلامذہ کی تعداد کم از پانچ ہزارسے زاید ضروری ہوگی ۔
چند مشہورتلامذہ ،حضرت مولانا مفتی سعیداحمد صاحب پالن پوری صدرالمدرسین وشیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند ،حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری مرتب ایضاح البخاری افادات فخرالمحدثین استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند، امیرشریعت دوم حضرت مولانامفتی اشرف علی صاحب باقوی مہتمم وشیخ الحدیث دارالعلوم سبیل الرشادبنگلور ،فقیہ بے بدل حضرت مولانا برہان الدین صاحب سنبھلی استاذ حدیث وفقہ دارلعلوم ندوة العلماءلکھنورحمہم اللہ۔
دارالعلو دیوبند کے موجودہ اساتذہ کرام میں حضرت مولانا سیدارشدمدن مدظلہ استاذحدیث ،وصدرجمعیۃ علماء ہند علامہ قمرالدین صاحب شیخ ثانی ، حضرت مولانا قاری سیدعثمان صاحب منصورپوری استاذ حدیث وسابق نائب مہتمم دارالعلوم،مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی مدظلہ مہتمم دارالعلوم ،مولاناعبدالخالق مدراسی قائم مقام مہتمم دارالعلوم دیوبند مولانا حبیب الرحمن اعظمی مدظلہ استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند وغیرہ ہیں،یہ وہ اساتذہ حدیث ہیں جن سے بندہ نے حدیث کی کتابیں پڑہی ہیں،یا جن کےتلمذ کا علم ہے ، ورنہ آپ کے بلاواسطہ اوربالواسطہ تلامذہ کی تعدادے شمارہے ،ان روشن وتابناک ستاروں سے اس سراج منیرکا اندازہ لگائیں جس سے انہوں روشنی حاصل کی ہے ۔
وفات
۲۰/ صفرالمظفر ۱۳۹۶ھ م۱۵/ اپریل ۱۹۷۲ءکو چندماہ کی علالت کے بعد مراداباد میں اس دارفانی سے رحلت فرمائی،دارالعلوم دیوبند حضرت شیخ الہند علیہ الرحمة کے بلاواسطہ تلامذہ کے درس بخاری کا سلسلہ آپ پر منتہی ہوگیا،حضرت مولاناقاری محمدطیب صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی۔
وفات کا حادثہ نصف شب میں پیش آیا ،وفات کی رات میں آپ کی چارپائی کے نیچے ایک روشنی نمودارہوتی تھی ،پھرغائب ہوجاتی تھی ، جب وفات ہوگئی، تو دورکے متعدد اہل محلہ نے دیکھا کہ ایک روشن قندیل زمین سے آسمان کی طرف صعود کرہاہے ، لوگ اس علامت کو دیکھ کر حضرت فخرالمحدثین کے گھر پرحاضرہوئے ،تو دیکھاکہ فخرالمحدثین کا وصا ل ہوگیا ۔(گویا آپ کی پاکیزہ ومقدس روح عا لم بالاکی طرف منتقل ہوگئی)(مقدمہ ایضاح البخاری ۲۶/۱)
اصلاحی ،دینی وعلمی تحقیقی مضامین اور خوش گوارازدواجی زندگی کےرہنمااصول کے لئے فیضان قاسمیhttp://dg4.7b7.mywebsitetransfer.com کی رجوع فرمائیں ۔