قرآنِ پاک دیکھ کرتلاوت کرنا افضل ہے ،اس لئے کہ قرآن ِ پاک کو دیکھنا بھی ایک عبادت ہے ،اس طرح قراءت اورقرآنِ پاک کو دیکھنے کی دو عبادتیں جمع ہوجاتی ہیں،قاضی حسین شافعی ؒ ،امام غزالی ؒ اور سلف کی ایک جماعت کا یہی قول ہے ۔
امام غزالیؒ نے بہت سارے حضرات صحابہ ؓ سے نقل فرمایاہے کہ حضرات صحابہ مصحف دیکھ کر تلاوت کرتے تھے اورانھیں اس بات سے تکلیف وناگواری ہوتی تھی کہ کوئی دن قرآنِ پاک کو دیکھے بغیرگذر جائے ،ابن ابی داؤد نے سلف کی ایک جماعت سے دیکھ کر تلاوت کرنا نقل کیاہے۔
علامہ نووی ؒفرماتے ہیں:مجھے اس سلسلے میں کسی اختلاف کا علم نہیں ہے ،اگر کہاجائے کہ یہ بات لوگوں کے مزاج سے مختلف ہوسکتی ہے؟
اگراس طرح کی بات ہو،تواس کی تفصیل یہ ہے کہ جس شخص کو دیکھ کرپڑھنے اور دیکھے بغیر پڑھنے دونوں صورتوں میں خشوع اور تدبر کی حالت یکساں رہتی ہے، تو اس کے لئے قرآنِ پاک کو دیکھ کر پڑھنا مستحب ہے ۔
اگر کسی شخص کو دیکھے بغیر پڑھنے سے زیادہ خشوع وتدبر کی کیفیت حاصل ہوتی ہے، تو اس کے لئے بغیر دیکھے قرآن کی تلاوت کرنا مستحب ہوگا ،بزرگوں اور اسلاف کے معمولات کو اسی پر قیاس کرنا چاہئے ۔
اکٹھے ہوکرتلاوت کرنے کی فضیلت
لوگوں کا اکٹھاہوکرتلاوت کرنا مستحب ہے ، دلائل اورسلف وخلف کے اقوال سے ثابت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت ابوہریرةؓ،حضرت ابوسعیدخدریؓ کی سند سے مروی ہے آپ ﷺ نے فرمایا
مَا مِنْ قَوْمٍ يَذْكُرُونَ اللہَ إِلَّا حَفَّتْ بِهِمُ المَلَائِكَةُ، وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ، وَنَزَلَتْ عَلَيْهِمُ السَّكِينَةُ، وَذَكَرَهُمُ اللَّهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ۔
کوئی جماعت اللہ کاذکر نہیں کرتی؛ مگرملائکہ ان کو گھیر لیتے ہیں ،رحمت انھیں ڈھانک لیتی ہے اور سکینہ ان پرنازل ہوتی ہے ،اللہ تعالیٰ ان کا تذکرہ ان لوگوں میں کرتے ہیں جواس کے پاس ہیں یعنی فرشتوں کے سامنے۔
حضرت ابوہریرةؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا
مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللهِ، يَتْلُونَ كِتَابَ اللهِ، وَيَتَدَارَسُونَهُ بَيْنَهُمْ، إِلَّا نَزَلَتْ عَلَيْهِمِ السَّكِينَةُ، وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ وَحَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ، وَذَكَرَهُمُ اللهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ۔
جب کوئی جماعت اللہ کے گھر میں جمع ہوکر اللہ کی کتاب پڑھتی ہے اور اس کے سیکھنے اور سکھانے کااہتمام کرتی ہے ،تو ملائکہ ان کو گھیر لیتے ہیں ،رحمت انھیں ڈہانک لیتی ہے اوران پر سکینہ نازل ہوتی ہے ،اللہ تعالیٰ ان کا تذکرہ ان لوگوں سامنے کرتے ہیں جو ا اس کے پاس ہیں یعنی فرشتوں کے سامنے ۔
اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے تم پر فخر فرمارتے ہیں
حضرت معاویة ؓرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپﷺ اپنے صحابہ کے ایک حلقے کے پاس تشریف لے آئے اور فرمایا :مایجلسکم ؟تمہیں کس چیز نے بٹھایاہے ؟صحابہ نے عرض کیا ،جلسنا نذکراللہ تعالیٰ ونحمدہ لماھداناللاسلام ۔ہم اللہ کا ذکرکررہے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسلام کی جو ہدایت وتوفیق عطافرمائی ہے اور ہم پرجو احسان فرمایا ،اس پر شکر اداکررہے ہیں ۔
آپ ﷺنے فرمایا:جبرئیل علیہ الصلوة والسلام میرے پا س تشریف لے آئے اور فرمایا :ان اللہ تعالیٰ یباھی بکم الملائکة اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے تم پر فخر فرمارہے ہیں ۔رواہ الترمذی ،والنسائی ،وقال الترمذی حدیث حسن صحیح
امام دارمی نے اپنی سند سے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے نقل کیاہے کہ آپ ؓ نے فرمایا
مَنِ اسْتَمَعَ إِلَى آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ، كَانَتْ لَهُ نُورًا۔
جو شخص قرآنِ پاک کی کسی آیت کو غور سے سنتاہے، وہ آیت اس کے لئے نورکا ذریعہ ہوگی ۔
جوشخص لوگوں کو تلاوت کے لئے جمع کرے ،اس کی فضیلت کے سلسلہ میں بہت ساری نصوص ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی
الدَّالَّ عَلَى الخَيْرِ كَفَاعِلِهِ-
بھلائی کی طرف رہنمائی کرنے والا بھلائی کرنے والے کی مانندہے ۔
لَأَنْ يَهْدِيَ اللهُ بِكَ رَجُلًا وَاحِدًا خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ يَكُونَ لَكَ حُمْرُ النَّعَمِ۔
تمہارے ذریعے ایک شخص کو بھی اللہ تعالیٰ ہدایت دے دیں، تو تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ بہتر ہے ،اس سلسلے میں بے شمار احادیث ہیں ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشادہے
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى۔
نیکی اور تقوی کی باتوں میں ایک دوسرے کا تعاون کرو ،جو شخص اس سلسلے میں کوشش کرتاہے ،اس کے اجر میں شک نہیں ہے ۔
چندلوگوں کامشترکہ طورپر ختم قرآن
اس کا مطلب یہ ہے کہ چند لوگ جمع ہوں،کوئی دس بارہ پارے پڑھے ،پھر کوئی دوسرا شخص آگے کی تلاو ت کرے ،پھر ایک تیسرا شخص پڑھے ،اس طرح قرآنِ پاک مکمل کیاجائے ،یہ جائز ہے ،امام مالک ؒ سے یہ مسئلہ پوچھا گیا ،تو آپ ؒ نے اجازت دی ۔(حاملین قرآن ترجمہ التبیان للنووی )
اصلاحی ،فکری علمی وتحقیقی دینی مضامین کے لئے فیضان قاسمی ویب سائٹhttp://dg4.7b7.mywebsitetransfer.com کی طرف رجوع فرمائیں ،دوست واحباب کو شئیربھی کریں ۔