ذی الحجہ کا مہینہ حج اور قابل احترام مہینوں میں سے ہے ،اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں دسویں ذی الحجہ کی صبح اور اس کی راتوں کی قسم کھائی ہے،حج کی عظیم عبادت اور قربانی اسی ماہ میں اداکی جاتی ہے ،حرم محترم میں اسلامی اوردینی شعائر کی تعظیم کا خوب اظہارہوتاہے ،عام دنوں میں نہ حج کی عبادت کی جاسکتی ہے ،نہ قربانی ،عام دنوں میں عمرہ کیاجاسکتاہے ،اللہ کے نام پرجانورذبح کیا جاسکتاہے ؛لیکن اس کا نام قر بانی نہیں ہے۔
عن ابن عباس ؓ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ماالعمل فی ایام افضل منھا فی ھذہ ،قالوا ولاالجھاد ؟قال ولاالجھاد الارجل خرج یخاطربنفسہ ومالہ، فلم یرجع بشیء۔( رواہ البخاری باب فضل العمل فی ایام التشریق :١٣٢/۱، رقم :۶۹۶)
عشرہ ذی الحجہ میں اعمال صالحہ دیگرایام کی بنسبت نہایت افضل ہیں ،صحابہ نے عرض کیا ،جہادسے بھی زیادہ افضل ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں اس عشرےمیں نیک اعمال جہاد سے زیادہ افضل ہیں ،الایہ کہ کوئی شخص اپنی جان اورمال کوخطرے میں ڈال کر جہاد میں جائے اوران میں سے کسی چیزکو واپس لے کر نہ لوٹے ۔
یعنی اپنی جان ومال کے ساتھ جہاد میں جائے اورسخت وخطرناک حالات میں بھی واپس لوٹے بغیرآگے بڑھتے ہوئے شہید ہوجائے ،وہ شخص اس آدمی سے زیادہ افضل ہوسکتاہے جو اس عشرےمیں عام نیک اعمال میں مشغول ہے ۔
افضل دن یوم النحر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
مامن ایام اعظم عند اللہ ولااحب الیہ العمل فیھن من ھذہ الایام العشر،فاکثروا فیھن من التھلیل ،والتکبیر والتحمید ۔(رواہ احمدعن ابن عمر : ۵۱۵۶)
اللہ کے نزدیک سب سے عظیم اوراعمال کئے جانے کے اعتبار سے محبوب ترین ایام عشرہ ذی الحجہ ہے،لہذا ان ایام میں لاالہ الاللہ ،اللہ اکبراور الحمدللہ خوب کثرت سے پڑھاکرو۔
افضل الایام عند اللہ یوم النحر،ثم یوم القر۔(زادالمعاد ۱۸/۱)
اصح قول کے مطابق سب سے افضل دن یوم النحرہے جوعشرہ ذی الحجہ میں ہے ۔
حافظ ابن القیم ؒ اورحافظ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں :ذی الحجہ کے دس ایام رمضان کے آخر ی عشرے کے ایام سے افضل ہیں،اس لئے کہ اس میں یوم عرفہ اوریوم النحر ہیں اور رمضان کی اخیرعشرے کی راتیں ذی الحجہ کے پہلے عشرے کی راتوں سے افضل ہیں،اس لئے کہ رمضان کے اخیر عشرے میں شب قدرہے۔(زادالمعاد۱۹/۱،تفسیرابن کثیرسورة الحج ۲۸۹/۳)
عشرہ ذی الحجہ میں مطلقا اعمال صالحہ کی فضیلت واہمیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ،بطورخاص بعض اعمال کوضروری قراردیاہے اوربعض اعمال کی خصوصی فضیلت بیان فرمائی ہے ،جن میں دوبڑی عبادتیں حج اورقر بانی ہیں ،تکبیرتشریق اور یوعرفہ کا روزہ ہے ،حج چوں کہ مستقل عنوان ہے، اس وجہ سے ذی الحجہ بقیہ خصوصی احکام کو ذیل میں بالترتیب ذکرکیاجاتاہے ۔
ذی الحجہ کا چاندنظرآنے کے بعد بال اورناخن نہ کاٹنامستحب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
اذادخلت العشر واراد بعضکم ان یضحی، فلایمس من شعرہ وبشرہ شیئا ۔( رواہ مسلم عن ام سلمة ۱۶۰/۲، : ۱۹۷۷)
جب ذی الحجہ کاابتدائی عشرہ شروع ہوجائے اورتم میں سے کسی کو قربانی کرنے کا ارداہ ہو،تو اس کو چاہئے کہ اپنے بال اورناخن قربانی کا جانور ذبح کرنے تک نہ کاٹے۔
مذکوہ حدیث کی بناءپرفقہائے کرام نے فرمایا کہ جوشخص قربانی کاارادہ رکھتاہو،اس کے لئے ذی الحجہ کا چانددیکھنے کے بعد قربانی کاجانور ذبح کرنے تک بال اورناخن نہ کاٹنا مستحب ہے ۔
یوم عرفہ کاروزہ
مامن ایام احب الی اللہ ان یتعبدلہ فیھامن عشرذی الحجة یعدل صیام کل یوم منھا بصیام سنة ،وقیام کل لیلة منھا بقیام لیلة القدر۔(رواہ الترمذی عن ابی ھریرةؓ باسنادضیعف باب ماجاءفی العمل فی الایام العشر۱۵۸/۱ :۷۵۸)
اللہ تعالیٰ کے نزدیک عبادت کے لئے عشرہ ذی الحجہ سے افضل ومحبوب کوئی دوسرے ایام نہیں ہیں،ایک دن کا روزہ ایک سال کے روزہ کے برابراور ایک رات کا قیام لیلة القدرکے قیام برابرہے ۔
عن ابی قتادة ؓ قال ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: صیام یوم عرفة انی احتسب علی اللہ ان یکفرالسنة التی قبلہ والسنة التی بعدہ ۔ ( مسلم ،باب استحباب صیام ثلثة ایام۳۶۷/۱ : ۱۱۶۲والترمذی۲۷۷/۱،۷۴۷)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں اللہ کی ذات سے امیدکرتاہوں کہ اللہ تعالیٰ عرفہ کے روزہ کی برکت سے گزشتہ سال اور آئندہ سال کے گناہ معاف فرمائیں گے۔
مذکورہ احادیث کی بنار پر غیرحاجی کے لئے عرفہ کے دن کا روزہ مسنون ہے ۔
تکبیرتشریق
نویں ذی الحجہ کی فجرسے تیرہویں ذی الحجہ کی عصر تک تئیس نمازوں میں ہرفرض نماز کے بعدایک مرتبہ تکبیرتشریق پڑھناخواہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھی ہو ،یاانفرادی طور پر،مقیم ہو یا مسافر ، شہری ہو یا دیہاتی ،مرد ہو یاعورت اتنی بلند آواز سے پڑھنا کہ اپنے کانوں تک آوازپہنچے واجب ہے ۔(بدائع الصنائع ۴۵۸/۱)
تکبیرتشریق جوحضرت ابن مسعود اورحضرت علی رضی اللہ عنہما سے منقول ہے وہ یہ ہے،حضرت ابن عمر اورحضرت ابن عباس ؓ سےبھی تکبیرتشریق الفاظ کے قدراختلاف کے ساتھ مروی ہے ۔
اللهُ أَكْبَرْ اللهُ أَكْبَرْلَا إلَهَ إلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرْ اللهُ أَكْبَرْ ،وَلِلهِ الْحَمْدُ۔(رواہ ابن شیبۃ،والحاکم باسناد حسن ،بدائع الصنائع ۴۵۸/۱)
عیدین
خوشی ومسرت ، الفت و محبت ، مواسات ، و ہمدردی اور یگا نگی و یکجہتی ، کے اظہار کی غرض سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے سال میں دو دن عیدکے مقرر فرمائے ہیں ، ایک ” عید الفطر “ جو رمضان المبارک میں روزہ و افطار ، سحری و تراویح، نالہ نیم شبی ، آہِ سحر گاہی ، تلاوت ِ قرآن پاک اور ذکرِ الہی کی توفیق ِ خداوندی میسر آنے پر اجتماعی شکرانہ کے طور پر بندہ دوگانہ اداکرتا ہے ۔
دوسرے ”عید الاضحیٰ“ جو سنت ِ ابراہمی کی یاد تازہ کرتی ہے، اسی دن سید نا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے محبوب حقیقی کے حکم سے لخت ِ جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری چلائی تھی ،اس تاریخی واقعہ پر زمین بھی حیران اور آسمان بھی دنگ رہا ہو گا اور چرند و پرند مجسم حیرت بنے رہے ہو ں گے ، تاریخ اس دن اورواقعے کو فراموش نہیں کر سکتی ۔
نمازعید کا طریقہ
نیت اس طرح کرے کہ ”میں عید الفطر“یا عید الاضحی کی دو رکعت واجب نماز چھ زائد تکبیروں کے ساتھ پڑھتا ہوں ، پھر تکبیر تحریمہ کہہ کر ہاتھ باندھ لے اور ثناءپڑھے ،اس کے بعداللہ اکبر کہتے ہوئے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائے اور ہاتھ چھوڑدے، پھر دوسری بار اللہ اکبر کہتے ہوئے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائے اور ہاتھ چھوڑدے پھر تیسری بار اللہ اکبر کہتے ہوئے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائے اور ہاتھ باندھ لے، پھر امام صاحب سورة الفاتحہ اورضم سورت پڑھیں گے،پھر رکوع اور سجدے کرکے دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہوں گے ۔
دوسری رکعت میں امام صاحب سورہ فاتحہ او ر سورت پڑھیں گے ، رکو ع میں جانے سے پہلے اللہ اکبر کہتے ہوئے ہاتھ کانوں تک اٹھائیں اور ہاتھوں کو چھوڑدیں ، پھر دوسری دفعہ اللہ اکبر کہتے ہوئے ہاتھ اٹھائیں اور ہاتھوں کو چھوڑ دیں پھر تیسری دفعہ اللہ اکبر کہتے ہوئے ، ہاتھ اٹھائیں اورچھوڑدیں اور چوتھی مرتبہ ہاتھ اٹھائے بغیر اللہ اکبر کہتے ہوئے رکوع میں جائیں ،بقیہ نماز مکمل کریں گے ۔
عیدکی سنتیں
عیدکی سنتیں : مسواک کرنا ،غسل کرنا ،پاک صاف اورعمدہ کپڑے پہننا ، خوشبو لگانا ، عیدگاہ جانے سے پہلے عیدالاضحی میں نہ کھا نا،نماز کے بعد قربانی کرے، تو اس سے کھانا کی ابتداءکرنا ،عید الفطر میں کچھ کھانا،(کھجوریاکوئی میٹھی چیز) ،صدقة الفطر اداکرکے جانا ،عید گاہ جلد جانا، عید کی نماز عیدگا میں پڑھناایک راستہ سےجانا، دوسرے راستہ سے واپس آنا ،پےدل جانا، عیدگاہ ،جاتے وقت عیدالاضحی میں بلندآواز سےتکبیر تشریق پڑھتے ہوئے جانا ۔(بدائع الصنائع ۶۲۴/۱)
قربانی کی فضیلت اور مشروعیت
اللہ کی رضا و خوشنودی اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لئے مخصوص قسم کے جانوروں کو مخصوص ایام میں ذبح کرنا قربانی کہلاتا ہے ۔(الدرالمختار مع ردالمحتار ۴۵۲/۹)
قربانی ایک عبادت اور شعائر اسلام میں سے ہے، ہجرت کے دوسرے سال اس کا حکم نازل ہو ا ، قرآن کریم میں فرمایا گیا کہ فصل لربک و انحر اپنے رب کے لئے نماز پڑھئے اور قربانی کیجئے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دس سال قربانی کرتے رہے۔ (رواہ الترمذی عن ابن عمر باسنادحسن ۲۷۷/۱)
خوش دلی سے قر بانی کرو
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ِ گرامی ہے
عن عائشة ؓ ان رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال : ماعمل آدمی من عمل یوم النحر احب الی اللہ من اھراق الدم ،انہ لیاتی یوم القیامة بقرونھا، واشعارھا ،واظلافھا،وان الدم لیقع من اللہ بمکان قبل ان یقع من الارض، فطیبوا بھانفسا ۔(رواہ الترمذی ،کتاب الاضاحی باب ماجاءفی فضل الاضحیة ۲۷۵/۱،۱۴۹۳)
قربانی کے دنوں میں اللہ کے نزدیک اس کے نام پر جانور ذبح کرنے سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ کوئی دوسراعمل نہیں ہے،قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے بال ، کھر اور سینگوں سمیت آئے گا، قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ کے حضور پہنچ جاتا ہے ،اس لئے خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔
قال اصحاب رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یارسول اللہ! ماھذہ الاضاحی ؟قال سنة ابیکم ابراہیم ،قالوافمالنا فیھا ،یارسول اللہ !قال بکل شعرة من الصوف حسنة ۔( رواہ احمد:۱۹۲۸۳ وابن ماجة عن زیدبن ارقم:باب ثواب الاضحیة:۲۲۶ )
حضرات صحابہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، یارسول اللہ یہ قربانیاں کیاہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :یہ تمہارے (روحانی اورنسبی )باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ، صحابہ نے عر ض کیا : ہمیں ان قربانیوں میں کیاملے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تمہیں ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی ۔
قربا نی کن لوگوں پرواجب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
من وجد سعة ،فلم یضح ،فلایقربن مصلانا ۔ (رواہ بن ماجہ عن ابی ھریرة ؓباب الاضاحی واجبة ھی ام لا: ۲۲۶، ۳۱۲۳واحمد)
جوشخص مالی استطاعت (قربانی کی شرعی شرائط ) رکھتاہو،پھروہ قربانی نہ کرے، تو وہ شخص ہرگز ہمارے عیدگا ہ نہ آئے ۔
قربانی ہرایسے عاقل بالغ مقیم مسلمان پر واجب ہوتی ہے جس کی ملکیت میں ۸۷/ ستاسی گرام سونا ،یا۶۱۲/چھ سوبارہ گرام چاندی یا ان دونوں کی قیمت کے برابر کسی بھی قسم کا مال ضرورت اصلیہ سے زائد ہو ۔ (بدائع ۱۹۶/۴)
حاجات اصلیہ: رہنے کا گھر،گھریلوضروری سامان ،سواری،کپڑے ،نیزپیشہ ورلوگوں کے لئے کام کے ضروری آلات وغیرہ ہیں۔(فتاوی ہندیہ ۲۹۲/۵)
قر بانی کے مسائل
الف: ضروریات اصلیہ سے مال زائدہے ؛لیکن مقروض ہے اوران چیزوں کی مالیت قرض کے برابر ہے یا زائد ہے ؛لیکن زاید مقداربقدر نصاب نہیں ہے، تو اس شخص پر قربانی واجب نہیں ۔( بدائع ۱۹۶/۴)
ب:قربانی کے واجب ہونے کے نصاب پر سال کا گزرنا ضروری نہیں ہے، اگر عید الاضحٰی کی صبح بھی بقدرنصاب کا مالک ہو جائے ،تو اس شخص پر قربانی واجب ہو جائے گی،اگر کوئی شحض قربانی کے ابتدائی ایام میں محتاج و تنگ دست تھا؛ مگر آخری دن صاحبِ نصاب ہو گیا، تو بھی اس پر واجب ہوجائے گی۔ (بدائع الصنائع۱۹۸/۴)
ج: بچہ اورمجنوں کے مال میں اس کے ولی پر قربانی واجب نہیں ۔( ردالمحتار ۴۵۸/۹)د: کسی شخص پر قربانی واجب نہیں ہے؛ لیکن اس نے قر بانی کی نیت سے جانور خرید لیا، تو اس پر قر بانی واجب ہو گئی۔ ( بدائع الصنائع۱۹۲/۴)
دوسروں کی طرف سے قربانی
اگر دوسرے شخص کی طرف سے قربانی کرے، تو جس کی طرف سے قربانی کی جارہی ہے ،اس شخص کی اجازت و اطلاع ضروری ہے ، اجازت و اطلاع کے بغیر درست نہیں ہو گئی ، اگر قربانی کر بھی دے، تو اس کی طرف سے واجب ادا نہیں ہوگا؛البتہ نابالغ اولاد ہو، تو نا بالغ اولاد کی اجازت کے بغیربھی قربانی درست ہو جائے گی ۔ (فتاوی ہندیہ ۳۰۴/۵)
قربانی میت کی طرف سے
میت کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے ،حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا معمول تھا کہ وہ ہرسال دو دنبوں کی قربانی کرتے تھے،حضرت علیؓ سے پو چھا گیاآپ ایک کے بجائے دو کی قربانی کیوں کرتے ہیں ؟ آپ ؓ نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت فرمائی تھی کہ آپ کے وصال کے بعد آپ کی طرف سے قربانی کیا کروں ، اس لئے میں ایک قربانی حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کیا کرتا ہوں۔(رواہ ابوداؤد،باب الاضحیة عن المیت ۳۸۵/۲،رقم:۲۷۹۰)
اللہ تعالیٰ نے وسعت عطافرمائی ہو،تواپنی طرف سے بھی قربانی کرے اور اپنے مرحومین کی طرف سے بھی کرے ، ماں،باپ ، داد ا ،دادی ، نانانی ،وغیرہ وغیرہ کی طرف سے بھی قربانی کرے تاکہ ان کو بھی قربانی کا اجروثواب پہنچ جائے، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی ازواجِ مطہرات کی طرف سے قربانی دے سکتے ہیں ۔
ایام قربانی
قربانی کی عبادت صرف تین دن کے ساتھ خاص ہے، دوسرے دنوں میں قربانی کی عبادت نہیں،قربانی کے ایام ذی الحجہ کی دس تاریخ کی صبح سے بارہ تاریخ کے غروب آفتاب تک ہیں ، ان دنوں میں جب چاہے ،قربانی کی جاسکتی ہے؛ لیکن پہلے دن کرنا افضل ہے۔ ( بدائع الصنائع۱۹۸/۴)
ضروری مسئلہ : اگر قربانی کے دن گذرگئے ،ناواقفیت ، غفلت یاکسی عذر سے قربانی نہیں کر سکا، تو قربانی کی قیمت فقراءومساکین پر صدقہ کرنا واجب ہے ؛لیکن قربانی کے تین دنوں میں جانوروں کی قیمت صدقہ کردینے سے واجب ادا نہ ہو گا ،ہمیشہ گنہگار رہے گا ۔ ( بدائع ۳۰۲/۴)
موجودہ حالات میں قربانی کا حکم
مذکورہ بالاتفصیلات سے معلوم ہواکہ جوشخص نصاب نامی یانصاب غیرنامی کا مالک ہو، اس پر قربانی واجب ہے ، موجودہ حالات (کرونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن کی پابندیاں) میں قربانی کرنا قدرے دشوار ہے ؛لیکن ادائے واجب کے لئے پوری کوشش کرنا ایک مسلمان کی ذمہ داری اوراس کی ایمانی غیرت کاتقاضا ہے ۔
لہذا واجب کی ادائیگی کے لئے مقامی خصاب سے رابطہ کریں اورچھوٹے جانور کی کوشش ضرور کریں ، دیہاتوں میں بطورخاص بہار ،آسام اورکشمیرکے دیہاتوں میں بآسانی چھوٹے اوربڑے جانوردستیا ب ہوجاتے ہیں ،اپنے متعلقین کے ذریعہ وہاں قربانی کرائی جاسکتی ہے کہ قربانی بھی اداہوجائے گی اور غرباءومساکین کاتعاون بھی ہوجائے گا ،یہ صورت نہایت آسان ہے ۔
اگرکسی بھی صورت سے قربانی کے دنوں میں نہ کرسکے، تو قربانی کے ایام گزر جانے کے بعد ایک متوسط بکرا جو قربانی کے لئے لائق، اس کی قیمت فقراءمیں صدقہ کرنالازم ہے ،بڑے جانورکے ساتویں حصہ کی قیمت کا صدقہ ادائے واجب کے لئے کافی نہیں ہوگا ،نیز ایام قربانی میں حتی المقدورکوشش کئے بغیر ہی بکرے کی قیمت کا صدقہ کردینا بھی بالکل مناسب نہیں ہے ۔
علامہ کاسانیؒ فرماتے ہیں
لوکان موسرا فی جمیع الوقت فلم یضح حتی مضی الوقت صارقیمة شاة صالحة للاضحیة دینا فی ذمتہ یتصدق بھامتی وجدھالان الوجوب قدتاکد علیہ باخرالوقت ۔ (بدائع الصنائع کتاب الاضحیة ،کیفیة الوجوب ۱۹۹/۴)منھا انھاتقضی اذافاتت عن وقتھا ،ثم قضاءھا قدیکون بالتصدق بعین الشاة حیة،وقدیکون بالتصدق بقیمة الشاة ،فان کان قداوجب التضحیة علی نفسہ بشاة بعینھا، فلم یضحھا حتی مضت ایام النحر، فیتصدق بعینھا حیة سواءکا ن موسرا اومعسرا ۔(الفتاوی الہندیة :۲۹۶/۵ومثلہ فی الدرالمختار ۳۸۸/۹)
مولانامفتی رشیداحمد صاحب تحریرفرماتے ہیں:قربانی کے قابل متوسط درجہ کی بھیڑ یابکری کی قیمت صدقہ کرنا واجب ہے ،بشرط یہ کہ قربانی کرنے والا غنی ہو ،ورنہ واجب نہیں ،سُبُع بقرہ (گائے کا ساتواں حصہ )کا تصدق کافی نہیں ہے۔(احسن الفتاوی ۴۸۰/۷)
قربانی کا وقت
جن بستیوں اور شہروں میں نماز ِ جمعہ و عیددین جائز ہیں، وہاں نماز عید سے پہلے قربانی جائز نہیں، اگر کسی نے نماز سے پہلے کردی، تو اس پر دوبارہ قربانی لازم ہے ؛البتہ چھوٹے گاؤں جہاں جمعہ و عیدین کی نماز یں نہیں ہو تیں ،یہ لوگ دسویں تاریخ کی صبح صادق کے بعد قربانی کر سکتے ہیں ، ایسے ہی اگر کسی عذر کی وجہ سے نماز عید پہلے دن نہ ہو سکے اور نماز عید کاوقت گذر گیا ،تو وقت گذرجانے کے بعد قربانی درست ہے ۔( جواہر الفقہ ۴۴۹/۱)مسئلہ : قربانی دن میں کرنا افضل ہے ،رات کو بھی جائز ہے؛ مگر خلاف اولی ہے ۔( فتاوی ہندیہ۲۹۶/۵)
قربانی کے جانور
بکرا ، دنبہ ،بھیڑ ایک شخص کی طرف سے قربان کیا جاسکتا ہے ، گائے ،بیل ، بھینس اوراونٹ سات آدمیوں کی طرف سے ایک ہی جانورکا فی ہے ، بشرط یہ کہ تمام شرکاءکی نیت اجروثواب کا حصول ہو، کسی کی نیت محض گوشت کھانے کی نہ ہو۔ ( بدائع۲۰۷/۴، ھندیہ ۳۰۴/۵)
مسئلہ: اگر فروخت کرنے والا جانورکو عمرکے لحاظ سے قربانی کے قابل بتاتاہے اور ظاہری حالات سے اس کے بیان کی تکذیب بھی نہیں ہو تی، تو اس پر اعتماد کرنا جائز ہے ،مسئلہ : جن جانوروں کی سنگ پیدائشی طور پر نہ ہو،یا بیچ سے ٹوٹ گئی ہو،تو اس کی قربانی جائز ہے ، ہاں سنگ جڑ سے اکھڑ گئی ہو جس کا اثر دماغ پر ہو نا لازم ہے، تودرست نہیں۔(ردالمحتار۴۶۷/۹)
مسئلہ :بکرا بکری کے لئے ایک سال کا مکمل ہونا ضروری ہے ،بھیڑ اور دنبہ اتنا فربہ ہو کہ دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہوتاہے ، تو وہ بھی جائز ہے ، گائے ، بیل ، بھینس دو سال اور اونٹ پانچ سال کا ہو نا ضروری ہے۔ (در مختار مع ردالمحتار ۴۶۶/۹)مسئلہ : خصی بکرا کی قربانی جائز؛ بلکہ افضل ومستحسن ہے ۔
کن جانوروں کی قربانی جائزنہیں
مسئلہ : اندھا ، کانا ، لنگڑا جانور،اسی طرح ایسا مریض اور لاغر جانور جو ذبح کی جگہ تک اپنے پیر سے نہ جاسکے ،اس کی قربانی بھی جائز نہیں۔(ردالمحتار ۴۶۹/۹)مسئلہ :جس جانور کے دانت باکل نہ ہو ں، یا اکثر نہ ہوں،اسی طرح جس جانور کے کا ن پیدائشی طور پر باکل نہ ہوں،تو اس کی بھی قربانی درست نہیں ۔(ردالمحتار ۴۶۸/۹)
مسئلہ : اگر جانور صحیح سالم خرید ا تھا، پھر اس میں کوئی عیب پیدا ہو گیا، اگر خرید نے والا غنی صاحب نصاب نہیں ہے ،تو اس کے لئے اس عیب دار جانور کی قربانی جائز ہے ، اگر خریددار غنی صاحب نصاب ہے، تواس شخص پرا س جانور کے بدلے دوسرے جانور کی قربانی لازم ہے۔ ( در مختار مع ردالمحتار ۴۷۱/۹)
قربانی کاطریقہ
اپنی قربانی کو اپنے ہا تھوں سے ذبح کرنا افضل ہے اور خود ذبح کرنا جانتانہیں، تو دوسرے سے ذبح کراسکتا ہے ؛مگر ذبح کے وقت خود وہاں حاضر رہنا مستحب ہے۔( البحر الرائق۳۲۸/۸)
مسئلہ : قربانی کی نیت صرف دل سے کرنا کافی ہے، زبان سے کہنا ضروری نہیں ؛البتہ ذبح کرتے وقت ’’بسم اللہ اکبر ‘‘کہنا ضروری ہے ، جب جانور کو ذبح کرنے کے لئے قبلہ رخ لٹا ئے، تو یہ آیت پڑھے
إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ عَلَى مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا، وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ، اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ،(ابوداؤد۳۸۶/۲)
قربانی کے آداب
جانور کو چند روز پہلے سے پالنا افضل ہے ۔(بدائع الصنائع ۲۱۹/۴)مسئلہ : قربانی کے جانور کا دودھ نکالنا یا اس کا اون کا ٹنا جائز نہیں ، کسی نے ایسا کیا،تواس دودھ کو اور اون کو صدقہ کردے ،اگر اپنے استعمال میں لے آیا، تو دودھ اور اون کی قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہے۔( فتاوی ہندیہ۳۰۱/۵)
مسئلہ :قربانی کے جانور کو ذبح کرنے سے پہلے بچہ پیدا ہو گیا، یا ذبح کے وقت اس کے پیٹ سے زندہ بچہ نکل آیا، تو اس کو بھی ذبح کردینا چاہئے، اگر بچہ کو ذبح نہیں کیاگیا اور قربانی کے ایام گذر گئے، تو زندہ بچہ کو صدقہ کر دینا چاہئے ،اگر ضائع ہو گیا،یا اپنے استعمال میں لے آیا ،تو اس کی قیمت صدقہ کرنا ضروری ہے ( فتاوی ہندیہ ۳۰۲/۵)
مسئلہ :ذبح سے پہلے چھری کو خوب تیز کرے ،ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح نہ کرے ، ذبح کے بعد کھال اتارنے اور گوشت کے ٹکرے کرنے میں جلدی نہ کرے، جب تک کہ جانور پوری طرح ٹھنڈا نہ ہو جائے۔( عالمگیری۳۰۰/۵،مستفاد از ابو داود ۳۸۹/۲)
شہر میں کسی بھی جگہ نماز ہو گئی، تو پورے شہر میں قربانی جائز
ضروری مسئلہ : عید کی نماز سے پہلے قربانی کرنا جائز نہیں؛ لیکن جس شہر میں کئی جگہ عید کی نماز ہو تی ہو، تو شہر میں کسی بھی جگہ نماز عید ہو گئی، تو پورے شہر میں قربانی جائز ہو جائے گی ، بہتر یہ ہے کہ خودعید کی نماز پڑھ لے، پھر اپنی قربانی کرے۔ ( فتاوی ہندیہ ۲۹۶/۵)
کسی شخص پر قربانی واجب تھی، اس نے جانور خرید لیا، پھر وہ جانور گم ہو گیا ،یا چوری ہو گیا، یا مر گیا ،تواس شخص پر دوسرے جانور کی قربانی واجب ہے ،اگر دوسرے جانور کی قربانی کے بعد پہلا جانور مل جائے ، توبہتر ہے کہ اس کی بھی قربانی کردے، واجب نہیں ۔
اگر کسی غریب آدمی جس پر قربانی واجب نہیں تھی، اس نے قربانی کے لئے جانور خرید لیا ، پھر وہ مر گیا یا گم ہو گیا، تو اس شخص پر گم شدہ جانورکی جگہ دوسری قربانی واجب نہیں ہو گی ، اگر گم شدہ جانور قر بانی کے دنوں میں مل جائے، تو اس کی قربانی کر نا واجب ہے اور ایام قربانی کے بعد ملے ،تو اس جانور یااس کی قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہے ۔( فتاوی ہندیہ ۳۰۶/۵)
قربانی کا گوشت
جس جانور میں کئی حصہ دار ہوں، تو گوشت وزن کر کے تقسیم کیا جائے ،اندازہ سے تقسیم نہ کریں۔(ردالمحتار ۴۶۰/۹)قربانی کا گوشت تین حصے کر کے ایک حصہ اپنے اہل و عیال کے لئے رکھے ،ایک حصہ احباب و اعزہ میں تقسیم کرے اور ایک حصہ فقراءو مساکین میں تقسیم کرے ، اگر کسی شخص کے اہل و عیال زیادہ ہوں، تووہ تمام گوشت خود بھی رکھ سکتا ہے،نیز مالدار،فقیراور بے ایمان سب کو کھلاسکتے ہیں ۔( فتاوی ہندیہ ۳۰۰/۵)
قربانی کا گوشت فروخت کرنا حرام ہے ،ذبح کرنے والے کی اجرت میں گوشت یا کھال دینا جائز نہیں ،اجرت علیحدہ دینی چاہئے۔(فتاوی ہندیہ۳۰۱/۵)
چرم قربانی
قربانی کی کھال کو اپنے استعمال میں لانا مثلا مصلیٰ بنالینا یا چمڑے کی کوئی چیز ڈول و غیرہ بنوالینا جائز ہے؛ لیکن اگر اس کو فروخت کیا، تو اس کی قیمت اپنے خرچ میں لانا جائز نہیں؛ بلکہ صدقہ کرنا واجب ہے۔(فتاوی ہندیہ۳۰۱/۵)
قربانی کی کھال کسی خدمت کے معاوضے میں دینا جائز نہیں ،کسی مسجد کے مؤذن یا امام وغیرہ کو بطورحق الخدمت کھال دینابھی درست نہیں۔
مدارس اسلامیہ کے غریب اور نادار طلباءمہمانانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو علوم نبوت کے حاصل کرنے میں مصروف ہیں ،قربانی کی کھالوں کا بہتر ین مصرف ہیں کہ اس میں صدقے کا ثواب بھی ہےاوراحیائے دین کی خدمت بھی۔طالب دعا: عبداللطیف قاسمی غفراللہ لہ ولوالدیہ ولاساتذہ ولجمیع المؤمنین والمؤمنات ،ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم ،جامعہ غیث الہدی بنگلور ۲۲/ذی قعدہ ۱۴۴۱ مطابق ۱۳/جولائی ۲۰۲۰ء
فیضان قاسمی ویب سائٹhttps://faizaneqasmi.com خالص اصلاحی ،علمی اورتحقیقی ویب سائٹ ہے ،گزارش ہے کہ بذات خود اس ویب سے استفادہ کریں اوردوست واحباب کو بھی مطلع کریں اوردین کی اشاعت میں حصہ داربنیں ۔