قیام اللیل اور تلاوت قرآن کے بہت فضائل احادیث شریفہ میں واردہوئے ہیں، اس لئے ایمان والوں کو چاہئے کہ راتوں میں بکثرت تلاوت قرآن کا اہتمام کریں ۔
من اھل الکتاب امة قائمة یتلون آیات اللہ آناءاللیل ،وھم یسجدون ،یؤمنون باللہ والیوم الآخر،ویامرون بالمعروف ،وینھون عن المنکر ،ویسارعون فی الخیرات ،واولٰئک من الصالحین ۔(آل عمران:۳۱۱،۴۱۱)
اہل کتاب میں سے ایک جماعت ہے جو رات کی گھڑیوں میں اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرتی ہے، اس حال میں کہ وہ سجدہ کررہے ہوتے ہیں (نماز کی حالت میں )اللہ پر اور آخرت کے دن پرایمان رکھتے ہیں ،بھلی باتو ں کا حکم کرتے ہیں ،بری باتوں سے منع کرتے ہیں اورنیکیوں اور طاعات میں سبقت کرتے ہیں اور یہی حضرات نیک لوگوں میں ہیں ۔
حدیث صحیح میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
نعم الرجل عبداللہ، لو کان یصلی من اللیل۔
عبداللہ کیا ہی اچھے آدمی ہیں،کاش! وہ رات میں نماز پڑھتے (تو کیاہی بہتر ہوتا) ایک دوسری صحیح حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
یاعبد اللّٰہ !لاتکن مثل فلان کان یقوم اللیل ثم ترکہ۔
اے عبداللہ! فلاں شخص کی طرح نہ ہوجاؤ کہ وہ رات میں نمازیں پڑھاکرتاتھا پھر چھوڑدیا ۔
قیام اللیل مومن کا قابلِ فخرعمل
امام طبرانی نے حضرت سہل بن سعدؓ کی سند سے ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادنقل فرمایا، ”شرف المؤمن قیام اللیل“ قیام اللیل مومن کا قابلِ فخر عمل ہے، اس سلسلہ میں بہت ساری احادیث اور اسلاف کے واقعات موجود ہیں ۔
ابراہیم نخعیؒ فرمایاکرتے تھے : رات میں تلاوت کیا کرو ،اگرچہ بکری کے دودھ دوہنے کی وقت کے برابرہی کیوں نہ ہو، یزید رقاشی ؒ فرمایاکرتے تھے کہ جب میں شروع رات میں سوجاؤں ،پھر آخررات میں بیدارہوجاؤں پھراگر سوجاؤں ،تو خداکرے کہ مجھے نیند ہی نہ آئے۔
رات ہی میں معراج نصیب ہوئی
علامہ نووی ؒفرماتے ہیں : قیام اللیل اور تلاوت قرآن کو فضیلت اس لئے حاصل ہے کہ رات میں دل کو یکسوئی حاصل رہتی ہے اورغفلت اور لہوولعب میں مبتلاہونے سے حفاظت رہتی ہے اور رات کے وقت ضروریات میں وقت لگانے کی ضرورت نہیں رہتی ،نیز مہلک چیزوں مثلًا ریاکاری وغیرہ سے امن رہتاہے ،اس کے علاوہ رات میں بہت سارا خیر وخوبی وجود میں آتاہے، رسول اللہ ﷺ کو رات ہی میں معراج نصیب ہوئی ،حدیث میں آیاہے کہ جب رات کا آدھا حصہ گذرجاتاہے ،تو تمہارے پروردگار آسمان ِدنیا پر نزول فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں : ھل من داع ،فاستجیب لہ ، ہے کوئی دعاءکرنے والا کہ اس کی دعاءکو قبول کروں !
رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: ”فی اللیل ساعة یستجیب اللہ فیھا الدعاءکل لیلة“ ہررات میں ایک مقبول گھڑی ہوتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ دعا قبول فرماتے ہیں ۔
حضرت علی ؓ کے اشعار
صاحب بہجة الاسرا ر نے اپنی سند سے سلمان انماطی سے نقل کیاہے کہ انھوں نے فرمایا : میں حضرت علی ؓبن ابی طالب کوخواب میں دیکھاکہ آپ ؓ مندرجہ ذیل اشعار پڑھ رہے ہیں :
لولاالذین لھم ورد یقومونا٭وآخرون لھم سرد یصومونا
اگر وہ لوگ نہ ہوتے جو راتوں میں قیام کرتے ہیں اور وہ لوگ نہ ہوتے جو دن میں روزہ رکھنے والے ہیں ۔
لدکدکت ارضکم من تحتکم سحراً٭ لانکم قوم سوءلاتطیعونا
تو تمہارے نیچے سے زمین رات کے آخری حصہ میں پھٹ کرریزہ ریزہ ہوجاتی، اس لئے کہ تم ایسی قوم ہو جو ہماری اطاعت نہیں کرتے ہو۔
قیام اللیل اور تلاوت قرآن کی فضیلت
یہ یات یاد رکھنی چاہئے کہ قیام اللیل اورتلاوت قرآن کی فضیلت تھوڑے قیام سے بھی حاصل ہوتی اور زیادہ قیام سے بھی اور قیام جس قدر زیادہ ہو، اتناہی افضل ہے ؛البتہ رات بھر قیام کرنا مکرورہ ہے ،نیز طبیعت کا نقصان بھی ہے ۔
حضرت عبد اللہ بن عمروبن العاص ؓسے روایت ہے کہ رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا
من قام بعشرآیات ،لم یکتب من الغافلین ،ومن قام بماة آیة کتب من القانتین ،من قا م بالف آیة کتب من المقنطرین۔ (رواہ ابوداود وغیرہ )
جو شخص رات میں دس آیتیں پڑھ لے، اس کا شمار غافلین میں نہیں ہوگا ،جو شخص سو آیتیں پڑھ لے اس کا شمار عبادت گذارلوگوں میں ہوتاہے اور جو شخص ہزار آیتیں پڑھے، اس کا شمار مقنطرین ( زیادہ خزانہ جمع کرنے ولوں)میں ہو گا۔
ثعلبی ؒنے ابن عباس ؓ سے نقل کیاہے کہ آپ ؓ نے فرمایا : من صلی باللیل رکعتین ،فقد بات للہ ساجدا وقائما جو آدمی رات میں دورکعت پڑھ لے،اس نے اللہ کے لئے سجدہ اور قیام کی حالت میں رات بسرکی ۔ اس روایت سے اورابن عباس ؓ کے اثر سے معلوم ہوتاہے کہ تھوڑے قیام سے بھی فضیلت حاصل ہوجاتی ہے ۔ (حاملین قرآن:۵۳)http://dg4.7b7.mywebsitetransfer.com