لباس کی اہمیت، آداب اور اس کے شرعی حدود

لباس اللہ تعالی ٰکی ایک عظیم نعمت ہے ،انسان کی فطری خواہش اور پیدائشی ضرورت ہے جو پہلے ہی دن سے اس کے ساتھ لگی ہوئی ہے ،اللہ تعالیٰ نے ٰقرآن پاک میں اس عظیم نعمت پر احسان جتلایا ہے.

اے بنی آدم! ہم نے تمہارے لئے لباس اتار اہے جو تمہارے سترکو چھپاتا ہے ،بدن کے لئے زینت کا باعث ہے اور تقوی کا لباس بہترہے ۔(اعراف۔۲۶)

لباس انسان کی بنیادی ضرورت ہے،اس کے دوبنیادی مقصد کی طرف اس آیت کریمہ میں اشارہ کیاگیاہے (۱)ستر پوشی (۲)آرائش ِبدن ۔

دیگر جانداروں کے بدن ہی پر متعینہ قدرتی لباس پہنادیاگیاہے کہ وہی ان کی سردی وگرمی سے حفاظت کا ذریعہ بھی ہوتاہے اور ان کے جمال وزینت کا سبب بھی،ستر پوشی کا اتنا اہتمام نہیں جتنا اہتمام انسان کی فطرت میں رکھا گیاہے ؛البتہ اعضائے مخصوصہ کی وضع ان کے بدن میں اس طرح رکھی گئی ہے کہ وہ بالکل کھلے نہ رہیں،کہیں دم کے ذریعہ پردہ ،کہیں دوسرے طریقہ سے ان کے ستر پوشی کاانتظام کیاگیاہے۔

صرف انسان کی یہ خصوصیت ہے کہ اللہ تعالی نے اس کے لئے ایک ہی قسم کا لباس متعین نہیں فرمایا؛ بلکہ جس قسم کا انسان لباس پہننا چاہتاہے، اسے اختیارہے کہ وہ کسی بھی قسم کا لباس اپنی چاہت ومرضی کے مطابق شرعی حدود میں رہ کر زیب تن کرے،اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کے لباس کے انتظامات بھی فرمادئے ہیں ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لباس

رسول ا للہ ﷺاس طرح کا لباس زیب تن فرماتے جس طرح اور جس وضع کے کپڑوں کا اس زمانے میں،حجاز اورقریش میں رواج تھا ،آپ علیہ السلام تہبند باندھتے تھے ،چادر او ڑ ھتے ،کرتا پہنتے ،عمامہ اور ٹوپی بھی زیب تن فرماتے تھے اور یہ کپڑے اکثر وبیشتر سوتی قسم کے ہوتے تھے۔

کبھی کبھی دوسرے ملکوں اور دوسرے علاقوں کے بنے ہوئے قیمتی جبے بھی پہن لیتے تھے،جن پر ریشمی حاشیہ یا نقش ونگار ہوتاتھا،اسی طرح کبھی کبھی بہت خوش نما یمنی چادریں بھی زیب تن فرماتے جو اس زمانے میں خوش پوشوں کا لباس تھ۔

بعض اوقات تو دوہزار درہم کالبا س بھی زیب تن فرماتے ،اس بناءپر کہاجاسکتاہے کہ زبانی ارشادات وہدایا ت کے علاوہ آپ علیہ الصلوةو السلام نے امت کو اپنے طرز عمل سے بھی یہی تعلیم دی کہ کھانے پینے کی طرح لباس کے بارے میں بھی وسعت ہے۔

شرعی حدود کالحاظ رکھتے ہوئے اپنا پسندیدہ لباس استعمال کرنا

اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حدود کی پابندی کے ساتھ ہر طرح کامعمولی یاقیمتی لباس پہناجاسکتاہے اور یہ ہر علاقے اور ہر ز مانے کے لوگوں کو اجازت ہے کہ وہ شرعی حدود میں احکام کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنا پسندیدہ لباس استعمال کریں ۔

یہی وجہ کہ امت کے ان اصحاب ِصلاح وتقوی نے بھی جن کی زندگی میں اتباعِ سنت کا حد درجہ اہتمام تھا، یہ ضروری نہیں سمجھا کہ بس وہی لباس استعمال کریں جو رسو ل اللہ ﷺاستعمال فرماتے تھے ۔

دراصل لباس ایک ایسی چیز ہے کہ تمدن کے ارتقاءکے ساتھ اس میں تبدیلی ہوتی رہتی رہی ہے اور ہوتی رہے گی ،اسی طرح علاقوں کی جغرافیائی خصوصیات اور بعض دوسری چیزیں بھی لباس کی وضع قطع اور نوعیت پر اثر انداز ہوتی ہیں ،اس لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ ساری دنیا کے لوگوں کا لباس یکساں ہو ،یا کسی قوم یاکسی علاقے کا لباس ہمیشہ ایک ہی رہا ہو۔

اس لئے شریعت نے کسی خاص قسم او رخاص وضع کے لباس کا پابند نہیں کیا ہے ؛البتہ ایسے اصول اور احکام دے دئے ہیں جن کی ہرزمانے میں اور ہرجگہ میں سہولت اورپابندی کی جاسکتی ہے۔ (مستفاد:معارف الحدیث۳۰۳/۶)

اسلام نے لباس کے بارے میں کچھ اصول وضوابط بتادئے کہ ان اصول کی پابندی کرتے ہوئے انسان جس قسم کا بھی لباس پہنے ،وہ شرعًا جائزومباح ہے۔

وہ اصول جو رسول اللہ ﷺکے ارشادات سے معلوم ہوتے ہیں

نمبر(۱)لباس ساتر ہویعنی شرعًامرد وعورت کے لئے جس حصہءبدن کو چھپانا فرض ہے، اس کو ڈھانکنے والاہو۔(سورہ اعراف) نمبر(۲) اتنا تنگ ،چست اور پتلانہ ہوکہ قابل ِستر اعضاءکی نمائش ہوتی ہو۔

رب کاسیة فی الدنیا عاریة فی الآخرة (رواہ البخاری عن ام سلمة فی کتاب العلم )

نمبر(۳)مردوں کے لئے زنانہ اور عورتوں کے لئے مردانہ لباس نہ ہو۔

لعن رسول اللہ ِالرجل یلبس لبسة المرا ة ،والمرا ة تلبس لبسة الرجل (ابوداود)

نمبر(۴)لباس میں بے جا اسراف نہ ہو۔

کلو واشربو اوتصدقوا والبسو امالم یخالطہ اسراف ولامخیلة (ابن ماجہ عن عمروبن شعیب عن ابیہ عن جدہ ۔)

لباس میں غیر مسلموں کے ساتھ تشبہ نہ ہو

نمبر(۵)لباس میں غیر مسلموں کے ساتھ تشبہ نہ ہو۔

من تشبہ بقوم، فھو منھم۔ (ابوداود عن ابن عمر فی کتاب اللباس )

نمبر(۶)لباس دوسروں پر فخر،غروراور دوسروں کی تحقیر کے لئے نہ پہنے ۔(تقدم تخریجہ )

نمبر(۷)مردوں کے لئے کوئی کپڑا ٹخنوں سے نیچے نہ ہو۔

مااسفل من الکعبین من الازار فی النار (رواہ البخاری عن ابی ھریرة فی کتاب اللباس )

نمبر(۸)مردوں کے لئے خالص سرخ ،سبز،زرداور زعفران وکسم میں رنگاہوا، لباس نہ ہو ۔

ان رسول اللہ ﷺنھی عن لبس القسی وعن لبس المعصفر (ابوداود عن علی ) ان ھذہ من ثیاب الکفار ،فلاتلبسھا۔(الثوب المعصفر)(رواہ مسلم عن عبداللہ بن عمرو) مر علی النبی ﷺرجل علیہ ثوبان احمران ،فسلم علیہ ،فلم یرد علیہ ۔(ابوداود عن عبداللہ بن عمرو)

نمبر(۹)مردوں کے لئے خالص ریشمی لباس نہ ہو ۔

قال رسول اللہ ﷺان ھٰذین (الحریر والذھب)حرام علی ذکو ر امتی (رواہ ابوداود عن علی )

نمبرکپڑے پہننے کا معیار کیا ہونا چاہئے کہ اسراف نہ ہو اور عمد ہ کپڑا پہننے کی خواہش بھی پوری ہوجائے ،اس سلسلہ میں حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی ؒنے مکان کے سلسلہ میں حدود بیان فرما ۓ ہیں، و ہی حدود کپڑوں کے سلسلہ میں بھی منطبق ہوں گے۔

ضرورت،آسائش اورنمائش

نمبر (۱)ضرورت۔لباس انسان کی ضرورت ہے، ستر پوشی بنیادی ضرورت ہے، ستر پوشی کے بقدر لباس پہننا فرض وضروری ہے ۔نمبر (۲)آسائش۔آسائش کہتے ہیں راحت ،آرام سکون وچین کو یعنی ایسالباس بنائے کہ اس میں راحت وآرام کا لحاظ کیا جائے ،سردی کے موسم میں گرم لباس ،گرمی کے موسم میں ٹھنڈا(سوتی) ،سفر وحضر کے اعتبار سے مختلف لباس،عام حالات اور کام کاج کا مستقل لباس وغیر ہ بنایاجائے ،یہ صورت بھی جائزہے ۔

نمبر(۳)آرائش۔یعنی زینت وخوبصورتی ،یعنی ایک لباس میں آسائش کا انتظام تھا؛ لیکن اس میں کچھ خاص زیب وزینت نہیں ہے،اگر کوئی اپنی خوشی کے کے لئے یا اپنے گھروالوں کو خوش کرنے کے کے لئے اس کا اضافہ کرلے ،جیسے عمدہ وقیمتی لباس ،عمدہ سلائی وغیرہ ،یہ تینوں صورتیں اسلام میں جائزہیں ۔

نمبر(۴)نمائش۔ یعنی دکھلاوا ،عمدہ لباس اس لئے پہنے تاکہ لوگ مجھے مالدار، دولت مند اورمعاشرہ میں معزز سمجھیں،ایسالباس پہنے جس میں شان وشوکت کی نمائش اور برتری کا اظہار وتفوق مقصودہو اور لوگوں کی نظروں میں بڑا بننے کے لئے پہناجائے،یہ نمائش وریاکاری ہے اور حرام ہے۔ اسی طرح غریب ونادار بندوں کی دل شکنی اور ان کے مقابلہ میں برتری مقصود نہ ہو۔ (مستفاد درس ترمذی ۳۶۰/۶)

لباس میں عاجزی وتواضع کا اظہار ہو

ان اصول وحدود میں رہ کر آدمی قیمتی سے قیمتی لبا س زیب تن کرے جائز ہے ، لباس بقدرضرورت ہویاآسائش ، ان سب کااصل مقصد تقوی وخوفِ خداہے جس کی طرف قرآن پاک میں اشارہ کیاگیا ہے جس کا ظہو راس کے لباس میں بھی ہوناچاہئے،اوراس میں عاجزی وتواضع کا اظہار ہو ۔

اس سلسلہ میں رسول اللہ ﷺکی سیرت اورآپ کی زندگی ہمارے لئے نمونہ اور اسوہ ہے، آپ علیہ الصلوة والسلام نے امت کے لئے جو ہدایا ت بیان فرمائی ہیں،اگر ان کا لحاظ کیاجائے، تو ہمارا لباس پہننا بلاشبہ ایک عبادت شمار ہوگا۔

لباس کے آداب

نمبر(۱)جب کپڑا پہنے، تو دائیں جانب سے پہنے (ترمذی) نمبر(۲)جب کپڑا پہنے، تو یہ دعا ءپڑھے

الحمد للہ الذی کسانی ھذا ورزقنیہ من غیر حول منی ولاقوة (مشکوة:۳۷۵)

(اللہ تعالی ٰ اس کے گزشتہ گناہوں کو معاف فرمادیتے ہیں )

نمبر(۳)جب نیا کپڑا پہنے ،تو یہ دعا ءپڑھے

الحمد للہ الذی کسانی مااواری بہ عورتی واتجمل بہ فی حیاتی

پھر پرانے کپڑے کو صدقہ کردے۔ اللہ کے نبی علیہ السلام نے فرمایا :وہ اپنی موت وحیات میں اللہ کی ذمہ داری اور پناہ میں رہے گا۔(مشکوة:۳۷۵)

ہرایک کے لئے سفید لباس پسندیدہ

نمبر(۴)مرد وعورت ،زندوں اور مردوں کے لئے سفید لباس پسندیدہے ۔(مشکوة:۳۷۴ ) (۵)پائجامہ مردوں کے لئے نصف پنڈلی تک ہو،کم از کم ٹخنوں سے اوپرہو۔ (مشکوة:۳۸۴)

(۶)میلا کچیلا نہ ہو جس سے آدمی بے وقار وبے سلیقہ معلوم ہو۔(مشکوة:۳۷۵ )نمبر (۷)پیوندہ زدہ لباس کو عیب اور قابل عار نہ سمجھے ۔(مشکوة:۳۷۵)نمبر (۸)صلحاءکا لباس ہو ۔

قال القاری : ای من شبہ نفسہ بالکفار مثلا فی اللباس وغیر ہ اوبالفساق او بالفجار،اوباھل التصوف الصلحاءالاابرار فھو منھم ای فی الاثم اوالخیر عنداللہ تعالیٰ۔(مرقاة المفاتیح۱۵۵/۸)

نمبر(۹)مالدار اور صاحب حیثیت ایسے کپڑے پہنیں جس سے ان پر اللہ کی نعمت اور اس کے فضل کا اظہارمحسوس ہو،یہ شکرکا ایک شعبہ ہے ۔

فاذا اٰتاک اللہ مالا،ا فلیر اثر نعمة ا للّٰہ علیک ،وکرامتہ (رواہ احمد عن ابی الاحوص عن ابیہ ،مشکوة:۳۷۵)

غریب لوگ ایسالباس پہنیں جس سے صورتِ سوال پیدانہ ہو

نمبر(۰ ۱ )غریب ونادار لوگ ایسے کپڑے پہنیں جس سے صورتِ سوال پیدانہ ہو،جیسے زبانِ قال سے سوال ناجائز ہے ،اسی طرح زبان ِحال سے بھی ناجائز ہے ۔

عن جابر ؓقال اتانارسول اللہ ﷺزائرا،فرای رجلًا شعثًاقدتفرق شعرہ،فقال ماکان یجدھذامایسکن بہ راسہ ،ورای رجلًاعلیہ ثیاب وسخة ،فقال ماکان یجد ھذا مایغسل بہ ثوبہ۔ (رواہ احمد والنسائی ،مشکوة:۳۷۵)

نمبر(۱۱)ایسا لباس پہنیں جس میں عاجزی وتواضع کا اظہار ہو۔

من ترک لبس ثوب جمال ،وھو یقدر علیہ ،وفی روایة تواضعاکساہ اللہ حلة الکرامة (ترمذی ،مشکوة :۳۷۵)

نمبر (۲ ۱ )اپنی فقیری ودرویشی کی نمائش کے لئے ایسے کپڑے پہنیں جن سے لوگ ان کو پہچانیں اورفقیر ودرویش سمجھیں یہ بھی جائزنہیں ہے ۔

من ترک لبس ثوب شھرةفی الدنیا،البسہ ثوب مذلة یوم القیامة۔ (ابوداود ،مشکوة:۳۷۵)

مسائل

مسئلہ : مردوں کے لئے مخلوط ریشمی لباس جس کا تانہ ریشمی ہو اور بانہ غیر ریشمی ہو، اعذار کی صورت میں جائزہے ۔مثلًا کپڑوں اورسر میں جوئیں پڑگئیں ،جیساکہ رسول اللہ ﷺنے حضرت عبد الرحمن ؓبن عوف اور حضرت زبیر ؓکو مذکوہ صورت میں اجازت دی تھی۔ (مسلم )

مسئلہ : بلا عذ ر مردوں کے لئے چار انگل کے بقد ر یشم کااستعما ل قمیص وغیر میں کرنے کی شرعًا گنجائش ہے ۔ مسئلہ: جو کٖپڑا مردوں وعورتوں کو پہننا نا جائز ہے، اس کو پچوں اور پچیوں کوپہنانابھی ناجائز ہے ،پہنانے والا گنہگار ہوگا۔

پتلون اور شرٹ پہننے کا حکم

حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتھم تحریر فرماتے ہیں : جہاں تک کوٹ پتلون کے پہننے کاتعلق ہے ،توچونکہ اب دنیا بھر میں اس کا رواج اور شیوع اتنا زیادہ ہوگیا ہے کہ اس میں ”تشبہ“کی شان مغلوب ہوگئی ہے۔

اس لئے تشبہ کی وجہ سے کو ٹ پتلون کو حرام کہنا ممکن نظرنہیں آتا؛البتہ شریعت نے لباس کے جو اصول بیان فرمائے ہیں، ان کا پایاجاناضروری ہے ۔

مثلا وہ لباس ساترہو ،مرد کے لئے ٹخنوں سے نیچے نہ ہو ،اگر وہ پتلون اتنی چست ہے کہ اعضاۓعورت کی ہیئت ظاہر ہورہی ہے یا ٹخنوں سے نیچے ہے ،تو ایسی پتلون پہننا ناجائز ہے ؛لیکن چونکہ اس کے پہننے سے انگریزوں سے مشابہت ہوجائے گی ،اس لئے کراہت سے خالی نہیں ہے ۔

لہذا حتی الامکان پرہیز ہی کرنا چاہئے ؛البتہ کوئی ملازمت کی مجبوری سے پہنتاہے اور دل میں برا سمجھتاہے، تو پھرامید ہے کہ ان شاءاللہ کراہت بھی نہیں ہوگی بشرطیکہ شرعی حدود کے ساتھ ہو۔ (درس ترمذی ۳۳۲/۵باختصار یسیر)

فقیہ الامت حضرت مولانا مفتی محمود الحسن گنگوہی ؒلکھتے ہیں : کوٹ پتلون ہندوستان میں پہننا حرام تو نہیں رہا ؛البتہ صلحاءکا شعار نہیں ،اس لئے بچنا چاہئے۔ (فتاوی محمودیہ۲۶۰/۱۹ادارہ صدیق)

جس لباس کا سنت میں ذکر نہ ہو اور اس کو صلحاءنے اختیار کیاہو ،کفار اور فساق کا شعار نہ ہو ،وہ بھی شرعی لباس ہے ۔(فتاوی محمودیہ۲۵۴/۱۹) کتبہ العبد الضعیف عبد اللطیف قاسمی ۳/محرم الحرام ۳۳ ۴ ۱ ۲۹/نومبر ۲۰۱۱