مدرسہ کا قیام مسجدمیں

مدرسہ کا قیام ملحقات مسجد میں ہو،توشرعا اس کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں ہے ،اگر عین مسجد یاشرعی مسجد میں مدرسہ کو قائم کرنا چاہیں، واقف یامسجد کی کمیٹی اگر شرعی مسجد وجودمیں آنے پہلے ہی مسجد کے نام سے وقف شدہ یا خریدہوئی زمین میں اس طرح نیت کرے اورمسجد کا نقشہ بنائے کہ بالائی منز لیں برائے نمازاور تحتانی وزیریں منزل میں مدرسہ کا قیام یابالائی منزل میں مدرسہ کاقیام اوروہ منزلیں بھی مسجدہی کی طرح وقف بھی ہوں،توشرعاًدرست ہے،یہ حصہ شرعی مسجدسے خارج ہوگا جس سے احکام مسجد متعلق نہیں ہوں گے ،اس حصہ میں طلبہ کا مستقل قیام ،طعام اوررہائش درست ہے۔

اگرابتدائی تعمیر اورابتدائی نقشہ میں مسجدکی جگہ میں صرف مسجد ہی کی نیت تھی ،اب وہ زمین نیچے تحت الثری تک اوراوپر آسمان تک مسجد ہی رہے گی ،اس کی تمام منزلوں میں احکام مسجد کو بجالاناضروری ہے، دنیوی گفتگو، بے ادبی اوربے احترامی درست نہیں ہے ،نیز طلبہ کا قیام ،طعام اوررہائش بھی درست نہیں۔

فقیہ العصر مولانا رشیداحمد صاحب سوال”مسجدکے اوپر مدرسے کی تعمیرکرنا جائزہے یانہیں“کے جواب میں سابقہ بحث کی فقہی عبارات پیش کرکے مندرجہ ذیل الفاظ میں خلاصہ کلام تحریرفرماتے ہیں:

”عبارت اولی وثالثہ کا ظاہرعدم جواز پردال ہے لان مفہوم الفقہاءحجة بالاتفاق اورروایت ثانیہ میں جواز کی تصریح ہے،اس لیے بوقت ضرورت شدیدہ گنجائش معلوم ہوتی ہے ؛مگر یہ اجازت اس صورت میں ہے کہ ابتداءہی سے مسجد کے اوپر یانیچے مدرسہ بنانے کا ارادہ ہو،اگرابتداءً اارادہ نہ تھا ؛بلکہ مسجدکی حدود متعین کرکے اس رقبہ کے بارے میں زبان سے کہد یاکہ یہ مسجدہے ،اس کے بعد اوپر مدرسہ بنانے کا ارادہ کیاہو،توجائز نہیں“۔(احسن الفتاوی ۴۴۳/۶)

بوقت ضرورت شدیدہ مسجد میں تعلیم

فقہائے کرام نے سخت مجبوری کی صورت میں مسجد میں صرف تعلیم دینے کی مشروط اجازت دی ہے ،حضرت مولانا سیدعبدالرحیم لاجپوری ؒ تحریرفرماتے ہیں:

مسجد کی بالائی منزل میں مستقلًا مدرسہ جاری کرنا صحیح نہیں ؛البتہ مدرسہ میں تنگی ہو ،اہل مدرسہ دوسری جگہ کے انتظام کی کوشش میں ہوں اور سردست دوسری جگہ کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کی تعلیم خراب ہورہی ہو ،تو ایسے بڑے اورسمجھ دار بچوں کی کلاس عارضی طور پرمحدود اورمختصر وقت کے لیے جاری کی جاسکتی ہے جومسجد کا پورا پورااحترام کریں،شوروغل اوردنیوی باتیں نہ کریں ،جگہ کا انتظام ہوجانے پر فورایہ کلاس اس جگہ منتقل کردی جائے ،ایسے چھوٹے بچے جو کپڑے ،بدن کی پاکی وناپاکی اورمسجد کے ادب واحترام کا خیال نہ کرسکیں،ایسے بچوں کی کلاس جاری نہ کی جائے ،مسجد میں شورغل اورمسجد کی بے احترامی ہوگی اورتلویث مسجدکا بھی خطرہ ہے اوراس کی ذمہ داری مسجد کے منتظمین پرہوگی ۔(فتاوی رحیمیہ ۲۰۰/۹)

فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی ؒ تحریرفرماتے ہیں:بچوں کی تعلیم کے لیے کسی دوسری جگہ کا انتظام کیاجائے ،اگرکوئی دوسری جگہ نہ ہو،تومجبورا بچوں کو دینی تعلیم مسجد میں دینادرست ہے ؛مگراتنے چھوٹے بچے نہ ہوںجن کو پاکی ناپاکی کی تمییز نہ ہومثلا گندے پیر مسجد میں رکھیں یاپیشاب کردیں اوریہ بھی ضروری ہے کہ احترام مسجد کے خلاف کوئی کام نہ کیاجائے مثلابچوں کو سخت الفاظ میں اورکڑک دارآواز سے ڈانٹنا سزادینا ۔(فتاوی محمودیہ ادارہ صدیق۶۰۴/۱۴)

تنخواہ لے کرمسجد میں تعلیم دینا

فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی ؒ تحریرفرماتے ہیں:مسجد میں مستقلا تنخواہ لے کرتعلیم دینامکروہ ہے ،خاص کر ایسی حالت میں جب کہ مسجد کے قریب کمرہ بھی ہے جس میں تعلیم دی جاسکتی ہے ،چھوٹے بچے جوپاکی ناپاکی کی تمییز نہیں رکھتے ؛بلکہ ان سے اندیشہ ہوکر مسجد کو ناپاک کردیں گے ،ایسے بچوں کو مسجد میں لاناہی منع ہے ۔(فتاوی محمودیہ ۶۰۵/۱۴)

حضرت مولانا رشیداحمد صاحب تحریرفرماتے ہیں:
اگرمسجد سے باہرکوئی جگہ نہ ہومسجد میں (تنخواہ دارمدرس کا )پڑھانابشرائط ذیل جائزہے
(۱)مدرس تنخواہ کی ہوس کی بجائے گزراوقات کے لیے بقدرضرورت وظیفہ پر اکتفاءکرے۔
(۲)نماز اورذکراورتلاوت ِقرآن عبادات میں مخل نہ ہو۔
(۳)مسجد کی طہارت ونظافت اورادب واحترام کا پوراخیال رکھاجائے ۔
(۴)کمسن اورناسمجھ بچوں کو مسجد میں نہ لایاجائے ۔(احسن الفتاوی ۴۵۸/۶)

خلاصہ ءکلام یہ ہے قیام وطعام کے مدارس کے طلبہ ہوں یامکاتب کے طلبہ ان کی تعلیم کے لیے عین مسجد اورشرعی مسجد کی حدودسے باہردرسگاہوں کا انتظام کرنا چاہئے ،اسی صورت میں مسجد کا ادب واحترام اوراساتذہ کے لیے بھی احتیاط کا پہلوملحوظ رہے گا ،سخت قسم کی مجبوری ہو،تو متبادل جگہ کے اتنظام کی کوشش کے ساتھ مذکورہ بالاشرائط کا لحاظ کرتے ہوئے شرعی مسجد میں تعلیم کی اجازت ہوگی ۔