مدرسین حضرات کے لئے دس نصیحتیں :حضرت مولاناقاری امیرالحسن صاحب رحمة اللہ علیہ
استحضارِ نعمت
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم،امابعد
محترم دوستواوربزرگو!اللہ پاک نے ہمیں خدمت دین کی دولت عطافرمائی ہے ،یہ بہت بڑی نعمت ہے ،آج کل لوگ حافظ بن جاتے ہیں ،عالم بن جاتے ہیں ؛مگردین کی خدمت میں نہیں لگتے ،مال کمانے کی فکرہے ، کوئی سعودیہ جارہاہے ،کوئی امریکہ جارہاہے ،سب اسی چکرمیں ہیں،ایسے حالات میں جن لوگوں کو مدارس ومکاتب میں معصوم بچوں کی خدمت اور قرآن مجید کی تعلیم ،فقہ وحدیث کا درس دینے کی توفیق مل گئی ہے گویا انھیں( مدرسین ) حق تعالیٰ نے قبول فرمالیاہے ،اس لئے دین کی خدمت لے رہے ہیں ،آپ حضرات(مدرسین) اس توفیق کی قدرکیجئے ،یکسوئی کے ساتھ لگے رہئے ، اللہ تعالیٰ کسی کے عمل کو ضائع نہیں فرماتا،روزی ہرشخص کی مقررہے ،ان شاءاللہ مقدرمل کررہے گا ،آدمی چاہے کتنا ہاتھ پیرمارلے ،تقدیرسے بڑھ کر نہیں پاسکتا۔
دوستو!دین کی حفاظت اوردین کا کام مل جانا،بہت بڑی نعمت ہے ،اس نعمت سے ہم لوگ غافل ہیں ،اسی غفلت کی وجہ سے ہم لوگ شکرکم کرتے ہیں ،آپ اورہم کھانے پینے کی چیزوں کو نعمت سمجھتے ہیں ؛لیکن دین وایمان کا نعمت ہونا بہت کم لوگوں کو معلوم ہے ،پہلے زمانہ میں ایک مرتبہ اللہ کا نام لینے کی توفیق کو دنیا ومافیہاسے بہترسمجھتے تھے ،حدیث شریف میں ہے : خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ ۔تم میں سب سے بہترین شخص وہ ہے جوقرآن کو سیکھے اور سکھائے ۔
اخلاص
امام ابوداؤدنے پانچ لاکھ احادیث میں سے پانچ حدیثیں منتخب کی ہیں ،ان میں سے ایک حدیث ”انما الاعمال بالنیات “ہے ،یعنی سارے اعمال کا دارومدار نیت پر ہے ،اس لئے اپنی نیت درست کرلینی چاہئے ،اس کام سے صرف اللہ کی رضاجوئی مقصود ہو،کسی اورغرض سے دین کاکام نہ کریں،اس کو دنیا کمانے اور پیٹ پالنے کا ذریعہ نہ بنائیں ،اخلاص بہت بڑی دولت ہے ،اس کی برکت سے اعمال قبول ہوتے ہیں ،ان میں جان آجاتی ہے ،ان میں زبان آجاتی ہے۔
استغنا ویکسوئی
حضرت شیخ الحدیث مولانا محمدزکریا صاحب مہاجرمدنی رحمہ اللہ کو حیدرآباد بلایا گیا تھا،حضرت اس وقت سہانپور میں تھے ،اس وقت سہانپور میں حضرت کی تنخواہ تقریباً بیس پچیس روپئے ہوگی،حیدرآباد میں رہنے کے لئے ماہانہ بارہ سو روپئے،گاڑی اوربنگلہ پیش کیا گیا،حضرت نے اس وقیع پیش کش کو ۔جو اس زمانہ میں کسی کسی کو مقدرسے ہاتھ آتی تھی۔مستردفرمادیا اورفرمایا میں اپنے حضرت (یعنی مولاناخلیل احمد سہانپوریؒ)کو اوراپنے مدرسہ کو (یعنی مظاہرالعلوم )کو نہیں چھوڑسکتا۔
میں ابھی مدینہ منورہ میں تھا،وہاں کے لوگوں نے کہا کہ ہم اقامہ دلادیں گے اورفلاں فلاں سہولت بھی دیں گے ؛مگرمیں نے یہی سوچ کر انکارکردیا کہ حضرت مولانا ابرارالحق صاحب ہردوئی کے مدرسہ اشرف المدارس ہردوئی میں برسوں سے پڑھاتاہوں،چھٹی لےکے گیا تھا،اگروہیں رہ جاؤں تو حضرت ہردوئی کیا سمجھیں گے ؟مدرسہ سے کس قدربے وفائی ہوگی؟کتنی انتظامی دشواری پیش آئے گی ،یہی سوچ کر میں نے ان حضرات سے معذرت کردی ،ورنہ بتائیے مدینہ منورہ میں رہنے کا موقع مل جائے ،توکون نہیں رہنا چاہتا؟لوگ ہزاروں ریال خرچ کررہے ہیں ،برسوں سے تمناکررہے ہیں؛مگرموقع نہیں ملتا۔
تادیب میں احتیاط
مدرسین حضرات کو چاہئے کہ وہ بچوں کوجس طرح چاہیں پٹائی نہ کریں ؛کیوں کہ اب قوی کمزورہوگئے ہیں ،بچوں میں تحمل نہیں رہا،ایک آدھ چھڑی لگادی ،تو الگ بات ہے ؛مگر ان پرغصہ نہیں نکالنا چاہئے ،آج کل یہ مرض عام ہوچکاہے ،اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کابھی حساب ہوگا ۔
حضرت شیخ الحدیث ؒ کو ایک صاحب نے خط لکھا کہ بچوں کو بہت مارتاہوں ،حضرت نے جواب لکھ دیا : قیامت کا انتظارکرو،کیا مطلب ؟قیامت کے دن حساب دینا پڑے گا ،اس کی نافرمانی اورتمہاری سزادونوں تولے جائیں گے اورانصاف کیاجائے گا ،اس لئے بہت ڈرنے کا مقام ہے ۔
دعاکااہتمام
طلبہ اوراپنے لئے گڑگڑکردعاکا اہتمام کرنا چاہئے ،یہ بھی سنت ہے ،لو گ اس سنت سے غافل ہیں،علماءنے لکھاہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت ”ابتہال “بھی ہے ،یعنی گڑگڑنا ،اس سے بہت سے کام نکلتے ہیں اورکچھ نہیں تو دل کو سکون ہی مل جاتاہے ،یہ کتنی بڑ ی نعمت ہے ؟
بھائیو!بس دین کو مقصد بناؤ،دنیا کو مقصود نہ بناؤ،جومقدرکا ہے وہ مل کررہے گا اورجومقدرنہیں ہے ،وہ تم چاہے کچھ بھی کرلو،ملنے والانہیں ہے ۔
شیخ العرب والعجم حاجی امداد اللہ صاحب فرمایاکرتے تھے کہ دین کی مثال پرند ہ کی سی ہے اوردنیا کی مثال سایہ جیسی ،پرندہ کو پکڑو گے ،توسایہ خود بخود آجائے گا اورسایہ کے پیچھے پڑوگے ،تو نہ وہ ملے گا نہ یہ۔
معاملات کی صفائی
ایک بات آپ حضرات ( مدرسین )سے عرض کرنی ہے کہ اپنے معاملات درست رکھیں،آپ کے معاملات درست نہیں ہوں گے ،تو آپ دوسروں کو دین کیا سکھائیں گے ؟مگرآج لوگ دین بھی نہیں سمجھتے ،نماز روزہ اداکررہے ہیں ؛مگرمعاملات غیرشرعی ہیں، معاملات خلاف سنت ہیں۔
اما م محمد ؒ سے کسی نے پوچھاکہ کہ آپ نے اتنی ساری کتابیں لکھیں ؛مگرتصوف پرکوئی کتاب نہیں لکھی؟فرمایا : میں نے کتاب البیوع لکھ دی ہے جس کے معاملات درست ہوں،وہ سب سے بڑاصوفی ہے ،معاملات کی درستگی سے بڑی برکت ہوتی ہے ، آمدنی اگرصحیح ہو،تو تھوڑے میں بھی کام نکل جاتاہے ،برکت کے معنی یہ نہیں کہ ایک ہزارکے دوہزارہوجائیں ؛بلکہ مطلب یہ ہے کہ تھوڑے میں بھی کام نکل جائے ۔
حکمت عملی کا لحاظ
اسی طرح یہ بات یادرکھنے کی ہے کہ طلبہ کو افہام وتفہیم اورنصیحت موقع محل دیکھ کر کریں،بعض مرتبہ یہ سلیقہ نہ ہونے کی وجہ سے اچھی بات بھی ضائع ہوجاتی ہے اورنفع کے بجائے نقصان ہوجاتاہے ،نصیحت کو یوں سمجھئے جیسے انجکشن دینا ، سیکھے بغیرانجکشن نہیں دے سکتے اورہرجگہ نہیں دے سکتے ،بس یہی حال نصیحت کا ہے ، کہاں کی جائے ؟اورکہاں نہیں؟کیاکیاجائے اورکیانہیں؟کس طرح کی جائے اورکس طرح نہیں؟سب سیکھنے سے تعلق رکھتاہے ۔
خدمت ِ خلق
ایک بات یہ ہے کہ ہمیں کبھی کبھی اپنے چھوٹوں اورعوام الناس کی خدمت بھی کردینی چاہئے ،اس سے ایک طرف نفس کا علاج ہوجاتاہے ،دوسری طرف سامنے متاثرومانوس ہوتاہے ،جب ہماری ذات سے متاثرہوگا ،تو ہماری بات کا اثر بھی لے گا ۔
حضوراکرام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ دیکھاکہ ایک یہودی بچہ ہے اس کے پاس برتن میں پانی بھراہواہے ؛مگروزن اس قدرہے کہ لے کر جانہیں سکتا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی سے بھر ا ہوابرتن اٹھاکر اس کے گھر پہنچادیا اورچلے گئے ،جب اس کے باپ نے دیکھاکہ بچہ اتنا بڑا برتن لے آیاہے ،توحیرت سے پوچھا ،کیسے لے آیا ؟اس نے بتلایا کہ کوئی صاحب پہنچاگئے ہیں ،اس پر بڑااثرہوا اورسوچاکہ کہ کون آدمی ہے جو اس قدرمخلص اوراخلاق والاہے ،باہرجاکر دیکھا،تومعلوم ہواکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ،فورًا پکاراٹھاکہ ”ماھذا الاشفقة الانبیاءوالمرسلین “ یہ تو انبیاءومرسلین ہی کی شفقت ہوسکتی ہے ۔
اپنی اصلاح کی فکر
اسی طرح ہم لوگوں( مدرسین ) میں ایک غفلت عام ہوگئی ہے کہ ذرا پڑھنا لکھنا شروع کیا ،امام بن گئے اورکچھ کام شروع کیا ،تو بس اپنے آپ کو کامل سمجھ بیٹھے ،ایسانہ ہونا چاہئے ؛بلکہ ہروقت اپنی اصلاح وتربیت کی فکر میں لگے رہیں،پہلے زمانہ میں لو گ جب تک کامل نہ ہوجاتے ،دین کی خدمت میں نہیں لگتے تھے ؛لیکن آج کے حالات ایسے نہیں ہیں،اس لئے کام کے ساتھ ساتھ اصلاح کی بھی فکرکرتے رہیں ،مایوس نہ ہوں ،ایک دن کامیاب ہوجائیں گے ۔
نہ چت کرسکے نفس کے پہلوان کو ٭تویوں ہاتھ پیر بھی ڈھیلے نہ ڈالےارے اس سے توہے کشتی عمربھرکی ٭کبھی وہ دبالے کبھی تو دبالے
اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ فرصت عمر کو غنیمت سمجھ لے ،زندگی پراعتماد اوربھروسہ نہ کرے ،نہ معلوم کب یہ نعمت ختم ہوجائے اورکب آدمی عمل سے روک دیاجائے ۔
حضرت مولانامفتی شفیع عثمانیؒ نے حضرت حکیم الامت ؒ کولکھاکہ کوئی خاص نصیحت جونافع سلوک ہوتحریرفرمادیجئے ،اس کے جواب میں حضرت نے لکھا: اس کا استحضارہوکہ زندگی کا کوئی اعتبارنہیں۔
حضرت شاہ وصی اللہ صاحب ؒجب کسی کام سے فارغ ہوتے تو، فرماتے : اے اللہ تیراشکرہے کہ اسباب ہلاکت سے ہم بچ گئے ۔
ان چند باتوں کو یادرکھ لیجئے اورعمل کرتے رہئے ۔ان شاءاللہ ۔ دنیا وآخرت کا بھلا ہوگا ،دعاکیجئے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب ( مدرسین )کو حسن نیت ،حسن عمل اورحسن خاتمہ کی دولت سے سرفرازفرمائے ۔ آمین
اصلاحی ،علمی وتحقیقی دینی مضامین کے لئے فیضان قاسمی ویب سائٹhttp://dg4.7b7.mywebsitetransfer.com کا مطالعہ کیجئے اور دوست واحباب کو شیئر بھی کیجئے ۔