مساجدکی تزئین وآرائش

مساجدکی تزئین وآرائش

اسلام سادگی کامذہب ہے ، اس کی تعلیمات سادہ ہیں ،وہ اپنے ماننے والوں سے سادگی کامطالبہ کرتاہے ،مساجدکے متعلق بھی اسی سادگی کی حکم دیاہے ،حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنے گھر میں کوئی پردہ لٹکایاجس میں(غیرذی روح کی ) تصویریں تھیں،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے ،تو آپ نے اس پردے کو اتاردیا ۔(مسلم،کتاب الزینة،باب تحریم صورة الحیوان:۲۰۱۷،۲۰۱/۱)

حضرت انس ؓسے روایت ہے،حضرت عائشہؓ نے اپنے حجرہ کے ایک کنارہ بیل بوٹوںوالا پردہ لٹکارکھا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی ،نمازسے فراغت کے بعد ارشادفرمایا

ازیلی عنی قرامک ھذا،فانہ لاتزال تصاویرہ تعرض لی فی صلوتی ۔(بخاری،کتاب الصلوة ان صلی فی ثوب مصلب الخ:۳۷۴،۶۵/۱ )

یہ بیل بوٹوں والاپردہ میرے سامنے سے ہٹادو کہ نماز میں یہ تصویریں(بیل، بوٹے اورنقش نگار)میرے سامنے آرہی تھیں (ذہن منتشرہورہاتھا)

ان احادیث سے معلوم ہواکہ نمازی کے سامنے نقش ونگار ،پرکشش چیزیں اورغیرجان دارکی تصویرکابھی ہوناپسندیدہ نہیں ہے ؛کیونکہ اس سے نمازی کاذہن اور خشوع وخضوع متاثرہوتاہے ،جب گھر میں نماز ی کے سامنے ان چیزوں کا ہونا ناپسندیدہ ہے ،تو مسجد میں بطورخاص قبلہ والی دیوار میں نقش ونگار اورپرکشش چیزوں کا ہونا بدرجہ اولی ناپسندید ہ ہوگا ۔

مساجد کو مزین وعالی شان بنانے سے منع کیاگیاہے

یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محلہ محلہ مسجد تعمیرکرنے کی ترغیب دی ہے ،مساجد کی تعمیرپر بے شمار اجروثواب کو بیان فرمایاہے؛لیکن مساجد کو مزین وعالی شان بنانے سے منع بھی فرمایا ہے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

ماامرت بتشییدالمساجد ۔(رواہ ابوداؤد عن ابن عباس،کتاب الصلوة،باب فی بناءالمسجد:۴۴۸ ،۶۵/۱)

مجھے اونچی اونچی مساجد تعمیرکرنے کا حکم نہیں دیاگیاہے ۔

حضرت ابن عباس ؓنے فرمایا

لتزخرفنھا کمازخرفت الیھودوالنصاری ۔(رواہ البخاری تعلیقاباب بنیان المسجد۶۴/۱،و ابوداؤد عن ابن عباس،کتاب الصلوة،باب فی بناءالمسجد:۶۶۸ ،۶۵/۱)

یہودونصاری نے جس طرح اپنی عبادت گاہوں کو مزین کیا ،اسی طرح تم بھی مساجد کو مزین کروگے ۔

جب اونچی اونچی مسجدیں تعمیرکی جائیں گی ،تو پھران پر نقش ونگاربھی ہوگا ،پھرایک دوسرے کو دیکھ کر مساجد کی آرائش وتزئین میں بازی لے جانے کی کوشش کریں گے ؛حتی کہ یہ سلسلہ آپسی تفاخر ومباہات کا سبب ہوگا ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی سخت مذمت فرمائی ہے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

یاتی علی امتی زمان یتباھون فی المساجد ،ولایعمرونھا الاقلیلا۔(رواہ البخاری تعلیقاو موقوفاعلی انس باب بنیان المسجد۶۴/۱ و ابوداؤد مرفوعا،کتاب الصلوة،باب فی بناءالمسجد:۸۴۴،۶۵/۱ )

میری امت پر ایسا وقت آئے گا کہ وہ مساجد پر فخرومباہات کریں گے ؛لیکن سوائے چند لوگوں کے کوئی( نماز ،جماعت اورذکرالہی سے )آبادنہیں کرے گا۔

نیز آپ نے ارشادفرمایا

لاتقوم الساعة حتی یتابھی الناس فی المساجد ۔(رواہ ابوداؤد عن انس باب فی بناءالمسجد:۴۴۹،۶۵/۱ )

اس وقت تک قیامت نہیں آئے گی جب تک کہ لوگ مساجد کے بارے میں فخرومباہات میں مبتلانہ ہوجائیں۔

لمحہ فکریہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری زمانہ میں فتوحات کا دروازہ کھل چکاتھا ،آپ چاہتے،تو عالی شان مسجد بنواسکتے تھے ؛لیکن آپ نے اسی معمولی مسجد کو باقی رکھا ، عہد فاروقی میں کھجورکے پتوں کے بوسیدہ ہوجانے اور نمازیوں کی تعدادمیں اضافہ ہوجانے کی وجہ مسجد نبوی کی تجدیدوتوسیع کی ضرورت پیش آئی ،تو حضرت عمرؓ کھجور کے پتوں اورتنوں سے مسجد کی تجدید وتوسیع فرمائی ؛حالانکہ فتوحات کازمانہ تھا ،قیصروکسری کے خزانوں پراسلامی حکومت کا قبضہ ہوچکاتھا ؛لیکن حضرت عمر ؓ نے مسجد نبوی کو ان چیزوں سے مزین نہیں کیا ۔

حضرت عثمان ؓ نے اپنے عہد خلافت میں مسجد نبوی کی تجدید اورتوسیع فرمائی،اپنی ذاتی رقم سے منقش پتھروں کی دیواریں اورستون بنوائے اورساگوان کی لکڑی کی چھت بنوائی،(بخاری عن ابن عمربنیان المسجد: ۴۴۶) جس میں بے قسم کی تزئین ونقش نگاری بھی نہیں تھیں اوربیت المال سے درہم بھی استعمال نہیں کیا تھا ؛لیکن پہلے کی بنسبت مسجد کی سادگی متاثرہوئی اورکچھ زیب وزینت محسوس ہونے لگی ،قدسی نفوس صحابہ کرام اورتابعین عظام کی طبائع پر اثرپڑا ۔ (فتح الباری بنیان المسجد: ۴۴۶،۶۷۹/۱)

موجودہ زمانہ میں مساجدکی تزئین وآرائش کا کیاکہنا ؟حضرت عثمان کی تعمیرپربھی صحابہ کو اعتراض تھا،بدقسمتی کی بات ہے مساجدکی تعمیر میں مقابلہ وتفاخرکی شکل پیداہوگئی ہے،کروڑوں روپے کو مسجدکی تعمیرپر صرف کیاجاتاہے ؛حالانکہ ہمارے ملک میں لاکھوں دیہات اورقریہ جات ایسے ہیں،جہاں میلوں تک مسجد کا وجودنہیں ہے ۔

مساجدکی تزئین وآرائش میں اعتدال مطلوب

شریعت میں مساجدکی تزئین وآرائش میں اعتدال ہی مطلوب ہے ،حضرت عثمانؓ نے مسجد نبوی میں توسیع کی ، منقش پتھروں کی دیواریں اورساگوان کی لکڑی کی چھت بنائی ؛کیونکہ اس زمانہ میں لوگوں کا تعمیراتی معیاربدل چکاتھا اورپنے زمانہ کے معیارکی رعایت ضرورہوتی ہے ؛لیکن اس میں بہت زیادہ مبالغہ درست نہیں ہے۔

مساجد کی تزئین ، زیبائش اورآرائش کا مسئلہ دراصل ہرعہد کے عرف اورتعمیراتی معیارسے متعلق ہے ،شارح بخاری ابن منیر فرماتے ہیں

لماشیدالناس بیوتھم وزخرفوھا ناسب ان یصنع ذالک بالمساجد صونا لھا عن الاستھانة ۔(فتح الباری بنیان المسجد: ۴۴۶،۶۷۰/۱)

جب لوگوں نے اپنے گھر اونچے اونچے بنالئے اوران کومزخرف اورمزین کرنے لگے تو اب مناسب ہے کہ اللہ کے گھروں کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ کیاجائے ؛تاکہ اللہ کے گھروں کاوقاراوراحترام میں کمی نہ آئے ۔

حافظ ابن حجرؓ ابن منیر کے قول پرتبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں

ان المنع ان کان للحث علی اتباع السلف فی ترک الرفاھة ،فھوکماقال ،وان کا ن لخشیة شغل بال المصلی بالزخرفة ،فلالبقاءالعلة ۔(فتح الباری بنیان المسجد: ۴۴۶،۶۷۰/۱)

اگرمساجد میں نقش ونگارکی ممانعت کی علت سلف سالحین کے ترک تنعم کااتباع کے نقطہ نظرسے ہے ،تو ابن المنیر کی بات درست ہے ،کہ جب لوگوں نے اپنے گھروں کے انداز بدل دئے ہیں ،تواللہ کے گھروں کے تعمیر کا معیاربھی بدلنا چاہئے ؛تاکہ ان کی توہین نہ ہو۔

اگرمساجدکے نقش ونگار کی ممانعت وکراہت کا سبب مصلی کی نظروذہن کے انتشارکا سبب ہے ، تو مساجدکی تزئین کی وہ سبب کراہت وممانعت ابھی موجودہے ۔

خلاصہ کلام

خلاصہ کلام یہ ہے کہ سلف صالحین حضرات صحابہ مساجد کی تزئین وآرائش کے قائل نہیں ہیں ، نیز اسلام کا مزاج بھی نہیں ہے،یہی قول قوی اورراجح بھی ہے ؛چونکہ ابن منیر شارح بخاری کے بقول لوگوں کی تعمیر کا معیاربدل چکاہے ،اس لئے مساجد میں بھی اعتدال کے ساتھ تزئین وآرائش کے گنجائش ہوگی۔

مذکورہ بالااحادیث اورسلف صالحین اقوال کی روشنی میں تعمیروتزئین کے سلسلے مندرجہ ذیل ہدایات ثابت ہوتی ہیں۔

الف:حسب ضرورت بڑی بڑی مسجد بنائی جاسکتی ہیں،دورحاضرکی عمدہ تعمیرات کے طرزپر خوبصورت بھی بنائی جاسکتی ہیں ؛تاکہ شاندارتعمیرات کی بنسبت اللہ کے گھر کمتروبے حیثیت معلوم نہ ہوں؛لیکن ان کی عمدہ تعمیر ، تزئین اورآرائش سے فخرومباہات ،ریاءونمائش مقصودنہ ہو؛بلکہ مساجد کے احترام وتعظیم کے دلی جذبہ کے ساتھ ہو ۔(نقلہ ابن حجر عن ابی حنیفة فتح الباری بنیان المسجد: ۴۴۶،۶۷۰/۱)

ب: مساجد کی تزئین وآرائش مسجد کی آمدنی اوروقف کے مال سے نہ ہو؛بلکہ اس وقت درست ہے ،جب کہ کوئی شخص اپنے اخراجات سے کرائے، یاوقف کرنے والے اورچندہ دینے والے نے اس کی اجاز ت دی ہو ۔ (ردالمحتارکتاب الصلوة ۴۳۱/۲)

ج:تعمیر وتزئین کے سلسلے سے کوئی کام بلاضرورت نہ ہو ،نیزکسی کام میں اسراف وتبذیر نہ ہو،جیسے قمقمے ، رنگ برنگ کی روشنیاں وغیرہ کا انتظام ۔

ہ:بہترہے کہ مسجد کی دیواریں سفید ہوں، نہ منقش ہوںاورنہ اس پرکوئی تحریرہو،موجودہ زمانہ اورتعمیراتی معیارکے مطابق قیمتی پتھرلگائے جاسکتے ہیں ؛لیکن اتنے صاف وشفاف نہ ہوں کہ اس میں نمازی کی صاف یا دھندلی تصویرنظرآئے ۔

مساجدکی تزئین وآرائش سے لوگ فتنوں میں مبتلاہوں گے

حضرت عمرؓنے مسجدنبوی تجدید وتوسیع کے موقع پر معیارسے فرمایا

ایاک ان تحمر وتصفر،فتفتن الناس ۔ (رواہ البخاری عن عمرؓباب بنیان المسجد ۶۴/۱)

خبردار مسجد کو سرخ اورزرد نہ بناؤ کہ اس سے لوگ فتنوں میں مبتلاہوں گے (نماز میں خشوع وخضوع کے بجائے نمازی کی نظردیواروں کے زیب وزینت کی طرف ہوگی ،لوگ نماز کی غرض سے مسجد نہیں آئیں گے ، تزئین وآرائش دیکھنے کے لئے آئیں گے )

فتاوی عالمگیری میں ہے

الاولی ان یکون حیطان المسجد الیض غیرمنقوشة ،ولامکتوبة ۔(الفتاوی الھندیة ۷۵/۱بحوالہ قاموس الفقہ۹۴/۱)

آج کل مساجد کی دایواروں پر قرآنی آیات لکھنے اورکندہ کرنے کا ذوق عام ہے ؛بلکہ زمانہ ءقدیم ہی سے اس کا رواج ہے ؛حالانکہ اس میں قرآن کی بے ادبی کااندیشہ ہے ،پرند ے اس بیٹھتے ہیں اوربیٹ کرتے ہیں ، ،رنگ وروغن اوردیوار کے گرنے کا خطرہ اوربے ادبی کاقوی اندیشہ ہے ،صفائی اورمرمت کے وغیرہ موقع پر مزدور آداب اورطہارت کالحاظ نہیں کرتے ،مذکورہ امورکی بناپر فقہاءنے مسجد میں قرآنی آیات ،احادیث ،عشرہ مبشرہ کے نام وغیرہ لکھنے کی حوصلہ افزائی نہیں کی ہے ۔

قال الحصکفی:لاینبغی الکتابة علی جدرانہ ای خوفا من ان تسقط وتوطأ ۔( ررالمحتارکتاب الصلوة،افضل المسجد ۴۴۵/۲)

قال ابن نجیم: لیس بمستحسن کتابة القرآن علی المحاریب والجدران ۔(البحرالرائق قبیل ابواب الوتروالنوافل۶۵/۲،مستفاد:قاموس الفقہ ۹۴/۵)عبداللطیف قاسمی جامعہ غیث الہدی بنگلور انڈیا

محترم قارئین کرام درس قرآن ،درس حدیث ،فقہ وفتاوی ،اصلاحی مضامین،اورعلمی وفقہی تحقیقات کے لئے فیضان قاسمی ویب سائٹhttp://dg4.7b7.mywebsitetransfer.com کا مطالعہ فرمائیں ،دوست واحباب کو مطلع فرمائیں اورآپ تک ہرنئی پوسٹ فورًا موصول ہونے کے لئے صفحہ کے آخرمیں سبسکرائپ بھی کریں،جزاکم اللہ خیرا ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں