مسجدمیں نمازجنازہ

مسجدمیں نمازجنازہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک زمانہ میں مسجد نبوی سے متصل مشرقی سمت میں ”مصلی الجنائز“ ( نماز جنازہ اداکرنے کی جگہ )قائم فرمایاتھا،اسی جگہ پر تمام جنازوں کی نماز کا اہتمام کیاجاتاتھا ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خاص مصلحت یا ضرورت کی بناپر صرف حضرت سہیل ا بن البیضاءکی نمازجنازہ مسجد میں اداکی تھی،سیرت طیبہ میں کسی اورکی نماز جنازہ مسجد میں اداکرنے کا ثبوت نہیں ہے۔

حضرت ابوبکر صدیق اورحضرت عمر ؓ کی نماز جنازہ بھی کسی ضرورت ومصلحت کی بناپر مسجد میں اداکی گئی ہے، ان چندواقعات کے علاوہ عہدرسالت اورعہد خلفائے راشدین میں ہزاروں مسلمانوں کا انتقال ہوا ہے ؛لیکن مسجد میں کسی کی نماز جنازہ ادانہیں کی گئی ۔

چندسالوں سے ہمارے ملک ہندوستان میں مساجد میں نماز جنازہ کا اہتمام کیاجانے لگاہے،بطور خاص تبلیغی ،دعوتی، دینی اورعلمی شخصیات کے جنازے مساجدمیں محراب کے قریب رکھ کر نماز جنازہ اداکی جانے لگی ہے ؛حالانکہ عہدنبوت سے آج تک امت میں خارج ِ مسجدہی جنازہ کی نماز اداکرنے کا معمول ہے۔

جن شخصیات نے ساری زندگی اتباع سنت اور اتباع سنت کی دعوت میں صرف کی، انہیں کے جنازوں میں خلاف ِسنت امورکو انجام دیاجانے لگا ہے اورشاید ان خلافِ سنت امورکو میت کی شان اور احترام سمجھاجاتاہے،مندجہ ذیل سطور میں اسی مسئلہ کی تفصیلات کو جمع کیاگیاہے ؛تاکہ زیربحث مسئلہ کے تمام پہلو شریعت مطہرہ روشنی میں پیش کئے جائیں ،اس سلسلے میں شریعت کی رہنما ہدایات واضح ہوں اوردینی حلقوں میں جس غیرمسنون عمل کی ابتداءہونے لگی ہے ، اس کی جانب ہمارے اکابروعلمائے کرام کی توجہ مبذول ہو ۔

ائمہ کرام کے مذاہب

امام شافعی اورامام احمدبن حنبل ؒ کے نزدیک مسجد میں نمازجنازہ بلاکراہت درست ہے ؛البتہ اولی وافضل یہ ہے کہ جنازہ مسجد کے باہر پڑھاجائے ۔
امام ابوحنیفہؒ اورامام مالک ؒ کے نزدیک مسجد میں نماز جنازہ مکروہ ہے ،قاسم بن قطلوبغاکی تخریج کے مطابق مکروہ تحریمی ،علامہ ابن ہمام ؒ کے نزدیک مکروہ تنزیہی ہے ،حضرت علامہ انورشاہ کشمیری ؒ فرماتے ہیں: صحیح بات یہ ہے کہ مسجدمیں نمازجنازہ اساءت کے درجہ کاعمل ہے(یعنی مسجدمیں نماز جنازہ بری بات ہے)(العرف الشذی مع الترمذی۱۹۹/۱)
فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہی ،مفتی عبدالرحیم صاحب لاجپوری اوردیگرمفتان کرام نے مطلقا مکروہ لکھاہے۔

امام شافعیؒ اورامام احمدبن حنبلؒ کے دلائل

الف:جب حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ(جوعشرہ مبشرہ میں سے ہیں)کا انتقال ہوا ،توامہات المؤمنینؓ نے حضرات صحابہ سے کہا کہ ان کا جنازہ مسجد میں لایاجائے تاکہ وہ بھی نمازِجنازہ پڑھیں ، حضرات صحابہ ان کے کمروں کے قریب جنازہ لے گئے ؛تاکہ وہ جنازہ پڑھ لیں،پھر جنازہ کو باب الجنائز کی طرف سے مقاعد میں لے جایاگیا( مسجدنبوی کے باہرلوگوں کے بیٹھنے کے لیے ایک جگہ بنائی گئی تھی)پھرامہات المؤمنین کو خبرپہنچی کہ لوگوں نے امہات المؤمنین کی اس درخواست (کہ حضرت سعدبن ابی وقاص ؓکے جنازے کومسجدمیں لایاجائے)پراعتراض کیاہے اورکہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جنازے مسجد میں نہیں لائے جاتے تھے ،توحضرت عائشہؓ نے فرمایا

مااسرع الناس الی ان یعیبوا مالاعلم لھم بہ ،عابوا علینا ان یمر بجنازة فی المسجد ،وماصلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی سہیل ابن البیضاءالافی جوف المسجد۔( رواہ مسلم ،کتاب الجنائز ،باب الصلوة علی الجنازة ۳۱۳/۱،رقم:۹۷۳)

جس مسئلہ کے متعلق لوگوں کو تحقیق نہیں ہے ،اس مسئلہ کے بارے میں ہم پراعتراض کرنے میں کس قدرجلد بازی دکھائی ہے ، مسجد میں ہمارے پاس جنازہ لائے جانے کے بارے میں ہم پراعتراض کیاہے ؛حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل ابن بیضاءکا جنازہ مسجد ہی میں پڑھاتھا۔

ب:حضرت ابوبکرصدیق ؓ کاجنازہ مسجد نبوی میں منبر کے مقابل رکھاگیااورحضرت عمر فاروق ؓنے نمازجنازہ پڑھائی ۔(رواہ عبدالرزاق عن ہشام بن عروة عن ابیہ باب الصلوة علی الجنازة فی المسجد:۶۶۰۳،دارالکتب العلمیة،فتح الباری باب الصلوة علی الجنائز بالمصلی والمسجد۲۴۵/۳،فتح الملہم ۴۹۴/۱ )
ج:حضرت عمر فاروق ؓ کا جنازہ مسجدہی میں پڑھاگیا،حضرت صہیب ؓنے نمازجنازہ کی امامت فرمائی۔(رواہ عبدالرزاق عن ابن عمرؓ باب الصلوة علی الجنازة فی المسجد:۶۶۰۴،دارالکتب العلمیة، ،فتح الملہم ۴۹۴/۱)

حضرت امام ابوحنیفہ ؒ اورامام مالک ؒ کے دلائل

الف:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسجد نبوی سے متصل مصلی الجنائز بناہوا تھا، جنازے وہاں پڑھے جاتے تھے،مسجد میں نماز جنازہ کا معمول نہیں تھا ۔

ماکانت الجنائز یدخل بھا فی المسجد۔( رواہ مسلم ،کتاب الجنائز ،باب الصلوة علی الجنازة ۳۱۳/۱،رقم:۹۷۳)

حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں جنازے مسجد میں نہیں لائے جاتے تھے ۔
حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں: خیبرکے یہود ایک مرد اورایک عورت کو لے آئے جنھوں نے زناکیاتھا،’’فرجما قریبا من موضع الجنائز عندالمسجد “ان دونوں کومسجد کے قریب مصلی الجنائز میں رجم کیاگیا۔(بخاری باب الصلوة علی الجنائز بالمصلی والمسجد۱۷۷/۱،:۱۳۹۲)

حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں: خیبرکے یہود ایک مرد اورایک عورت کو لے آئے جنھوں نے زناکیاتھا،’’فرجما قریبا من موضع الجنائز عندالمسجد “ان دونوں کومسجد کے قریب مصلی الجنائز میں رجم کیاگیا۔(بخاری باب الصلوة علی الجنائز بالمصلی والمسجد۱۷۷/۱،:۱۳۹۲)

ابن بطال کہتے ہیں : مدینہ میں مسجد نبوی سے متصل مشرقی سمت بقیع کی جانب مصلی الجنائز بنایاگیاتھا۔(فتح الباری باب الصلوة علی الجنائز بالمصلی والمسجد۲۴۵/۳)مسجد کے اندرنماز جناز ہ جائزہوتی، یابلاکراہت جائز ہوتی ،تو مسجدکے باہر مصلی الجنائز قائم کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟

طبقات ابن سعد میں مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کی تعمیر سے فراغت کے بعد سن ایک ہجری میں مسجد نبوی سی متصل جنازے پڑھنے کی جگہ بنوائی ۔

ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم بنی موضعا للجنائز لاصقا بالمسجد بعدالفراغ من المسجدالشریف فی السنة الاولی من الھجرة ۔( التعلیق الصبیح کتاب الجنائز باب المشی بالجنازة والصلوة علیھا ۲۳۹/۲معزیا الی الطبقات الکبری لابن سعد)

مسجد میں جنازہ پڑھنے پر کوئی ثواب نہیں

ب:حضرت ابوہریرة ؓ کی روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

من صلی علی جنازة فی المسجد فلاشیءعلیہ،وفی روایة فلاشیءلہ ۔(رواہ ابوداؤدکتاب الجنائز باب الصلوة علی الجنائز فی المسجد ۴۵۲۴)ورواہ احمد فی مسندہ۹۷۳۰، وابن ماجہ فی سننہ۱۵۱۷ کلھم ٰبلفظ من صلی علی جنازة فلا شیءلہ ،وقال الخطیب : المحفوظ فلاشیءلہ ۔(فتح الملہم ۴۹۵/۱،وعبدالرزاق فی مصنفہ : باب الصلوة علی الجنازة فی المسجد:۶۰۶۶،دارالکتب العلمیة)

جس نے مسجد میں جنازہ پڑھا،اس کے لیے کوئی ثواب نہیں ۔

امام شافعی اورامام احمد بن حنبل ؒ کے دلائل کے جوابات

مسجدنبوی سے متصل مصلی الجنائز میں نماز جنازہ پڑھنے کا معمول تھا ، اس کے باجود سہیل ابن البیضاءکی نمازِجنازہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی عارض کی وجہ سے مسجدمیں ادافرمائی ہے ،عارض آپ اعتکاف میں تھے ، یا محض بیان ِجواز کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدمیں ادافرمائی ہے ۔( فتح الباری باب الصلوة علی الجنائز بالمصلی والمسجد۲۴۵/۳ ،فتح الملہم ۴۹۴/۱)

حضرت ابوبکر ؓ اورحضرت عمر ؓ کی نماز جنازہ بھی مسجد میں اداکرنا کسی امر عارض کی بناپر ہے ، یہی وجہ ہے کہ حضرات ازواجِ مطہرات کی خواہش کہ ہم بھی سعد بن ابی وقاص ؓ کی نماز جنازہ پڑھیں گے، لہذا جنازہ مسجد میں لایاجائے ،اس درخواست پرحضرات صحابہ نے اعتراض کیا ،اعتراض کی وجہ یہی ہے کہ نمازِ جنازہ مسجد اداکرنے کا معمول نہیں ہے ،نیز افضل بھی نہیں ہے ۔

شاہ حبشہ اصحمہ نجاشی ؒ کی وفات ہوئی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصلی الجنائز میں حضرات صحابہ کے ساتھ غائبانہ نماز جنازہ ادافرمائی ،غائبانہ نماز جنازہ مسجد میں اداکرنے سے بظاہرکوئی حرج بھی نہیں تھا ،اس کے باجود آپ نے مصلی الجنائز تشریف لے گئے،وہاں نماز جنازہ اداکی ۔(بخاری باب الصلوة علی الجنائز بالمصلی والمسجد۱۳۲۹)

اعذارکی وجہ سے مسجد میں نمازجنازہ

لہذااعذارکی صورت میں مسجدمیں نماز جنازہ درست ہے ، مثلابارش ہورہی ہے،مسجد کے علاوہ کوئی متبادل جگہ میسرنہیں ہے ، خارج مسجد جمع ہونے کی اجازت نہیں ہے،نیز حرمین شریفین کے اندورنی حصہ میں جنازہ کی نماز بھی ایک عذرکی وجہ سے ہے کہ فرائض سے فراغت کے بعد لاکھوں کے مجمع کو خارج مسجد جاکر نماز جنازہ پڑھنا دشوار ہے۔(مستفاد ازتحفة الالمعی ۴۲۰/۲)

خلاصہ کلام

٭رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں بذات خود ”مصلی الجنائز “قائم فرماکرامت کو تعلیم وتلقین کی ہے کہ نماز ِجنازہ خارج مسجد اداکرنا چاہئے ،یہی افضل واولی ہے؛البتہ کوئی شرعی عذرہو،توکوئی حرج نہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورحضرات خلفائے راشدین کے مبارک زمانہ میں ہزاروں انصار ومہاجرصحابہ کرام کی وفات ہوئی ؛لیکن مذکور تین چارواقعات کے علاوہ کسی کی نمازِ جنازہ مسجد میں میں ادانہیں کی گئی ۔

٭حضرت ابوہریرة کی روایت میں مسجد میں نمازجنازہ اداکرنے پر ثواب نہ ملنے کا ذکرہے ۔
٭امت کا تعامل خارجِ مسجد نماز جنازہ ا داکرنے کاہے ۔
٭امت کا اجماع ہے کہ خارج ِمسجد نماز جنازہ اولی وافضل ہے ،ہمارے اکابر،فقہاءاورمفتیان کرام نے بالاتفاق داخلِ مسجد نمازجنازہ کو مکروہ قراردیاہے۔

لہذا بلاعذرشرعی مساجدمیں نماز جنازہ اداکرنے سے احتراز کرنا چاہئے،بطورخاص اہل علم ،مصلحین امت ،ملت کے خواص اور مقتدائے قوم کے جنازے مسجد میں پڑھنے سے بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے کہ عوام الناس دینی معاملات میں ان ہی حضرات کی اقتداءواتباع کرتے ہیں ،پھریہی حضرات امت کے لیے ترکِ سنت اورارتکاب بدعت کاذریعہ بنیں گے۔

محترم قارئین کرام! فیضان قاسمی خالص دینی ،علمی اورتحقیقی ویب سائٹ ہے ، اس کی اشاعت اورفروغ کے لیے خود مطالعہ فرمائیں اور دوست واحباب کو شیئر بھی کریں ۔