مسجد کے سلسلے میں اصل ضابطہ یہ ہے کہ زمین کا جوحصہ مسجد بن گیا ،وہ نیچے تحت الثری تک اوراوپرآسمان تک مسجد ہے ،اس لیے مسجد کا حقیقی ادب واحترام یہی ہے کہ مسجد کے نیچے یا اس کے اوپر ایسی عمار ت نہ بنائی جائے جس کا مقصد مسجد سے مختلف ہو ؛تاہم فقہائے کرام نے چندشرائط کے ساتھ زیریں وبالائی منزل کو متعلقات ِمسجد کے لئے استعمال کی اجازت دی ہے ۔
واقف یامسجد کی کمیٹی جوبمنزلہ واقف ہے ،اگر شرعی مسجد وجودمیں آنے پہلے ہی مسجد کے نام سے وقف شدہ یا خریدہوئی زمین میں اس طرح نیت کرے اورمسجد کا نقشہ بنائے کہ بالائی منز لیں برائے نمازاور تحتانی وزیریں منزل میں مدرسہ کا قیام ،پارکنگ ،دکان برائے اخراجات مسجد یا کسی ایسے مقصد کے لئے جومسجد کے مصالح سے متعلق اور مسجدہی کی طرح وقف بھی ہو،توشرعاًدرست ہے،نیز مسجد کے بالائی منزل کو مدرسہ یا مسجد سے متعلق کسی ضروری کام کے لئے کمرے بنائے جائیں ،تو اس کی بھی شرعا گنجائش ہے ۔
کسی واقف نے مسجد کی نیت کے بغیر چندمنزلہ عمارت تعمیرکی ،پھرتحتانی منزل کو دیگرضروریات کے لیے اورفوقانی منزلیں کونماز کے لئے خاص کرنے کی نیت کی ،یہ بھی درست ہے ۔(مستفاد ازقاموس الفقہ ۹۰/۵مستفادازامدادالفتاوی جدید۱۳۴/۶)
حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب لاجپوری ؒ فرماتے ہیں:مسجدکی ابتدائی تعمیرکے وقت بانی مسجدنیت کرے کہ مسجد کے نیچے کے حصہ میں مسجد کے مفاد کے لیے دکانیں اوراوپرکے حصہ میں امام ومؤذن کے لیے کمرے بنانے ہیں ۔
مسجد مکمل ہونے کے بعد اس کی حیثیت کو بدلنا درست نہیں
یعنی مسجدکی ابتدائی تعمیرکے وقت اس کے نقشہ میں دکان ،کمرے بھی شامل ہوں اورمسجد کے مفاد کے لیے وقف ہوں،توبناسکتے ہیں اوریہ شرعی مسجدسے خارج رہیں گے ،اس جگہ پرحائضہ اورجنبی آدمی جاسکے گا ؛مگر جب ایک بار مسجد بن گئی اورابتدائی تعمیرکے وقت نیچے دکان اوراوپر کے حصہ میں کمرے شامل نہ ہوں،تومسجد کے اوپرکا حصہ آسمان تک اورنیچے کا حصہ تحت الثری تک مسجد کے تابع اوراسی کے حکم میں ہوچکا ،اب اس کا کوئی حصہ مسجد سے خارج نہیں کیاجاسکتا۔(فتاوی رحیمہ۱۲۶/۳)
اگرعملًاشرعی مسجد وجودمیں آجائے ،پھرذمہ داران یاواقف مسجد کی صورت وشکل اور نقشہ بدلناچاہیں ،یا تعمیرجدید میں اس طرح مصالح مسجد کو شامل کرنا چاہیں، تواس کی اجازت نہیں ہے ۔
لوجعل تحتہ حانوتا وجعلہ وقفاعلی المسجد قیل:لایستحب ذالک ولکنہ لوجعل فی الابتداءھکذا صارمسجداوماتحتہ صاروقفا علیہ ،ویجوزالمسجد والوقف الذی تحتہ ،ولوانہ بنی المسجداول،ا ثم ارادان یجعل حانوتا للمسجد فھومردود باطل۔(حاشیة چلپی علی تبیین الحقائق کتاب الوقف فصل فی احکام المسجدمکتبہ زکریا۲۷۱/۶)
لوبنی فوقہ بیتاللامام لایضرلانہ من المصالح ،امالوتمت المسجدیة ،ثم اراد البناءمنع۔(الدرالمختارمع ردالمحتار۵۴۸/۶)
فقیہ العصر حضرت مولانا قاضی مجاہدالاسلام صاحب قاسمی ؒ بانی اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیاتحریرفرماتے ہیں:
مسجدکی تعمیر اوربناکے وقت اگربانیانِ مسجد نے یہ طے کرلیاکہ منصوبہ کے مطابق نیچے کی منزل ضروریات مسجد ،بیت الخلاء،وضوخانہ ،امام ومؤذن کی رہائش یامسجدکے انتظامی اخراجات کے لیے دکانیں جوذریعہ آمدنی ہوں، بنائی جائیں گی اوراوپرکی منزل پرمسجدہوگی،توایساکرنا جائزہوگا،اعتباربوقت بنامسجدکے بانیوں کی نیت کا ہوگا؛البتہ جب مسجد بن چکی ،اس کے بعد مسجدکی کسی منزل میں اس کی حیثیت کو بدلنا درست نہیں ہوگا ۔(فتاوی قاضی ۱۷۷/۲)
فیضان قاسمی خالص ایک دینی ،علمی فقہی اوراصلاحی ویب سائٹ ہے ، خود اس کا مطالعہ کریں ،دوست واحباب کو شیئربھی کریں اور دعاکریں کہ اللہ تعالی مرتب ومعاونین کے لیے ذخیرہ آخرت بنائے اوراس کو شرف قبولیت سے نوازے ۔آمین