معارف القرآن اوراس کی خصوصیات

صاحب تفسیر معارف القرآن شہورمفسرقِرآن سابق مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند ،وبانی دارالعلوم کراچی ،خلیفہ حضرت تھانوی ؒحضرت مولانا مفتی شفیع عثمانی دیوبندی (المتوفی۱۳۹۶ھ م ۱۹۷۶) رحمة اللہ علیہ ہیں ، حضرت والانے بنفس نفیس ”معارف القرآن“کے آغاز میں”مختصرسرگذشت ِمصنف “”معارف القرآن“ کی تصنیف کے قدرتی و ظاہری اسباب اور”معارف القرآن“ کی خصوصیات کو بیان فرمایاہے ،اسی ”مختصرسرگذشت مصنف“ کی تلخیص پیش خدمت ہے ۔

حضرت والاتحریرفرماتے ہیں: ”ناکارہ خلائق بندہ محمدشفیع ابن مولانامحمدیسین صاحب رحمة اللہ علیہ اس نعمت کا شکرادانہیں کرسکتاکہ حق تعالیٰ نے اس کا مولدووطن مرکزِ علوم اسلامیہ دیوبندکوبنایا اورایسے والدمحترم کی آغوش میں پرورش کاموقع عطافرمایا جوحافظ ِقرآن اورعالمِ دین ہونے کے ساتھ دارالعلوم دیوبندکے ہم عمر تھے ،دارالعلوم دیوبند کے بانیان علماءربانیین کی صحبتوں سے فیض یاب ہونے کے مواقع ان کو ہمیشہ میسررہے ،ان کی زندگی بچپن سے وفات تک دارالعلوم دیوبندہی میں گزری وہیں تعلیم حاصل کی اوروہیں مدرس ہوکرساری عمرتعلیم کی خدمت گذاری کی ۔

تعلیمی سلسلہ

احقرکی ابتدائی تعلیم ِقرآنِ دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ حافظ عبدالعظیم صاحب اورحافظ نامدارخاں صاحب کے پا س ہوئی، پھروالدمحترم کی خدمت میں اردو،فارسی،حساب اورعربی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی ،۱۳۳۱ھ میں بچپن سے متوسط تعلیم عربی تک شیخ العرب والعجم سیدی حضرت مولانا محمودالحسن صاحب شیح الہندقدس سرہ کی خدمت میں حاضری دی ،کبھی کبھی درس بخاری کی غیررسمی حاضری نصیب رہی۔

مالٹا جیل سے واپس تشریف لانے کے بعد آپ کے دست حق پرست پر بیعت ِطریقت نصیب ہوئی ، ارالعلوم کے درجہ عربی میں باقاعدہ داخلہ لے کر۱۳۳۵ھ تک درس نظامی کا نصاب ان ماہرفِن اساتذہ سے حاصل کیا جن کی نظیرآج دنیا کے کسی گوشے میں ملنا مشکل ہے۔

علوم عربیہ کی باقاعدہ تعلیم حافظ حدیث جامع العلوم حضرت علامہ محمدانورشاہ صاحب کشمیری ،عارف باللہ مولانا مفتی عزیزالرحمن صاحب ،عارلم ربانی حضرت مولاناسیداصغرحسین صاحب ،شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیراحمد صاحب عثمانی اورشیخ الادب والفقہ حضرت مولانا محمداعزاز علی صاحب،ماہرعلوم معقول ومنقول حضرت مولانا علامہ محمدابراہیم صاحب اورحضرت مولانا محمدرسول خاں صاحب رحمة اللہ علیہم اجمعین سے حاصل کی ۔

۱۳۳۷ھ میں اکابردارالعلوم نے باقاعدہ دارالعلوم میں تدریس کی خدمت پرلگادیا ،بارہ سال مسلسل مختلف علوم وفنون کی متوسط اوراعلی کتابوں کے درس کی خدمت انجام دی ،۱۳۳۹ھ میں صدرمفتی کی حیثیت سے دارالعلوم کا منصب ِفتوی سپردکیاگیا،اس کے ساتھ کچھ حدیث وتفسیرکی کتابیں بھی زیردرس رہیں اوربالآخر۱۳۶۲ھ میں دارالعلوم دیوبند سے مستعفی ہوکر۲۰جمادی الثانیہ ۱۳۶۷ھ یکم مئی ۱۹۴۸ءپاکستان ہجرت کی ۔

معارف القرآن کی تصنیف کا پس منظر

دارالعلوم کی چھبیس سالہ خدمت درس وفتوی کے ساتھ خاص خاص موضوعات پرتصنیف کا سلسلہ بھی جاری رہا،ان تمام مشاغل اوربزگانِ دارالعلوم کی صحبت سے اپنے حوصلے کے مطابق قرآن وحدیث سے کچھ مناسبت ہوگئی تھی ،حضرت مجددالملت حکیم الامت سیدی حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس کی خدمت میں زمانہءطالب علمی سے حاضری کا شرف حاصل رہامگر۱۳۴۶ھ سے تجدیدِبیعت کے ساتھ مسلسل حضرت کی وفات تک تقریبا بیس سال حاضر باشی کا شرف حاصل ہوا۔

حضرت اقدس نے یہ ضرورت محسوس کی کہ احکام القرآن پرکوئی کتاب عربی زبان میں مرتب کی جائے ،جس میں عصر حاضرکے مسائل بھی جس قدرقرآن کریم سے ثابت ہوسکتے ہیں واضح کیاجائے، اس کام کوجلدپوراکرنے کے خیال سے چنداصحاب میں تقسیم فرمایا، اس کاایک حصہ احقرکے بھی سپردفرمایا،جس کا کچھ حصہ توحضرت قدس سرہ کی حیات میں آپ کی زیرنگرانی لکھاگیا ،باقی حضرت کی وفات کے بعد بعونہ تعالیٰ پوراہوگیا، اس سلسلے نے حضرت کی برکت سے بحمداللہ قرآن کریم کے ساتھ ایک خصوصی تعلق اورطلب پیداکردی۔

پاکستان ہجرت کرنے کے بعد ”مسجدباب الاسلام“ آرام باغ کراچی میں روزانہ بعدنمازِ فجردرس ِقرآن شروع ہوا ،الحمدللہ سات سال میں یہ درس قرآن مکمل ہوا،نیزیہ درسِ قرآن امید سے زیادہ مفید ومؤثرثابت ہوااور سننے والوں کی زندگی میں انقلاب کے آثاردیکھے گئے۔

ریڈیوپاکستان کی دعوت پر (حضرت والا نے )۳/شوال۱۳۷۳ھ ۲/جولائی ۱۹۴۵ءسے ہفتہ واری درسِ قرآن بنام” معارف القرآن“ شروع کیا ،اس درس ِقرآن میں منتخب قرآنی آیات کی تفسیر،متعلقہ احکام بیان کرنے کا سلسلہ تقریبا شروع ہوایہ درسِ قرآن پاکستان،افریقہ اوریورپ میں بہت مقبول ہوا ،ان علاقوں میں آبادمسلمانوں کی طرف سے شوق وشغف کے بے شمارخطوط دفترریڈیوپاکستان اوراحقرکو موصول ہوئے ،نیز بہت سارے احباب نے اس کو ٹیپ ریکارڑ کے ذریعہ محفوظ کرکے دیگرحضرات کو سنایا ،اس درس قرآن کو کتابی صورت دینے کا تقاضاکیا۔

معارف القرآن کی طباعت کا تقاضا

احقرنے ان جذبات اور”معارف القرآن“ کی مقبولیت کے آثار کی بناپرمسلسل گیارہ سال تک اس کو جاری رکھا ،اس مدت میں سورہ فاتحہ تا سورہ ابراہیم منتخب آیات کی تفسیربیان کی گئی تھی،اس درس قرآن میں وہ آیات شامل نہیں تھیں جو خالص علمی مضامین اوراحکام سے متعلق تھیں، جب ریڈیو پاکستان کی اپنی نئی پالیسی کی بنیادپر ” معارف القرآن“کا سلسلہ موقوف ہوگیا،توبعض احباب نے بقیہ آیات کی تکمیل کے ساتھ کتابی صورت دینے کاشدید مطالبہ کیا ۔

چنانچہ سورہ فاتحہ کی نظرثانی ۱۶/صفر۱۳۸۳ھ میں مکمل ہوئی ،سورہ بقرہ میں چونکہ آیاتِ احکام زیادہ ہیں مستقل کام کی ضرورت تھی ؛لیکن کثرتِ مشاغل وامراض نے فرصت نہ دی، ۱۳۸۸ھ میں (حضرت والا کی) طبیعت نہایت خراب ہوگئی،کئی ماہ موت وحیات کی کشمکش میں مبتلارہنے کے بعد کچھ افاقہ ہوا،توسورہءبقرہ کی تفسیر شروع ہوئی ،یہاں تک کہ ۱۳۹۰ھ میں تیرہ پاروں پرنظرثانی مکمل ہوئی ،رفتہ رفتہ بڑھاپے اورکثرتِ امراض کے ساتھ یہ تفسیرامید(تکمیل کی )وخوف (عدم تکمیل کا)کے ساتھ جاری تھی اورتکمیل میں صرف ڈیڑھ پارہ باقی رہ گیا تھاکہ قلب پرشدید حملہ ہوا ،پھرحالات موت وحیات کی کشمکش کے پیداہوئے۔

متعلقین چنددنوں کا مہمان سمجھتے تھے ،اللہ کے فضل سے تین ماہ بعد کچھ لکھنے پڑھنے کی ہمت وحوصلہ پیداہوا اورالحمدلل۱۳۹۲ھ میں یہ تفسیرپایہءتکمیل کو پہنچی،بعینہ یہی دن میری ولادت کا دن تھا اور میری عمر کی ۷۷ ستترمنزلیں پوری ہوکر۷۸ اٹھترواںسال شروع ہوا ۔

معارف القرآن کی خصوصیات

تفسیرقرآن میں سب سے اہم اوراحتیاط کی چیز قرآن کا ترجمہ ہے ؛کیونکہ وہ اللہ کے کلام کی حکایت ہے ،اس میں ادنی سے کمی پیشی بھی اپنی طرف سے روانہیں،اس لئے میں نے خودکوئی ترجمہ لکھنے کی ہمت نہیں کی اوراس کی ضرورت بھی نہیں تھی ؛کیونکہ اکابرعلماءبڑی احتیاط کے ساتھ انجام دے چکے ہیں۔

اردوزبان میں اس خدمت کو سب سے پہلے حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ؒکے دوفرزندارجمندحضرت شاہ رفیع الدینؒ اورحضرت شاہ عبدالقادرؒ نے اپنے اپنے طرز میں انجام دیا،اول الذکر ترجمہ میں بالکل تحت اللفظ ترجمہ اختیارکیاگیاہے اردومحاورہ کی بھی زیادہ رعایت نہیں رکھی گئی ہے اوربڑے کمال کے ساتھ قرآن کے الفاظ کو اردومیں منتقل فرمایاہے اوردوسرے ترجمہ میں تحت اللفظ کے ساتھ اردومحاورہ کی رعایت بھی ہے جس کو حضرت شاہ عبدالقادرؒ نے چالیس سال مسجدمیں معتکف رہ کر پوراکیاہے یہاں تک کہ آپ کا جنازہ مسجدہی سے نکلا۔

دارالعلوم دیوبندکے پہلے صدرمدرس حضرت مولانا محمدیعقوب صاحب ؒ کا فرماناہے کہ بلاشبہ یہ ترجمہ الہامی ہے ،انسان کے بس کی بات نہیں ہے کہ ایساترجمہ کرسکے ،شیخ العرب والعجم سیدی حضرت مولانا محمودالحسن صاحبؒ نے اپنے زمانہ میں دیکھاکہ اب بہت سے محاورات بدل جانے کی وجہ سے بعض مقامات میں ترمیم کی ضرورت ہے ،تو انھوں نے اسی ترجمہ کی یہ خدمت انجام دی جو ترجمہ شیخ الہندکے نام سے معروف ومشہورہوا ۔

تفسیری اسلوب

الف:احقرنے قرآن کریم کے زیرمتن اسی ترجمہ کو بعینہ لیاہے ۔ ب:سیدی حضرت حکیم الامت تھانوی قدس سرہ نے اصل” تفسیربیان القرآن“ کو اس انداز میں لکھاہے کہ متنِ ِ قرآن کے ترجمہ کے ساتھ ساتھ ہی اس کی تفسیروتوضیح قوسین کے درمیان فرمائی ہے ،ترجمہ پرخط کھینچ کراورتفسیرکو بین القوسین لکھ کر ممتاز کردیاہے ،احقرنے حضرت کی اس تفسیرکوبنام ”خلاصہ ءتفسیر“شروع میں بعینہ صرف ایک تصرف کے ساتھ نقل کردیاہے وہ یہ کہ اس تفسیرمیں جس جگہ خاص اصطلاحی اورمشکل الفاظ آئے تھے ،وہاں ان کو آسان لفظوں میں منتقل کردیاہے۔

اس کا نام خلاصہءتفسیررکھنا اس لئے موزوں ہواکہ خود حضرت نے خطبہءبیان القرآن میں اس کے متعلق فرمایاہے کہ اس کو”تفسیرِمختصر“یا”ترجمہ مطول“ کہاجاسکتاہے ،اگرکوئی مضمون خالص علمی اورمشکل تھا تو اس کو یہاں سے الگ کرکے ”معارف ومسائل“میں اپنی آسان عبارت میں لکھ دیاہے تاکہ مشغول آدمی اگرزیادہ نہ دیکھ سکے توخلاصہءتفسیرہی سے کم از کم مفہوم قرآنی کو پوراسمجھ لے ۔

معارف ومسائل

ج:تیسراکام جو احقرکی طرف منسوب ہے وہ ”معارف ومسائل“کا عنوان ہے ،اس میں غورکیاجائے تو احقرکی صرف عبارت ہی ہے ،مضامین سب علماءسلف کی تفسیرسے لئے ہوئے ہیں جن کے حوالے ہرجگہ لکھ دئے ہیں اس میں احقرنے چندچیزوں کا التزام کیاہے۔

د:تفسیرقرآن میں سب سے پہلااوراہم کام لغات کی تحقیق ،نحوی ترکیب ،فن بلاغت کے نکات اور اختلاف ِقراءت کی بحثیں ہیں جو بلاشبہ اہل علم کے لئے فہمِ قرآن میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں ؛لیکن یہ بحثیں عوام کی فہم سے بالاتراوراصل مقصدمیں مخل بنتی ہیں وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ قرآن کو سمجھ کرپڑھنا مشکل کام ہے ؛حالانکہ قرآن کریم کا جو اصل مقصد ہے کہ انسان کاتعلق اپنے رب کے ساتھ قوی ہواوراس کے نتیجے میں مادی تعلقات اعتدال پرآجائیں کہ وہ دین کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں۔

دنیاسے زیادہ آخرت کی فکرپیداہواورانسان اپنے ہرقول وفعل پریہ سوچنے کا عادی ہوجائے کہ اس میں کوئی چیز اللہ اوراسکے رسول کی مرضی کے خلاف تو نہیں ہے ،اس چیز کو قرآن نے اتناآسان کردیاہے کہ معمولی لکھاپڑھا آدمی خوددیکھ کر اوربالکل ان پڑھ جاہل سن کربھی یہ فائدہ حاصل کرسکتاہے ،قرآن کریم نے خوداس کا اعلان فرمایادیاہے ولقدیسرناالقرآن للذکرفھل من مدکر(سورةالقمر:۱۷)۔

معار ف القرآن میں راجح اقوال

تفسیر”معارف القرآن“میں عوام کی سہولت کے پیش نظران علمی اصطلاحی بحثوں کی تفصیل نہیں لکھی گئی ،بلکہ ائمہ تفسیرکے اقوال میں جس کوجمہورنے راجح قراردیاہے اس کے مطابق تفسیرلے لی گئی اورکہیں کہیں بضرورت یہ بحث لی گئی ہے تووہاں بھی اس کا لحاظ رکھا گیاہے کہ خالص علمی اصطلاحات اورغیرمعروف اورمشکل الفاظ نہ آئیں اوراسی لئے ایسے مباحث علمیہ کو بھی چھوڑگیاہے جوعوام کے لئے غیرضروری اورا ن کی سطح سے بلندہیں۔

ب:مستندومعتبرتفاسیرسے ایسے مضامین کو اہمیت کے ساتھ نقل کیاگیاہے جو انسان کے دل میں قرآن کی عظمت اوراللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کی عظمت ومحبت کو بڑھائیں اورقرآن پرعمل اوراپنے اعمال کی اصلاح کی طرف مائل کریں۔

ج:قرآن کریم قیامت تک آنے والی نسلوں کی ہدایت کے لئے نازل ہواہے اورقیامت تک پیداہونے والے تمام مسائل کا حل اس میں موجود ہے ،بشرطیکہ قرآن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان وتشریح کی روشنی میں پورے تدبرسے لیاجائے ،اسی لئے ہرزمانہ کے علماءِ تفسیرنے اپنی اپنی تفسیروں میں ان جدیدمسائل اورمباحث پرزیادہ زوردیاہے جو ان کے زمانہ میں پیداہوئے ،یاملحدین اہل باطل کی طرف سے شکوک وشبہات کی صورت میں پیداکردئے گئے ،اسی لئے قرون متوسطہ کی تفسیریں معتزلہ ،جہمیہ ، صفوانیہ وغیرہ فرقوں کی تردیداوران کے شبہات کے ازالہ سے پرنظرآتی ہیں ۔

وشبہات کے ازالہ میں مقدوربھر کوشش

احقرناکارہ نے بھی اسی اصول کے تحت ایسے ہی مسائل اورمباحث کو اہمیت دی ہے جو اس زمانے کے مشینی دورنے نئے نئے مسائل پیداکردئے ہیں ،یااس زمانہ کے ملحدین ،یہودی ،نصرانی مستشرقین (فرق ضالہ )نے دلوں میں شکوک وشبہات پیداکرنے لئے کھڑے کردئے ہیں۔

جدیدمسائل کے حل کے لئے مقدوربھراس کی کوشش کی ہے کہ قرآن وسنت یافقہاءِامت کے اقوال میں اس کا کوئی ثبوت ملے یا کم از کم اس کی کوئی نظیر ملے اورالحمدللہ اس میں کامیابی ہوئی ،ایسے مسائل میں دوسرے علماء عصرسے مشورہ لینے کا بھی التزام کیا گیاہے اورملحدانہ شکوک وشبہات کے ازالہ میں بھی مقدوربھراس کی کوشش رہی ہے کہ جواب اطمینان بخش ہو اور اس جواب دہی کے لئے اسلامی مسائل میں ادنیٰ ترمیم کوگوارانہیں کیاہے ، مذکورةالصدرالتزامات نے” تفسیرمعارف القرآن“ کو مندرجہ ذیل چیزوں کاجامع بنادیاہے۔

معارف القرآن مندرجہ ذیل چیزوں کاجامع

الف:قرآن مجیدکے دومستندترجمے ایک حضرت شیخ الہندؒ کا جودراصل شاہ عبدالقادرصاحبؒ کا ترجمہ ہے ،دوسرا حضرت حکیم الامت تھانویؒ کا ترجمہ ہے ۔ ب:خلاصہءتفسیرجودرحقیقت ”بیان القرآن“ کا خلاصہ مع تسہیل ہے جس کو علحدہ بھی قرآن مجیدکے حاشیہ پر طبع کرلیاجائے تو تھوڑی فرصت والوں کے لئے فہم قرآن کا مستنداوربہترین ذریعہ ہے ،یہ دونوں چیزیں تواکابرکی مستند اورمعروف ہیں ۔

ج:تیسری چیز معارف ومسائل ہیں جو میری طرف منسوب ہےاورمیری محنت کا محور ہیں الحمدللہ اس میں بھی میراکچھ نہیں ،سب اسلافِ امت ہی سے لیاہواہے ۔ بندہ ضعیف وناکارہ محمدشفیع خادم دارالعلو م کراچی ۲۵/شعبان۱۳۹۲ھ

نمبروارخصوصیات

حضر ت والانے” معارف القرآن“ کی اہم خصوصیات کو اختصار اً واجمالاً بیان فرمایاہے، اس اجمال کو ہم نے مندرجہ ذیل تفصیلات کی صورت میں پایا۔ ٭متنِ قرآن کے تحت ترجمہ شیخ الہندجو ترجمہ شیخ عبدالقادرصاحب ؒ کی تسہیل ہے ۔ ٭ مختصروجامع تفسیرپرمبنی ”تفسیربیان القرآن ‘مع تسہیل وتیسیربنام ”خلاصہءتفسیر“ ٭بقدرضرورت مشکل الفاظ کی وضاحت اورلغوی تحقیق ۔ ٭آیاتِ احکام میں مدلل قدیم وجدید احکام شرعیہ کی وضاحت اوران کا استنباط ۔ ٭آیاتِ ترغیب میں قرآن،احادیث نبویہ، آثارصحابہ ،اقوال حکماءاورعبرت آمیز واقعات کی روشنی میں آداب ومستحبات ،فضائل وفوائد پرسیرحاصل تذکرہ ۔ ٰ

٭آیاتِ ترہیب میں قرآن،احادیث نبویہ، آثارصحابہ ،اقوال حکماءاورعبرت آمیز واقعات کی روشنی میں معاصی کی قباحت ومذمت ،شرعًا وعقلًامفاسدونقصانات کا بیان ۔ ٭آیات ِواقعات میں،قرآن وحدیث اورتاریخ کی روشنی میں مستندومعتبراحوال کی تفصیلات،حتی الامکان اسرائیلی روایات سے احترازبوقت ضرورت حفاظ ِحدیث اورائمہ جرح وتعدیل کا تبصرہ وتجزیہ ۔

٭آیاتِ واقعا ت میں مقصودِقرآن”عبرت وموعظت“ پر لطیف استنباطات اور واقعات سے مستنبط ہونے والی عبرتوں اورنصائح کا بیان۔ ٭مستشرقین، اہل ھوا وبدع کے ا عتراضات وباطل استدلالات کا ابطا ل اورآیات کی صحیح تشریح اوراہل حق کی مسلک کی ترجمانی ۔

٭باہم متعارض آیات کے مابین اسلاف کے اقوال کی روشنی میں عمدہ تطبیق ۔ ٭محتمل آیات میں راجح اقوال کی روشنی میں صحیح مصداق ومحمل کی وضاحت اورعمدہ وبے غبارتشریح ۔ ٭اسلاف کے مابین اختلافی مسائل (مثلارؤیت باری) میں احوط و اسلم طریق کی اتباع ۔ ٭فہمِ قرآن میں پیش آنے والے سوالات وشبہات اوروساوس کا بہترین حل ۔ ٭آیات کی تفسیرکے ضمن میں دورحاضرکے فتنے ،فتنوں کے بانی اورا ن کی نظریات کے باطل استدلالات ، تفسیربالرای کرنے والوں کا تعاقب اوران کے اطمینان بخش جوابات۔ ٭آیات اورسورتوں کے مابین ربط کلام ۔ ٭حفاظِ حدیث ،ناقدین ِحدیث اورائمہ تفسیرکے باحوالہ اقوال،رطب ویابس سے اجتناب ۔

مراجع

حضرت مفتی صاحب نے تفسیرقرطبی ،تفسیرابن کثیر،تفسیرکبیر،روح المعانی اورتفسیرمظہری ،احکام القرآن للجصاص، البحرالمحیط اورحدیث کی امہات کتب وغیرہ سے خوب استفادہ فرمایاہے ۔(فہارس خطبات ومواعظ :۱۷تا۲۵ مرتب عبداللطیف قاسمی )