مقام ابراھیم جنت کا وہ پتھرہے جس پرکھڑے ہوکرحضرت ابراہیم علیہ الصلوة والسلام نے بیت اللہ کی تعمیرفرمائی ،اللہ تعالیٰ نے کعبہ شریف کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں
فیہ آیات بینات مقام ابراہیم (آل عمران : ۹۷)
کعبة اللہ میں (قدرت کی) واضح نشانیاں ہیں جن میں سے ایک مقام ابراھیم ہے ۔
حضرت ابن عمرفرماتے ہیں:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا
ان الرکن والمقام یاقوتتان من یاقوت الجنة ،طمس اللہ نورھما، ولولم یطمس نورھما لاضاءامابین المشرق والمغرب ۔۔(ترمذی کتاب الحج باب ماجاءفی فضل الحجرالاسودوالرکن:۸۷۸)
حجراسود اورمقام ابراھیم جنت کے دویاقوتی پتھر ہیں ،اللہ تعالیٰ نے ان کی روشنی کو ماندکردی ہے ،اگران کی روشنی کو ماندنہ کرتا،تووہ دونوں مغرب ومشرق کے درمیان کی چیزوں کو روشن کردیتے ۔
بعض روایات میں ہے کہ پتھرتعمیرکی بلندی کے ساتھ ساتھ خود بخود بلندہوجاتاتھااورنیچے اترنے کے وقت نیچے ہوجاتاتھا،ا س پتھرکے اوپرحضرت ابراہیم علیہ الصلوة والسلام کے قدمین کاگہرانشان آج تک موجودہے ،ایک بے حس وبے شعورپتھرمیں یہ ادراک کہ ضرورت کے موافق بلند یاپست ہوجائے اورموم کی طرح نرم ہوکر قدمین کا مکمل نقشہ اپنے اندرلے لے، یہ سب آیا تِ قدرت ہیں جوبیت اللہ کی اعلی فضیلت سے متعلق ہیں۔
یہ پتھربیت اللہ کے نیچے دروازے کے قریب تھا،جب قرآن کا یہ حکم نازل ہواکہ مقام ِابراہیم پرنماز پڑھوواتخذوا من مقام ابراھیم مصلی اس وقت طواف کرنے والوں کی مصلحت سے اس کو اٹھاکربیت اللہ کے سامنے ذرافاصلہ پرمطاف سے باہر بیرزم زم کے قریب مقام ابراھیم رکھ دیا گیااورآج اسی جگہ ایک بلوری (شیشہ)خول کے اندرمحفوظ رکھاگیاہے،(پھراس شیشے کو پیتل اورتانبے کی جالی سے گھیردیاگیاہے اورجالیوں میں سے صاف طورپرنظرآتاہے)، طواف کی بعد کی دوررکعت اس کے پیچھے پڑھنا افضل ہے ۔(مستفادازمعارف القرآن ۱۲۰/۲)
حطیم/حجر
بیت اللہ کی شمالی دیوارکے بعد چھ ذراع کی جگہ کو”حجر“کہتے ہیں،بعض نے کہا کہ سات ذراع کی جگہ کو اوراس کے بعد نصف دائرے کی صورت میں جوجگہ ہے اس کو حطیم کہتے ہیں،کبھی نصف دائرہ اورحجرکے مجموعہ کو بھی کہاجاتاہے ،حجرکے بیت اللہ کاحصہ ہونے میں جمہورکا اتفاق ہے ،اس لیے کہ یہ وہی حصہ ہے جسے قریش نے بناءکعبہ کے وقت چھوڑدیاتھا ؛البتہ حطیم کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ بیت اللہ کا جزءہے یانہیں؟ ۔(درس ترمذی۱۳۵/۳)
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں:میری خواہش تھی کہ میں کعبہ کے اندرجاؤوں اوروہاں نمازپڑھوں(جب میں نے اپنی خواہش کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ذکر کیاتو)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میراہاتھ پکڑااورمجھے حجرمیں لے گئے اورفرمایا:حجرمیں نماز پڑھ لیا کرو،جب تمہارا ارادہ بیت اللہ کے اندرجاکرنماز پڑھنے کاہو،پس وہ بیت اللہ ہی کا حصہ ہے ؛لیکن تیری قوم نے چندے کوکم سمجھا جس وقت انہوں نے کعبہ تعمیرکیا،پس انہوں نے حطیم کو کعبہ سے باہرنکال دیا۔(ترمذی: کتاب الحج باب ماجاءفی الصلوة فی الحجر:۸۶۴)
ملتزم
حضرت مجاہد تابعی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:کعبة اللہ کے دروازے اور حجراسود کے درمیانی حصہ کوملتزم کہاجاتاہے ،اس لئے کہ دعامانگنے والااپنے سینے اورہتھیلیوں وغیرہ کو پھیلاکر کعبة اللہ کے اس حصے سے چمٹادیتاہے ،اس حصہ کو متعوذ بھی کہاجاتاہے ،یعنی جائے پناہ ،اس لیے کہ اس مقام میں ہرقسم کی پریشانی ومصیبت سے پناہ طلب کی جاتی ہے،یہ دعاءکی قبولیت خاص مقام ہے ۔(اخبارمکة للازرقی۳۴۷/۱)
حضرت عبدالرحمن بن صفوان فرماتے ہیں
رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ملتزما الباب مابین الحجروالباب،ورأیت الناس ملتزمین البیت مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔(رواہ ابوداؤد واحمد: ۱۵۵۵۲)
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حجراسود اورکعبہ کے دروزاے کے درمیانی حصہ سے چمٹاہوادیکھا اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے رفقاءکو بھی اس حصے سے چمٹے ہوئے دیکھاہے ۔
حضرت عمروبن شعیب اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں:میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو ؓکے ساتھ طواف کیا،جب ہم کعبہ کی پشت کی جانب آئے ،تومیں نے عرض کیا ،حضرت پناہ طلب نہیں کرتے ؟فرمایا: ہم جہنم کی آگ سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں،پھرچل کر حجراسود کو بوسہ دیا ،پھرحجراسود اورکعبة اللہ کے دروازے کے درمیان کھڑے ہوئے ،پھراپناسینہ ،چہرہ ،اوردونوں ہاتھوں کو کعبہ کی دیوارپرپھیلاکر دعاکرنے لگے اورفرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھاہے ۔ابوداو¿دکتاب الحج،الملتزم :۱۸۹۹)
محترم قارئین کرام!فیضان قاسمی خالص اصلاحی ،علمی ،فقہی وتحقیقی ویب سائٹ ہے ،خودمطالعہ کریں ،دوست واحباب کو مطلع کریں ،دعاء کریں کہ اللہ تعالیٰ اس ویب سائٹ قارئین کے مفیداورمرتبین کے لیے ذخیرہ آخرت بنائے ۔آمین