مکان بیوی کا بنیادی حق

نفقہ میں مکان اوررہائش کا انتظام بھی شامل ہے، اس کوفقہاء”سکنی“سے تعبیرکرتے ہیں ،اللہ تعالیٰ نے بیوی کے لئے رہائش کے انتظام کو واجب قراردیاہے ۔

اسکنوھن من حیث سکنتم من وجدکم۔(الطلاق: ۶)

رہائش گاہ کے سلسلہ میں بنیادی احکام درج ذیل ہیں

الف:رہنے کے لئے مکان فراہم کرنا ،خواہ ذاتی ہو،کرایہ کا ہو،یا عاریت کا ۔

ب:مکان فراہم کرنے میں شوہر اوربیوی دونوں کی رعایت کی جائے گی ۔

ج:گھرکے ساتھ گھریلوضروت کی چیزیں بھی فراہم کرنی ضروری ہیں ۔

د:بیوی کے لئے ایسامکان فراہم کرے جس میں اس کی خواہش کے بغیردوسروں کے ساتھ رہنے پراس کومجبورنہ کیاجائے ۔

اس سلسلہ میں فقہاءنے بالتفصیل کلام کیاہے جس کاخلاصہ یہ ہے

الف:مکان ایک ہی کمرہ کا ہوجس میں میاں بیوی کے علاوہ کوئی دوسرامردیاعورت یاباشعوربچہ کاقیام نہ ہو،تووہ گھرسکنی کے لائق ہے ،اگرکسی مردیاعورت یاباشعوربچہ کا قیام ہو،تو یہ گھرسکنی کے لئے کافی نہیں ہے ۔

ب:مکان میں کئی کمرے ہوںاورہرایک کو مستقل تالالگایاجاسکتاہو،باورچی خانہ اوربیت الخلاءبھی مستقل ہوںاورعورت کو دیگررشتہ داروں سے کوئی تکلیف نہ ہوتی ہو ،توایساگھربھی سکنی کے لئے کافی ہے ۔

ج:مکان میں کئی کمرے ہوںاورہرایک کو مستقل تالالگایاجاسکتاہو؛لیکن باورچی خانہ مستقل نہ ہو،توایساگھرحق ِسکنی کے لئے کافی نہیں ہے ۔

د:مکان میں کئی کمرے ہوںاورہرایک کو مستقل تالالگایاجاسکتاہو، باورچی خانہ بھی مستقل ہو؛لیکن بیت الخلا مشترک ہواورشوہر کی مالی استطاعت کمزورہو،توایساگھرحق ِسکنی کے لئے کافی ہے ۔(مستفاداز قاموس الفقہ ۲۰۸/۵)

شوہربیوی کومشترکہ مکان میں سکونت پرمجبورنہیں کرسکتا

ہمارے ہندوستانی معاشرہ میں بسااوقات شوہربیوی کو اپنے والدین کے مکان ہی میں رکھتاہے، اگرمکان میں متعددکمرے ہوںاورہرایک کومستقل تالالگاجاسکتاہواورعورت کوکسی رشتہ دار سے تکلیف نہ پہنچتی ہو،تو اس مکان میں بیوی کو ٹہرانا جائز ہوگا ،بصورت دیگرشوہربیوی کو اس طرح کے مکان میں رہنے کے لئے شرعًامجبورنہیں کرسکتاہے ۔

لہذاایسی صورت حال میں عورت کو چاہئے کہ شوہرکے والدین کے مشترکہ مکان میں سکونت اختیارکرے ،شوہرکے والدین کو اپنے والدین سمجھ کر ان کی خدمت کوسعادت سمجھے اور ان کے تجربات سے فائدہ اٹھائے ، یہ عورت کی سعادت مندی وخوش نصیبی ہے اور۔ان شاءاللہ ۔دنیا وآخرت میں اجرملے گا ؛لیکن عورت شوہرکے والدین کی خدمت کرنا نہیں چاہتی اوران کے ساتھ رہنا پسندنہیں کرتی ،تو شوہراس کو مجبورنہیں کرسکتا ۔

اگرعورت بخوشی اس طرح کے مشترکہ مکان میں رہنے پرراضی نہ ہو، توشوہرکو چاہئے کہ وہ اس کے مطالبہ کو برانہ سمجھے؛ بلکہ اس کا شرعی حق اوراپنی ذمہ داری سمجھ کر اس کے لئے مستقل مکان کا انتظام کرے۔

لڑکے کے والدین کی ذمہ داری

اپنے لڑکے کانکاح کرنے کے بعد لڑکے اوربہوکے لئے اس طرح کا مناسب گھر(جس کی تفصیل پیچھے گزری)کاانتظام کرنا چاہئے،اگربہومشترکہ گھر میں خوش دلی سے رہ جائے ،تواس کی قدرکریں ،اس کو گھر کا ایک فرد اوربیٹی سمجھیں ۔

اگروہ اپنے جائز اورشرعی حق کا مطالبہ کرے اوراپنے شوہرکے ساتھ الگ گھرمیں رہنا چاہتی ہے ،تو اس کو برا نہ سمجھےں اورطعنہ نہ دےں؛ بلکہ اس کے جائز حق کو شوہرکی شرعی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اس کا انتظام کریں۔

ان شرعی واخلاقی ذمہ داریوں سے ناواقف ہونے کی وجہ سے میاں بیوی اوردونوں کے خاندانوں میں غلط فہمیاں اور جھگڑے شروع ہوتے ہیں اور پورے خاندان میں تلخیاں اورنفرتیں پھیل جاتی ہیں ۔

مہر اور نفقہ بھی بیوی کے حقوق میں شامل ہے، اس کے مطالعہ کے لئے ان حروف پر کلک کیجئے