قبلے والی دیوار کی طرف سے میت کو قبرمیں اتارے،یہی افضل طریقہ ہے، اگرمشکل ہو، تو پیر کی طرف سےاتاراجائے ،اگر یہ بھی مشکل ہو،توکسی بھی طرف سے حسبِ سہولت میت کو قبرمیں اتاراجاسکتاہے ۔
احناف کے نزیک قبلے والی دیوارکی طرف سے میت کو قبرمیں داخل کرنا افضل ہے ،اس طورپرکہ جنازہ قبلے والی دیوارپررکھیں ،پھر قبر میں داخل کریں،اس لیے کہ قبلے والی جہت افضل ہے ،لہذااسی طرف سے میت کو قبرمیں اتارنا افضل ہوگا ۔
حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں: ایک شخص کا انتقال ہوگیا ،رات میں ان کی تدفین کی گئی ،میت کو قبرمیں اتارنے کے لیے خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبرمیں اترے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے چراغ روشن کیاگیا(تاکہ میت کو قبرمیں اتارنے اور تدفین میں آسانی ہو )آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میت کو قبلے کی طرف سے قبرمیں لیا اورفرمایا: اللہ تم پرمہربانی فرمائے ،تم اللہ کے خوف سے بہت زیادہ رونے والے اوربہت زیادہ قرآن پڑھنے والے تھے الخ۔(ترمذی ،کتاب الجنائز ،باب ماجاء فی الدفن باللیل : ۱۷۰۵)
حضرت امام شافعی ؒ فرماتے ہیں: میت کو قبرمیں پیرکی جانب سے داخل کیاجائے گا، یعنی جنازے کوپیر کی طرف والی دیوارپر رکھیں گے ،پھروہاں سے کھینچ کر قبرمیں لیں گے ۔
امام شافعی ؒ کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طریقے سے قبراطہرمیں اتاراگیاتھا۔(مشکوۃ المصابیح بحوالہ مسندشافعی ،کتاب الجنائز ،باب دفن المیت: ۱۷۰۵)
امام شافعیؒ کی دلیل کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرئہ مبارکہ میں جانبِ قبلہ جگہ نہیں تھی ،اس مجبوری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیروالی دیوارکی طرف سے قبراطہر میں اتاراگیا ۔(لمعات التنقیح ،کتاب الجنائز،باب دفن المیت : ۱۷۰۵،تحفۃ الالمعی،کتاب الجنائز ۳؍۴۷۱)
میت کو قبرمیں اتارنے کی دعا
میت کو قبرمیں اتارنے کے وقت مندرجہ ذیل دعاپڑھے:
بِسْمِ اللَّهِ وَبِاللَّهِ، وَعَلَى مِلَّةِ رَسُولِ اللَّه یا بِسْمِ اللَّهِ وَبِاللَّهِ وَعَلَى سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
اللہ کے نام ،اس کی توفیق اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شریعت کے موافق اس میت کو قبرمیں اتارہے ہیں،اللہ کے نام ،اس کی توفیق اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق اس میت کو قبرمیں اتارہے ہیں۔(ترمذی، کتاب الجنائز ،باب ماجاء مایقول اذاادخل المیت القبر: ۱۰۴۶)
تین چلومٹی قبرمیں ڈالنا
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے ایک جنازے کی نمازپڑھائی ،پھرقبرپرتشریف لے آئے ،پھرسرکی طرف سے تین مٹھی مٹی قبرمیں ڈالی ۔(سنن ابن ماجہ ،کتاب الجنائز،باب ماجاء فی حثوالتراب علی المیت: ۱۵۶۵)
جعفربن محمد ؒ سے مرسلًامروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میت پر دونوں ہاتھوں سے تین لب بھر کر مٹی قبرمیں ڈالتے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صاحب زادے حضرت ابراہیم ؓ کی قبرپر پانی کا چھڑکاؤ کیا اور قبرپر بطورعلامت ایک پتھررکھا ۔(مشکوۃ المصابیح ،کتاب الجنائز ،باب دفن المیت : ۱۷۰۸)
ملاعلی قاریؓ فرماتے ہیں: مسنداحمد کی ایک روایت میں مذکورہے( رواہ احمدعن ابی امامۃ ؓ:۲۲۱۸۷)کہ جب پہلی مٹھی مٹی ڈالے، توکہے : مِنْهَا خَلَقْنَاكُم ، جب دوسری مٹھی ڈالے ،تو کہے: وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ ،جب تیسری مٹھی ڈالے ،تو کہے:وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى ۔(مرقاۃ المفاتیح ،کتاب الجنائز ،باب دفن المیت : ۱۷۰۸)
قبرکو کوہان نمابنانااورپتھر نصب کرنا
تدفین کے بعد قبر ایک بالشت کے بقد رکوہان کی شکل میں اونچی کی جائے ؛تاکہ قبرکو پہچاناجاسکے اوراس کی توہین اوربے ادبی سے بچاجاسکے،سرہانے کوئی پتھربھی بطورعلامت نصب کیاجاسکتاہے ۔
حضرت جابرؓ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبراطہر بغلی بنائی گئی ، اینٹیں کھڑی رکھی گئیں اورآخرمیں قبرمبارک کو ایک بالشت بلند کیاگیا ۔( صحیح ابن حبان،باب وفاتہ ،ذکروصف قبرالمصطفی:۶۶۳۵،سنن کبری للبیہقی،کتاب الجنائز،باب لایزاد فی القبرعلی اکثرمن ترابہ :۶۷۳۶)
حضرت سفیان تمارؒ فرماتے ہیں : انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبراطہر کو کوہان نمادیکھا۔(بخاری ،کتاب الجنائز ،باب ماجاء فی قبرالنبی صلی اللہ علیہ وسلم )مصنف ابن شیبہ کی روایت میں ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبراطہر اورحضرات شیخین کی قبروں کو کوہان نمادیکھاہے ۔(مصنف ابن شیبہ ،ماقالو افی القبرمسنما:۱۱۷۳۴)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی حضرت عثمان بن مظعون ؓ کی جب تدفین مکمل ہوگئی ،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو حکم دیا کہ ایک پتھر لے آئے ،وہ شخص وہ پتھراٹھا نہ سکے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود کھڑے ہوئے ،آستینیں چڑھائیں ،روای کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کلائیوں کی چمک کامنظرابھی بھی میری آنکھوں میں موجودہے ، جب آپ نے آستینیں چڑھائیں ، پھر آپ علیہ الصلوۃ والسلام خود اس پتھرکو اٹھاکرلے آئے ،پھر حضرت عثمان بن مظعونؓ کے سرہانے رکھ دیا ،پھرآپ نے فرمایا: میں سرہانے پتھر اس لیے رکھ رہاہوں؛ تاکہ میرے بھائی کی قبر پہچانی جاسکے اور میں اپنے خاندان والوں کو اِن کے قریب دفن کرسکوں۔(السنن الکبری للبیہقی ،کتاب الجنائز ،باب اعلام القبربصخرۃ : ۶۷۴۴)
تدفین کے بعد قبر پر پانی چھڑکنا
حضرت ابورافع ؓفرماتے ہیں رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ ؓکو پیروں کی طرف سے قبرمیں داخل کیا،پھر قبرپر پانی چھڑکا۔(سنن ابن ماجہ،کتا ب الجنائز ،باب ماجاء فی ادخال المیت القبر:۱۵۵۱)
حضرت جابرؓ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبراطہر پرحضر ت بلالؓ نے سرکی طرف سےپیروں تک پانی کا چھڑکاؤ کیا ۔(مشکوۃ المصابیح ،کتاب الجنائز،باب دفن المیت : ۱۷۱۰بحولہ دلائل النبوۃ للبیہقی )
تدفین سے فراغت کے بعد سورئہ فاتحہ اورخاتمہ البقرہ
تمام امورسے فارغ ہوکر میت کے سرکی طرف کھڑے ہوکرسورئہ فاتحہ اور پیروں کے جانب کھڑ ے ہوکر سورئہ بقرہ کی آخری آیات کی تلاوت کی جائے ۔
حضرت عبداللہ بن عمرفرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : جب کسی کا انتقال ہوجائے ،تو اسے (گھرمیں) روکے نہ رکھو،جلد قبرکے سپرد کردو، (تدفین کے بعد) سرہانے سورئہ بقرہ کی ابتدائی آیتیں(الم تا مفلحون ) اور پیروں کے پاس سورئہ بقرہ کی آخری آیتیں(امن الرسول سے آخرتک) پڑھے۔(شعب الایمان ،الصلوۃعلی من مات من اہل القبلۃ : ۸۸۵۴)
تدفین سے فراغت پرمیت کے لیے دعاواستغفار
جب تدفین سے فراغت ہوجائے ،تو واپس ہوتے ہوئے میت کے لیے مغفرت ،قبرکی وسعت،قبرکی نورانیت ،منکرنکیرکے سوالات پر ثابت قدمی کی دعاکرے ۔حضرت عثمان بن عفانؓ فرماتے ہیں
اِذَا فَرَغَ مِنْ دَفْنِ الْمَيِّتِ،وَقَفَ عَلَيْهِ، فَقَالَ:اسْتَغْفِرُوا لِأَخِيكُمْ، وَسَلُوا لَهُ بِالتَّثْبِيتِ، فَإِنَّهُ الْآنَ يُسْأَلُ۔(ابوداؤد،کتاب الجنائز،باب الاستغفارعند القبرللمیت :۳۲۲۱)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تدفین سے فارغ ہوجاتے ،تو قبرکے پاس کھڑے ہوتے اورفرماتے اپنے بھائی کے لیے مغفرت وبخشش کی دعاکرو، منکرنکیر کے سوال کے وقت اس کی ثابت قدمی کی دعاکرو کہ اب اس سے سوال کیاجائے گا ۔
حضرت انس ؓ تدفین سے فراغت پر یہ دعافرماتے
حضرت انس ؓ جب قبرکی مٹی کو برابرکردیتے ،تو قبرپرکھڑے ہوکر دعافرماتے
اللهم عبدك رُدَّ إليك،فارؤف به، وارحمه، اللهم جاف الأرض عن جنبه، وافتح أبواب السماءلروحه، وتقبله منك بقبول حسن،اللهم إن كان محسنا، فضاعف له في إحسانه، أو قال: فزد في إحسانه، وان كان مسيئا، فتجاوز عنه۔(مصنف ابن شیبہ،کتاب الجنائز،الدعاء للمیت بعدالدفن: ۱۱۷۰۶)
اے اللہ ! یہ تیرابندہ ہے ،تیرے سپرد کیاگیاہے ، اس کے ساتھ نرمی ،مہربانی اوررحم کا معاملہ فرما،اے اللہ! اس کے لیے زمین (قبر) کو کشادہ فرما،اس کی روح کے لیے آسمان کے دروازے کھول دے،اس بندے کو قبول فرما ،اے اللہ !اگریہ بندہ نیک ہے ،تو اس پراحسان وکرم میں مزید اضافہ فرما،اگربراانسان ہے ،تو اس کے گناہوں سے صرف نظرفرما۔
تدفین کے بعد انفرادی یااجتماعی دعاکرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ،دعاہاتھ اٹھائے بغیر بھی کی جاسکتی ہے،ہاتھ نہ اٹھاناہی بہترہے،جہاں کسی غلط فہی کا اندیشہ نہ ہو،وہاں ہاتھ اٹھاکربھی دعا کی جاسکتی ہے ،اگرہاتھ اٹھاکردعاکی جائے ،تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے قبلے کی طرف رخ کرتے ہوئے دعاکی جائے ؛تاکہ قبرپرستی یاغیراللہ سے مانگنے کااشتباہ نہ ہو؛البتہ دفن کے بعد باقاعدہ جہری دعاکرنا ،اس عمل کوضروری سمجھنااوراس کا التزام کرنا درست نہیں ہے۔(مستفاد:ازفتاوی محمودیہ ۱۰؍۱۴۷،کتاب النوازل،کتاب الجنائز۶؍۲۲۳)
حافظ ابن حجرؒ نے’’ فتح الباری‘‘ میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی حدیث ’’صحیح ابی عوانہ ‘‘کے حوالے سے نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب حضرت عبداللہ ذوالنجادین ؓکی تدفین سے فارغ ہوئے ،تو قبلہ رخ ہوکر ہاتھ اٹھاکردعافرمائی۔(فتح الباری ،کتاب الدعوات ،باب الدعاء مستقبل القبلۃ : ۶۳۴۳)
نمازجنازہ کے بعد دعا
قرآن کریم ،احادیث شریفہ اورکتبِ فقہ میں کہیں بھی نماز جنازہ کے بعد دعاکاذکریاحکم یاترغیب نہیں ہے ؛حالاں کہ کتبِ فقہ میں چھوٹے چھوٹے مستحبات کا بھی ذکرہوتاہے ،بعض کتب میں نمازِجنازہ کے بعد دعاسے منع کیاگیاہے ،اس لیے کہ نمازِجنازہ خود دعاہے ۔(فتاوی محمودیہ ۹؍۷۰۸،فتاوی دارالعلوم دیوبند۵؍۳۵۱)ملاعلی قاری ؒ تحریرفرماتے ہیں
لایدعو للمیت بعد صلاۃ الجنازۃ لانہ یشبہ الزیادۃ فی صلاۃ الجنازۃ ۔(مرقاۃ المفاتیح ،باب المشی بالجنازۃ :۱۶۸۷)
نمازجنازہ کے بعد میت کے لیے دعانہ کرے ،اس لیے کہ یہ عمل نمازجنازے میں زیادتی کے مشابہ ہے ۔
غیرمسلم کے جنازے میں شرکت
غیرمسلم پڑوسی کے ساتھ احسان کا معاملہ کرنا ،بیمارہو،تواس کی عیادت کرنا، اس کے گھروالوں میں سے کسی کا انتقال ہوجائے ،تو اس کی تعزیت کرنا شرعًاثابت اورجائزہے؛لیکن تجہیز وتکفین میں شرکت ، جنازے کے ساتھ چلنا،کندھا دینا،تدفین ،کفریہ وشرکیہ اورمذہبی رسومات میں شرکت ناجائز وحرام ہے۔
اگرکسی غیرمسلم قریبی رشتہ دار کا انتقال ہوجائے ،کوئی بھی شخص تجہیز وتکفین کرنے والانہ ہو،توغیرمسلم رشتہ دارکو غسل اورکفن دے کر قبرمیں دفن کرنادرست ہے ،مذہبی رسومات وغیرہ سے پوری احتیاط کرے ،اگرکوئی غیرمسلم اس میت کی تجہیز وتکفین کرنے والاہے ،توہرگز اس غیرمسلم رشتہ دارکی تجہیز وتکفین میں بھی شرکت نہ کرے ۔
جاء في صحيح ابن حبان عن علي رضي الله تعالى عنه قال لما مات أبو طالب أتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت: يا رسول الله إن عمك الشيخ الضال قد مات، قال: اذهب فواره، قال علي رضي الله تعالى عنه: فلما واريته جئت إليه، فقال لي اغتسل۔(السیرۃ الحلبیۃ،باب ذکروفاۃ عمہ،اعلاء السنن ،کتاب الجنائز،باب مایفعل المسلم اذامات لہ قریب کافر۸؍۲۷۲)
حضرت علی ؓ فرماتے ہیں :جب ابوطالب کی وفات ہوگئی ، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا،عرض کیا : آپ کےبے ایمان چچاکا انتقال ہوگیاہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤاُن کو دفن کردو ،جب میں نے ابوطالب کو دفن کردیا ،پھرحاضرخدمت ہوا ،توفرمایا : اب جاکر غسل کرو۔
وَيُغَسِّلُ الْمُسْلِمُ وَيُكَفِّنُ وَيَدْفِنُ قَرِيبَهُ كَخَالِهِ (الْكَافِرَ الْأَصْلِيَّ) أَمَّا الْمُرْتَدُّ فَيُلْقَى فِي حُفْرَةٍ كَالْكَلْبِ (عِنْدَ الِاحْتِيَاجِ) فَلَوْ لَهُ قَرِيبٌ فَالْأَوْلَى تَرْكُهُ لَهُمْ (مِنْ غَيْرِ مُرَاعَاةِ السُّنَّةِ) فَيُغَسِّلُهُ غَسْلَ الثَّوْبِ النَّجَسِ وَيَلُفُّهُ فِي خِرْقَةٍ وَيُلْقِيهِ فِي حُفْرَةٍ ۔(الدرالمختارمع ردالمحتار،کتاب الجنائز)
اتباع جنائز سے متعلق تمام قسطوں کا مطالعہ کرنے کے لیےمندرجہ ذیل مضامین پر کلک کیجئے ،آپ کے سامنے وہ مضامین نمودارہوجائیں گے۔
اس مضمون کی دیگرقسطیں
نمازجنازہ اورتدفین میں شرکت :قسط اول