ملاجیون اورنورالانوار

ملاجیون اورنورالانوار:ملاجیون کا نام احمدبن ابوسعیدبن عبدالرزاق بن خاصہءخداہے ،ملاجیون کے نام سے مشہور ہیں۔

ملا جیونؒ کی ولادت با سعادت۱۰۴۷ھ میں لکھنو کے قصبہ” امیٹھی“ میں ہوئی،آپ کی پرورش اسی علاقہ میں ہوئی،آپ نے سات سال کی عمر میں بہت تھوڑی سی مدت میں قرآن پاک حفظ فرمالیا اور علوم عربیہ اسلامیہ متداولہ کی تحصیل میں مشغول ہوگئے،سولہ سال کی عمر میں آپ علوم اسلامیہ دینیہ سے فارغ ہوگئے۔(مقدمة التفسیرات الاحمدیہ)

آپ کے اساتذہ

آپ نے اکثر درسی کتابیں” شیخ محمد صادق“ سے پڑھیں، حدیث ”شیخ لطف اللہ جہاں آبادی“ سے حاصل کی ،آپ ہی سے شہادت فضیلت حاصل کی اور آپ اپنے علاقہ میں دینی خدمات ،درس وتدریس،تصنیف و تالیف میں مشغول ہوگئے ۔

چالیس سال کی عمر میں دہلی تشریف لے آئے ،دینی خدمات اور لوگوں کے فیض رسانی میں مصروف ہوگئے،چنانچہ دہلی اور اطراف دہلی میں آپ کی شہرت ہوگئی ۔

مغلیہ بادشاہ شاہ جہاں نے اپنے لائق فرزند اورنگ زیبؒ کی تعلیم کی ذمہ داری سونپی اورنگ زیبؒ نے آپ سے علم حاصل کیا،اورنگ زیب آپ کا بہت ادب احترام کرتے تھے،پھر اورنگ زیبؒ کے بعد ان کی اولاد بھی آپ کا ادب و احترام کرتی تھی۔

بیعت و سلوک

صاحب نورالانوارملا جیون ؒ نے” شیخ یاسین بن عبد الرزاق القادری“سے بیعت کی اور سلوک و طریقت کے منازل طے کئے۔

تصانیف

آپ کی مشہور کتابوں میں،”التفسیرات الاحمدیہ“”نور الانوار شرح المنار“”مناقب الاولیاء“”آداب احمری“ ہیں۔

نور الانوار کی تصنیف و تالیف کی سرگزشت

ملا جیون ؒ نے اپنے کتاب کے مقدمہ میں تحریر فرمایا ہے :علامہ نسفی ؒ کی کتاب ” المنار“ اصول فقہ میں مختصر، فوائد و نکات کی جامع ہے؛لیکن متقدمین میں سے کسی نے اس کتاب کی شرح کرنے کی طرف توجہ نہیں کی،بعض شروحات نہایت مختصر کہ مطلب واضح نہیں ہوتااور بعض شروحات اتنی زیادہ طویل کہ اصل مقصد فوت ہوجاتا ہے۔

میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ میں ”المنار“ کی ایسی شرح کروں جس سے اس کے پیچیدہ مسائل حل ہوجائیں، مشکل مسائل واضح ہوجائیں اور شرح میں سوال و جواب کا تذکرہ نہ کیا جائے،جیسا کہ عام شروحات کا حال ہے، کثرتِ مشاغل کی بنا پر عرصہ دراز تک اس آرزوکی تکمیل نہیں ہوسکی۔

اللہ تبارک وتعالی نے میرے لئے مدینہ منورہ پہنچنے کے اسباب پیدا فرمایائے ، وہاں کے قیام کے زمانے میں حرم شریف کے ائمہ و خطباءنے مجھ سے مذکورہ کتاب ”المنار“پڑھی اور ان لوگوں نے با اصرار مجھ سے تقاضہ کیا کہ میں اس کی شرح لکھوں،چنانچہ میں نے اللہ کی توفیق اور مدد سے میرے ذھن میں جو مضمون مستحضرتھا ،اسی کے موافق میں نے تحریر کیا اور شرح کا نام ”نور الانوار فی شرح المنار“ رکھا۔(مقدمہ نور الانوار)

ملاجیون ؒنےنورالانوارکے خاتمہ میں تحریر فرمایا ہے”نورالانوار“ کو میں نے مدینہ منورہ میں ۱۱۰۵؁ھ گیارہ سو پانچ عیسوی میں ربیع الاول کی ابتدء میں شروع کیااور اسی سال۷ /جمادی الاولی میں تصنیف سے فارغ ہوا اور اسوقت میری عمر ۵۸ کی تھی۔

اسلوب نورالانوار

ماشاءاللہ ملاجیون ؒ نے متن کی شرح کاخوب حق اداکیاہے ، متن کے مبہم مثالوں کی تشریح ، متن میں پیش کی گئی آیات واحادیث کی تشریح واستدلال ،ماتن نے کسی جگہ جمہورعلماءکے مذہب کے خلاف کوئی رائے قائم کی ہے ،یا بحث کو خلط ملط کردیا، تو ملاجیون اولاً ماتن کی رعایت کرتے ہوئے عمدہ تشریح کرتے ہیں ،بعداذاں جمہور کے مذہب کو بیان کرتے ہیں اورخلط مبحث کی وضاحت کرتے ہیں ، ماتن نے بکثرت لف ونشرکااستعمال کیاہے ، شارح ترتیب وارعمدہ تطبیق پیش کرتے ہیں ۔

نورالانوارنہایت آسان شرح ہے ، امثلہ اور فوائدسے پر ہے ؛ کلام بہت طویل ہوتاہے ،طالب علم کو سمیٹنا مشکل ہوتاہے ،لہذا استاذ کی ذمہ داری ہے کہ وہ شرح کا خلاصہ بتائے ،پھرترجمہ کرادے ۔

بعض مقامات پر لفظی اغلاط یا ہندی تعبیرات عبارت کو سمجھنے میں دشواری پیداکردیتے ہیں ، ان مقامات میں خاص خیال رکھنا چاہئے ، حسامی حل کرنے کے لئے نورالانوارایک بہترین شرح ہے ۔

ایک قابل توجہ بات

ایک خاص بات یہ ہے کہ ملاجیون نے نورالانوارمیں متن کی شرح کرنے میں بہت زیادہ وسعت اور تفصیل سے کام لیاہے ، جس کی وجہ سے کتاب بہت ضخیم ہوگئی ہے ، موجودہ زمانہ میں استعدادکی کمی اور زمان ونصاب کی حدبندیوںکی وجہ سے ایک مفید کتاب ناقص رہ جاتی ہے۔

نورالانوارسے نیچے کی جماعت میں ”اصول الشاشی “ہے جس میں کتاب اللہ کی بحث مفصل دیگر بحثیں مختصرہیں ، نورالانوارسے اورپر کے درجہ میں ”حسامی“ پڑھائی جاتی ہے جو اصول فقہ کے تمام مباحث کو شامل ہے ؛لیکن کافیہ کے طرز پر ہونے کی وجہ سے مدرس وطلبہ دونوں کے لئے دردسرہوتی ہے اوروہ بھی ناتمام ہوتی ہے ،جس کی وجہ سے طلبہءعزیز میں اصول فقہ سے کوئی خاص مناسبت پیدانہیں ہوتی یہاں تک شعبہءافتاءکے طلبہ کے نصاب میں اصول فقہ کی کوئی کتاب نہیں ہوتی ، کہیں الاشباہ والنظاہر اورکہیں قواعد الفقہ ،بنیادی اصول فقہ سے اس شعبہ میں بھی مناسبت کی ترتیب نہیں ہے ،لہدا ارباب مدارس کی چاہئے کہ وہ حضرات اصول فقہ کے نصاب کے سلسلہ میں کوئی مضبوط ،جامع اور آسان نصاب بنائیں اورنورالانوارکی مشکل کو بھی حل فرمائیں ۔

وفات

ملاجیونؒ کی وفات ”دہلی“ میں ۱۱۳۰؁ھ میں ہوئی اور آپ کے جنازے کو” امیٹھی “منتقل کیا گیا اور وہیں تدفین عمل میں آئی۔نورالانواراورملاجیون