وقت پرنکاح کرنے میں اپنی اورمعاشرہ کی حفاظت: معاشرہ کو فواحش ومنکرات سے بچانے اورپاکیزہ بنانے کے لئے اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ایک شخص بالغ ہونے کے بعد اپنے حالات کا جائزہ لے کر اس بات کی کوشش کرے کہ جلداز جلد رشتہءنکاح سے اپنے آپ کو وابستہ کرلے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشا دہے
من استطاع منکم الباءة ،فلیتزوج ،فانہ اغض للبصر ،واحصن للفرج ۔(بخاری کتاب النکاح،باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم :من استطاع: ۵۰۶۶،۷۵۸/۲)
تم میں سے جوشخص (مالی )استطاعت رکھتاہواس کو نکاح کرلینا چاہئے ؛کیونکہ نکاح نگاہ کو پست کرنے والا اور شرم گاہ کی حفاظت کرنے والاہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین پر اولاد کے حقوق بیان کرتے ہوئے ارشادفرمایا
من وُلِدَ لہ ولد،فلیحسن اسمہ ،وادبہ ،فاذابلغ، فلیزوجہ ،فان بلغ ،ولم یزوجہ ،فاصاب اثما ،فانماثمہ علی ابیہ ۔(رواہ الببیہقی فی شعب الایمان باب حقوق الاولاد، رقم :۸۲۹۹ )
جس شخص کی اولا د پیداہو، اس کو چاہئے کے اچھا نام رکھے ،اس کی تعلیم وتربیت کا انتظا م کرے اورجب بالغ ہوجائے ،تو اس کی شادی کردے ،اگربالغ ہوگیا اور اس کی شادی نہیں کی اوروہ کسی گناہ میں مبتلاہوگیا،تو اس کا گناہ اس کے والدین پر ہوگا ۔
وقت پرنکاح ہوجائے ،تومعاشرہ کی بے راہ روی ختم ہوجائے
اگرشریعت کی ہدایت کے مطابق وقت پرنکاح کردیاجائے، تومعاشرہ میں پھیلی ہوئی برائی، بے راہ روی اوراخلاقی قدروں کی پامالی ختم ہوسکتی ہے ۔
ہمارے معاشرہ میں بسااوقات شادی کو اچھی نوکری اوراچھی آمدنی کے انتظارمیں مؤخرکردیاجاتاہے ؛حالانکہ اسلام کی ہدایت یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو کھانا ،کپڑا اوررہائش کے لئے کمرہ دینے کی صلاحیت رکھتاہو،تواس کو نکاح کرلینا چاہئے ۔ان شاءاللہ۔ اللہ تعالیٰ مزید مالی وسعت بھی عطافرمائیں گے۔
نیز لڑکیوں کے رشتہ میں بھی لڑکے کی مالداری اور بہترنوکری والے لڑکے اور خوش حال گھرانے کے انتظارمیں نکاح میں تاخیر عام بات ہوگئی ہے؛ حالانکہ اسلام دینداری اوربیوی کے اخراجات کی تکمیل کی قدرت پر نکاح کرنے کی ترغیب دیتاہے ۔
نکاح میں تاخیرکے اسباب
الف: جہیز کی تیاری :جہیز تحائف اورضروریاتِ زندگی کے سامان کا نام ہے جس کووالدین اپنی لڑکی کی رخصتی کے وقت لڑکی کے لئے دیاکرتے ہیں ،اپنی وسعت کے موافق ضروری سامان، نمائش ومطالبہ کے بغیردینا شرعًاجائز ہے۔
اگروالدین بخوشی اپنی لڑکی کوشادی کے موقع پرکچھ ضروری سامان دیں،یہ ممنوع نہیں ہے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاحضرت فاطمہ ؓ کوعقدِنکاح کے وقت دوچکیاں،پانی کے لئے دومشکیزے اورچمڑے کا گداجس میں کھجورکی چھال بھری ہوئی تھی دینا، (مسنداحمد،مسندعلی:۸۱۹)اسی قبیل سے تھا ،بظاہرایسامعلوم ہوتاہے کہ دیگرصاحبزادیوں کے لئے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نہ کچھ دینے کا انتظام فرمایاتھا ۔
چنانچہ بدرکے موقع پر حضرت زینب ؓ کے شوہرگرفتارہوئے ،جواس وقت اسلام نہیںلائے تھے ،حضرت زینب ؓ نے ا ن کی رہائی کے لئے وہ ہاربھیجا جونکاح کے موقع پر حضرت خدیجہ ؓ نے ان کو عطاکیاتھا ۔(ابوداؤدباب فداءالاسیربمال۳۶۷/۱)
اس حدیث سے نکاح میں والدین کی طرف سے بیٹی کے لئے سامان دینے کی تائیدثابت ہوتی ہے۔(مستفاد:ازکتاب النوازل ۴۳۵/۸،وقت پرنکاح کرنے میں اپنی اورمعاشرہ کی حفاظت)
جہیز جودرحقیقت اپنی اولاد کے ساتھ صلہ رحمی
حضرت تھانوی ؒ فرماتے ہیں
جہیز جودرحقیقت اپنی اولاد کے ساتھ صلہ رحمی ہے ،فی نفسہ امرمباح ؛بلکہ مستحسن ہے ،اگرخداکسی کو دے، تو بیٹی کو خوب جہیزدینابرانہیں؛مگرطریقہ سے ہونا چاہئے جولڑکی کے کچھ کام بھی آئے ۔
جہیز میں اس امرکالحاظ رکھنا چاہئےالف: اختصاریعنی گنجائش سے زیادہ کوشش نہ کرے۔ب:ضرور ت کا لحاظ کرے یعنی جن چیزوںکی سردست ضرورت واقع ہو، وہ دینا چاہئے ۔ج: اعلان نہ ہو؛ کیونکہ یہ تو اپنی اولاد کے ساتھ صلہ رحمی ہے دوسروں کو دکھلانے کی کیا ضرورت ہے؟
حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے تینوں امرثابت ہیں ۔(اسلامی شادی : ۱۱۹بحوالہ اصلاح الرسوم ،وقت پرنکاح کرنے میں اپنی اورمعاشرہ کی حفاظت)
مروجہ جہیز کی خرابیاں
الف:لڑکے والوں کی طرف سے بے شرمی کے ساتھ نقدرقم ،سواریاںاورقیمتی اشیاءکی مانگ،شریف سمجھے جانے والوں کا اشاروں میں یادوسروں کے توسط سے مذکورہ چیزوں کامطالبہ کرنا اوردینے پر مجبورکرنا ،فقہاءنے اس کو رشوت قراردے کرحرام کہاہے ۔
ب:جہیز زیادہ مقدارمیں نہ دینے پر سسرال میں لڑکی کو حقارت کی نظرسے دیکھنے اورطعنہ دینے کےخوف سے اپنی وسعت وطاقت سے زیادہ دینے کی کوشش میں سودی قرضوں میں مبتلاہونا؛ حالانکہ یہ بھی حرام ہے ۔
ج:جہیز نہ دینے کی بناپر طعنہ زنی ،مارپیٹ بسااوقات قتل کی نوبت تک معاملہ کا پہنچنا ۔
د: صلہ رحمی کے بجائے ریا ءوناموری ،شہرت وتفاخراوررسم کی پاپندی کا مقصودہوجانا۔
ہ:جہیز میسرنہ ہونے کی وجہ سے غریب لڑکیوں کولمبی عمرتک بلانکاح کے بٹھائے رکھنا جوکہ لڑکیوں پرسراسرظلم ہے ۔
و: غریب والدین کا اپنی لڑکیوں کے لئے سامانِ جہیز میسرنہ ہونے کی وجہ سے ذہنی اذیتوں میں مبتلاہونا اوردردرکی ٹھوکریںکھاکرسامانِ جہیز جمع کرنے پرمجبورہونا ۔(مستفاداز:آپ کے مسائل اوران کا حل ۲۴۷/۶)
لہذاان مفاسدپرجوجہیز مشتمل ہوگا، وہ ناجائز ہے ۔
فضول خرچی
جن چیزوں میں قوم کا بے پناہ سرمایہ صرف ہورہاہے ،ان میں ایک خاص چیز شادی ہے ،منگنی سے لیکر ولیمہ تک رسومات ،آپس میں تحائف کا لین دین ،عمدہ فنکشن ہال اور ان کی تزئین پر جس قدرخطیررقم خرچ کی جارہی ہے، وہ کسی عقل مندانسان سے مخفی نہیں ہے ،اگران رقومات کواس بے جااسراف سے بچاکر دینی امور،معاشرہ کی فلاح وبہبود اوراپنے خاندان کے کمزورافراد کوخودکفیل بنانے میں صرف کی جائے، تو کتنا ہی اچھا ہوتا!
غریب طبقہ ؛بلکہ مالدارطبقہ بھی ان بے سود اور ناجائز خواہشات کو پوراکرنے کے لئے سودی قرضے میں مبتلاہوجاتاہے؛حالانکہ اسلام نکاح کوسادگی سے انجام دینے اوراس میں حتی الامکان کم سے کم مال خرچ کرنے کی ترغیب دیتاہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا
ان اعظم النکاح برکة ایسرہ مؤونة۔(شعب الایمان:۶۱۴۶)
سب زیادہ سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں سب سے کم خرچ کیاجائے ۔
نکاح میں دوخرچ ہیں (۱) مہرکا خرچ(۲) ولیمہ کا خرچ
مہرجودولہا دلہن کو نکاح کے عوض پیش کرتاہے ،ولیمہ بقدراستطاعت، وہ بھی دولہا کے ذمہ ہے ،لڑکی اور لڑکی کے ذمہ داروںپر کسی بھی قسم کا مالی خرچ نہیں ہے ؛لیکن ہمارے معاشرہ میں لڑکی کا نکاح مالی اخراجات کے بوجھ سے سببِ زحمت بن چکاہے؛حالانکہ لڑکی سبب ِرحمت ہے۔
تعلیم کے لئے نکاح میں تاخیر
لڑکے لئے نکاح کی مناسب عمر پچیس سال اور لڑکی کے لئے اٹھارہ سال ہے ،بعض لوگ نکاح کی مناسب عمر مکمل ہوجانے کے بعدبھی نکاح میں تاخیرکرتے ہیں تاکہ مخصو ص ڈگریاںحاصل ہوجائیں کہ اچھی نوکری ملے گی ،کچھ رقم محفوظ ہوجائے تاکہ شادی کی فضول تقریبات کے لئے کام آئے،یا بہترنوکری مل جائے تاکہ کسی مالدارلڑکی سے رشتہ ہوجائے وغیرہ ۔
لڑکی والے بھی تعلیم کا بہانہ بناکر مناسب عمر پوری ہوجانے کے بعد بھی نکاح میں تاخیرکرتے ہیں، ڈگری مل جائے، تو اچھے رشتے مل سکتے ہیں ،ورنہ تعلیم یافتہ لڑکوں کے رشتے نہیں آتے ،اگر اعلی تعلیم کا مقصدحصولِ معاش ہو۔
یادرکھنا چاہئے کہ شریعت نے کسی بھی مرحلہ میں عورت پر مالی ذمہ داریاں نہیں رکھی ہیں ،عورت کا نفقہ باپ،بھائی ،شوہراور بیٹے پررکھا ہے ،عورت کو گھرسے باہرنکل کر روزی حاصل کرنے کا مکلف نہیں بنایاہے ۔
اگراعلی تعلیم سے مقصود مالدارلڑکوں کی تلاش ہے، تو یہ بھی شریعت کی رہنمائی کے خلاف ہے کہ شریعت نے دین اور حسنِ ا خلاق کو رشتوں کے انتخاب کے لئے معیاربتایا ہے،محض حصولِ معاش اورمالداروںسے رشتہ کوبنیادبناکراعلی تعلیم جاری رکھنے کے لئے مخلوط تعلیمی نظام ،بے پردگی ،نیم عریانیت اورگھرسے کالج کی طرف آمدورفت لڑکیوں کی عفت ،عز ت وآبروکے لئے سمِ قاتل ہے ۔
البتہ زندگی کے بعض مخصوص شعبے ہیں جن میں عورتوں کی خدمات ہی ضروری ہیں، اس طرح کی اعلی تعلیم نکاح کے بعد بھی جاری رکھی جاسکتی ہے ،نکاح کے بعد تعلیم جاری رکھنا عورت کی عزت وآبروکی حفاظت وعصمت کے لئے زیادہ بہتراور محفوظ راستہ ہے ۔وقت پرنکاح کرنے میں اپنی اورمعاشرہ کی حفاظت