ہندوستان تاریخ کے فیصلہ کن دوراہے پرمفکراسلام مولاناابوالحسن الندوی ؒ باہمی اعتماد ومحبت پیداکرنے کے لئے ہمیں ایک مجنونانہ اورسرفروشانہ جدوجہد کی ضرورت ہے ،ہندوستان تاریخ کے ایک نازک موڑاورفیصلہ کن دوراہے پرکھڑاہے ،ایک راستہ ہمیشہ کے لئے تباہی ،نہ مٹنے والے انتشاراورنہ ختم ہونے والے زوال کی طرف جاتاہے اورایک راستہ ہمیشہ کے امن وامان ،اتحا ویکجہتی کی طرف جاتاہے ۔
ہرایسے موڑپرکچھ ایسے لوگ سامنے آجاتے ہیں جوتاریح کا رخ اورواقعات کا دھارابدل دیتے ہیں ،ان کی دلیری ،ان کی صاف گوئی اوران کی جان بازی پورے ملک اورقوم کوبچالے جاتی ہے،یہی لوگ ملک کے معمارہوتے ہیں ،اکثر ایسے لوگ سیاست وحکومت کے ایوانوں سے باہر ملک کے بے لوث خادموں اورسچے روحانی درویشوں میں پائے جاتے ہیں ،جن کی نیتوں پرشبہ نہیں کیاجاتا،جن کی صداقت اوربے غرضی مسلم ہوتی ہے اوران کا ماضی ہرداغ سے پاک ہوتاہے ۔ مفکراسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی (بشکریہ تعمیرحیات لکھنو جنوری۲۰۲۰ء)
انسانیت کے لئے ایک عظیم خطرہ
کسی سماج کے لئے سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ اس کے اندرظلم کا مزاج پیداہوجائے ،پھر اس سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ اس ظلم کو ناپسند کرنے والے اس معاشرے میں انگلیوں پربھی گنے نہ جاسکتے ہوں،دوربین تو دوربین خوردبین پربھی ان کو نہ دیکھا جاسکتاہو،پورے سماج میں چنددرجن آدمی بھی ایسے نہ ہوں جو اس ظلم و سفاکی کو ،اس قساوت اورسنگ دلی کو ،کمزوورں پر دست درازی کو ناپسند کرتے ہوں اوراپنی ناپسندیدگی کا اعلان کرتے ہوں ،گھربیٹھ کرناپسند کرنے والے، تومل جائیں گے، جوچارچھ آدمیوں کی موجودگی میں کہہ دیں کہ یہ ٹھیک نہیں ہورہاہے ؛لیکن جواپنی ناپسندیدگی کا اعلان کریں اوراس کو لے کر میدان میں آجائیں،ایسے افراد کی جب کسی سماج و معاشرہ میں کمی ہوتی ہے۔
اس سماج، اس معاشرہ میں اوراس سوسائٹی کو کوئی طاقت نہیں بچاسکتی ،جب کسی معاشرہ میں ظلم پھیلنے لگا ہو اورپسندیدہ نگاہوں سے دیکھاجانے لگاہو،جب ظلم کے لئے یہ معیاربن گیا ہو کہ ظالم کون ہے ؟ظالم کی قومیت کیاہے ؟ ظالم کا فرقہ کیاہے ؟ ظالم کس برادری سے تعلق رکھتاہے ؟توانسانیت کے لئے ایک عظیم خطرہ پیداہوجاتاہے ۔
جب انسانیت کو اس طرح خانوں میں بانٹاجانے لگے اورظالم کی بھی قومیت دیکھی جانے لگے ،جب اس کا مذہب پوچھا جانے لگے ،جب آدمی اخبار میں کسی فساد،یاظلم وزیادتی کی خبردیکھے ،تو پہلے اس کی نگاہیں یہ تلا ش کریں کہ کس فرقہ کی طرف سے یہ بات شروع ہوئی ،اس میں نقصان کس کو پہنچا؟جب ظلم کو ناپنے اورظلم ہونے کا فیصلہ کرنے کا یہ پیمانہ بن جاتاہے کہ وہ کس قوم ،فرقہ ،طبقہ وبرادری سے تعلق رکھتاہے ؟تواس وقت معاشرہ کو کوئی طاقت ،کوئی ذہانت کوئی سرمایہ اوربڑے بڑے منصوبے بھی بچانہیں سکتے ۔مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ(تعمیرحیات سرورق۱۰/جنوری۲۰۱۸ء)
موجودہ حالات میں مسلمانوں کی ذمہ داری
ہندوستان تاریخ کے فیصلہ کن دوراہے پر: مولانا رابع صاحب مدظلہ : آج جب کہ ساری دنیا میں مسلمانوں کونشانہ بنایاجارہے ،انہیں بدنام کیاجارہاہے ،ان پرالزامات تھوپے جارہے ہیں ،جس کی وجہ سے ہرجگہ مسلمانوں کو سخت جدوجہد کرنی پڑرہی ہے اوران کی اس جد وجہد کو ہرجگہ پوری طاقت سے دبایاجارہے ؛بلکہ ظالمانہ طریقہ سے کچلاجارہے ،یورپ ہویاایشیا یاامریکہ ہرجگہ اسلام کا نام لینے والے مصیبت میں مبتلاکئے جارہے ہیں ،جیسے کہ کوئی خون خوارطاقت ابھرنے لگی ہو اوراس کو کچلنے کے لئے سب کے سب لگ جائیں۔
ضرورت ہے کہ اس مصیبت کو ہم دعوت ووضاحت کے جائز وموثر طریقوں کے ذریعہ جتنا دورکرسکیں،ا س سے دورکریں اورجوظلم صحیح واقفیت کے باجود ہمارے ساتھ غیرمنصفانہ برتاجائے ،توہم اس کا پوری طاقت اورہمت سے مقابلہ کریں اوراپنی نئی نسلوں میں موجودہ خرابی پیداکرنے والی تدابیر کے نتیجہ میں جوبگاڑ ہورہاہے ،اس کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مناسب تدابیر اختیار کرکے درپیش خطرات سے بچائیں حضرت مولانا سیدمحمد رابع حسنی ندوی مد ظلہ (تعمیرحیات ۲۵/دسمبر۲۰۱۹)
http://dg4.7b7.mywebsitetransfer.comدینی ،اصلاحی ،علمی وتحقیقی مضامین کےلئے اس ویب سائٹ کا استعمال کریں